کچھ دمشق اور عشق کے بارے میں

قیامت تو خیر شام کے اردگرد کتنے عرب ملکوں پر ٹوٹی تھی


Intezar Hussain October 21, 2012
[email protected]

شیخ سعدی نے کیا خوب شعر کہا ہے ؎

چناں قحط سالے شُد اندر دمشق
کہ یاراں فراموش کردند عِشق

مگر ہم سوچتے تھے کہ شیخ سعدی نے خیالی کھچڑی پکائی ہے۔ یار لوگ عشق سے کہاں باز آتے ہیں۔ دمشق میں ایسا قحط بھلا کب پڑا تھا۔ شیخ نے بس ہمیں ڈرانے کے لیے یہ شعر کہا ہے۔ خبردار کیا ہے کہ شہروں پر ایسے وقت بھی آتے ہیں اور قوموں پر ایسی قیامت بھی کبھی کبھی ٹوٹتی ہے کہ جانوں کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ اس فکر میں آدمی اپنے سارے شغل اشغال بھول جاتا ہے۔ سیر سپاٹے، ہنسی دل لگی، کھیل کود، محبت یاراں، ناچ گانا، شعر و شاعری سارے مشغلے معطل ہو جاتے ہیں۔ ایسے ہوش اڑتے ہیں کہ عشق و عاشقی کا خیال بھی رفو چکر ہو جاتا ہے۔

مگر سن رہے ہیں کہ دمشق پر اب واقعی وہ وقت آ گیا ہے۔ قیامت تو خیر شام کے اردگرد کتنے عرب ملکوں پر ٹوٹی تھی۔ بغاوتیں ہوئیں، شور شرابے ہوئے، حکومتوں کے تختے الٹے۔ بس پھر راج بدل گیا۔ اور اس کے بعد امن چین قائم ہو گیا۔ مگر شام میں بغاوت لمبی کھنچ گئی۔ خیر دوسرے شہروں میں دنگا فساد ہوتا رہا۔ مگر دمشق والوں کے لیے راوی امن چین لکھتا تھا لیکن سنا ہے کہ دمشق میں بھی اب قیامت کے اثر آثار ہیں بس سمجھ لو کہ وہاں بھی عشق مشک بن چلا ہے۔ ایک اخباری رپورٹ کہتی ہے کہ وہ دن گئے جب دمشق کے ہوٹلوں میں رات گئے تک ناچ رنگ کا سماں رہتا تھا۔ اب تو لوگ شام پڑے گھروں میں گھس جاتے ہیں اور ہوٹلوں میں رات بھیگنے سے پہلے الو بولنے لگتا ہے۔ کیسا کیبرے، کیسی بال روم ڈانسنگ، یہ تو رنگین راتوں کے مشغلے ہیں۔ راتیں اب دمشق میں رنگین نہیں رہیں۔ رنگ میں بھنگ پڑ چکا ہے۔

عشق و عاشقی کا احوال بھی سن لو۔ ایک حسینہ نے اپنا عشق کا احوال سنایا کہ تین سال سے ایک جوان عزیز سے میرا یارانہ چل رہا تھا۔ لیکن جنگی حالات یہ رنگ لائے کہ اس کی نوکری چُھٹ گئی۔ پیسے ختم، عشق ہضم۔ کہاں کی محبت کہاں کا پیار۔ اس نے حالات سے تنگ آ کر امریکا کے لیے رخت سفر باندھا۔ مجھ سے کہا کہ چلو میرے ساتھ امریکا چلو۔ میں کیسے جاتی۔ میں یہاں نوکری کرتی ہوں اور اپنے بوڑھے ماں باپ کی خدمت کرتی ہوں۔
یہ رپورٹ پڑھ کر ہمارے تو ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے۔ ارے کیا شیخ سعدی نے اپنی بصیرت سے جان لیا تھا کہ دمشق شہر پر ایسی افتاد پڑے گی کہ یاروں کا جوش عشق بھی رفو چکر ہو جائے گا۔
ہم نے دل میں خدا کا شکر ادا کیا کہ ہمارے شاعر نے تو شیخ سعدی کے بر خلاف یہ کہہ کر ہمیں حوصلہ دیا کہ ؎

اگر خواہی حیات اندر خطر ذی

ابھی ہم نے پچھلے کالم میں الحمرا آرٹ کونسل کی کانفرنس کا ذکر کرتے ہوئے اقبال کا یہی مصرعہ نقل کیا تھا۔ اور اس کے بعد ہم تیسرے چوتھے دن پھر آرٹ کونسل گئے اور اکیڈیمی آف لیٹرز نے منٹو تقاریب کے ذیل میں جو منٹو صاحب کے نام پر ایک محفل سجائی تھی اس میں جا شریک ہوئے۔ اور دل ہی دل میں کہا کہ بیشک پاکستان بھی ایک اچھے خاصے آشوب سے گزر رہا ہے۔ یہاں بھی روز روز قیامتیں ٹوٹتی ہیں۔ ایسے جلسے جلوس ہوتے ہیں کہ نعروں سے بات آتش زدگی تک پہنچتی ہے اور آگ بھی ایسی ویسی نہیں۔ لگتا ہے کہ پورا شہر جل جائے گا۔ ابھی پچھلے دنوں لاہور میں یہی نقشہ ابھرا تھا۔ مگر دیکھو ہم نے جوش عشق میں کوئی کمی نہیں آنے دی۔

منٹو کے عشاق صف بصف بیٹھے ہیں۔ ہال بھرا ہوا ہے۔ منٹو کانفرنس کا افتتاح گورنر پنجاب نے کیا۔ لو کانفرنس کو سرخاب کے پر لگ گئے۔ اور کتنا اچھا ہوا کہ اکیڈمی آف لیٹرز نے بھی اب رفتہ رفتہ پھریری لی ہے۔ ورنہ فخر زمان نے تو اسے سلا ہی دیا تھا۔ فخر زمان بھی اپنے چیئرمینی کے زمانے میں شہنشاہ اورنگ زیب بن گئے تھے۔ انھوں نے اکیڈمی کے ساتھ وہی کیا جو اورنگزیب نے اپنے دارالسلطنت دلی کے ساتھ کیا تھا۔ دلی کو اس کے حال پر چھوڑ کر دکن کی طرف نکل گئے۔ وہاں اپنی فتوحات کرتے رہے۔ ادھر دلی اپنے والی وارث کی توجہ سے محروم ہوکر ویران ہوتی چلی گئی۔

لو ہم کدھر نکل گئے۔ ذکر منٹو تقریب کا تھا۔ اکیڈیمی کی لاہور شاخ کے کرتا دھرتا تو الطاف قریشی ہیں، ادب سے دور ہو گئے ہوں۔ مگر ادب کا چسکا نہیں گیا۔ تو اس اجلاس کے سلسلہ میں بہت سرگرم نظر آ رہے تھے۔ منٹو صاحب کی بیٹیاں بھی کہ تقریبوں میں شاذ و نادر ہی نظر آتی ہیں شریک محفل تھیں۔ مقالوں کے سیشن میں شریک ہونے والے مقالہ نگار بھی اپنی اپنی جگہ خوب تھے۔ مسعود اشعر، سعادت سعید، ملتان سے آئے ہوئے پروفیسر قاضی عابد، ڈاکٹر نیئر عباس، ڈاکٹر خالد سنجرانی مگر مسعود اشعر نے آنے والے دور کی ایسی تصویر کھینچی کہ ہم پہلے ہی ڈرے ڈرے تھے اب اور ڈر گئے۔ کہہ رہے تھے کہ آپ دیکھتے نہیں اس وقت ملک میں کیا فضا ہے اور کس طرح کی وارداتیں ہو رہی ہیں۔ مثال ملالہ کی واردات۔ تو آنے والے زمانے سے میں بہت ڈر رہا ہوں۔ آنے والے وقت میں منٹو کا ذکر ہم کر بھی سکیں گے۔

ہم نے سوچا کہ اس عزیز نے تو ہمیں ڈرایا اور اب تو جلسہ کا رنگ ہی بدل جائے گا۔ مگر خیر مقالہ نگاروں نے تو ان کے خوف و اضطراب سے زیادہ اثر قبول نہیں کیا۔ بلکہ سعادت سعید کی انقلابی خطابت میں شاید اور زیادہ تیزی آ گئی۔ بس ایک ہم ہی تھے کہ پہلے ہی سہمے ہوئے تھے اور زیادہ سہم گئے مگر پھر ہمت کر کے کچھ دل میں کہا کچھ مسعود اشعر کو مخاطب کر کے کہ ملالہ کے معاملہ میں اتنا ملول ہونا مناسب نہیں اور قنوطیت خوب نہیں۔ ایک وقت تھا کہ اپنی قنوطیت پسندی کے لیے ترقی پسند دوستوں کے بیچ ہم بدنام تھے۔ انھیں تو افق پر سرخ سویرا ابھرتا ہوا نظر آ رہا تھا۔ ہم سے برہم اس پر تھے کہ اس کمبخت قنوطیت پسند کو یہ ابھرتا ہوا سویرا کیوں نظر نہیں آ رہا۔

مگر ایک اعتبار سے ہم رجائیت پسند بھی ہیں۔ کچھ اکا دکا داستانیں جو پڑھ رکھی ہیں۔ وہاں عین مایوسی کے عالم میں ہیرو سوچتا ہے کہ دیکھیں اب پردۂ غیب سے کیا نمودار ہوتا ہے۔ تو ہم بھی یہی لو لگائے بیٹھے ہیں۔ اس وقت تو ایسا لگتا ہے کہ ہم سچ مچ دمشق میں بیٹھے ہیں۔ مگر آفرین ہے اپنے یاروں پر کہ دمشق میں بسر کر رہے ہیں اور عش کو فراموش نہیں کیا ہے۔ ذوق و شوق کا وہی عالم ہے۔ اسی انہماک سے رباعی اور غزل لکھتے ہیں۔ سیمیناروں میں جا کر بحث مباحثے کرتے ہیں اور اتنی لمبی لمبی تقریریں کرتے ہیں کہ سیشن کا وقت تمام ہو جاتا ہے ان کی بات ختم نہیں ہوتی۔ سو ہم جس آشوب میں سانس لے رہے ہیں وہ اپنی جگہ اور امید کا ٹمٹماتا دیا اپنی جگہ۔ آخر یہ ظالم دور بھی تو اچانک پردۂ غیب ہی سے نمودار ہوا ہے۔ پاکستان کے گزرے ایام میں گمان میں ایسے ایام کب تھے۔ سو؎

پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں