مملکت کوش عہد قدیم کی شان دار تہذیب جو ماضی کی گرد میں کھوگئی

پہلی یا دوسری صدی عیسوی تک اہل کوش کی طاقت گھٹنی شروع ہوچکی تھی۔ جنگ نے انہیں تباہ و برباد کرکے رکھ دیا تھا


Mirza Zafar Baig October 04, 2015
پہلی یا دوسری صدی عیسوی تک اہل کوش کی طاقت گھٹنی شروع ہوچکی تھی۔ جنگ نے انہیں تباہ و برباد کرکے رکھ دیا تھا:فوٹو : فائل

کوش تہذیب ماضی قدیم کی ایک بے مثال اور منفرد تہذیب ہے، جس کے بڑے عجیب رنگ اور انداز تھے۔ اس تہذیب کا مرکزNubia تھا۔ Nubia کیا ہے؟ یہ شمال مشرقی افریقا کا ایک قدیم خطہ ہے جو جنوبی مصر اور شمالی سوڈان پر مشتمل تھا اور دریائے نیل پر آباد تھا۔ آج Nubia کا زیادہ تر حصہ جھیل نصر کے پانی میں ہے ۔

یہ سمجھ لیں کہ اب یہ پورا کا پورا خطہ آج کا شمالی سوڈان ہے۔ ہمیں اس کے بارے میں جو کچھ بھی پتا چلا ہے، وہ سب ان مصریوں سے معلوم ہوا ہے جو لگ بھگ2500 قبل مسیح میں جنوب کی طرف نقل مکانی کرگئے تھے۔جب عہد وسطیٰ کی مصری سلطنت کا اختتام ہوا تو اس کے بعد ہی ایک آزاد اور خود مختار ''مملکت کوش'' وجود میں آئی اور اس نے جلد ہی خود کو بہت مستحکم کرلیا۔

لگ بھگ 1500 قبل مسیح میں مصریوں نے ایک بار پھر جنوب کی طرف نقل مکانی کی، مگر اس مرتبہ انہیں منظم مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن ہمارے تاریخ داں اس بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتے کہ آیا یہ مزاحمت مختلف شہروں اور ریاستوں کی جانب سے کی گئی تھی یا ان کے سامنے ایک واحد اور متحد سلطنت تھی جس نے ان کا راستہ روکنے کی کوشش کی تھی۔لیکن اس معرکے میں مصریوں کو فتح نصیب ہوئی اور اس کے نتیجے میں یہ خطہ مصر کی ایک نو آبادی بن گیا جس کا سرپرست اور نگراں Thutmose اول تھا۔



گیارہویں صدی قبل مسیح میں مصر میں پھوٹ پڑنے والی اندرونی شورشوں اور لڑائی جھگڑوں نے نوبت یہاں تک پہنچادی کہ نوآبادی نظام بری طرح بکھر گیا جس کے نتیجے میں ایک نئی اور آزاد مملکت کے قیام کی راہ ہموار ہوئی۔ یہ نئی مملکت Nubia میں قائم ہوئی تھی جس کا صدر مقام Napata بنایا گیا۔اس مملکت کو ان مقامی لوگوں نے چلایا جنہوں نے نوآبادی عہد حکومت کو اکھاڑ پھینکا تھا۔

٭کہاں واقع تھی؟: مملکت کوش کہاں واقع تھی؟ اس کے بارے میں تاریخی کتابوں اور حوالوں میں لکھا ہے کہ مملکت کوش ایک افریقی سلطنت تھی جو نیلے اور سفید دریائے نیل اور دریائے Atbara کے سنگم پر واقع تھی۔ آج یہ جگہ جمہوریہ سوڈان میں واقع ہے۔

اس مملکت کے دو دارالحکومت تھے: Kermaاور Meroë یہ سلطنت کانسی کے دور کے اختتام پر اس وقت وجود میں آئی تھی جب مصر کی نئی حکومت آہستہ آہستہ زوال پذیر ہونے لگی تھی۔ اور پھر 350عیسوی میں یہ کرۂ ارض سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مٹ گئی۔

مملکت کوش نے ابتدائی مرحلے میں Napataمیں اپنا مرکز قائم کرلیا تھا جس سے پہلے کوش کے بادشاہ Kushite نے آٹھویں صدی قبل مسیح میں مصر پر یلغار کردی تھی اور اس طرح اپنی سلطنت کی داغ بیل ڈالی تھی۔ کوشی بادشاہوں نے مصر پر بالکل اس طرح حکومت کی جس طرح فراعنہ مصر کرتے تھے۔

مصر پر ان کی یہ حکومت ایک صدی تک قائم رہی اور یہ مصر کا 25واں شاہی خاندان تھا۔ اس کے بعد 656 قبل مسیح میں Psamtik اول نے اس خاندان کو یہاں سے بے دخل کردیا تھا۔ کلاسیکی عہد قدیم میں کوشی شاہی مملکت کا دارالحکومت Meroe تھا۔ ابتدائی یونانی جغرافیہ میں Meroitic سلطنت ایتھوپیا کہلاتی تھی۔ چوتھی صدی عیسوی تک مملکت کوش یا کوشی سلطنت کا دارالحکومت Meroe تھا۔

پہلی صدی عیسوی تک مملکت کوش کے دارالحکومت پر Beja نامی شاہی خاندان نے قبضہ کرلیا تھا جو اپنی سلطنت کی بحالی کے لیے مسلسل تگ و دو کررہا تھا جس کے نتیجے میں مملکت کوش کے دارالحکومت پر انہوں نے قبضہ کرلیا اور پھر Axumکی سلطنت نے اسے جلاکر راکھ کا ڈھیر کردیا تھا۔



٭وجۂ تسمیہ: جغرافیائی طور پر کوش اس جگہ کو کہتے تھے جہاں پہلا آبشار یا جھرنا واقع ہوتا تھا۔ ممکن ہے ماضی میں کسی وقت یہاں کوئی بڑا آبشار گرتا ہو، اسی لیے اس جگہ کا نام ''کوش'' پڑگیا ہو۔ ویسے ایک تاریخی حقیقت یہ بھی ہے کہ مملکت کوش 25 ویں شاہی خاندان کا گھر بھی کہلاتا تھا۔ اس حوالے سے اس جگہ کو بہت اہمیت حاصل تھی۔

٭Mentuhotep II کون تھا؟: ماضی کے اس فرماں روا نے21 ویں صدی میں وسطی سلطنت کی بنیاد رکھی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ Mentuhotep II نے اپنے دور حکومت کے 29اور31ویں سال میں مملکت کوش کے خلاف مہم جوئیاں کی تھیں۔ یہ مملکت کوش کا سب سے ابتدائی مصری حوالہ ہے جو Nubian خطے میں قائم تھی اور دوسرے نام سے اس کی قدیم سلطنت بھی موجود تھی۔

مصر کی نئی سلطنت کے دوران Nubia (کوش) ایک مصری نو آبادی تھی جو یہاں سولھویں صدی قبل مسیح میں موجود تھی اور اس کا نظم و نسق کوش کا مصری وائسرائے چلاتا تھا۔ لیکن 1070 قبل مسیح کے لگ بھگ جب نئی سلطنت انتشار اور زوال کا شکار ہوئی تو مملکت کوش ایک آزاد اور خود مختار مملکت بن گئی اور Napata اس کا صدر مقام بن گیا۔ یہ آج کے جدید اور مرکزی سوڈان میں واقع تھا۔

مملکت کوش کے لوگ اپنے قدیم رواج کے مطابق اپنے بادشاہوں کو مرنے کے بعد بہت بڑی بڑی قبروں میں دفن کردیا کرتے تھے جن میں بادشاہ کی میت کے ساتھ اس کے تمام درباری بھی زندہ دفن کردیے جاتے تھے اور اس کے استعمال کا دوسرا سامان بھی زمین میں ہی دفن کردیا جاتا تھا۔ یہ لوگ بعض ایسے دیوتاؤں کو بھی مانتے تھے جن کی قدیم مصری پوجا کرتے تھے، خاص طور سے Ammon اور Isis۔ ان دیوتاؤں کے پوجا کرنے کے ساتھ ساتھ مملکت کوش کے کچھ بادشاہوں نے ان دیوتاؤں کے نام بھی اختیار کرنے شروع کردیے۔

 

جب بھی کوئی نیا بادشاہ تخت نشین ہوتا تو وہ کسی دیوتا کا نام اختیار کرلیتا جس سے وہ یہ ظاہر کرتا تھا کہ وہ دیوتا کا اوتار ہے اور تمام طاقت اور اختیار کا سرچشمہ ہے، یعنی مذکورہ دیوتا کا ہاتھ اس کے سر پر ہے اور وہ اس کی دی ہوئی طاقت سے حکومت کررہا ہے۔



بعض اسکالرز کا یہ بھی خیال ہے کہ مملکت کوش کی معیشت کا سارا انحصار نظام تقسیم پر تھا۔ ریاست کا کام یہ تھا کہ اس کے سبھی لوگ اور باشندے دن رات محنت کرکے سال بھر کے لیے اناج اور غلہ اگاتے تھے، لیکن یہ لوگ اتنے محنتی تھے کہ اپنی ضرورت اور طلب سے زیادہ اناج پیدا کرتے تھے۔ اس کے بعد ریاست کا کام شروع ہوتا تھا کہ وہ اس فالتو یا اضافی پیداوار کی صورت میں تمام ٹیکس جمع کرتی تھی اور پھر اس ٹیکس یعنی تمام اضافی پیداوار کو عام لوگوں میں تقسیم کردیتی تھی۔

کچھ علم آثار قدیمہ کے ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ معاشرے کا زیادہ تر لوگ زمین پر کام کرتے تھے یعنی کھیتی باڑی کرتے تھے اور بدلے میں ریاست سے کسی چیز یا معاوضے کے طلب گار نہیں ہوتے تھے اور نہ ہی وہ کسی ٹیکس وغیرہ کی شکل میں ریاست کو کچھ دینے کے پابند تھے۔ گویا وہ جو محنت کرتے تھے، اس کا انہیں اچھا معاوضہ ملتا تھا اور اس کے بدلے میں انہیں ریاست کو کوئی خراج یا ٹیکس نہیں دینا پڑتا تھا جس کی وجہ سے مملکت کوش کے لوگ خوش حال ہوگئے تھے۔

٭مصر کی فتح:727قبل مسیح کے لگ بھگ مملکت کوش کے بادشاہ Piyeنے مصر پر چڑھائی کردی تھی جس کے نتیجے میں اس نے شہر Thebes اور نیل کے منبع پر اپنا قبضہ کرلیا تھا۔ اس کا عہد حکومت مصر کا 25واں دور تھا جو لگ بھگ 671قبل مسیح تک قائم رہا۔ اس کے بعد اس سلطنت کا خاتمہ اس دور کی جدید آشوری مملکت کے ہاتھوں ہوا۔

Piye نے مشرق قریب میں مصر کے کچھ علاقے پر اپنا تسلط دوبارہ جمانے کی کوشش کی جو اس کے خاندان سے وسطی آشوری سلطنت اور Hittite سلطنت نے چھینی تھی۔ تاہم اسے آشوری بادشاہ Shalmaneser پنجم کے ہاتھوں شکست کھانی پڑی۔ پھر دوبارہ Shalmaneser کی جگہ تخت نشین ہونے والے successor Sargonدوم کے ہاتھوں بھی اسے ذلت آمیز شکست ہوئی۔ یہ واقعہ 720 قبل مسیح کے عشرے کا ہے۔



٭تعمیراتی انقلاب: فراعنہ Piye اورTaharqaکے دور حکومت میں 25ویں سلطنت کی طاقت اپنے بام عروج پر پہنچ گئی تھی۔ اس دور کو ماہرین آثار قدیمہ تعمیراتی انقلاب کا دور بھی کہتے ہیں۔ اس زمانے میں دریائے نیل کی سلطنت اتنی ہی وسیع و عریض ہوچکی تھی جتنی اس کی نئی سلطنت تھی۔

لیکن 25ویں سلطنت نے قدیم مصر کی نشاۃ ثانیہ میں نہایت تعمیری اور اہم کردار ادا کیا۔ اس دور حکومت میں مذہب، تہذیب و ثقافت اور طرز تعمیر کی ازسر نو بحالی کا کام بھی بڑے زور و شور سے ہوا جس کے نتیجے میں قدیم اور زریں عہد، دور وسطی اور نئی سلطنت کی شکل میں ترقی کی منازل طے ہوئیں۔Taharqa جیسے فراعنہ نے پوری وادی نیل میں عبادت گاہوں اور مقابر کو یا تو از سر نو تعمیر کرایا یا ان کی بحالی کے کام کو ترجیحی بنیادوں پر کیا۔ ان میں Memphis, Karnak, Kawa, اور Jebel Barkal وغیرہ کے مقامات بھی شامل ہیں۔

٭کچھ اور کام یابیاں:Taharqa فرعون مصر تھا اور وہ فرعون Piye کا بیٹا تھا۔ اس کے دور حکومت کے ابتدائی 17سال سلطنت کوش کے لیے نہایت خوش حال ثابت ہوئے اور اس زمانے میں بڑی ترقی ہوئی۔ اس مدت کے دوران سلطنت کوش (Nubia) میں رسم الخط بھی متعارف ہوا جس پر قدیم مصری خط کا اثر نمایاں تھا۔ لیکن یہ رسم الخط یا تو صرف شاہی محلات تک محدود تھا یا پھر بڑے بڑے مندروں اور عبادت گاہوں میں دکھائی دیتا تھا۔

٭آشوریوں کی فتح:پھر آشوری بادشاہ Sennacherib نے فرعون مصر Taharqa کو شکست دی اور Nubians اور مصریوں کو اس خطے سے نکال باہر کیا جس کے بعد یہ لوگ اس خطے سے نکل کر مصر کے قدیم ترین خطے سینائی میں پناہ گزیں ہوگئے۔ بعد میں آشوری بادشاہ Esarhaddon نے Taharqa کو بہ زور طاقت اس کے Nubian وطن سے بھی بھاگنے پر مجبور کردیا اور ان خطوں میں اپنی مرضی کے گورنر مقرر کردیے جو کٹھ پتلیوں کی طرح اس کے اشاروں پر ناچتے تھے۔ لوگ بے قابو تھے، حالات پر بھی کسی کا اختیار نہیں تھا۔ وہ ہر چیز میں آشوریوں کے محتاج تھے۔

دو سال بعد Taharqa سابق فرعون مصر Nubia سے واپس پلٹا اور اس نے جنوبی مصر کے ایک حصے پر قبضہ کرلیا اور میمفس کو Esarhaddon کے مقامی بحری جہازوں سے بھی آزاد کرالیا۔ Esarhaddon ایک بار پھر مصر کی طرف پلٹا، وہ Taharqa سے بدلہ لینا چاہتا تھا، مگر وہ بیمار ہوگیا اور اپنے دارالحکومت نینوا میں انتقال کرگیا جس کے ساتھ ہی اس کی کہانی اپنے اختتام کو پہنچی۔

اس کے بعد Taharqa کے جانشین Tanutamun (توتخ آمن) نے مصر پر دوبارہ قبضہ کرنے کی کوشش کی جس میں اسے کام یابی ملی اور اس نے Ashurbanipal کے مقرر کردہ کٹھ پتلی حاکم Necho کو شکست سے دوچار کیا اور تھیبس شہر پر قبضہ کرلیا۔ چناں چہ آشوریوں نے جنوب کی طرف ایک بڑی فوج روانہ کی۔ اس جنگ کا نتیجہ ان کے حق میں نکلا اور بعد میں آشوری بڑے سکون اور اطمینان سے وہاں حکومت کرتے رہے۔ اس کے بعد ایک مقامی مصری حکم راں Psammetichus تخت نشیں ہوا۔

٭Meroë کی طرف نقل مکانی:Aspelta نامی حکمراں اپنے دارالحکومت کو Meroë لے گیا۔ یہ Napata سے جنوب میں زیادہ دور تھا۔ یہ غالباً 591 قبل مسیح کی بات ہے۔

یہ بھی ممکن ہے کہ Meroëہمیشہ سے مملکت کوش کا دارالحکومت رہا ہو۔ تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ مملکت کوش کے حاکموں نے غالباًMeroë کو اپنے وطن کے طور پر منتخب کیا ہوگا۔ اس کی ایک خاص وجہ یہ تھی کہ Napata کے برعکس Meroëکے نواحی علاقوں اور اس کے اطراف میں بڑی تعداد میں جنگل موجود تھے جن سے بہت بڑی مقدار میں ایندھن مل سکتا تھا۔ وہ اپنا سامان تجارت Meroë سے بہت آسانی کے ساتھ بحیرۂ احمر کے ساحل تک پہنچا سکتے تھے جہاں سے یونانی تاجروں کا بہت بڑی تعداد میں گزر ہوتا تھا۔

٭ایک انوکھی ایجاد: اہل کوش نے پیداواری فن میں بہت اہم کام یابی حاصل کی تھی۔ انہوں نے سب سے پہلے رہٹ کا تصور پیش کیا تھا جس میں ایک جانور کے ذریعے ایک بہت بڑا پہیا یا چرخی چلا کر بڑے بڑے کنوؤں سے پانی نکالا جاتا تھا۔ اس ایجاد نے اہل کوش کا مسئلہ ہی حل کردیا تھا جس کی وجہ سے اہل کوش نے ایک طرف تو اپنی گھریلو پیداوار خوب بڑھالی تھی، دوسری جانب تجارتی پیداوار میں بھی خاطر خواہ اضافہ کرلیا تھا۔

٭بادشاہوں کے مقبروں کی منتقلی: لگ بھگ 300 قبل مسیح میں Meroë کی طرف نقل مکانی اس وقت زیادہ مستحکم بنیادوں پر مکمل ہوئی جب بادشاہوں کو ان کی موت کے بعدNapata کے بجائے Meroë میں دفن کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس سے ایک اہم تبدیلی یہ بھی آئی کہ Napata میں بادشاہ اپنے مذہبی پیشواؤں کے سحر سے آزاد ہونے لگے اور اپنے طور بہت سی چیزوں میں ان کے مشوروں کو بھی نظر انداز کرنے لگے۔Diodorus Siculus نامی ایک تاریخ داں نے لکھا ہے:''مملکت کوش کے ایک بادشاہ Ergamenes نے تو پادریوں کے خلاف اس قدر مزاحمت کی تھی کہ انہیں قتل تک کرادیا تھا۔

ممکن ہے یہ کہانی اس پہلے حکم راں کی ہو جسے Meroë میں دفن کیا گیا تھا۔ اس کا یہی نام تھا۔ اس کے علاوہ Arqamani نے بھی کئی سال تک یہاں حکومت کی جس کے بعد Meroë میں شاہی قبرستان قائم کردیا گیا تھا۔ اس خطے میں مملکت کوش کی تہذیب کئی صدیوں تک قائم رہی۔Napatan دور میں مصریوں نے تصویری خط استعمال کیا تھا۔ دوسری صدی قبل مسیح میں ایک الگ Meroitic تحریری نظام وجود میں آگیا تھا۔ یہ حروف کا نظام تھا جس میں 23علامات استعمال ہوتی تھیں جو کسی حد تک خمیدہ ہوتی تھیں جنہیں حروف کی طرح استعمال کیا جاتا تھا۔

Strabo نے لکھا ہے کہ بعد میں رومیوں نے یہاں کئی جنگیں لڑیں جن میں اہل کوش کو شکست فاش ہوئی۔ اس کے بعد Napata اجاڑ، ویران اور کھنڈر بن گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اہل کوش کے لیے یہ بہت بڑا جھٹکا تھا جس نے دارالحکومت Napata کو تباہ و برباد کردیا تھا اور ان لوگوں کے لیے یہ صدمہ برداشت کرنا کوئی آسان کام نہ تھا۔

اس کے صرف تین سال بعد یعنی لگ بھگ 22قبل مسیح میں اہل کوش نے ایک بہت بڑی فوج تیار کی اور قصر ابراہیم پر حملے کی غرض سے شمال کی طرف بڑھے۔ اس جنگ کا احوال کسی مستند تاریخی دستاویز میں تو نہیں ملتا لیکن قدیم ذرائع کے ذریعے صرف یہ معلوم ہوسکا ہے کہ اس دوران کسی مرحلے پر اہل کوش نے اپنا سفیر امن مذاکرات کے لیے Petronius کے پاس بھیجا۔ لیکن اب وہ بات چیت کے موڈ میں نہیں تھا۔ تاہم اہل کوش اپنے امن مذاکرات کی کوشش میں کام یاب ہوئے اور انہوں نے مناسب شرائط پر دونوں اقوام کے درمیان ایک امن معاہدہ بھی کرلیا۔

Theodore Mommsen نامی تاریخ داں نے لکھا ہے:''Augustus کے دور میں Nubia رومی سلطنت کی ایک اچھی کلائنٹ اسٹیٹ تھی۔''یہ ممکن ہے کہ رومی شہنشاہ نیرو نے اپنی موت سے پہلے 68 عیسوی میں کوش کو فتح کرنے کی ایک اور کوشش کی ہو۔

تاہم پہلی یا دوسری صدی عیسوی تک اہل کوش کی طاقت گھٹنی شروع ہوچکی تھی۔ جنگ نے انہیں تباہ و برباد کرکے رکھ دیا تھا جس سے تجارت اور کاروبار بھی ختم ہوگیا تھا۔ فراعین مصر کے قدیم اور تاریخ مذہب پر عیسائیت غالب آنے لگی تھی، یہاں تک کہ چھٹی صدی عیسوی کے وسط تک مملکت کوش زوال پذیر ہوگئی اور اس کا وجود دنیا سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مٹ گیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں