کوئٹہ جس کے سیاحتی عجائب حیرت کی نئی دنیا میں لے جاتے ہیں
منفرد ثقافت، دلکش رسم و رواج اور قدیم ترین تاریخی ورثہ بلوچستان کا قابل فخر امتیاز ہے
او میری لیلیٰ میرے نخرے والے صنم آؤ میں تمھیں سیر کیلئے لے جاؤں۔۔۔موسم بہت اچھا ہے اور کوئٹہ میرا شہرمیرا وطن بہت خوبصورت ہے۔
٭...٭...٭
کتنا خوبصورت اور جاذبِ نظر ہے کو ئٹہ کا شہر بالکل بہار کے پھولوں کی مانند۔۔۔یہاں سرسبز پھولوں سے بھرے پارک ہیںجن میں دن بھر میلے کا سا سماں رہتا ہے۔اور اس کے ساتھ ہی کوئٹہ شہر میں قندہاری بازار جیسے تاریخی اہمیت کے بازار بھی ہیں۔ تب ہی تو کوئٹہ کی خوبصورتی بے مثال اور لازوال ہے۔
٭...٭...٭
بلوچستان کی میٹھی اور سریلی مقامی زبانوں بلوچی اور پشتو کے نغمات کے یہ بول دراصل ایک کہانی ہے، صوبے کی ثقافت اُس کی تہذیب و تمدن میں رچی ہوئی اُس محبت کی، جو وابستہ ہے اپنے وطن، اپنے شہر سے اُس کے حسین نظاروں سے اُن کی تعریف سے اور اُن پر فخر کرنے سے۔ بلاشبہ بلوچستان اپنے حسن پر نازاں کیوں نہ ہو۔
ہزاروں سال پرانی تہذیب کا امین یہ صوبہ اپنے بلند و بالا پہاڑوں، چٹیل میدانوں، سرسبز وادیوں، لہلہاتے کھیتوں،لق و دق صحراؤں کی موجودگی میںایک طلسماتی دنیا کا حصہ لگتا ہے جس کا مرکز پہاڑوں کے دامن میں گھری وہ حسین وادی ہے جسے اہلِ دنیا کوئٹہ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔سطح سمندر سے پانچ ہزار دو سو تریپن فٹ بلندی پر واقع بلوچستان کا دارالحکومت '' کوئٹہ'' جسے پاکستان کی پھلوں کی ٹوکری بھی کہا جاتا ہے۔کوہ چلتن، کوہ مرداراور تکاتو کے درمیان میں واقع وادی کوئٹہ اپنے موسم اور ریل کے دلکش سفر کے باعث ایک افسانوی روپ کی حامل ہے۔
ماضی میں چھوٹا لندن کہلانے والے اس شہر کا پہلا تاریخی حوالہ گیارھویں صدی میں ملتا ہے۔ جب محمود غزنوی نے اس پر قبضہ کیا۔ اس کے بعد مختلف حکمرانوں کے زیرِ دست رہنے کے بعدکوئٹہ 1876ء میں انگریزوں کے قبضہ میں چلا گیا۔ اور آزادی وطن کے بعد پاکستان کے رقبہ کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کا صدر مقام بنا۔ لفظ کوئٹہ پشتو زبان کے لفظ کوٹ سے ماخوذ ہے جس کے معنی قلعہ کے ہیں۔ اور ابتداء میں کوئٹہ ایک قلعہ کی چار دیواری میں آباد تھا۔
جو تاریخ میں قلعہ میری کے نام سے موسوم ہے۔ یہ قلعہ آج بھی ماضی کی یادگار کی صورت میں کوئٹہ شہر کی تاریخ بیان کرتا نظر آتا ہے۔ 1828ء میں کوئٹہ میں آنے والے پہلے مغربی سیاح کے مطابق اُس وقت قلعہ کے اندرتین سو کچے مکانات تھے۔ لیکن آج یہ شہر پاکستان کا نواں گنجان آباد شہر ہے۔ وادی اوڑک اور ہنہ جھیل کوئٹہ کی ایسی شناخت ہیں جنھیں ایک آفاقی حیثیت حاصل ہے۔ اور دوردور سے سیاح ان مناظر کو دیکھنے کے لئے کھچے چلے آتے ہیں۔
وادی ہنہ اوڑک بظاہر تو دو نام ہیں لیکن ایک ہی وادی ہے۔ نام دو اس لئے کہ ذرا فاصلے سے دو گاؤں تھے جو اَب مل گئے ہیں۔ ہنہ اوڑک کی وادی اپنے قدرتی حسن کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہے اس کے مشرق میں کوہ زرغون ہے۔ یہاں جونیپر کے جنگلات ہیں اور یہ سلسلہ زیارت تک پھیلا ہوا ہے۔ وادی میں موجود پھلوں کے باغات اور بیچ بہتی ندی زندگی بخش احساس کے ساتھ رواںدواں ہے۔ پھر یہی پانی آگے بڑھتا ہے اور ہنہ جھیل میں جمع ہوتا ہے۔
وہ سورج جو صبح مشرق سے کوہ زرغون کی اوٹ سے طلوع ہوا شام میں جب وہ مغرب میں ہنہ جھیل کی پہاڑیوں کی اوٹ میں چھپنے لگتا ہے تو اُس کی کرنیں جھیل کے نیلگوں پانی میںسنہرا رنگ بھر دیتی ہیں۔ جھیلیں پہاڑوں کے دامن میں نیلگوں پانی کا ایک مسکن ہوں یا پھر میدانوں میں وسعت نظر پر محیط بل کھاتی لہروں پر مشتمل ذخیرہ گاہیں۔ ہمیشہ سے انسان کی تفریح اور ضرورت کی تکمیل کا ایک اہم ذریعہ رہی ہیں جس کے باعث انسانی توجہ حسین نظاروں کی امین ان آبی ذخیرہ گاہوں کی جانب زیادہ مبذول رہتی ہے اور دور دور سے لوگ ان جھیلوں کی سیاحت کے لطف سے محظوظ ہونے کے لئے آتے ہیں۔
کوئٹہ سے تقریباً 17کلومیٹر کے فاصلے پر سنگلاخ پہاڑوں کے دامن میں واقع '' ہنہ جھیل '' کوئٹہ کی ایک معتبر و جہ تسمیہ ہے۔ ہنہ جھیل 818 ایکڑ رقبے پر پھیلی ہوئی ہے اور اس میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش 2 2کروڑ20لاکھ گیلنز ہے جب کہ یہ جھیل49 فٹ گہری ہے۔ اس جھیل میں واٹر سپورٹس کی سہولیات کے ساتھ ساتھ جھیل کی سیر سے لطف اندوز ہونے کے لئے کشتیاں بھی موجود ہیں۔
ہنہ جھیل اور اوڑک کی وادی کے قدرتی نظاروں کو دیکھنے کے بعدانسانی عقل اپنے پروردگار کے جمالیاتی ذوق پر دنگ رہ جاتی ہے۔ اور بے اختیار زبان سے فقط ایک جملہ نکلتا ہے کہ سبحان تیری قدرت ۔ قدرت کی اعلیٰ کرشمہ سازیوں کی ایک اور جھلک کوئٹہ کے ایک اور تفریحی مقام پر اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔کوئٹہ سے کراچی جانے والی شاہراہ پر 17 کلومیٹر کے فاصلے پر کوئٹہ کی ایک اور منفرد پہچان ہزار گنجی چلتن نیشنل پارک ۔ جہاں سیاح قدرت کے اُس رنگ سے آشنا ہوتے ہیں جو آمیزیشوں سے پاک اور حقیقت سے قریب تر ہے۔ جہاں ہر سو ہر جگہ پروردگار کی تخلیقات کے رنگ بکھرے ہوئے ہیں۔
1980ء میں اس جگہ کو نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا۔ یہ نیشنل پارک 27 ہزار4 سو ہیکٹر پر مشتمل ہے اس نیشنل پارک میں جنگلی جانور مارخور، بھیڑیا، گیدڑ، لومڑی، چکور ، سی سی، گولڈن چیل اور پودوں کی اقسام میں جونیپر، خنجک، جنگلی بادام، جنگلی ایش پائے جاتے ہیں ۔کرخسہ اسٹیٹ فاریسٹ جو دس ہزار ہیکٹر پر ہے اُس کو بھی اس پارک میں شامل کردیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ 1990 میں کوہ سرخو اور دُز درہ کے علاقے کو بھی بطور گیم ریزرو اس میں شامل کردیا گیا ہے۔ یوں اس وقت ہزار گنجی نیشنل پارک47 ہزار ہیکٹر رقبہ پر موجود ہے۔
کوئٹہ شہر کا ایک اور سیاحتی مقام آرکیالوجیکل میوزیم یعنی عجائب گھر ہے۔ انگریز دور میں میک موہن کے نام سے ایک بہت خوبصورت میوزیم کوئٹہ میں قائم تھا ۔ لیکن بد قسمتی سے 1935ء کے زلزلے میں جب وہ تباہ ہوا تو اس کے باقی بچ جانے والے عجائب اور نوادرات کو کلکتہ ، دہلی اور لندن شفٹ کر دیا گیا۔ موجودہ میوزیم بلوچستان آرکیالوجیکل میوزیم کے نام سے 1972 سے قائم ہے۔ میوزیم میں مہرگڑھ، نوشہرو کے objects ہیں جو زیادہ تر مٹی کے ہیں۔
اس کے علاوہ قدیم مخطوطات بھی میوزیم میں موجود ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے قدیم مقامی اسلحہ میں ڈھاڈری اور برٹش پیریڈ کی رائفلیں اور پستولیں وغیرہ بھی رکھی ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ ایکپلوریشن برانچ کراچی میں بلوچستان کے 16 ہزار سے زائد objects پڑے ہوئے ہیں جس سے بخوبی اندازہ لگا یا جاسکتا ہے کہ بلوچستان آرکیالوجی کے حوالے سے کتنا مالدار ہے۔
عجائب کی کہانی صرف انسانی تمدن سے ہی نہیں جڑی ہوئی۔ بلکہ اس کا تعلق انسانی دلچسپی کی دوسری چیزوں سے بھی ہے۔ قیمتی پتھر، کرہ ارض پر زندگی کے ابتدائی اجسام اور نہ جانے کیا کیا دلچسپیاں انسان کو اپنی جانب کھینچتی ہیں۔ اور کھچاؤ کا ایک ایسا ہی مرکز ہے جیالوجیکل سروے آف پاکستان کا میوزیم جو کوئٹہ کے سیاحتی مقامات کی فہرست کا ایک اہم مقام ہے۔
اس میوزیم کی سات گیلریز ہیں۔540 ملین سال سے لیکر اب تک دنیا کا جتنا بھی جیالوجیکل ریکارڈ ہے ارتھ ہسٹری کا، وہ میوزیم میں موجود پتھروں میں محفوظ ہے ۔اس میوزیم کی سب سے خاص بات یہاں موجود ڈائینا سورز، واکنگ ویل، بلوچی تھریم کی Fossil ہیں جو بلوچستان کے علاقے سے ہی دریافت ہوئے ہیں۔ پاکستان بھر میں اس طرح کے Fossil کہیں اور موجود نہیں۔ اس کے علاوہ قیمتی پتھر،معدنیات ، مختلف طرح کے پتھراور خصوصاً شہاب ثاقب صرف آپ کو یہاں ہی ملیں گے۔
کوئٹہ سے وابستہ سیاحتی عجائب پر یقینا عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ذرا سوچئے آپ ان سے لطف اندوز ہونے کے لئے کوئٹہ آنے کو بے تاب ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ کوئٹہ کیسے جایا جائے؟بائی ائیر، بائی روڈ یا پھر بائی ٹرین ۔تو جناب آپ جس طرح مرضی آئیے یہ تینوں سہولتیں آپ کو کوئٹہ لاسکتی ہیں۔ لیکن اگر آپ ٹرین کے ذریعے کوئٹہ آتے ہیں تو آپ انجینئرنگ کے ایسے عظیم الشان نظام کو دیکھنے کا موقع حاصل کرتے ہیں جو ریلوے کی تاریخ کا روشن باب ہے۔
سبی کوئٹہ ریلوے سیکشن ریلوے انجیئنرنگ کا شاہکار تو ہے ہی لیکن کوئٹہ سے چمن ریلوے ٹریک بھی کسی طرح دلچسپی سے کم نہیں۔ پہاڑوں کے درمیان بل کھاتی ریلوے لائن، پہاڑوں کو کاٹ کر بنائی گئی سرنگیں، پہاڑی ندی نالوں پر تعمیر پل، پہاڑی دروں میں گونجتی ٹرین کے انجن کی سیٹی اور ریل گاڑی کی بل کھاتی بوگیاںآپ کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہیں ۔ بلوچستان میں سب سے پہلی ریل گاڑی جنوری1880 میں سبی تک آئی۔ مارچ1887 میں پہلی گاڑی ہرنائی ، شارگ، چھپر رفٹ، کچ، بوستان کے راستے کوئٹہ پہنچی۔ اس کے ساتھ ساتھ سبی سے ایک چھوٹی ریلوے لائن درہ بولان سے ہوتی ہوئی کوئٹہ تک بھی ڈالی گئی ۔
جسے 1895 میں الائنمنٹ تبدیل کر کے سبی ، آب گم ، مچھ، کولپور کی موجود لائن کی صورت دی گئی ۔ یہ دونوں لائنیں کافی عرصہ تک ایک ساتھ استعمال ہوتی رہیں۔ لیکن 11 جولائی 1942 کو شدید بارش کی وجہ سے چھپررفٹ جو تین کلو میٹر طویل پہاڑی ہے وہاں لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے پڑنے والے شگافوں سے اس سیکشن کو ہمیشہ کے لئے بند کردیا گیا۔ اس جگہ ایک گینگ مین تعینات ہوتا تھا جو پیدل اس تین کلومیٹر علاقے کو چیک کرتا اور پھر وہ سگنل ڈاؤن کرتا تھا تو ریل گاڑی چلتی تھی۔ کوئٹہ سبی لائن کی لمبائی 140کلومیٹر ہے جس میں 20 سرنگیں آتی ہیں ۔ سب سے طویل سرنگ پنیر سرنگ ہے جو تقریباً ایک کلومیٹر طویل ہے۔آب گم سے کولپور 37 کلومیٹر تک چڑھائی زیادہ ہونے کی وجہ سے ڈبل انجن لگایا جاتا ہے اور اس حصہ میں ڈبل ٹریک بچھایا گیا ہے۔
کوئٹہ میں شاپنگ کی کشش سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتی ہے اور وہ ہے یہاں کی دستکاریاں ۔ جو بلوچستان کا عظیم ثقافتی ورثہ ہیں۔ یہ دستکاریاں صوبے کی تین بڑی اقوام کی مقامی روایات کی بخوبی عکاسی کرتی ہیں۔ یہ اقوام بلوچ ، پشتون اور براہوی زبانوں پر مشتمل افراد کی شناخت ہیں۔ ثقافت کی شناخت صرف دستکاریوں سے ہی نہیں بلکہ لوک موسیقی، رقص اور پینٹنگز بھی اس کے اظہار کا ایک اہم ذریعہ ہیں اور کوئٹہ میں یہ تما م اصناف جس ایک مقام پر یکجا نظر آتی ہیں ۔وہ ہے ادارہ ثقافت بلوچستان ۔
کوئٹہ بلوچستان کی مثالی روایات کا امین شہر ہے یہاں بسنے والا ہر فرد اپنی قابلِ فخر روایات کی پاسداری کے تعلق کے ساتھ بندھا ہوا ہے۔ اعلیٰ اقدار کی حامل انہی روایات میں سے مہمانوں کی تواضع صوبے کی ایسی روایت ہے جو اپنا ثانی نہیں رکھتی اور کوئٹہ شہر میں موجود ہوٹل اس روایت کے ناصرف امین ہیں بلکہ اپنی خدمات سے اپنے معزز صارفین کا دل جیتنے کے علاوہ صوبے کی روایتی مہمان داری کے وصف کی علامت بھی ہیں۔ کوئٹہ اپنے روایتی کھانوں کے حوالے سے ایک نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ سجی، کھڈا کباب، تریت، لاندہی، تکہ کباب، روش، جائنٹ اورتندور کی خمیری روٹیاں اپنی مثال آپ ہیں۔
کوئٹہ کی شہرت کی ایک اور وجہ تسمیہ اس کے موسم بھی ہیں ۔ گرمی، سردی ،برف ، بارش چاروں عناصر کی موجودگی کوئٹہ کے موسم کو دو چند کر دیتی ہے۔ سیاحت کے حوالے سے موسم کا عمل دخل بھی نمایاں اہمیت کا حامل ہے۔ سال کے 7 مہینے کوئٹہ کا موسم خوشگوار رہتا ہے۔
جون اور جولائی گرم ترین اور دسمبر، جنوری اور فروری سرد ترین مہینے ہوتے ہیں ۔ گرمیوں میں درجہ حرارت عام طور پر 31 سے36 ڈگری سینٹی گریڈ تک رہتا ہے لیکن بعض اوقات یہ درجہ حرارت 42 ڈگری تک بھی پہنچ سکتا ہے ۔ سردیوں میں یہاں کا اوسط درجہ حرارت منفی 1 سے منفی3 تک رہتا ہے لیکن ان مہینوں میں درجہ حرارت منفی18 ڈگری تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ کوئٹہ میں مون سون کی بارشیں بہت کم ہوتی ہیں۔ عام طور پر بارشیں جنوری، فروری اور مارچ کے دوران ہوتی ہیں ۔ ان مہینوں میں اوسط بارش 50 سے 65 ملی میٹر تک ہوتی ہے جبکہ 24 گھنٹوں میںزیادہ سے زیادہ بارش کا ریکارڈ113 ملی میٹر تک بھی ہے۔
موسم چاہے شہر کا ہو یا دل کاایک خاص چیزپر بنیاد کرتا ہے اور وہ ہے امن وامان کی صورتحال اور سیاح اُس پرندے کی مانند ہے جو خطرے کو جلد بھانپ لیتا ہے اور پھر اُس طرف کا رخ نہیں کرتاجہاں امن و آشتی موجود نہ ہو۔کوئٹہ گزشتہ کچھ عرصے تک امن وامان کے حوالے سے مختلف چیلنجز کا شکار رہا ہے جس کی وجہ سے اس شہر کی سیاحتی رونقیں مانند پڑگئی تھیں۔ لیکن سیاحت کے لئے سب سے لازم جزوامن و امان کی موجودہ شہری صورتحال اب کافی بہتر ہے کیونکہ سیاحت کا شعبہ دنیا بھر میں صنعت کا درجہ اختیار کر چکا ہے اور2014 ء میں اس شعبہ نے دنیا بھر کو 1.5 کھرب ڈالر کا زرمبادلہ مہیا کیا جو دنیا کی 9 فیصد جی ڈی پی کے برابر ہے۔ اس لئے یہاں بھی سیاحت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔
کوئٹہ میں سیاحت کے بارے میں سیلانیوں کے تاثرات سب سے اہم پیمانہ ہیں کسی بھی جگہ کے سیاحتی مواقعوںاور سہولیات کے بارے میں رائے قائم کرنے کا ۔ مختار آزاد کراچی سے تعلق رکھتے ہیں اور کوئٹہ اکثر آتے رہتے ہیںکہتے ہیں ــ''کہ کوئٹہ کی متنوع قسم کی تہذیبی ثقافت ہے جوآج بھی برقرار نظر آتی ہے اس کے بازار نہایت ہی خوش اطوار لوگوں کی دکانوں سے سجے ہوئے ہیں ۔ یہاں کے راستے پیدل چلنے والوں کے لئے خوبصورت ہیں یہاں کی ایک چیز جو اپنی جانب کھینچتی ہے وہ یہ ہے کے آپ چاہے بازار میں گھوم رہے ہوں یاگلیوں میں ہوں۔ چاہے قہوہ خانہ میں جائیں یا کسی بڑے ہوٹل میں، آپ کو یہاں بلوچستان کی ثقافت اور اُس کے ساتھ ساتھ جتنی تہذیبی شناختیں ہیں وہ یہا ں موجود نظر آئیں گی ۔ اور ان کا آپس میں ایک مربوط ربط آپ کو ہر جگہ نظر آئے گا۔ کوئٹہ کی ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر آپ یہاں پر کچھ فاصلے پر چلے جائیں تو آپ کو سرسبز کھیتیاں نظر آئیں گی آپ کو کاریز نظر آئیں گے۔ آپ کو خوبصورت ہنہ جھیل ، باغات اور دیگر خوبصورت مقامات نظر آئیں گے''۔
٭...٭...٭
کتنا خوبصورت اور جاذبِ نظر ہے کو ئٹہ کا شہر بالکل بہار کے پھولوں کی مانند۔۔۔یہاں سرسبز پھولوں سے بھرے پارک ہیںجن میں دن بھر میلے کا سا سماں رہتا ہے۔اور اس کے ساتھ ہی کوئٹہ شہر میں قندہاری بازار جیسے تاریخی اہمیت کے بازار بھی ہیں۔ تب ہی تو کوئٹہ کی خوبصورتی بے مثال اور لازوال ہے۔
٭...٭...٭
بلوچستان کی میٹھی اور سریلی مقامی زبانوں بلوچی اور پشتو کے نغمات کے یہ بول دراصل ایک کہانی ہے، صوبے کی ثقافت اُس کی تہذیب و تمدن میں رچی ہوئی اُس محبت کی، جو وابستہ ہے اپنے وطن، اپنے شہر سے اُس کے حسین نظاروں سے اُن کی تعریف سے اور اُن پر فخر کرنے سے۔ بلاشبہ بلوچستان اپنے حسن پر نازاں کیوں نہ ہو۔
ہزاروں سال پرانی تہذیب کا امین یہ صوبہ اپنے بلند و بالا پہاڑوں، چٹیل میدانوں، سرسبز وادیوں، لہلہاتے کھیتوں،لق و دق صحراؤں کی موجودگی میںایک طلسماتی دنیا کا حصہ لگتا ہے جس کا مرکز پہاڑوں کے دامن میں گھری وہ حسین وادی ہے جسے اہلِ دنیا کوئٹہ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔سطح سمندر سے پانچ ہزار دو سو تریپن فٹ بلندی پر واقع بلوچستان کا دارالحکومت '' کوئٹہ'' جسے پاکستان کی پھلوں کی ٹوکری بھی کہا جاتا ہے۔کوہ چلتن، کوہ مرداراور تکاتو کے درمیان میں واقع وادی کوئٹہ اپنے موسم اور ریل کے دلکش سفر کے باعث ایک افسانوی روپ کی حامل ہے۔
ماضی میں چھوٹا لندن کہلانے والے اس شہر کا پہلا تاریخی حوالہ گیارھویں صدی میں ملتا ہے۔ جب محمود غزنوی نے اس پر قبضہ کیا۔ اس کے بعد مختلف حکمرانوں کے زیرِ دست رہنے کے بعدکوئٹہ 1876ء میں انگریزوں کے قبضہ میں چلا گیا۔ اور آزادی وطن کے بعد پاکستان کے رقبہ کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کا صدر مقام بنا۔ لفظ کوئٹہ پشتو زبان کے لفظ کوٹ سے ماخوذ ہے جس کے معنی قلعہ کے ہیں۔ اور ابتداء میں کوئٹہ ایک قلعہ کی چار دیواری میں آباد تھا۔
جو تاریخ میں قلعہ میری کے نام سے موسوم ہے۔ یہ قلعہ آج بھی ماضی کی یادگار کی صورت میں کوئٹہ شہر کی تاریخ بیان کرتا نظر آتا ہے۔ 1828ء میں کوئٹہ میں آنے والے پہلے مغربی سیاح کے مطابق اُس وقت قلعہ کے اندرتین سو کچے مکانات تھے۔ لیکن آج یہ شہر پاکستان کا نواں گنجان آباد شہر ہے۔ وادی اوڑک اور ہنہ جھیل کوئٹہ کی ایسی شناخت ہیں جنھیں ایک آفاقی حیثیت حاصل ہے۔ اور دوردور سے سیاح ان مناظر کو دیکھنے کے لئے کھچے چلے آتے ہیں۔
وادی ہنہ اوڑک بظاہر تو دو نام ہیں لیکن ایک ہی وادی ہے۔ نام دو اس لئے کہ ذرا فاصلے سے دو گاؤں تھے جو اَب مل گئے ہیں۔ ہنہ اوڑک کی وادی اپنے قدرتی حسن کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہے اس کے مشرق میں کوہ زرغون ہے۔ یہاں جونیپر کے جنگلات ہیں اور یہ سلسلہ زیارت تک پھیلا ہوا ہے۔ وادی میں موجود پھلوں کے باغات اور بیچ بہتی ندی زندگی بخش احساس کے ساتھ رواںدواں ہے۔ پھر یہی پانی آگے بڑھتا ہے اور ہنہ جھیل میں جمع ہوتا ہے۔
وہ سورج جو صبح مشرق سے کوہ زرغون کی اوٹ سے طلوع ہوا شام میں جب وہ مغرب میں ہنہ جھیل کی پہاڑیوں کی اوٹ میں چھپنے لگتا ہے تو اُس کی کرنیں جھیل کے نیلگوں پانی میںسنہرا رنگ بھر دیتی ہیں۔ جھیلیں پہاڑوں کے دامن میں نیلگوں پانی کا ایک مسکن ہوں یا پھر میدانوں میں وسعت نظر پر محیط بل کھاتی لہروں پر مشتمل ذخیرہ گاہیں۔ ہمیشہ سے انسان کی تفریح اور ضرورت کی تکمیل کا ایک اہم ذریعہ رہی ہیں جس کے باعث انسانی توجہ حسین نظاروں کی امین ان آبی ذخیرہ گاہوں کی جانب زیادہ مبذول رہتی ہے اور دور دور سے لوگ ان جھیلوں کی سیاحت کے لطف سے محظوظ ہونے کے لئے آتے ہیں۔
کوئٹہ سے تقریباً 17کلومیٹر کے فاصلے پر سنگلاخ پہاڑوں کے دامن میں واقع '' ہنہ جھیل '' کوئٹہ کی ایک معتبر و جہ تسمیہ ہے۔ ہنہ جھیل 818 ایکڑ رقبے پر پھیلی ہوئی ہے اور اس میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش 2 2کروڑ20لاکھ گیلنز ہے جب کہ یہ جھیل49 فٹ گہری ہے۔ اس جھیل میں واٹر سپورٹس کی سہولیات کے ساتھ ساتھ جھیل کی سیر سے لطف اندوز ہونے کے لئے کشتیاں بھی موجود ہیں۔
ہنہ جھیل اور اوڑک کی وادی کے قدرتی نظاروں کو دیکھنے کے بعدانسانی عقل اپنے پروردگار کے جمالیاتی ذوق پر دنگ رہ جاتی ہے۔ اور بے اختیار زبان سے فقط ایک جملہ نکلتا ہے کہ سبحان تیری قدرت ۔ قدرت کی اعلیٰ کرشمہ سازیوں کی ایک اور جھلک کوئٹہ کے ایک اور تفریحی مقام پر اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔کوئٹہ سے کراچی جانے والی شاہراہ پر 17 کلومیٹر کے فاصلے پر کوئٹہ کی ایک اور منفرد پہچان ہزار گنجی چلتن نیشنل پارک ۔ جہاں سیاح قدرت کے اُس رنگ سے آشنا ہوتے ہیں جو آمیزیشوں سے پاک اور حقیقت سے قریب تر ہے۔ جہاں ہر سو ہر جگہ پروردگار کی تخلیقات کے رنگ بکھرے ہوئے ہیں۔
1980ء میں اس جگہ کو نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا۔ یہ نیشنل پارک 27 ہزار4 سو ہیکٹر پر مشتمل ہے اس نیشنل پارک میں جنگلی جانور مارخور، بھیڑیا، گیدڑ، لومڑی، چکور ، سی سی، گولڈن چیل اور پودوں کی اقسام میں جونیپر، خنجک، جنگلی بادام، جنگلی ایش پائے جاتے ہیں ۔کرخسہ اسٹیٹ فاریسٹ جو دس ہزار ہیکٹر پر ہے اُس کو بھی اس پارک میں شامل کردیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ 1990 میں کوہ سرخو اور دُز درہ کے علاقے کو بھی بطور گیم ریزرو اس میں شامل کردیا گیا ہے۔ یوں اس وقت ہزار گنجی نیشنل پارک47 ہزار ہیکٹر رقبہ پر موجود ہے۔
کوئٹہ شہر کا ایک اور سیاحتی مقام آرکیالوجیکل میوزیم یعنی عجائب گھر ہے۔ انگریز دور میں میک موہن کے نام سے ایک بہت خوبصورت میوزیم کوئٹہ میں قائم تھا ۔ لیکن بد قسمتی سے 1935ء کے زلزلے میں جب وہ تباہ ہوا تو اس کے باقی بچ جانے والے عجائب اور نوادرات کو کلکتہ ، دہلی اور لندن شفٹ کر دیا گیا۔ موجودہ میوزیم بلوچستان آرکیالوجیکل میوزیم کے نام سے 1972 سے قائم ہے۔ میوزیم میں مہرگڑھ، نوشہرو کے objects ہیں جو زیادہ تر مٹی کے ہیں۔
اس کے علاوہ قدیم مخطوطات بھی میوزیم میں موجود ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے قدیم مقامی اسلحہ میں ڈھاڈری اور برٹش پیریڈ کی رائفلیں اور پستولیں وغیرہ بھی رکھی ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ ایکپلوریشن برانچ کراچی میں بلوچستان کے 16 ہزار سے زائد objects پڑے ہوئے ہیں جس سے بخوبی اندازہ لگا یا جاسکتا ہے کہ بلوچستان آرکیالوجی کے حوالے سے کتنا مالدار ہے۔
عجائب کی کہانی صرف انسانی تمدن سے ہی نہیں جڑی ہوئی۔ بلکہ اس کا تعلق انسانی دلچسپی کی دوسری چیزوں سے بھی ہے۔ قیمتی پتھر، کرہ ارض پر زندگی کے ابتدائی اجسام اور نہ جانے کیا کیا دلچسپیاں انسان کو اپنی جانب کھینچتی ہیں۔ اور کھچاؤ کا ایک ایسا ہی مرکز ہے جیالوجیکل سروے آف پاکستان کا میوزیم جو کوئٹہ کے سیاحتی مقامات کی فہرست کا ایک اہم مقام ہے۔
اس میوزیم کی سات گیلریز ہیں۔540 ملین سال سے لیکر اب تک دنیا کا جتنا بھی جیالوجیکل ریکارڈ ہے ارتھ ہسٹری کا، وہ میوزیم میں موجود پتھروں میں محفوظ ہے ۔اس میوزیم کی سب سے خاص بات یہاں موجود ڈائینا سورز، واکنگ ویل، بلوچی تھریم کی Fossil ہیں جو بلوچستان کے علاقے سے ہی دریافت ہوئے ہیں۔ پاکستان بھر میں اس طرح کے Fossil کہیں اور موجود نہیں۔ اس کے علاوہ قیمتی پتھر،معدنیات ، مختلف طرح کے پتھراور خصوصاً شہاب ثاقب صرف آپ کو یہاں ہی ملیں گے۔
کوئٹہ سے وابستہ سیاحتی عجائب پر یقینا عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ذرا سوچئے آپ ان سے لطف اندوز ہونے کے لئے کوئٹہ آنے کو بے تاب ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ کوئٹہ کیسے جایا جائے؟بائی ائیر، بائی روڈ یا پھر بائی ٹرین ۔تو جناب آپ جس طرح مرضی آئیے یہ تینوں سہولتیں آپ کو کوئٹہ لاسکتی ہیں۔ لیکن اگر آپ ٹرین کے ذریعے کوئٹہ آتے ہیں تو آپ انجینئرنگ کے ایسے عظیم الشان نظام کو دیکھنے کا موقع حاصل کرتے ہیں جو ریلوے کی تاریخ کا روشن باب ہے۔
سبی کوئٹہ ریلوے سیکشن ریلوے انجیئنرنگ کا شاہکار تو ہے ہی لیکن کوئٹہ سے چمن ریلوے ٹریک بھی کسی طرح دلچسپی سے کم نہیں۔ پہاڑوں کے درمیان بل کھاتی ریلوے لائن، پہاڑوں کو کاٹ کر بنائی گئی سرنگیں، پہاڑی ندی نالوں پر تعمیر پل، پہاڑی دروں میں گونجتی ٹرین کے انجن کی سیٹی اور ریل گاڑی کی بل کھاتی بوگیاںآپ کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہیں ۔ بلوچستان میں سب سے پہلی ریل گاڑی جنوری1880 میں سبی تک آئی۔ مارچ1887 میں پہلی گاڑی ہرنائی ، شارگ، چھپر رفٹ، کچ، بوستان کے راستے کوئٹہ پہنچی۔ اس کے ساتھ ساتھ سبی سے ایک چھوٹی ریلوے لائن درہ بولان سے ہوتی ہوئی کوئٹہ تک بھی ڈالی گئی ۔
جسے 1895 میں الائنمنٹ تبدیل کر کے سبی ، آب گم ، مچھ، کولپور کی موجود لائن کی صورت دی گئی ۔ یہ دونوں لائنیں کافی عرصہ تک ایک ساتھ استعمال ہوتی رہیں۔ لیکن 11 جولائی 1942 کو شدید بارش کی وجہ سے چھپررفٹ جو تین کلو میٹر طویل پہاڑی ہے وہاں لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے پڑنے والے شگافوں سے اس سیکشن کو ہمیشہ کے لئے بند کردیا گیا۔ اس جگہ ایک گینگ مین تعینات ہوتا تھا جو پیدل اس تین کلومیٹر علاقے کو چیک کرتا اور پھر وہ سگنل ڈاؤن کرتا تھا تو ریل گاڑی چلتی تھی۔ کوئٹہ سبی لائن کی لمبائی 140کلومیٹر ہے جس میں 20 سرنگیں آتی ہیں ۔ سب سے طویل سرنگ پنیر سرنگ ہے جو تقریباً ایک کلومیٹر طویل ہے۔آب گم سے کولپور 37 کلومیٹر تک چڑھائی زیادہ ہونے کی وجہ سے ڈبل انجن لگایا جاتا ہے اور اس حصہ میں ڈبل ٹریک بچھایا گیا ہے۔
کوئٹہ میں شاپنگ کی کشش سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتی ہے اور وہ ہے یہاں کی دستکاریاں ۔ جو بلوچستان کا عظیم ثقافتی ورثہ ہیں۔ یہ دستکاریاں صوبے کی تین بڑی اقوام کی مقامی روایات کی بخوبی عکاسی کرتی ہیں۔ یہ اقوام بلوچ ، پشتون اور براہوی زبانوں پر مشتمل افراد کی شناخت ہیں۔ ثقافت کی شناخت صرف دستکاریوں سے ہی نہیں بلکہ لوک موسیقی، رقص اور پینٹنگز بھی اس کے اظہار کا ایک اہم ذریعہ ہیں اور کوئٹہ میں یہ تما م اصناف جس ایک مقام پر یکجا نظر آتی ہیں ۔وہ ہے ادارہ ثقافت بلوچستان ۔
کوئٹہ بلوچستان کی مثالی روایات کا امین شہر ہے یہاں بسنے والا ہر فرد اپنی قابلِ فخر روایات کی پاسداری کے تعلق کے ساتھ بندھا ہوا ہے۔ اعلیٰ اقدار کی حامل انہی روایات میں سے مہمانوں کی تواضع صوبے کی ایسی روایت ہے جو اپنا ثانی نہیں رکھتی اور کوئٹہ شہر میں موجود ہوٹل اس روایت کے ناصرف امین ہیں بلکہ اپنی خدمات سے اپنے معزز صارفین کا دل جیتنے کے علاوہ صوبے کی روایتی مہمان داری کے وصف کی علامت بھی ہیں۔ کوئٹہ اپنے روایتی کھانوں کے حوالے سے ایک نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ سجی، کھڈا کباب، تریت، لاندہی، تکہ کباب، روش، جائنٹ اورتندور کی خمیری روٹیاں اپنی مثال آپ ہیں۔
کوئٹہ کی شہرت کی ایک اور وجہ تسمیہ اس کے موسم بھی ہیں ۔ گرمی، سردی ،برف ، بارش چاروں عناصر کی موجودگی کوئٹہ کے موسم کو دو چند کر دیتی ہے۔ سیاحت کے حوالے سے موسم کا عمل دخل بھی نمایاں اہمیت کا حامل ہے۔ سال کے 7 مہینے کوئٹہ کا موسم خوشگوار رہتا ہے۔
جون اور جولائی گرم ترین اور دسمبر، جنوری اور فروری سرد ترین مہینے ہوتے ہیں ۔ گرمیوں میں درجہ حرارت عام طور پر 31 سے36 ڈگری سینٹی گریڈ تک رہتا ہے لیکن بعض اوقات یہ درجہ حرارت 42 ڈگری تک بھی پہنچ سکتا ہے ۔ سردیوں میں یہاں کا اوسط درجہ حرارت منفی 1 سے منفی3 تک رہتا ہے لیکن ان مہینوں میں درجہ حرارت منفی18 ڈگری تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ کوئٹہ میں مون سون کی بارشیں بہت کم ہوتی ہیں۔ عام طور پر بارشیں جنوری، فروری اور مارچ کے دوران ہوتی ہیں ۔ ان مہینوں میں اوسط بارش 50 سے 65 ملی میٹر تک ہوتی ہے جبکہ 24 گھنٹوں میںزیادہ سے زیادہ بارش کا ریکارڈ113 ملی میٹر تک بھی ہے۔
موسم چاہے شہر کا ہو یا دل کاایک خاص چیزپر بنیاد کرتا ہے اور وہ ہے امن وامان کی صورتحال اور سیاح اُس پرندے کی مانند ہے جو خطرے کو جلد بھانپ لیتا ہے اور پھر اُس طرف کا رخ نہیں کرتاجہاں امن و آشتی موجود نہ ہو۔کوئٹہ گزشتہ کچھ عرصے تک امن وامان کے حوالے سے مختلف چیلنجز کا شکار رہا ہے جس کی وجہ سے اس شہر کی سیاحتی رونقیں مانند پڑگئی تھیں۔ لیکن سیاحت کے لئے سب سے لازم جزوامن و امان کی موجودہ شہری صورتحال اب کافی بہتر ہے کیونکہ سیاحت کا شعبہ دنیا بھر میں صنعت کا درجہ اختیار کر چکا ہے اور2014 ء میں اس شعبہ نے دنیا بھر کو 1.5 کھرب ڈالر کا زرمبادلہ مہیا کیا جو دنیا کی 9 فیصد جی ڈی پی کے برابر ہے۔ اس لئے یہاں بھی سیاحت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔
کوئٹہ میں سیاحت کے بارے میں سیلانیوں کے تاثرات سب سے اہم پیمانہ ہیں کسی بھی جگہ کے سیاحتی مواقعوںاور سہولیات کے بارے میں رائے قائم کرنے کا ۔ مختار آزاد کراچی سے تعلق رکھتے ہیں اور کوئٹہ اکثر آتے رہتے ہیںکہتے ہیں ــ''کہ کوئٹہ کی متنوع قسم کی تہذیبی ثقافت ہے جوآج بھی برقرار نظر آتی ہے اس کے بازار نہایت ہی خوش اطوار لوگوں کی دکانوں سے سجے ہوئے ہیں ۔ یہاں کے راستے پیدل چلنے والوں کے لئے خوبصورت ہیں یہاں کی ایک چیز جو اپنی جانب کھینچتی ہے وہ یہ ہے کے آپ چاہے بازار میں گھوم رہے ہوں یاگلیوں میں ہوں۔ چاہے قہوہ خانہ میں جائیں یا کسی بڑے ہوٹل میں، آپ کو یہاں بلوچستان کی ثقافت اور اُس کے ساتھ ساتھ جتنی تہذیبی شناختیں ہیں وہ یہا ں موجود نظر آئیں گی ۔ اور ان کا آپس میں ایک مربوط ربط آپ کو ہر جگہ نظر آئے گا۔ کوئٹہ کی ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر آپ یہاں پر کچھ فاصلے پر چلے جائیں تو آپ کو سرسبز کھیتیاں نظر آئیں گی آپ کو کاریز نظر آئیں گے۔ آپ کو خوبصورت ہنہ جھیل ، باغات اور دیگر خوبصورت مقامات نظر آئیں گے''۔