شامی مہاجرین۔۔۔۔ہمارے ساتھ یہ رَستے کدھر کو جاتے ہیں
اس ساری صورت حال میں امریکا اور عرب سلاطین کا رویہ کس قدر مایوس کن ہے
انسان جب گرتا ہے تو حیوان بھی اس سے افضل نظر آتا ہے۔ درندوں کا پیٹ بھر جاتا ہے تو وہ آرام کرتے ہیں۔ انسان کا پیٹ کبھی نہیں بھرتا۔ اسے زیادہ سے زیادہ طاقت، زیادہ سے زیادہ دولت، زیادہ سے زیادہ شہرت درکار ہوتی ہے۔ اس کے لیے وہ خون بہاتا ہے، جنگ کرتا ہے، آبادیوں کو کھنڈر میں تبدیل کرتا ہے، لیکن بربادیوں سے سبق حاصل نہیں کرتا۔ تباہ کاری کا عمل اس کے خون میں دوڑتا ہے، اور اس کے دماغ میں رقص کرتا ہے۔ بربریت تہذیب انسانی کو تار تار کرتی ہے۔ انسان دیکھتا ہے، اور اپنی عیش کوشی سے تائب نہیں ہوتا۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین (Unhcr) کے مطابق جنگوں، دہشت گردی اور خوں ریزی کے سبب تقریباً چھے کروڑ (پانچ کروڑ پچانوے لاکھ) مہاجرین دربدری کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ وہ ہاتھ پھیلائے، پناہ مانگنے کے لیے ادھر ادھر گھوم رہے ہیں۔ جو چند خو ش قسمت ہیں انھیں آسانی سے سائباں میسر آجاتا ہے۔
باقی لوگ غیرقانونی راستوں سے ایسے ممالک کی حدود میں گھسنے کی کوشش کرتے ہیں، جہاں پہنچ کر وہ چھپ سکتے ہیں یا کم از کم مہاجر کیمپوں میں ڈیرا ڈال سکتے ہیں، جہاں ان کی جانیں بھی محفوظ ہوں گی، اور روکھی سوکھی روٹی بھی میسر ہوگی۔ راستے پُرخطر بھی ہیں اور دشوار گزار بھی۔ لیکن جنگ زدہ علاقے میں وہ اندھا دھند بم باری کا نشانہ نہیں بننا چاہتے۔ قسمت آزمائی کے لیے تیار رہتے ہیں، حالاں کہ آئے دن زمینی اور سمندری راستوں پر ان جیسے بدقسمت لوگوں کی ہلاکت کے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کے مطابق دوسری جنگ عظیم کے بعد اتنا بڑا بحران دیکھنے میں نہیں آیا۔ اتنی بڑی تعداد میں مہاجرین کبھی اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور نہیں ہوئے۔ شام، عراق، لیبیا، افغانستان اور یمن کے لوگ جنگ کی تباہ کاریوں اور خوں ریزی سے خصوصیت کے ساتھ متاثر ہوئے ہیں، اور وہ بڑی تیزی سے نقل مکانی کررہے ہیں۔ اپنا سب کچھ چھوڑ کر اجنبی سرزمین پر گھر بسانے کا خواب تعبیر سے ہم کنار ہوگا یا نہیں، انھیں کچھ نہیں معلوم، اور کم از کم اتنا تو معلوم ہی ہے کہ اگر کسی ملک نے ان پر رحم کھایا بھی تو وہاں انھیں شہریت نہیں ملے گی، اور اگر ملی بھی تو تیسرے درجے کی ہوگی۔
بڑا سبق آموز منظر ہے، جو خودغرضی، منافقت اور ریا کاری سے لب ریز ہے!!
ایک اور عبرت ناک پہلو یہ ہے کہ مغربی ممالک تو نسبتاً فیاضی کے ساتھ ان مہاجرین کے لیے، جن میں سے اکثر اسلامی ملکوں خصوصاً شام سے آرہے ہیں، اپنے دروازے کھول رہے ہیں، لیکن اسلامی ممالک کے در و دیوار بے حسی، خودغرضی اور منافقت کی گرد میں ڈوبے ہوئے ہیں، ان کا مذہبی رشتے کا تقدس عیش کوشی کے نشے میں پامال ہورہا ہے۔ ہر طرف بھیانک خاموشی طاری ہے، حتیٰ کہ مشرق وسطیٰ کے وہ ممالک بھی خاموشی سے تماشا دیکھ رہے ہیں جہاں دولت کی ریل پیل ہے، اور عجیب بات ہے کہ مذہبی حلقے بھی خاموش ہیں، جو ہر وقت ''اسلامی درد'' کا پرچار کرتے ہیں۔
2014 میں دو لاکھ انیس ہزار لوگوں نے یورپ میں پناہ حاصل کرنے کے لیے بحر روم سے سفر کیا تھا۔ لیکن 2015 کے صرف آٹھ مہینوں میں تین لاکھ سے زاید خانماں برباد لوگوں نے سمندر عبور کرنے کا منصوبہ بنایا۔ کشتیاں خستہ حال ہوتی ہیں، گنجایش سے زیادہ لوگ ان پر سوار ہوتے ہیں۔ سفر خفیہ ہوتا ہے۔ سمندر کی غضب ناک لہروں کے رحم و کرم پر وہ سفر جاری رکھتے ہیں۔ کچھ بھوک پیاس سے دم توڑ دیتے ہیں۔ کچھ ایک ساتھ بھوکی مچھلیوں کی غذا بن جاتے ہیں، جب ان کی کشتیاں طوفانی لہروں سے سرتوڑ مقابلے کے بعد شکستہ ہوجاتی ہیں یا چٹانوں سے ٹکراکر پاش پاش ہوجاتی ہیں۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے مہاجرین کی تحقیق کے مطابق 2015 میں ڈھائی ہزار ایسے لوگ سمندر میں ڈوب کر ہلاک ہوئے۔
اس وقت مہاجرین کی اکثریت خانہ جنگی کی آگ میں جلتے شام سے تعلق رکھتی ہے۔ چالیس لاکھ سے زاید شامی مہاجرین کی رجسٹریشن اقوام متحدہ کرچکی ہے، اس کے علاوہ 70 لاکھ شامی اندرون ملک دربدر مارے مارے پھررہے ہیں۔ مستند ذرایع کے مطابق اس بدقسمت ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی اُجڑ چکی ہے اور اپنے گھروں سے محروم ہوچکی ہے۔ جنگ کی خوف ناک آگ میں ان کا سارا اثاثہ جل چکا ہے۔ عزیز و اقارب کی ایک بڑی تعداد جاں بہ حق ہوچکی ہے۔ مالی وسائل دم توڑ چکے ہیں۔ وہ روٹی کو بھی ترس رہے ہیں اور سائبان کو بھی، جس کے نیچے سکون سے سو سکیں۔
شامی خانہ جنگی سے برباد ہونے والے ان مہاجرین پر دنیا بھر میں توجہ دی جارہی ہے۔ پڑوسی ممالک میں ترکی بیس لاکھ شامی مہاجرین کو پناہ دے چکا ہے، چھوٹے سے ملک لبنان میں بھی گیارہ لاکھ شامی مہاجرین ڈیرا ڈال چکے ہیں، جو اس وقت اس ملک کی مجموعی آبادی کا پانچواں حصہ ہے۔ اردن چھ لاکھ تیس ہزار شامی مہاجرین کو قبول کرچکا ہے، اور اب اس کی کل آبادی میں ہر تیرہواں فرد شام سے تعلق رکھتا ہے۔ اس تبدیلی کے بعد اردن اور لبنان پوری دنیا میں اپنی آبادیوں کے تناسب سے سب سے زیادہ مہاجرین کو پناہ دے چکے ہیں۔ حیرت انگیز بات ہے کہ عراق، جو خود جنگ کی آگ میں سلگ رہا ہے، ڈھائی لاکھ شامی مہاجرین کو پناہ دے چکا ہے اور ان میں سے بیش تر عراقی کردستان میں آباد ہوچکے ہیں۔
شامی مہاجرین کا مسئلہ کس قدر خوف ناک ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ افغانستان میں امریکا اور روس کے درمیان ہونے والی جنگ، جنگ خلیج، روانڈا کے قتل عام اور کوسوو پر بم ہاری کے نتیجے میں جو لوگ دربدر ہوئے، ان کے مقابلے میں شامی مہاجرین کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق شامی مہاجرین کی51 فی صد تعداد 18 سال سے کم عمر نوجوانوں اور 39 فی صد تعداد 11 سال سے کم عمر بچوں پر مشتمل ہے۔ دوسرے الفاظ میں پانچ شامی مہاجرین میں دو مہاجرین 11 سال سے کم عمر بچے ہیں۔
اس معاملے میں سب سے زیادہ فیاضی کا مظاہرہ جرمنی نے کیا ہے، اگرچہ وہاں نسل پرست نئے نازیوں نے مہاجرین اور ان کے کیمپوں پر حملے کا سلسلہ بھی شروع کردیا ہے۔
یہ ایک شرم ناک حقیقت ہے کہ جن پانچ ملکوں کے سب سے زیادہ لوگ مہاجرین بن کر پناہ ڈھونڈتے پھر رہے ہیں، ان کے اندر جنگ کی تباہ کاریوں کو پھیلانے میں امریکا کا ہاتھ نمایاں ہے۔ عراق، افغانستان اور لیبیا میں خوں ریزی پھیلانے میں براہ راست وائٹ ہاؤس ملوث رہا ہے۔ 10 سال سے زاید عرصے پر محیط عراق پر مسلط کردہ امریکی جنگ کے نتیجے میں کم ازکم دس لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔ امریکا کی اس درندگی کے باعث نہ صرف عراقی حکومت کم زور ہوئی بلکہ وہاں القاعدہ کے جنونیوں کا بھی زور بڑھا، اور پھر اسلامی ریاست والے (داعش) نئے دہشت گردوں کی خوں ریزی کا بھی نیا سلسلہ شروع ہوا۔
داعش والوں کی بربریت کے نتیجے میں اب تک صرف عراق میں 33 لاکھ لوگ در بدر ہوچکے ہیں۔افغانستان میں امریکی فوج اب تک موجود ہے، وائٹ ہاؤس نے دعویٰ کیا تھا کہ 2014 میں اس کا آخری فوجی بھی افغانستان سے بلالیا جائے گا۔ لیکن ابھی تک اس کی نوبت نہیں آئی۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 26 لاکھ افغانی مہاجر بن چکے ہیں۔ امریکا کی قیادت میں ناٹو کے طیاروں کی مسلسل بم باری کے نتیجے میں لیبیا کا نظم و نسق بالکل تباہ ہوچکا ہے۔
اس بحران کے نتیجے میں لیبیا کے ہزاروں باشندے اسمگلروں کی خطرناک کشتیوں پر سمندر عبور کرتے ہیں۔ کچھ منزل پر پہنچ جاتے ہیں، کچھ راستے میں مارے جاتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق تین لاکھ ساٹھ ہزار لیبیائی در بدر مارے مارے پھر رہے ہیں۔مشرق وسطیٰ کی چند ریاستیں سعودی عرب کی قیادت میں یمن میں چھ ماہ تک جنگ کو ہوا دیتی رہیں، جس میں ساڑھے چار ہزار سے زاید افراد ہلاک ہوئے، اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق تین لاکھ تیس ہزار یمنی مہاجر بن چکے ہیں۔ یہ ریاستیں امریکی سام راج کی سب سے زیادہ وفا دار ہیں۔
اس وقت شام سے سب سے زیادہ لوگ نقل مکانی کر رہے ہیں۔ زخموں سے چور چور اس ملک میں بھی امریکا حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والوں کو مسلسل ہتھیار فراہم کررہا ہے۔ اگرچہ شام کی خوف ناک خانہ جنگی میں امریکا براہ راست ملوث رہا ہے، لیکن اب تک اس نے صرف پندرہ سو شامی مہاجرین کو پناہ دی ہے۔ اوباما کی حکومت نے کہا ہے کہ وہ دس ہزار مہاجرین کو پناہ دے گی، لیکن یہ محض زبانی جمع خرچ ہے۔ جرمنی کی آبادی امریکا کی ایک چوتھائی آبادی کے برابر ہے، اس کے باوجود وہ صرف 2015 میں 8 لاکھ مہاجرین کو پناہ دے چکا ہے، جو امریکا سے 80 گنا زیادہ ہے۔
جہاں اشرفیوں کا دریا بہتا ہے، اب ان ممالک کا ذکر بھی ہوجائے۔ ان میں سعودی عرب بھی شامل ہے، جہاں مسلمانوں کے مقدس مقامات واقع ہیں۔ سعودی عرب، قطر، عرب امارات، بحرین، اومان اور کویت نے اب تک ایک بھی مہاجر کو پناہ نہیں دی، حالاں کہ یہ ریاستیں شام میں جنگ کی آگ بھڑکانے میں پیش پیش رہی ہیں، وہ وہاں باغیوں کو مسلسل فنڈ دیتی رہی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ان میں سے بعض عناصر القاعدہ اور داعش سے تعلق رکھتے ہیں۔
بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ دوسری مصلحتوں سے قطع نظر یہ عرب ریاستیں اس لیے بھی خائف ہیں کہ مہاجرین کی آمد سے ان کے اقتدار کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ ان تمام ریاستوں میں مطلق العنانیت اور آمریت کا راج ہے۔ وہاں شہریوں کو امور مملکت میں بولنے کا حق حاصل نہیں ہے، جو کچھ ہے برائے نام ہے۔
ان میں سے بعض ممالک میں خاصی بڑی تعداد میں تارکین وطن محنت کش موجود ہیں، لیکن انھیں ان سے کوئی خطرہ نہیں، کیوں کہ وہ سر جُھکا کر کام کرتے ہیں اور واپس چلے جاتے ہیں۔ عرب ملک، شام سے آنے والے مہاجرین مختلف تصورات کے ساتھ آئیں گے۔ ان ریاستوں کے آمر ڈرتے ہیں کہ کہیں انھیں ''بہار عرب'' جیسی کسی صورت حال کا سامنا نہ کرنا پڑ جائے اور ان کے عوام میں سیاسی بیداری کا ایک نئی لہر نہ ابھرنے لگے۔
ایک طرف یہ کنجوسی، دوسری طرف عیاشی کے حیرت انگیز اسباب۔ ایک حالیہ مثال دیکھیے۔ سعودی عرب کے شاہ سلمان تین روزہ دورے پر امریکا پہنچے تو ایک اعلیٰ ترین ہوٹل کے تمام 222 کمرے بک کرالیے گئے، صرف کرایہ دس لاکھ ڈالر فی رات کے حساب سے ادا کیا گیا۔ گویا تین روزہ شب بسری پر تیس لاکھ ڈالر صرف ہوئے۔!!
غزہ کے باشندوں پر اسرائیلی یورش کے بعد تباہی کے جو مناظر دیکھنے میں آئے، ان پر پوری دنیا نے سوگ منایا، اور اپنے تئیں سب نے انھیں امداد بھی روانہ کی۔ ان عرب ریاستوں نے بھی لاکھوں ڈالر کی امداد فراہم کرنے کے وعدے کیے، لیکن جتنا وعدہ کیا گیا اس کا محض ایک قلیل حصہ فلسطینی خانماں بربادوں کو عطا گیا۔
مصر ایک لاکھ تیس ہزار شامی مہاجرین کو پناہ دے چکا ہے لیکن یہ مجبوری کا سودا ہے، اردن اور لبنان جیسی گرم جوشی وہاں موجود نہیں، بلکہ ایک رپورٹ کے مطابق بہت سارے فلسطینی اور شامی مہاجرین وہاں نظربندی کی حالت میں زندگی بسر کر رہے ہیں، اور احتجاجاً بھوک ہڑتال بھی کرتے رہے ہیں۔
اسرائیل کا رویہ تعجب خیز نہیں ہے۔ اس نے ایک بھی مہاجر کو قبول نہیں کیا۔ حزب اختلاف کے لیڈر ہرزوگ اسحاق نے نیتن یاہو کی حکومت سے اپیل کی کہ شام کے مہاجرین کو قبول کرنے کے لیے عملی قدم اٹھائے، لیکن نیتن یاہو مسلسل انکار کر رہا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ''ہمیں اس کے لیے جغرافیائی گہرائی حاصل نہیں ہے، ہمیں اپنی سرحدوں پر کنٹرول قائم رکھنا ہے، غیرقانونی تارکین وطن کے خلاف بھی اور دہشت پسندی کے خلاف بھی۔'' جہاں تک اسرائیل کی پُررعونت حکومت کا تعلق ہے وہ تو اردن کی سرحد پر ایک لمبی دیوار تعمیر کرنے کے منصوبے پر عمل کررہی ہے، تاکہ وہاں سے مہاجرین اس کے ملک میں داخل نہ ہوسکیں۔
منصوبے کے مطابق یہ دیوار اس دیوار سے جوڑ دی جائے گی جو مصر اور گولان کی پہاڑیوں کے درمیان پہلے سے موجود ہے۔ اسرائیل نے ابھی تک صرف 0.07 فی صد افریقی جلاوطن باشندوں کو پناہ دی ہے۔ دو ہزار افریقی تارکین وطن وہاں کیمپوں میں کس مپرسی کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ ان کے خلاف حسب توقع نفرت کی مہم شدت اختیار کر رہی ہے۔ اسرائیل کی وزیرثقافت نے تو انھیں ''کینسر'' قرار دیا ہے، اور اسرائیل کی 52 فی صد یہودی آبادی اس کے اس بیان کی تائید کرچکی ہے۔
ایران نے ابھی تک کسی بھی شامی مہاجر کو مستقل رہایش کا حق نہیں دیا ہے۔ اگرچہ ایران کی حکومت بھی موجودہ شامی جنگ میں شریک رہی ہے اور ہتھیاروں، فوجیوں اور مشیروں کی شکل میں شامی حکومت کو مسلسل امداد فراہم کرتی رہی ہے۔ صدر روحانی نے شامی مہاجرین کو قبول کرنے کے سلسلے میں یورپ کے ممالک کی کوششوں کو سراہا ہے اور ان سے درخواست کی ہے کہ وہ اور زیادہ لوگوں کو پناہ دینے کا سلسلہ شروع کریں۔ یہ ایک دل چسپ یا مضحکہ خیز صورت حال ہے۔
انھوں نے کہا، ''ہمیں خوشی ہے کہ یورپی ممالک مہاجرین کی مدد کے لیے مثبت اقدامات کررہے ہیں، ہمیں امید ہے کہ دوسرے یورپی ممالک جو ابھی اس پوزیشن میں نہیں ہیں وہ بھی اس کوتاہی کا ازالہ کریں گے۔''
لیکن خود ایران نے ایک بھی شامی مہاجر کو پناہ نہیں دی۔روس ایک طویل عرصے سے اسد گھرانے کی حکومتوں کو ہر قسم کی جنگی امداد فراہم کرتا رہا ہے۔ لیکن پیوٹن نے بھی ابھی شامی مہاجرین کو مستقل پناہ دینے کا اعلان نہیں کیا۔ البتہ اس سال ایک ہزار سے کچھ زاید شامی مہاجرین کو روس میں عارضی طور پر پناہ دی گئی ہے۔ نتیجتاً وہ پریشان حال ہیں انھیں کوئی ملازمت دینے کو تیار نہیں، بہت کم اجرت پاتے ہیں، احتجاج کرتے ہیں تو سننے کو ملتا ہے ''شام واپس چلے جاؤ۔''
چند روز قبل روس کے متعلقہ محکمے کی جانب سے ایک مضحکہ خیز اعلان جاری کیا گیا۔ ''ہم شامی مہاجرین کو قبول کرنے کے لیے تیار ہیں، بہ شرطے کہ وہ قانون کی پابندی کریں۔'' پھر یہ بھی اضافہ کیا گیا کہ ''در اصل، روسی فیڈریشن کے مقابلے میں یورپی ممالک شامی مہاجرین کے لیے زیادہ موزوں ہیں۔''
یورپین کمیشن نے شامی مہاجرین کی آباد کاری کے لیے یورپی یونین کے ممالک کے لیے لازمی کوٹا الاٹ کیا تھا، جس کے تحت جرمنی، فرانس، اسپین ہنگری، یونان اور اٹلی کے راستے آنے والے ایک لاکھ بیس ہزار مہاجرین میں سے 60 فی صد کو آباد کیا جائے گا۔فرانس نے دو سال میں 24 ہزار افراد کی آباد کاری پر آمادگی ظاہر کی ہے۔
اسپین سے کہا جارہا ہے کہ وہ پندرہ ہزار مہاجروں کو قبول کرلے۔ انگلینڈ 20 ہزار شامی مہاجرین کو مستقل رہائش دے گا، لیکن فوری طور پر نہیں، بلکہ یہ سلسلہ 2020 میں مکمل ہوگا، یعنی وہ ہر سال چار ہزار شامی مہاجرین کو قبول کر رہا ہے۔
حیرت انگیز مثال جرمنی نے قائم کی ہے۔ منصوبے کے مطابق جرمنی سے صرف31 ہزار مہاجرین قبول کرنے کے لیے کہا گیا تھا لیکن جرمنی کی حکومت نے کہا ہے کہ وہ ہر سال پانچ لاکھ شامی مہاجرین قبول کرنے کو تیار ہے۔ اندازہ ہے کہ 2015 کے اختتام تک ہاں آٹھ لاکھ شامی مہاجرین آباد ہوچکے ہوں گے۔
سوئیڈن کی آبادی صرف 98 لاکھ ہے، لیکن وہ بھی فیاضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پچاس ہزار مہاجرین کو پناہ دے چکا ہے۔ یونان، اٹلی اور آسٹریا میں بھی ہزاروں لوگ پناہ لینے میں کام یاب ہوچکے ہیں۔ ان دونوں ممالک میں کشتیوں کے ذریعے آنے والے مہاجرین کی تعداد زیادہ ہے۔سوئیڈن کے برعکس ڈنمارک میں برسراقتدار دائیں بازو کی حکومت مہاجرین کو قبول کرنے سے یک سر انکار کررہی ہے، بلکہ اس نے ایک تشہیری مہم مہاجروں کے خلاف چلا رکھی ہے، اور جو لوگ وہاں پناہ لینے کے لیے پہنچتے ہیں انھیں جرمنی کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے۔
سلوواکیا نے جہاں فاشسٹ گروپوں نے بغاوت کر رکھی ہے، دو ہزار مہاجرین کو پناہ دینے کا وعدہ کیا ہے، لیکن وہ مسلمانوں کو نہیں، صرف عیسائیوں کو پناہ دے گا۔ سلوواکیا کی طرح چیک دی پبلک کے لیڈر بھی اپنا کوٹا پورا کرنے سے انکار کررہے ہیں۔ انتہائی دائیں بازو کے ایک لیڈر نے تو یہ مطالبہ کیا ہے کہ مہاجروں کو ''ارتکازی کیمپوں'' میں رکھا جائے۔
ہنگری مہاجروں کو روکنے کے لیے اپنی جنوبی سرحد مکمل طور پر بند کرچکا ہے۔ وہاں کی قدامت پسند دائیں بازو کی حکومت خاص طور پر مسلمان مہاجرین کو پناہ دینے سے یک سر انکار کر رہی ہے، اور وہاں کوئی مہاجر آنکلتا ہے تو اسے آسٹریا کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے۔وینزویلا جہاں پہلے ہی51لاکھ کولمبین مہاجرین موجود ہیں، بیس ہزار شامی مہاجرین قبول کرنے کا اعلان کرچکا ہے۔ 2011 میں شام میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے برازیل بیس ہزار شامی مہاجروں کو پناہ دے چکا ہے۔
وہاں کے صدر دیلماروسیف نے اعلان کیا ہے کہ ''ہم کُھلی بانہوں سے شامی مہاجرین کا خیر مقدم کریں گے۔'' یوروگوئے اور ارجنٹائن بھی شامی مہاجروں کی آباد کاری کے لیے اپنے منصوبوں کا آغاز کرچکے ہیں۔ آسٹریلیا نے اعلان کیا ہے کہ وہ بارہ ہزار شامی اور عراقی جلاوطنوں کو آباد کرے گا۔ کینیڈا نے تین سال کے دوران دس ہزار شامی مہاجرین کو آباد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ وہاں مختلف حلقوں کی جانب سے ایک پٹیشن حکومت کو پیش کی گئی ہے کہ کم از کم پچاس ہزار مہاجرین کو قبول کرلیا جائے۔
مقدس ویٹی کن سٹی کی کل آبادی صرف 842نفوس پر مشتمل ہے، اور اس نے بھی دوشامی مہاجرین قبول کرنے کا اعلان کیا ہے۔ آبادی کے تناسب کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ویٹی کن سب سے آگے نکل گیا ہے۔اس اعلان کے بعد ماں باپ اور دو بچوں پر مشتمل ایک شامی مہاجر گھرانا ویٹی کن سٹی پہنچ چکا ہے۔
سارا منظر بلا کم و کاست سطور بالا میں پیش کر دیا گیا ہے۔ اس ساری صورت حال میں امریکا اور عرب سلاطین کا رویہ کس قدر مایوس کن ہے، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ امریکا اور ان کے یہ وفادار عرب اتحادی پستی کے ایک پلیٹ فارم پر ساتھ ساتھ کھڑے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین (Unhcr) کے مطابق جنگوں، دہشت گردی اور خوں ریزی کے سبب تقریباً چھے کروڑ (پانچ کروڑ پچانوے لاکھ) مہاجرین دربدری کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ وہ ہاتھ پھیلائے، پناہ مانگنے کے لیے ادھر ادھر گھوم رہے ہیں۔ جو چند خو ش قسمت ہیں انھیں آسانی سے سائباں میسر آجاتا ہے۔
باقی لوگ غیرقانونی راستوں سے ایسے ممالک کی حدود میں گھسنے کی کوشش کرتے ہیں، جہاں پہنچ کر وہ چھپ سکتے ہیں یا کم از کم مہاجر کیمپوں میں ڈیرا ڈال سکتے ہیں، جہاں ان کی جانیں بھی محفوظ ہوں گی، اور روکھی سوکھی روٹی بھی میسر ہوگی۔ راستے پُرخطر بھی ہیں اور دشوار گزار بھی۔ لیکن جنگ زدہ علاقے میں وہ اندھا دھند بم باری کا نشانہ نہیں بننا چاہتے۔ قسمت آزمائی کے لیے تیار رہتے ہیں، حالاں کہ آئے دن زمینی اور سمندری راستوں پر ان جیسے بدقسمت لوگوں کی ہلاکت کے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کے مطابق دوسری جنگ عظیم کے بعد اتنا بڑا بحران دیکھنے میں نہیں آیا۔ اتنی بڑی تعداد میں مہاجرین کبھی اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور نہیں ہوئے۔ شام، عراق، لیبیا، افغانستان اور یمن کے لوگ جنگ کی تباہ کاریوں اور خوں ریزی سے خصوصیت کے ساتھ متاثر ہوئے ہیں، اور وہ بڑی تیزی سے نقل مکانی کررہے ہیں۔ اپنا سب کچھ چھوڑ کر اجنبی سرزمین پر گھر بسانے کا خواب تعبیر سے ہم کنار ہوگا یا نہیں، انھیں کچھ نہیں معلوم، اور کم از کم اتنا تو معلوم ہی ہے کہ اگر کسی ملک نے ان پر رحم کھایا بھی تو وہاں انھیں شہریت نہیں ملے گی، اور اگر ملی بھی تو تیسرے درجے کی ہوگی۔
بڑا سبق آموز منظر ہے، جو خودغرضی، منافقت اور ریا کاری سے لب ریز ہے!!
ایک اور عبرت ناک پہلو یہ ہے کہ مغربی ممالک تو نسبتاً فیاضی کے ساتھ ان مہاجرین کے لیے، جن میں سے اکثر اسلامی ملکوں خصوصاً شام سے آرہے ہیں، اپنے دروازے کھول رہے ہیں، لیکن اسلامی ممالک کے در و دیوار بے حسی، خودغرضی اور منافقت کی گرد میں ڈوبے ہوئے ہیں، ان کا مذہبی رشتے کا تقدس عیش کوشی کے نشے میں پامال ہورہا ہے۔ ہر طرف بھیانک خاموشی طاری ہے، حتیٰ کہ مشرق وسطیٰ کے وہ ممالک بھی خاموشی سے تماشا دیکھ رہے ہیں جہاں دولت کی ریل پیل ہے، اور عجیب بات ہے کہ مذہبی حلقے بھی خاموش ہیں، جو ہر وقت ''اسلامی درد'' کا پرچار کرتے ہیں۔
2014 میں دو لاکھ انیس ہزار لوگوں نے یورپ میں پناہ حاصل کرنے کے لیے بحر روم سے سفر کیا تھا۔ لیکن 2015 کے صرف آٹھ مہینوں میں تین لاکھ سے زاید خانماں برباد لوگوں نے سمندر عبور کرنے کا منصوبہ بنایا۔ کشتیاں خستہ حال ہوتی ہیں، گنجایش سے زیادہ لوگ ان پر سوار ہوتے ہیں۔ سفر خفیہ ہوتا ہے۔ سمندر کی غضب ناک لہروں کے رحم و کرم پر وہ سفر جاری رکھتے ہیں۔ کچھ بھوک پیاس سے دم توڑ دیتے ہیں۔ کچھ ایک ساتھ بھوکی مچھلیوں کی غذا بن جاتے ہیں، جب ان کی کشتیاں طوفانی لہروں سے سرتوڑ مقابلے کے بعد شکستہ ہوجاتی ہیں یا چٹانوں سے ٹکراکر پاش پاش ہوجاتی ہیں۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے مہاجرین کی تحقیق کے مطابق 2015 میں ڈھائی ہزار ایسے لوگ سمندر میں ڈوب کر ہلاک ہوئے۔
اس وقت مہاجرین کی اکثریت خانہ جنگی کی آگ میں جلتے شام سے تعلق رکھتی ہے۔ چالیس لاکھ سے زاید شامی مہاجرین کی رجسٹریشن اقوام متحدہ کرچکی ہے، اس کے علاوہ 70 لاکھ شامی اندرون ملک دربدر مارے مارے پھررہے ہیں۔ مستند ذرایع کے مطابق اس بدقسمت ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی اُجڑ چکی ہے اور اپنے گھروں سے محروم ہوچکی ہے۔ جنگ کی خوف ناک آگ میں ان کا سارا اثاثہ جل چکا ہے۔ عزیز و اقارب کی ایک بڑی تعداد جاں بہ حق ہوچکی ہے۔ مالی وسائل دم توڑ چکے ہیں۔ وہ روٹی کو بھی ترس رہے ہیں اور سائبان کو بھی، جس کے نیچے سکون سے سو سکیں۔
شامی خانہ جنگی سے برباد ہونے والے ان مہاجرین پر دنیا بھر میں توجہ دی جارہی ہے۔ پڑوسی ممالک میں ترکی بیس لاکھ شامی مہاجرین کو پناہ دے چکا ہے، چھوٹے سے ملک لبنان میں بھی گیارہ لاکھ شامی مہاجرین ڈیرا ڈال چکے ہیں، جو اس وقت اس ملک کی مجموعی آبادی کا پانچواں حصہ ہے۔ اردن چھ لاکھ تیس ہزار شامی مہاجرین کو قبول کرچکا ہے، اور اب اس کی کل آبادی میں ہر تیرہواں فرد شام سے تعلق رکھتا ہے۔ اس تبدیلی کے بعد اردن اور لبنان پوری دنیا میں اپنی آبادیوں کے تناسب سے سب سے زیادہ مہاجرین کو پناہ دے چکے ہیں۔ حیرت انگیز بات ہے کہ عراق، جو خود جنگ کی آگ میں سلگ رہا ہے، ڈھائی لاکھ شامی مہاجرین کو پناہ دے چکا ہے اور ان میں سے بیش تر عراقی کردستان میں آباد ہوچکے ہیں۔
شامی مہاجرین کا مسئلہ کس قدر خوف ناک ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ افغانستان میں امریکا اور روس کے درمیان ہونے والی جنگ، جنگ خلیج، روانڈا کے قتل عام اور کوسوو پر بم ہاری کے نتیجے میں جو لوگ دربدر ہوئے، ان کے مقابلے میں شامی مہاجرین کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق شامی مہاجرین کی51 فی صد تعداد 18 سال سے کم عمر نوجوانوں اور 39 فی صد تعداد 11 سال سے کم عمر بچوں پر مشتمل ہے۔ دوسرے الفاظ میں پانچ شامی مہاجرین میں دو مہاجرین 11 سال سے کم عمر بچے ہیں۔
اس معاملے میں سب سے زیادہ فیاضی کا مظاہرہ جرمنی نے کیا ہے، اگرچہ وہاں نسل پرست نئے نازیوں نے مہاجرین اور ان کے کیمپوں پر حملے کا سلسلہ بھی شروع کردیا ہے۔
یہ ایک شرم ناک حقیقت ہے کہ جن پانچ ملکوں کے سب سے زیادہ لوگ مہاجرین بن کر پناہ ڈھونڈتے پھر رہے ہیں، ان کے اندر جنگ کی تباہ کاریوں کو پھیلانے میں امریکا کا ہاتھ نمایاں ہے۔ عراق، افغانستان اور لیبیا میں خوں ریزی پھیلانے میں براہ راست وائٹ ہاؤس ملوث رہا ہے۔ 10 سال سے زاید عرصے پر محیط عراق پر مسلط کردہ امریکی جنگ کے نتیجے میں کم ازکم دس لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔ امریکا کی اس درندگی کے باعث نہ صرف عراقی حکومت کم زور ہوئی بلکہ وہاں القاعدہ کے جنونیوں کا بھی زور بڑھا، اور پھر اسلامی ریاست والے (داعش) نئے دہشت گردوں کی خوں ریزی کا بھی نیا سلسلہ شروع ہوا۔
داعش والوں کی بربریت کے نتیجے میں اب تک صرف عراق میں 33 لاکھ لوگ در بدر ہوچکے ہیں۔افغانستان میں امریکی فوج اب تک موجود ہے، وائٹ ہاؤس نے دعویٰ کیا تھا کہ 2014 میں اس کا آخری فوجی بھی افغانستان سے بلالیا جائے گا۔ لیکن ابھی تک اس کی نوبت نہیں آئی۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 26 لاکھ افغانی مہاجر بن چکے ہیں۔ امریکا کی قیادت میں ناٹو کے طیاروں کی مسلسل بم باری کے نتیجے میں لیبیا کا نظم و نسق بالکل تباہ ہوچکا ہے۔
اس بحران کے نتیجے میں لیبیا کے ہزاروں باشندے اسمگلروں کی خطرناک کشتیوں پر سمندر عبور کرتے ہیں۔ کچھ منزل پر پہنچ جاتے ہیں، کچھ راستے میں مارے جاتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق تین لاکھ ساٹھ ہزار لیبیائی در بدر مارے مارے پھر رہے ہیں۔مشرق وسطیٰ کی چند ریاستیں سعودی عرب کی قیادت میں یمن میں چھ ماہ تک جنگ کو ہوا دیتی رہیں، جس میں ساڑھے چار ہزار سے زاید افراد ہلاک ہوئے، اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق تین لاکھ تیس ہزار یمنی مہاجر بن چکے ہیں۔ یہ ریاستیں امریکی سام راج کی سب سے زیادہ وفا دار ہیں۔
اس وقت شام سے سب سے زیادہ لوگ نقل مکانی کر رہے ہیں۔ زخموں سے چور چور اس ملک میں بھی امریکا حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والوں کو مسلسل ہتھیار فراہم کررہا ہے۔ اگرچہ شام کی خوف ناک خانہ جنگی میں امریکا براہ راست ملوث رہا ہے، لیکن اب تک اس نے صرف پندرہ سو شامی مہاجرین کو پناہ دی ہے۔ اوباما کی حکومت نے کہا ہے کہ وہ دس ہزار مہاجرین کو پناہ دے گی، لیکن یہ محض زبانی جمع خرچ ہے۔ جرمنی کی آبادی امریکا کی ایک چوتھائی آبادی کے برابر ہے، اس کے باوجود وہ صرف 2015 میں 8 لاکھ مہاجرین کو پناہ دے چکا ہے، جو امریکا سے 80 گنا زیادہ ہے۔
جہاں اشرفیوں کا دریا بہتا ہے، اب ان ممالک کا ذکر بھی ہوجائے۔ ان میں سعودی عرب بھی شامل ہے، جہاں مسلمانوں کے مقدس مقامات واقع ہیں۔ سعودی عرب، قطر، عرب امارات، بحرین، اومان اور کویت نے اب تک ایک بھی مہاجر کو پناہ نہیں دی، حالاں کہ یہ ریاستیں شام میں جنگ کی آگ بھڑکانے میں پیش پیش رہی ہیں، وہ وہاں باغیوں کو مسلسل فنڈ دیتی رہی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ان میں سے بعض عناصر القاعدہ اور داعش سے تعلق رکھتے ہیں۔
بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ دوسری مصلحتوں سے قطع نظر یہ عرب ریاستیں اس لیے بھی خائف ہیں کہ مہاجرین کی آمد سے ان کے اقتدار کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ ان تمام ریاستوں میں مطلق العنانیت اور آمریت کا راج ہے۔ وہاں شہریوں کو امور مملکت میں بولنے کا حق حاصل نہیں ہے، جو کچھ ہے برائے نام ہے۔
ان میں سے بعض ممالک میں خاصی بڑی تعداد میں تارکین وطن محنت کش موجود ہیں، لیکن انھیں ان سے کوئی خطرہ نہیں، کیوں کہ وہ سر جُھکا کر کام کرتے ہیں اور واپس چلے جاتے ہیں۔ عرب ملک، شام سے آنے والے مہاجرین مختلف تصورات کے ساتھ آئیں گے۔ ان ریاستوں کے آمر ڈرتے ہیں کہ کہیں انھیں ''بہار عرب'' جیسی کسی صورت حال کا سامنا نہ کرنا پڑ جائے اور ان کے عوام میں سیاسی بیداری کا ایک نئی لہر نہ ابھرنے لگے۔
ایک طرف یہ کنجوسی، دوسری طرف عیاشی کے حیرت انگیز اسباب۔ ایک حالیہ مثال دیکھیے۔ سعودی عرب کے شاہ سلمان تین روزہ دورے پر امریکا پہنچے تو ایک اعلیٰ ترین ہوٹل کے تمام 222 کمرے بک کرالیے گئے، صرف کرایہ دس لاکھ ڈالر فی رات کے حساب سے ادا کیا گیا۔ گویا تین روزہ شب بسری پر تیس لاکھ ڈالر صرف ہوئے۔!!
غزہ کے باشندوں پر اسرائیلی یورش کے بعد تباہی کے جو مناظر دیکھنے میں آئے، ان پر پوری دنیا نے سوگ منایا، اور اپنے تئیں سب نے انھیں امداد بھی روانہ کی۔ ان عرب ریاستوں نے بھی لاکھوں ڈالر کی امداد فراہم کرنے کے وعدے کیے، لیکن جتنا وعدہ کیا گیا اس کا محض ایک قلیل حصہ فلسطینی خانماں بربادوں کو عطا گیا۔
مصر ایک لاکھ تیس ہزار شامی مہاجرین کو پناہ دے چکا ہے لیکن یہ مجبوری کا سودا ہے، اردن اور لبنان جیسی گرم جوشی وہاں موجود نہیں، بلکہ ایک رپورٹ کے مطابق بہت سارے فلسطینی اور شامی مہاجرین وہاں نظربندی کی حالت میں زندگی بسر کر رہے ہیں، اور احتجاجاً بھوک ہڑتال بھی کرتے رہے ہیں۔
اسرائیل کا رویہ تعجب خیز نہیں ہے۔ اس نے ایک بھی مہاجر کو قبول نہیں کیا۔ حزب اختلاف کے لیڈر ہرزوگ اسحاق نے نیتن یاہو کی حکومت سے اپیل کی کہ شام کے مہاجرین کو قبول کرنے کے لیے عملی قدم اٹھائے، لیکن نیتن یاہو مسلسل انکار کر رہا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ''ہمیں اس کے لیے جغرافیائی گہرائی حاصل نہیں ہے، ہمیں اپنی سرحدوں پر کنٹرول قائم رکھنا ہے، غیرقانونی تارکین وطن کے خلاف بھی اور دہشت پسندی کے خلاف بھی۔'' جہاں تک اسرائیل کی پُررعونت حکومت کا تعلق ہے وہ تو اردن کی سرحد پر ایک لمبی دیوار تعمیر کرنے کے منصوبے پر عمل کررہی ہے، تاکہ وہاں سے مہاجرین اس کے ملک میں داخل نہ ہوسکیں۔
منصوبے کے مطابق یہ دیوار اس دیوار سے جوڑ دی جائے گی جو مصر اور گولان کی پہاڑیوں کے درمیان پہلے سے موجود ہے۔ اسرائیل نے ابھی تک صرف 0.07 فی صد افریقی جلاوطن باشندوں کو پناہ دی ہے۔ دو ہزار افریقی تارکین وطن وہاں کیمپوں میں کس مپرسی کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ ان کے خلاف حسب توقع نفرت کی مہم شدت اختیار کر رہی ہے۔ اسرائیل کی وزیرثقافت نے تو انھیں ''کینسر'' قرار دیا ہے، اور اسرائیل کی 52 فی صد یہودی آبادی اس کے اس بیان کی تائید کرچکی ہے۔
ایران نے ابھی تک کسی بھی شامی مہاجر کو مستقل رہایش کا حق نہیں دیا ہے۔ اگرچہ ایران کی حکومت بھی موجودہ شامی جنگ میں شریک رہی ہے اور ہتھیاروں، فوجیوں اور مشیروں کی شکل میں شامی حکومت کو مسلسل امداد فراہم کرتی رہی ہے۔ صدر روحانی نے شامی مہاجرین کو قبول کرنے کے سلسلے میں یورپ کے ممالک کی کوششوں کو سراہا ہے اور ان سے درخواست کی ہے کہ وہ اور زیادہ لوگوں کو پناہ دینے کا سلسلہ شروع کریں۔ یہ ایک دل چسپ یا مضحکہ خیز صورت حال ہے۔
انھوں نے کہا، ''ہمیں خوشی ہے کہ یورپی ممالک مہاجرین کی مدد کے لیے مثبت اقدامات کررہے ہیں، ہمیں امید ہے کہ دوسرے یورپی ممالک جو ابھی اس پوزیشن میں نہیں ہیں وہ بھی اس کوتاہی کا ازالہ کریں گے۔''
لیکن خود ایران نے ایک بھی شامی مہاجر کو پناہ نہیں دی۔روس ایک طویل عرصے سے اسد گھرانے کی حکومتوں کو ہر قسم کی جنگی امداد فراہم کرتا رہا ہے۔ لیکن پیوٹن نے بھی ابھی شامی مہاجرین کو مستقل پناہ دینے کا اعلان نہیں کیا۔ البتہ اس سال ایک ہزار سے کچھ زاید شامی مہاجرین کو روس میں عارضی طور پر پناہ دی گئی ہے۔ نتیجتاً وہ پریشان حال ہیں انھیں کوئی ملازمت دینے کو تیار نہیں، بہت کم اجرت پاتے ہیں، احتجاج کرتے ہیں تو سننے کو ملتا ہے ''شام واپس چلے جاؤ۔''
چند روز قبل روس کے متعلقہ محکمے کی جانب سے ایک مضحکہ خیز اعلان جاری کیا گیا۔ ''ہم شامی مہاجرین کو قبول کرنے کے لیے تیار ہیں، بہ شرطے کہ وہ قانون کی پابندی کریں۔'' پھر یہ بھی اضافہ کیا گیا کہ ''در اصل، روسی فیڈریشن کے مقابلے میں یورپی ممالک شامی مہاجرین کے لیے زیادہ موزوں ہیں۔''
یورپین کمیشن نے شامی مہاجرین کی آباد کاری کے لیے یورپی یونین کے ممالک کے لیے لازمی کوٹا الاٹ کیا تھا، جس کے تحت جرمنی، فرانس، اسپین ہنگری، یونان اور اٹلی کے راستے آنے والے ایک لاکھ بیس ہزار مہاجرین میں سے 60 فی صد کو آباد کیا جائے گا۔فرانس نے دو سال میں 24 ہزار افراد کی آباد کاری پر آمادگی ظاہر کی ہے۔
اسپین سے کہا جارہا ہے کہ وہ پندرہ ہزار مہاجروں کو قبول کرلے۔ انگلینڈ 20 ہزار شامی مہاجرین کو مستقل رہائش دے گا، لیکن فوری طور پر نہیں، بلکہ یہ سلسلہ 2020 میں مکمل ہوگا، یعنی وہ ہر سال چار ہزار شامی مہاجرین کو قبول کر رہا ہے۔
حیرت انگیز مثال جرمنی نے قائم کی ہے۔ منصوبے کے مطابق جرمنی سے صرف31 ہزار مہاجرین قبول کرنے کے لیے کہا گیا تھا لیکن جرمنی کی حکومت نے کہا ہے کہ وہ ہر سال پانچ لاکھ شامی مہاجرین قبول کرنے کو تیار ہے۔ اندازہ ہے کہ 2015 کے اختتام تک ہاں آٹھ لاکھ شامی مہاجرین آباد ہوچکے ہوں گے۔
سوئیڈن کی آبادی صرف 98 لاکھ ہے، لیکن وہ بھی فیاضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پچاس ہزار مہاجرین کو پناہ دے چکا ہے۔ یونان، اٹلی اور آسٹریا میں بھی ہزاروں لوگ پناہ لینے میں کام یاب ہوچکے ہیں۔ ان دونوں ممالک میں کشتیوں کے ذریعے آنے والے مہاجرین کی تعداد زیادہ ہے۔سوئیڈن کے برعکس ڈنمارک میں برسراقتدار دائیں بازو کی حکومت مہاجرین کو قبول کرنے سے یک سر انکار کررہی ہے، بلکہ اس نے ایک تشہیری مہم مہاجروں کے خلاف چلا رکھی ہے، اور جو لوگ وہاں پناہ لینے کے لیے پہنچتے ہیں انھیں جرمنی کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے۔
سلوواکیا نے جہاں فاشسٹ گروپوں نے بغاوت کر رکھی ہے، دو ہزار مہاجرین کو پناہ دینے کا وعدہ کیا ہے، لیکن وہ مسلمانوں کو نہیں، صرف عیسائیوں کو پناہ دے گا۔ سلوواکیا کی طرح چیک دی پبلک کے لیڈر بھی اپنا کوٹا پورا کرنے سے انکار کررہے ہیں۔ انتہائی دائیں بازو کے ایک لیڈر نے تو یہ مطالبہ کیا ہے کہ مہاجروں کو ''ارتکازی کیمپوں'' میں رکھا جائے۔
ہنگری مہاجروں کو روکنے کے لیے اپنی جنوبی سرحد مکمل طور پر بند کرچکا ہے۔ وہاں کی قدامت پسند دائیں بازو کی حکومت خاص طور پر مسلمان مہاجرین کو پناہ دینے سے یک سر انکار کر رہی ہے، اور وہاں کوئی مہاجر آنکلتا ہے تو اسے آسٹریا کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے۔وینزویلا جہاں پہلے ہی51لاکھ کولمبین مہاجرین موجود ہیں، بیس ہزار شامی مہاجرین قبول کرنے کا اعلان کرچکا ہے۔ 2011 میں شام میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے برازیل بیس ہزار شامی مہاجروں کو پناہ دے چکا ہے۔
وہاں کے صدر دیلماروسیف نے اعلان کیا ہے کہ ''ہم کُھلی بانہوں سے شامی مہاجرین کا خیر مقدم کریں گے۔'' یوروگوئے اور ارجنٹائن بھی شامی مہاجروں کی آباد کاری کے لیے اپنے منصوبوں کا آغاز کرچکے ہیں۔ آسٹریلیا نے اعلان کیا ہے کہ وہ بارہ ہزار شامی اور عراقی جلاوطنوں کو آباد کرے گا۔ کینیڈا نے تین سال کے دوران دس ہزار شامی مہاجرین کو آباد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ وہاں مختلف حلقوں کی جانب سے ایک پٹیشن حکومت کو پیش کی گئی ہے کہ کم از کم پچاس ہزار مہاجرین کو قبول کرلیا جائے۔
مقدس ویٹی کن سٹی کی کل آبادی صرف 842نفوس پر مشتمل ہے، اور اس نے بھی دوشامی مہاجرین قبول کرنے کا اعلان کیا ہے۔ آبادی کے تناسب کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ویٹی کن سب سے آگے نکل گیا ہے۔اس اعلان کے بعد ماں باپ اور دو بچوں پر مشتمل ایک شامی مہاجر گھرانا ویٹی کن سٹی پہنچ چکا ہے۔
سارا منظر بلا کم و کاست سطور بالا میں پیش کر دیا گیا ہے۔ اس ساری صورت حال میں امریکا اور عرب سلاطین کا رویہ کس قدر مایوس کن ہے، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ امریکا اور ان کے یہ وفادار عرب اتحادی پستی کے ایک پلیٹ فارم پر ساتھ ساتھ کھڑے ہیں۔