پاکستان کو حقیقی خطرہ کس سے ہے

ملالہ پر کچھ ایسے الزامات بھی لگائے گئے جنھیں دہراتے ہوئے بھی شرم محسوس ہوتی ہے


Zamrad Naqvi October 21, 2012
زمرد نقوی

صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ملالہ پر حملہ پاکستان کی تمام بیٹیوں اور تہذیب پر حملہ ہے۔

ملالہ پر لکھے گئے پچھلے کالم کا ردعمل انتہائی افسوس ناک اور حیران کن تھا۔ بعض حضرات تو یہ تسلیم کرنے سے سرے سے ہی انکاری تھے کہ ملالہ پر حملہ طالبان نے کیا ہے۔ جب انھیں کہا گیا اگر یہ سچ نہیں ہے کہ طالبان اس حادثے میں ملوث ہیں تو انھیں چاہیے کہ اس کی تردید کریں جب کہ صورتحال یہ ہے کہ وہ نہ صرف اقرار کر رہے ہیں بلکہ وہ اپنے اس اقدام کو عین اسلام قرار دیتے ہیں۔ بعض نابغے ایسے بھی ہیں جن کا خیال ہے کہ ملالہ پر سرے سے کوئی قاتلانہ حملہ نہیں کیا گیا۔ یہ سب ڈراما ہے اور لوگوں کو بے وقوف بنانے کے لیے ٹیلیویژن پر فلم چلائی جا رہی ہے۔

ملالہ پر کچھ ایسے الزامات بھی لگائے گئے جنھیں دہراتے ہوئے بھی شرم محسوس ہوتی ہے۔ یہ لوگ اس حد تک بھی گر سکتے ہیں عقل حیران و پریشان ہے۔ پھر یہ سمجھ میں آیا کہ یہ وہ ذہنیت ہے جو جب علم اور دلیل کے میدان میں شکست کھاتی ہے تو مد مقابل کو کافر، غدار، آوارہ اور بدچلن کے القابات سے نوازتی ہے۔ ملالہ پر یہ بھی الزام لگایا گیا کہ وہ امریکا کے ساتھ مل کر طالبان کے خلاف سازش کر رہی تھی، اس کے لیے اس تصویر کا سہارا لیا گیا جس میں وہ اعلیٰ امریکی سفارت کار ہالبروک سے ملاقات کر رہی تھی حالانکہ اس وقت اس کی عمر فقط دس سال تھی۔

سچ تو یہ ہے کہ ملالہ پر حملہ کرنے والوں کا اصل چہرہ مسلمانوں کے سامنے بے نقاب ہو گیا ہے جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ وہ امریکی صدر اوباما کو اپنا آئیڈیل کہتی تھی تو بھی اس میں قصور اس کمسن بچی ملالہ کا نہیں خود طالبان کا ہے کہ انھوں نے اپنے آپ کو ملالہ کے سامنے آئیڈیل روپ میں کیوں پیش نہیں کیا۔ اسکولوں کو جلانے تباہ کرنے اور سوات کو کھنڈر بنانے کے بعد تو یہ لوگ ملالہ کے آئیڈیل نہیں بن سکتے تھے جب کہ سوات پر طالبان کے قبضے سے پہلے سوات ایک پُر امن آئیڈیل وادی تھی جہاں کسی کو کسی سے ڈر تھا نہ خوف اور زندگی وہاں پر اپنی پوری دلکشی اور خوبصورتی سے رواں دوں تھی۔

میں نے اب تک ملالہ کے حوالے سے ایک بھی تحریر ایسی نہیں پڑھی جس میں ملالہ پر حملے کی حمایت اور تعریف توصیف کی گئی ہو یہاں تک کہ وہ بھی اس کی مذمت کرنے پر مجبور ہیں جو طالبان کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ وہ ''بے چارے'' اگر چاہیں بھی تو اس کی کھل کر حمایت نہیں کر سکتے۔ ہر رنگ و نسل، زبان، مذہب اور خطے سے بالاتر ہو کر پوری دنیا میں یہ مذمت اتنی شدید ہے کہ اور تو اور جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین اور مولانا فضل الرحمن کو بھی اس واقعے کی مذمت کرنا پڑی۔

اس پس منظر میں متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے فوج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسلح افواج آگے بڑھیں اور دہشت گردوں کو نیست و نابود کر دیں۔ پاکستان کے 18 کروڑ عوام آپ کے پیچھے ہوں گے۔ فیصلے کی گھڑی آ پہنچی ہے۔ پوری قوم کو اب یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ انھیں طالبان کا پاکستان چاہیے یا قائداعظم کا پاکستان۔ قوم کو اب علم، انسانیت اور پاکستانیت پر حملہ کرنے والے سفاک دہشت گردوں کے خلاف میدان عمل میں آنا ہو گا۔ تمام سیاستدانوں کو باہمی اختلافات فراموش کر کے خدارا پاکستان کو بچانے کے نکتے پر جمع ہو جانا چاہیے۔

الطاف حسین کی تقریر کو چھپے ایک ہفتہ ہونے کو آ رہا ہے لیکن کسی نے انھیں غلط قرار نہیں دیا۔۔۔۔ ہے نا سوچنے والی بات۔ انھوں نے مزید کہا کہ وہ وقت آنے والا ہے کہ جو انتہا پسند عناصر قتل و غارت گری کا جواز پیش کرتے ہیںانھیں پاکستان کے کسی علاقے میں بھی جائے پناہ نہیں ملے گی۔ اس موقع پر ڈرون حملوں کے خلاف قرارداد بھی پیش کی گئی۔ الطاف حسین نے کہا کہ پاکستان میں ان علمائے حق کی تعداد بہت کم رہ گئی ہے جو اسلام کی حقیقی تعلیم دے رہے ہیں۔ انھوں نے علماء کے کوائف جمع کرنے کے حوالے سے اپنے بیان میں کہا کہ یہ صرف ان علماء کے بارے میں ہے جو مساجد اور مدرسوں میں نئے آئے ہیں تا کہ حکومت ان کے بارے میں چھان بین کر سکے کہ یہ کون ہیں کہاں سے آئے ہیں۔

انتہا پسندوں کے سرپرستوںاور حمایتیوں کو یہ ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ انھوں نے دنیا میں جو تصورِ اسلام پیش کیا ہے اس کے بل بوتے پر وہ کبھی بھی پاکستان پر قبضہ نہیں کر سکتے۔ اگر کبھی یہ حادثہ ہونے کا امکان بھی پیدا ہوا تو روس اور چین امریکا سے تمام تر اختلافات کے باوجود اس کے ساتھ ایک صف میں کھڑے ہوں گے۔ ایسا ہوا تو پھر پاکستان کا کیا بنے گا، اسے بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیا طالبان کے سرپرست اور حمایتی یہی چاہتے ہیں انھیں اپنے آپ سے سوال کرنا چاہیے۔۔۔ پاکستان اس وقت تک ہی محفوظ ہے جب تک پاکستان میں اعتدال پسند غالب ہیں۔

15 اکتوبر کے کالم میں میں نے ملالہ کے حوالے سے 17 اکتوبر کی تاریخ کا ذکر کیا تھا۔ 17 اکتوبر اہم تاریخ تھی جس نے ملالہ کی زندگی اور صحت کا فیصلہ کرنا تھا۔ اللہ کا شکر ہے کہ وہ اس نازک مقام سے بخیر و عافیت گزر گئی۔ لیکن ابھی کئی اور نازک مقام آنے ہیں۔ ہمیں دعا کرنی چاہیے کہ اﷲ تعالیٰ ان مقامات سے بھی اسے بخیر و عافیت گزار دے۔ ملالہ کے حوالے سے مزید اہم تاریخیں 23-21-20 اکتوبر 27-26 اور 29 اکتوبر ہیں۔

سیل فون:۔ 0346-4527997

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں