حقیقی مسائل کیا ہیں
عوام کے حقیقی مسائل کی جانب متوجہ ہونے اور ان کو حل کرنے کے بجائے نان ایشوز پر وچار جاری ہے
عوام کے حقیقی مسائل کی جانب متوجہ ہونے اور ان کو حل کرنے کے بجائے نان ایشوز پر وچار جاری ہے، یعنی جن سے عوام کے مسائل کا کوئی تعلق نہیں ہے ان پربحث ومباحثہ کیے جارہے ہیں، اگر ہم فوری مسائل کو لے لیں، جیسا کہ دہشت گردی اورتوانائی۔اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ دہشت گردی کیونکر،کب اورکس نے شروع کی۔ ہم درخت کی شاخوں کوکاٹ رہے ہیں۔ ایک شاخ کٹتی ہے تودس شاخیں نکل آتی ہیں۔ ہمیں درخت کو جڑسے اکھاڑنا پھیکنا ہے ۔ تسلیم کرلیں کہ پاکستان پرسکون اورامن ملک تھا۔
اپریل انیس سواٹھتر میں خلق پارٹی(عوامی پارٹی) کے رہنما استاد اکبرخیبرخان کو افغانستان کے بادشاہ کے ایجنٹ نے شہیدکیا، جس کے ردعمل میں ہزاروں عوام سڑکوں پہ نکل آئے اورفوج نے عوام کا ساتھ دیا اوربادشاہت کا خاتمہ کر کے عبوری انقلابی کونسل تشکیل دی۔ جس نے انتخابات کروائے۔اس جمہوری اورسوشلسٹ حکومت نے جاگیرداری ختم کر کے زمین کسانوں میں بانٹ دی۔ سودی نظام کو ختم کردیا۔ ولور(بردہ فرو شی) کو ممنوع قراردیا، پوست کی کاشت بندکروا دی، سامراجی اثاثوں کو ضبط کر کے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے رشتہ ختم کردیا۔
ان عوام دوست اقدامات سے امریکی سامراج چکرا گیا اور اس نے طالبان کو افغانستان میں داخل کروایا۔ اب جب جہادیوں کو ڈالر ملنے بند ہوگئے تو پاکستان کی ریاست پر وہ خود حملہ آور ہوگئے۔پھر شمالی وزیرستان میں آپریشن کیا گیا جب کہ آپریشن سے قبل تمام رجعتی سیاسی جماعتیں اس فوجی آپریشن کی مخالفت کرتی رہیں۔ یہی صورت حال کراچی کی ہے، یہاں ریا ستی پالیسیاں ہی رجعتی مذہبی جماعتوں اور لسانی جماعتوں کوعوام پر مسلط کرواتی رہیں اور جب قتل غارت گری زیادہ ہونے لگی تو آپریشن شروع ہوا۔ درحقیقت جب تک ان واقعات کے خاتمے کے حقیقی اسباب تلاش نہیں کیے جائیں گے اور ان کی معاونت کرنے والوں کا قلع قمع نہ کیا جائے گا اس وقت تک حتمی نتائج برآمد نہیں ہوسکتے ہیں۔
دہشت گردی کے بعد توانائی کا مسئلہ انتہائی اہم ہے۔ آئی پی پی سے پاکستانی حکومت نے توانائی کا معاہدہ کیا جب کہ اسی ادارے سے کم پیسوں میں انڈیا اور بنگلہ دیش نے بھی معاہدے کیے، جوہم سے سستی بجلی حاصل کر رہے ہیں۔ ہم غیرپیداواری اخراجات میں کمی کر کے پانی، شمسی اور ہوائی بجلی با آسانی حاصل کرسکتے ہیں۔ کراچی میں کے ای ایس سی کے ہزاروں مزدوروں نے مہینوں نجکاری کے خلاف اور بوگس بلنگ کے خلاف مسلسل احتجاج کیا مگر حکومت نے اسے ایک عرب سرمایہ دارکو بیچ دیا۔ پاکستان سے کیے گئے کسی بھی معاہدے پر عمل درآمد نہیں کیا۔
نتیجتاً بجلی کے نرخوں میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے، ہزاروں مزدور ملازمت سے نکالے جاچکے ہیں اور بوگس بلنگ کی نشان دہی کے باوجود بوگس بلنگ جاری کر نے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ صارفین کا کچومر نکل گیا ہے۔ ا گر ملک بھرمیں توانائی کو قومی ملکیت میں لے کر محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں دے دیا جائے تو ایک ہفتے میں بجلی کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔اس کے علاوہ ایران اورہندوستان سے توانائی کے فوری معاہدے کرکے بھی مسئلے کا حل نکالا جاسکتا ہے مگر ہم واشنگٹن کی طرف دیکھنے کی علت میں مبتلا ہیں ۔
عوام کے بنیادی مسائل ہیں، آٹا،چاول،چینی، دالیں اور ٹرانسپورٹ۔ ان مسائل کو بھی سامراجی مفادات کے لیے جوں کا توں نہ صرف برقرار رکھا جا رہا ہے بلکہ ان کے مسائل میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ دفاعی بجٹ میں ہر سال اضافہ ہوتا ہے جب کہ بیس کروڑ انسانوں کے جینے کا حق چھینا جا رہا ہے۔ گندم سستے داموں کسانوں سے خریدی جاتی ہے اورعوام کو پینتالیس روپے کلو آٹا بیچا جا رہا ہے۔
اس کا حل یہ ہے کہ بیچ کے آڑھتی کو نکال باہر کیا جائے اورگندم کی تجارت اور ترسیل حکومت اپنے ہاتھوں میں لے ۔ لاکھوں میٹرک ٹن چاول برآمد کیا جاتا ہے، اگر اس کی بھی حکومت آڑھتی کی اجارہ دا ری ختم کر کے اپنے تحویل میں لے لے اور لوگوں کی ضروریات پوری کر کے پھر برآمد کرے تو مسئلہ فوراً حل ہوسکتا ہے۔ دوسری طرف پاکستان کے بڑے جا گیردار اور زمیندار جو پچاس ایکڑ سے ہزاروں ایکڑ زمین رکھتے ہیں۔ زمین کو سال بھرکے لیے ٹھیکے پر دے دیتے ہیں، بے زمین کسا نوں سے ڈھائی تا تین سوروپے یومیہ پرکام لیتے ہیں۔ ان کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ اب بھلا آ پ خود بتائیں کہ صبح وشام تک محنت مزدوری کر کے ڈھائی سورو پے میں کیا گذارا ہوجائے گا؟ جی نہیں یہ بے زمین کسان نیم فاقہ کشی کی زندگی گذار نے پر مجبورہیں۔ان کی دہاڑی کم از کم پانچ سو روپے ہونی چاہیے ۔مزدور کے اوقات بھی تلخ ہیں۔
اب رہی چینی۔ چینی کے بیشتر مل مالکان سیا سی اکابرین ہیں۔ وہ انتہا ئی کم قیمت میں کسانوں سے گنا خریدتے ہیں اور بہت زیادہ قیمتوں میں چینی بیچتے ہیں۔ یہ چینی تیس رو پے کلو میں باآسا نی بیچی جاسکتی ہے۔ مگر اس لوٹ کو کون روکے گا؟ جو رکھوالے ہیں، وہی چینی کی فیکٹریوں کے مالکان ہیں اس کا ایک ہی حل ہے کہ ساری چینی کی ملوں کو قومی ملکیت میں لے لیا جائے اور محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں چلایا جائے۔
ہماری زمین تیل کے پیداوار کے لیے بڑی سازگار ہے۔ بلوچستان میں زیتون کی کاشت ہوتی ہے، اسے بڑ ے پیمانے پر بڑھایا جاسکتا ہے۔ سرسوں جو ہم صدیوں سے استعمال کرتے آرہے ہیں، سامراجی فتویٰ کی وجہ سے اس کی کاشت نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق مونگ پھلی کا تیل
اگر ساری زندگی استعمال کیا جائے توکینسرکے خطرات سے بچا جاسکتا ہے۔ سورج مکھی،کینولا اور پام کی کاشت ہمارے ہاں بہت محدود پیمانے میں ہوتی ہے۔اگر اسے وسعت دی جائے توخوردنی تیل برآمد کرنے کی ضرورت نہیں اور سستا تیل فراہم کیا جاسکتا ہے۔ تیل ،گھی کی ملوں کی نجکاری کرنے سے قبل تیل اٹھارہ روپے فی کلو تھا اور اب کم ازکم دو سو روپے کلو ہے۔ ہمارے پڑوسی ممالک ہندوستان، ایران اور چین میں شمسی توانائی سے ریل گاڑیاں چلتی ہیں اور یہ کام پاکستان میں بخوبی کیا جاسکتا ہے۔
اگر ہم کاروں پر پابندی لگا کر صرف سرکلر ٹرین، ڈبل ڈیکر بسیں، ٹرام گاڑیاں اور سائیکلوں سے سفرکرنے کی سہولت فراہم کریں تو ٹرانسپورٹ کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ جہاں تک دالوں کا تعلق ہے تو پاکستان میں ہر قسم کی دالیں پیدا ہوتی ہیںجب کہ ہم دالیں ڈیڑھ سو رو پے سے لے کر دوسورو پے فی کلو خریدنے پر مجبورہیں۔ موٹروے، میٹروبس، غیرپیداواری اخراجات اور وزیروں کی شان بان میں کمی کر کے دالوں کی پیداوار کو بڑھایا جاسکتا ہے ۔ یہ سارے کام اس موجودہ گلے سڑے سرمایہ دارا نہ نظام میں رہتے ہوئے بھی کیے جاسکتے ہیں۔ ہرچند کہ مسائل کا مکمل حل ایک آزاد سوشلسٹ نظام میں مضمر ہے۔
اپریل انیس سواٹھتر میں خلق پارٹی(عوامی پارٹی) کے رہنما استاد اکبرخیبرخان کو افغانستان کے بادشاہ کے ایجنٹ نے شہیدکیا، جس کے ردعمل میں ہزاروں عوام سڑکوں پہ نکل آئے اورفوج نے عوام کا ساتھ دیا اوربادشاہت کا خاتمہ کر کے عبوری انقلابی کونسل تشکیل دی۔ جس نے انتخابات کروائے۔اس جمہوری اورسوشلسٹ حکومت نے جاگیرداری ختم کر کے زمین کسانوں میں بانٹ دی۔ سودی نظام کو ختم کردیا۔ ولور(بردہ فرو شی) کو ممنوع قراردیا، پوست کی کاشت بندکروا دی، سامراجی اثاثوں کو ضبط کر کے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے رشتہ ختم کردیا۔
ان عوام دوست اقدامات سے امریکی سامراج چکرا گیا اور اس نے طالبان کو افغانستان میں داخل کروایا۔ اب جب جہادیوں کو ڈالر ملنے بند ہوگئے تو پاکستان کی ریاست پر وہ خود حملہ آور ہوگئے۔پھر شمالی وزیرستان میں آپریشن کیا گیا جب کہ آپریشن سے قبل تمام رجعتی سیاسی جماعتیں اس فوجی آپریشن کی مخالفت کرتی رہیں۔ یہی صورت حال کراچی کی ہے، یہاں ریا ستی پالیسیاں ہی رجعتی مذہبی جماعتوں اور لسانی جماعتوں کوعوام پر مسلط کرواتی رہیں اور جب قتل غارت گری زیادہ ہونے لگی تو آپریشن شروع ہوا۔ درحقیقت جب تک ان واقعات کے خاتمے کے حقیقی اسباب تلاش نہیں کیے جائیں گے اور ان کی معاونت کرنے والوں کا قلع قمع نہ کیا جائے گا اس وقت تک حتمی نتائج برآمد نہیں ہوسکتے ہیں۔
دہشت گردی کے بعد توانائی کا مسئلہ انتہائی اہم ہے۔ آئی پی پی سے پاکستانی حکومت نے توانائی کا معاہدہ کیا جب کہ اسی ادارے سے کم پیسوں میں انڈیا اور بنگلہ دیش نے بھی معاہدے کیے، جوہم سے سستی بجلی حاصل کر رہے ہیں۔ ہم غیرپیداواری اخراجات میں کمی کر کے پانی، شمسی اور ہوائی بجلی با آسانی حاصل کرسکتے ہیں۔ کراچی میں کے ای ایس سی کے ہزاروں مزدوروں نے مہینوں نجکاری کے خلاف اور بوگس بلنگ کے خلاف مسلسل احتجاج کیا مگر حکومت نے اسے ایک عرب سرمایہ دارکو بیچ دیا۔ پاکستان سے کیے گئے کسی بھی معاہدے پر عمل درآمد نہیں کیا۔
نتیجتاً بجلی کے نرخوں میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے، ہزاروں مزدور ملازمت سے نکالے جاچکے ہیں اور بوگس بلنگ کی نشان دہی کے باوجود بوگس بلنگ جاری کر نے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ صارفین کا کچومر نکل گیا ہے۔ ا گر ملک بھرمیں توانائی کو قومی ملکیت میں لے کر محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں دے دیا جائے تو ایک ہفتے میں بجلی کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔اس کے علاوہ ایران اورہندوستان سے توانائی کے فوری معاہدے کرکے بھی مسئلے کا حل نکالا جاسکتا ہے مگر ہم واشنگٹن کی طرف دیکھنے کی علت میں مبتلا ہیں ۔
عوام کے بنیادی مسائل ہیں، آٹا،چاول،چینی، دالیں اور ٹرانسپورٹ۔ ان مسائل کو بھی سامراجی مفادات کے لیے جوں کا توں نہ صرف برقرار رکھا جا رہا ہے بلکہ ان کے مسائل میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ دفاعی بجٹ میں ہر سال اضافہ ہوتا ہے جب کہ بیس کروڑ انسانوں کے جینے کا حق چھینا جا رہا ہے۔ گندم سستے داموں کسانوں سے خریدی جاتی ہے اورعوام کو پینتالیس روپے کلو آٹا بیچا جا رہا ہے۔
اس کا حل یہ ہے کہ بیچ کے آڑھتی کو نکال باہر کیا جائے اورگندم کی تجارت اور ترسیل حکومت اپنے ہاتھوں میں لے ۔ لاکھوں میٹرک ٹن چاول برآمد کیا جاتا ہے، اگر اس کی بھی حکومت آڑھتی کی اجارہ دا ری ختم کر کے اپنے تحویل میں لے لے اور لوگوں کی ضروریات پوری کر کے پھر برآمد کرے تو مسئلہ فوراً حل ہوسکتا ہے۔ دوسری طرف پاکستان کے بڑے جا گیردار اور زمیندار جو پچاس ایکڑ سے ہزاروں ایکڑ زمین رکھتے ہیں۔ زمین کو سال بھرکے لیے ٹھیکے پر دے دیتے ہیں، بے زمین کسا نوں سے ڈھائی تا تین سوروپے یومیہ پرکام لیتے ہیں۔ ان کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ اب بھلا آ پ خود بتائیں کہ صبح وشام تک محنت مزدوری کر کے ڈھائی سورو پے میں کیا گذارا ہوجائے گا؟ جی نہیں یہ بے زمین کسان نیم فاقہ کشی کی زندگی گذار نے پر مجبورہیں۔ان کی دہاڑی کم از کم پانچ سو روپے ہونی چاہیے ۔مزدور کے اوقات بھی تلخ ہیں۔
اب رہی چینی۔ چینی کے بیشتر مل مالکان سیا سی اکابرین ہیں۔ وہ انتہا ئی کم قیمت میں کسانوں سے گنا خریدتے ہیں اور بہت زیادہ قیمتوں میں چینی بیچتے ہیں۔ یہ چینی تیس رو پے کلو میں باآسا نی بیچی جاسکتی ہے۔ مگر اس لوٹ کو کون روکے گا؟ جو رکھوالے ہیں، وہی چینی کی فیکٹریوں کے مالکان ہیں اس کا ایک ہی حل ہے کہ ساری چینی کی ملوں کو قومی ملکیت میں لے لیا جائے اور محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں چلایا جائے۔
ہماری زمین تیل کے پیداوار کے لیے بڑی سازگار ہے۔ بلوچستان میں زیتون کی کاشت ہوتی ہے، اسے بڑ ے پیمانے پر بڑھایا جاسکتا ہے۔ سرسوں جو ہم صدیوں سے استعمال کرتے آرہے ہیں، سامراجی فتویٰ کی وجہ سے اس کی کاشت نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق مونگ پھلی کا تیل
اگر ساری زندگی استعمال کیا جائے توکینسرکے خطرات سے بچا جاسکتا ہے۔ سورج مکھی،کینولا اور پام کی کاشت ہمارے ہاں بہت محدود پیمانے میں ہوتی ہے۔اگر اسے وسعت دی جائے توخوردنی تیل برآمد کرنے کی ضرورت نہیں اور سستا تیل فراہم کیا جاسکتا ہے۔ تیل ،گھی کی ملوں کی نجکاری کرنے سے قبل تیل اٹھارہ روپے فی کلو تھا اور اب کم ازکم دو سو روپے کلو ہے۔ ہمارے پڑوسی ممالک ہندوستان، ایران اور چین میں شمسی توانائی سے ریل گاڑیاں چلتی ہیں اور یہ کام پاکستان میں بخوبی کیا جاسکتا ہے۔
اگر ہم کاروں پر پابندی لگا کر صرف سرکلر ٹرین، ڈبل ڈیکر بسیں، ٹرام گاڑیاں اور سائیکلوں سے سفرکرنے کی سہولت فراہم کریں تو ٹرانسپورٹ کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ جہاں تک دالوں کا تعلق ہے تو پاکستان میں ہر قسم کی دالیں پیدا ہوتی ہیںجب کہ ہم دالیں ڈیڑھ سو رو پے سے لے کر دوسورو پے فی کلو خریدنے پر مجبورہیں۔ موٹروے، میٹروبس، غیرپیداواری اخراجات اور وزیروں کی شان بان میں کمی کر کے دالوں کی پیداوار کو بڑھایا جاسکتا ہے ۔ یہ سارے کام اس موجودہ گلے سڑے سرمایہ دارا نہ نظام میں رہتے ہوئے بھی کیے جاسکتے ہیں۔ ہرچند کہ مسائل کا مکمل حل ایک آزاد سوشلسٹ نظام میں مضمر ہے۔