ہم ابھی صدیوں پیچھے ہیں

اکتوبر کے اوائل کے یہی دن تھے، اٹھائیس سال پہلے کی بات ہے


Shirin Hyder October 04, 2015
[email protected]

اکتوبر کے اوائل کے یہی دن تھے، اٹھائیس سال پہلے کی بات ہے، جرمنی کے شہر ہمبرگ سے ہم نے ویک اینڈ پر مشرقی برلن جانے کا پروگرام بنایا، اس وقت تک دیوار برلن مشرقی اور مغربی جرمنی کے درمیان سرحد کے طور پر موجود تھی، برلن اور دیوار برلن کو دیکھنے کا شوق ہمیں اس سفر پر لے گیا۔جہاں سے ہم نے برلن جانے والی سڑک لی وہاں سے سڑک کے دونوں اطراف خار دار تاروں سے بنی بلند دیوار نظر آنے لگی۔

سڑک کے تقسیم ہونے کے دو کلومیٹر کے بعد وہ چیک پوسٹ آئی تھی جس پر ہم کھڑے تھے، جہاں مسلح محافظ اپنے ہتھیار تانے کھڑے تھے، ہماری گاڑی کو روکا گیا، ہم نے گاڑی کے شیشے اتار لیے، اوائل سرما کی ہلکی ہلکی خنکی کا احساس ہوا، بچیوں کو سوتے میں ہی گاڑی میں ڈالا تھا اور وہ سو رہی تھیں، ایک باوردی شخص آیا اور صاحب سے ہمارے پاسپورٹ لیے اور چلا گیا، پاسپورٹ کا مختلف رنگ کافی تھا کہ ہماری باری جلد آ گئی ، وہی شخص واپس آیا اور گاڑی آگے لانے کو کہا۔

صاحب کو گاڑی سے باہر نکلنے کو کہا گیا، ایک کرخت سے چہرے والے محافظ نے آگے بڑھ کر گاڑی کا اندر باہر سے جائزہ لینا شروع کیا اور ساتھ ساتھ وہ اپنے ہاتھ میں پکڑے نوٹ پیڈ پر کچھ لکھ رہا تھا، بڑی بیٹی جاگ کر اپنی نشست پر بیٹھی تھی اور چھوٹی کمبل اوڑھے سو رہی تھی۔

... موبائل فون یا ٹرانسمیٹر؟... مغربی جرمنی کی کافی یا مشروبات، اپنے سفر کے استعمال سے زائد؟... کوئی نشہ آور ادویات، الکحل یا سگریٹ، اگر ہیں تو کتنے؟... ایسی اشیاء جو ترسیل اسمگلنگ کے زمرے میں آتی ہیں؟

سارے سوالات کے جوابات نفی میں پا کر اس کی تسلی ہوئی یا نہیں مگراس نے گاڑی کے اندر ٹارچ کی روشنی مار کر دیکھا، ایک مسکراہٹ اچھالی جس نے اس کے چہرے کی کرختگی میں مزید اضافہ کر دیا تھا۔ صاحب واپس لوٹے تو ان کے ہاتھ میں ہمارے پاسپورٹ تھے اور کچھ اور کاغذات بھی، انھیں گاڑی کا بونٹ اور ڈکی کھولنے کو کہا گیا اور ساری چیکنگ کے بعد ایک کارڈ اورایک کاغذ دیا گیا جسے انھوں نے بغیر دیکھے اپنے پاس رکھ لیا،میں نے کارڈ لے کر پڑھا ، اس پر اس جگہ سے منزل مقصود تک کا فاصلہ، ہماری گاڑی کا نمبر، اس سفر کے لیے جو ٹال ٹیکس ہمیں ادا کرنا تھا اور سفر بخیریت کٹنے کی دعا!!!

روشنی پھیلنا شروع ہو گئی تھی، ہم اشارہ پاتے ہی دوبارہ روانہ ہوئے، خاردار تاروں کے بیچوں بیچ سڑک پر سفر کرتے ہوئے میں اطراف میں دیکھ رہی تھی، یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے کسی سفاری پارک میں انسانوں کو جانوروں سے محفوظ رکھنے کے لیے سڑک کو محفوظ کیا گیا ہو۔ جا بجا گشت کرتے ہوئے مسلح محافظ، کئی مقامات پر کتوں کی زنجیریں تھامے گشت کرتے ہوئے، لہلہاتے کھیت، دور دور تک آبادی کا نام و نشان تک نہ تھا، ویرانی سی ویرانی اور سکوت سا سکوت تھا۔

اس بوریت بھری سفر کے اختتام پر ہم مشرقی برلن کے قریب پہنچ چکے تھے ، آخری پینتیس کلومیٹر کے فاصلے میں ہم تین چیک پوسٹوں سے گزرے ، جہاں ہماری گاڑی کی تلاشی لی گئی، ایک جگہ ٹال ٹیکس ادا کیا، اب ہم سرحد پر پہنچ چکے تھے جہاں اسی طرح سے چیک پوسٹ بنی ہوئی تھی جس طرح کی چیک پوسٹ سے ہم سفر کے آغاز میں گزرے تھے۔وہاں پہنچتے ہی ایک مسلح محافظ اپنے ساتھی کے ہمراہ ہمارے قریب آیا اور جرمن زبان میں اس کاغذ کا مطالبہ کیا جو ہمیں روانگی والی چیک پوسٹ پر دیا گیا تھا، اسے کھول کر پڑھا، ہم سب کو دیکھا اور چھوٹی بیٹی کے بارے میںپوچھا کہ وہ کون تھی!!

'' میری بیٹی ہے '' صاحب نے بتایا۔

'' مگر یہ آغاز سفر پر آپ کے ساتھ نہیں تھی، سفر کے دوران یہ کہاں سے آ گئی؟ '' اس نے سختی سے کہا تو میں خوفزدہ ہو گئی۔

'' یہ ہماری ہی بیٹی ہے، اس کا نام آپ میری بیوی کے پاسپورٹ پر پڑھ سکتے ہیں اور یہ ہمارے ساتھ ہی تھی، غالبا سو رہی ہو گی اس لیے کسی کو نظر نہیں آئی! '' صاحب نے وضاحت کی، اس نے پاسپورٹ لے کر چیک کیا، اس کے نام کے ہجے کیے، اس بلایا اور جرمن میں کچھ کہا، بچی '' ماما!! '' کہہ کرسہم کر مجھ سے لپٹ گئی تو شاید اس کی تسلی ہو گئی تھی۔ پھر بھی اس نے پہلی چیک پوسٹ پر اپنے ہاتھ میں پکڑے سیٹ سے فون کیا، گاڑی کا نمبر، رنگ اور ماڈل، ہماری تفصیلات، پاسپورٹ نمبر اور ہمارے اس چیک پوسٹ پر پہنچنے کا وقت بتا کران سے تصدیق کی اور ہمیں جانے کو کہا، ہم اتنا وقت ضایع ہونے کے با وجود اسے شکریہ کہہ کر روانہ ہوئے۔

ایک ایک لمحے کی تفصیل کے ساتھ مجھے یہ سب اس وقت یاد آ گیا جب لاہور جانے کے لیے موٹر وے کے ٹال پلازہ سے صاحب نے ٹال ٹیکس کا کارڈ لے کر میرے حوالے کیا، میں نے اس کارڈ کو پہلے کبھی اتنے غور سے دیکھا ہی نہ تھا، اس روز دیکھا، بینکوں کے کارڈ کے سائزکا عام سے کارڈ بورڈ کا بنا ہوا کارڈ، اس کی سامنے کی سمت پر پیلے رنگ سے فیصل مسجد، درہء خیبراور شالامار باغ کے سکیچ بنے ہوئے ہیں، ساتھ NHA کے الفاظ جا بجا چھپے ہوئے ہیں اور کناروں پر National highway authority لکھا ہوا ہے۔ پلٹ کر دیکھا تو سادہ سفید کاغذ جس پر ایک سیاہ پٹی نما سٹرپ ہے جس میں جانے کیا تفصیلات ہیں، ہیں بھی کہ نہیں، اس پر ہرے رنگ سے لگی ہوئی ایک مہر جس پر فقط اوپر ٹال پلازہ کا نام، اکتوبر کی پہلی تاریخ اور سال اور اس کے نیچے ایک سات عدد کا نمبر۔

ہم ایک ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جہاں ہم دہشت گردی کا آئے دن شکار ہوتے ہیں، چھوٹے سے چھوٹے ملکوں میں بھی حفاظتی انتظامات ہم سے سو سال پہلے بھی بہتر تھے کیا ہم ان سے کچھ نہیں سیکھ سکتے؟ کیا ہمارے ہاں ایسا کارڈ نہیں جاری کیا جا سکتا جس پر گاڑی کا رنگ، میک، رجسٹریشن پلیٹ نمبر، اس میں سفر کرنے والوں کی تعداد لکھی ہو؟؟ بس یا ویگن مالکان بھی اپنے تمام مسافروں کے ناموں کی فہرست کا کاغذ ٹال پلازہ پر جمع کروا سکتے ہیں کیونکہ ان کے پاس ساری بکنگ نام سے ہوتی ہیں اور وہ اپنی بس میں سوار ہونے والوں مسافروں کی فلم بھی بناتے ہیں۔ کیا ایسا نظام موٹر وے اور ہائی وے ٹال پلازہ یا ملک کی تمام اہم جگہوں کی چیک پوسٹوں پر نہیںلایا جا سکتا؟ ٹال پلازہ پر ہر دو چار ماہ کے بعد علم ہوتا ہے کہ ٹال ٹیکس بڑھا دیا گیا ہے مگر اس ٹیکس کو کہاں استعمال کیا جاتا ہے؟

ہمارے ملک میں عوام کے تحفظ کو یقینی بنانا سب سے اولین ضرورت ہے، ایسے میں چھوٹے چھوٹے حفاظتی اقدامات کئی بڑے بڑے حادثات کو ہونے سے روک سکتے ہیں۔ ہماری سڑکوں پر اور موٹر وے پر بھی لوگ لٹیروں کے ہاتھوں لٹ جاتے ہیں یا کئی حادثات اوروارداتوں کا شکار ہو جاتے ہیں، اگر علم ہو کہ اس وقت موٹر وے پر کس کس سمت میںکس کس نمبر کی اور کس کس رنگ کی گاڑیاں موجود تھیں تو واردات کا شکار ہونے والا اپنی تمام تر بدحواسیوں کے باوجود یہ تو بتا سکتا ہے کہ گاڑی کس رنگ اور میک کی تھی۔ اگر ایسا کرنا نا ممکن ہے تو کیا یہ بھی نا ممکن ہے کہ ان کارڈز پر کوئی بہتر پبلک سروس کا پیغام درج ہو، ہمارے اہم مسائل کی بابت، آبادی،دہشت گردی، جرائم، معاشرتی برائیوں اور روز افزوں پھیلتی ہوئی بیماریوں سے آگاہی کے بارے میں، ہمارے قومی ہیروز کی تصاویر یا اقوال ہوں ، ملک میں ہونے والی چھوٹی موٹی ترقی کا احوال ہو یا اور کچھ نہیں تو موٹر وے کے بارے میں ہی معلومات درج ہوں کہ موٹر وے کس سال میں اور کس ملک یا کمپنی کے تعاون سے بنی، اس پر کیا لاگت آئی، اس کی طوالت کیا ہے اور ملک میں کہاں کہاں موٹر ویز کا جال بچھا ہوا ہے۔

افسوس تو یہ ہے کہ ہمارے حکمران، طبقہء اشرافیہ اور عوام سبھی دنیا کے مختلف ممالک میں سفر کرتے ہیں مگر واپس پہنچ کر سب کچھ بھول جاتے ہیں کہ وہاں کیا اچھا دیکھا یا اپنے ملک میں ان کے اچھے قوانین اور عادات کو کس طرح رائج کیا جا سکتا ہے!!!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں