گبریلا

ہم ہرچیز پر تنقید کرنے کے عادی ہوگئے ہیں،

shehla_ajaz@yahoo.com

ہم ہرچیز پر تنقید کرنے کے عادی ہوگئے ہیں، بلاوجہ ہر بات میں کیڑے نکالنا ہماری نفسیاتی بیماری بنتی جارہی ہے۔ سب کچھ برا ہو رہا ہے، ہر طرف آگ لگی ہے،کچھ اچھا نہیں ہے یہ ایک طرح کا ڈپریشن ہے۔ ہم اپنے اندرکے ڈپریشن کو دو برسوں میں منتقل کرکے نفسیاتی طور پر سکون محسوس کرتے ہیں ،اندرونی تناؤکو ختم کرنے کا یہ عجیب طریقہ ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ماحول میں تناؤ بڑھتا جا رہا ہے لیکن تمام تر تلخ حقیقتوں کے باوجود ہمارے لیے ایک بڑی عظیم توانا،خوبصورت ہستی موجود ہے جو ہر دم ہمارے لیے اچھا چاہتی ہے جو بہت سی بری تلخیوں کے باوجود ہمیں اچھا راستہ دکھاتی ہے، ہم ان کی جانب اچھی سوچ سے دیکھتے ہیں تو وہ برے کو بھی اچھا کردیتے ہیں کہ یہ ان کی قدرت کا شاندارمظہر ہے۔

گبریلا ایک ایسا کیڑا ہے جو گندگی میں رہتا ہے اور اسے کھاتا ہے، ایک انتہائی غلاظت میں پرورش پانے والا ایک حقیر سا کیڑا بھی اہم ہے کہ اسے پیدا کرنے والے کی عظیم ذات ہے، اس کی ہر معمولی سی مخلوق بھی کسی مصرف کے لیے ہے۔ وہ بخوبی تمام مخلوق کے افعال کوکنٹرول کرتے ہیں اور ہم اشرف المخلوقات کے لیے ان مخلوقات سے ایسے ایسے کام کرواتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ایک شخص نے گبریلا کو گندگی میں رینگتے دیکھ کر سوچا کہ اللہ نے بھلا اس کیڑے کوکس لیے پیدا کیا ہے؟ کیا اس کا بھی کوئی فائدہ ہے؟

ایک دن وہی شخص زخمی ہوگیا، بہت علاج کروائے لیکن زخم ٹھیک نہیں ہوا۔ کسی دوسرے گاؤں کے حکیم کو دکھایا، انھوں نے زخم کی نوعیت دیکھی اور گبریلا کیڑا لانے کو کہا۔ گبریلا کا نام سنتے ہی اس شخص کو وہ بات یاد آگئی جو اس نے اس کی پیدائش اور مصرف کے متعلق سوچی تھی۔ حکیم نے گبریلا کو جلا کر اس کی راکھ زخم پر چھڑکی۔ چند روز بعد ہی اللہ کے حکم سے زخم ٹھیک ہوگیا۔ یہ واقعہ یہ بات ظاہر کرتا ہے کہ کائنات میں اللہ رب العزت نے کوئی بھی حقیر مخلوق بھی بے کار بے مصرف پیدا نہیں کی اور ایک ایسا زخم جو ناسور بن گیا تھا اسے ایک غلیظ مخلوق کے وجود نے دوا بن کر شِفا کا کام کیا۔ درحقیقت یہ کوالٹی رب العزت نے گبریلا کے گند کھانے اور اس میں رہنے میں پیدا کی اور اعلیٰ مخلوق یعنی اشرف المخلوقات کو احساس دلایا کہ ہر شے کا کوئی مصرف ہے جسے ہم بے کار سمجھتے ہیں۔ دراصل وہ بھی کارآمد ہے۔ اس کائنات میں کتنی ایسی نعمتیں ایسی اشیا ہیں کہ جن کو ہم بے کار، فالتو سمجھتے ہیں لیکن وہ نجانے کتنی کارآمد ہوں ہمیں ابھی تک علم ہی نہیں۔


اس سال حج کے مبارک موقعے پر پہلے کرین کے گرنے سے اور پھر منیٰ میں بھگدڑ کے باعث کئی انسان شہید ہوئے۔اس سے پہلے بھی منیٰ میں بھگدڑ کے باعث ایسی صورتحال پیدا ہوچکی ہے۔ اس سال ایسا کیوں ہوا کہ دو بڑے حادثات اس مقدس مقام پر پیش آئے۔ کرین کیوں گری؟ بھگدڑ کیوں مچی؟ ہمیں سوال کرنے کا حق ہے اپنے آپ سے اپنے باطن سے۔ اپنے ماحول سے ۔ ان تمام عناصر سے جو اس دنیا میں ہیں، لیکن کس طرح۔ ہم سب یہ سوچ رہے ہیں کہ دراصل ہم اتنے گناہ گار ہیں کہ اتنے مقدس مقام پر بھی اوپر سے ایسے کرین گری اور اتنے مسلمان دار فانی سے کوچ کرگئے۔ یہ ہمارے گناہوں کا انجام ہے۔ پوری دنیا میں مسلمانوں کے مقدس مقام کا جو امیج ہے کیا وہ آلودہ ہوگیا؟ سوال ایک کے بعد ایک ابھرتے ہیں۔ قیامت قریب ہے۔ اب ہمیں کوئی نہیں بچا سکتا اب تباہی ہمارے سر پر کھڑی ہے۔ پہلے طالبان اور اب داعش کشمیر اور فلسطین کے مظالم ہی کیا کم تھے کہ روہنگیا اور شام کے دل تڑپانے والے حالات۔ سب بہت برا ہے۔

ہمیں ہر حال میں شکر ادا کرنے کا حکم ہے اس میں کیا راز ہے۔ ذرا اس جانب سوچیے۔ ہمیں شکر ادا کرنا چاہیے اللہ رب العزت کا کہ انھوں نے اپنے گھر کی حرمت کی حفاظت کی۔ ہمیں شکر ادا کرنا چاہیے کہ منیٰ میں جس طرح بھگدڑ مچی وہ ٹی وی کی اسکرین پر سب نے دیکھی۔ قیامت ضرور قریب ہے لیکن اس کے آنے میں کون کون کس طرح اپنا حصہ ڈالتا ہے؟ پر ہم کیوں ڈالیں۔ گبریلا کے وجود کو سمجھتے ہوئے اس جانب کیوں نہ دیکھیں کہ جو ہوچکا ہے اس کے اسباب کیا ہوسکتے ہیں۔ بے شک اللہ اپنے گھر کی حفاظت کرنے والے ہیں وہ جو ایک کیڑے کے مصرف کو ابھار سکتے ہیں وہ ہر گز بے خبر نہیں لیکن اس طرح کے حادثات سے کس طرح بچا جاسکتا ہے یہ انسانی کوششیں ہیں اورکوشش کرنے کے عمل کو رب العزت پسند کرتے ہیں یہ کوشش ناکام ہو یا کامیاب۔ لیکن کوشش ضرورکرنی چاہیے مثبت سوچ کے ساتھ کہ اللہ کامیاب کریں گے۔

آج کے انسان کو ریفارمنگ کی شدت سے ضرورت ہے۔ اسے افلا تعقلون کی مکمل تفہیم کی ضرورت ہے، اس عدیع کائنات کے ایک ایک ذرہ پر انسانی سوچ اور اس کا قلم تحقیق کے انبار لگا دے۔ اپنے کردار کی اپنے اخلاق کی اپنے اطوار کی تہذیب کا کام سر انجام دے۔

ہم سب بہت تیزی سے حسد، جلن، جھوٹ، غیبت، مادیت پرستی اور تعصب کے گڑھوں میں گر رہے ہیں، گبریلا کا وجود سر اٹھا رہا ہے کہ میں بے سبب نہیں ہوں۔ اے انسان! ذرا سوچ!
Load Next Story