انتخابات کو آلودہ کرنے والے ہاتھ
حقائق کے پتھر سے جُھوٹے شیشوں کو آخر کار ٹوٹنا اور تڑخنا ہی ہوتا ہے
حقائق بھی عشق اور مُشک کی طرح ہوتے ہیں جو سات پردوں میں چھپانے کے باوجود لوگوں سے نہیں چھُپ سکتے۔
کبھی نہ کبھی اِن کا پردہ چاک ہو ہی جاتا ہے۔ حقائق کے پتھر سے جُھوٹے شیشوں کو آخر کار ٹوٹنا اور تڑخنا ہی ہوتا ہے۔ اِسی پتھر سے اب ایک اور آبگینہ پاش پاش ہوا ہے اور دنیا دنگ رہ گئی ہے کہ پیپلز پارٹی کو کبھی ''سیکیورٹی رسک'' قرار دے کر اور کبھی اِس کے بانیان اور پیروکاروں کو ''ملک دشمن'' کہہ کر کس دھڑلّے سے زیادتی ا ور ظلم کا شکار بنایا گیا ہے۔
''ملک کے وسیع تر مفاد میں'' کا نعرہ لگا کر آئی جے آئی (اسلامی جمہوری اتحاد) بنانے والے سابق صاحبانِ اقتدار کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اب تو کُھل کر اپنی ندامت کا اظہار کرنا چاہیے اور قوم سے معافی بھی مانگنی چاہیے یا ان لوگوں کو ہمیشہ کے لیے اپنا چہرہ قوم سے چھپا لینا چاہیے۔
جناب اصغر خان یوں تو ہمیشہ پیپلز پارٹی اور اِس جماعت کے بانی کے بارے میں منفی خیالات کا اظہار کرتے رہے ہیں (نظام مصطفی تحریک کے دوران بھٹو کو کوہالہ کے پُل پر پھانسی دینے کا مطالبہ اور نعرہ انھی صاحب کا تو تھا) لیکن قوم اب اُن کی شکر گزار ہے کہ اُنہی کے ایک مقدمے کی سماعت کے نتیجے میں عدالتِ عظمیٰ نے فرمایا ہے: ''90ء کے الیکشن میں (پیپلز پارٹی کے خلاف) دھاندلی ہوئی۔ (سیاستدانوں میں) رقوم بانٹنے والے دو ریٹائرڈ جرنیلوں (جنرل بیگ اور جنرل اسد درانی) کے خلاف کارروائی کی جائے۔''
یہ ایک شاندار فیصلہ ہے جس کی تحسین کی جانی چاہیے کہ بہت سی چھپائی باتیں دو عشروں کے بعد بے نقاب ہوئی ہیں۔ آج سے تقریباً 22 برس قبل جب 1990ء کے انتخابات کا رَن پڑا تو پیپلز پارٹی کو شکست دینے کے لیے مبینہ طور پر اُس زمانے کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے (سابق) سربراہ جنرل (ر) اسد درانی نے پیپلز پارٹی کے دشمن سیاسی گروہوں، اخبار نویسوں اور سیاسی جماعتوں میں کروڑوں روپیہ تقسیم کیا تاکہ بے نظیر بھٹو کسی بھی طرح اقتدار کے ایوانوں میں داخل نہ ہو سکیں۔ مذکورہ دونوں جرنیلوں کا یہ فعل انتہائی ناپسندیدہ بھی تھا، اپنے حلف سے انحراف بھی اور کار سرکار میں مداخلت بھی۔
اپنے مقاصد کے حصول اور پیپلز پارٹی کے خلاف عناد کے تحت مذکورہ دونوں سینئر فوجی افسران نے اپنے ہمنوا اور ''محبوب'' سیاستدانوں اور دانشوروں میں کُل کتنی رقم تقسیم کی اور اِس میں کتنی ''اِدھر اُدھر'' ہو گئی، اِس بارے میں کوئی نہیں جانتا، البتہ اِس ''اعلیٰ قومی کام'' کے لیے جس بینکر (یونس حبیب) کی خدمات حاصل کی گئیں، انھوں نے 7 مارچ 2012ء کو عدالتِ عظمیٰ کے روبرو بیان دیتے ہوئے کہا تھا: ''جنرل اسلم بیگ اور صدر غلام اسحاق نے مجھے مجبور کیا تھا کہ میَں قوم کے وسیع تر مفاد کے لیے 35 کروڑ (350 ملین) روپے کا بندوبست کروں۔''
اِس کے برعکس لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی نے 8 مارچ 2012ء کو سپریم کورٹ میں کہا تھا کہ آرمی نے درحقیقت اینٹی پیپلز پارٹی سیاستدانوں میں، 90ء کے انتخابات سے چند ماہ قبل، چودہ کروڑ (140 ملین) روپے بانٹے تھے۔ اِس کے علاوہ جناب اصغر خان کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے 20 اپریل 2012ء کو عدالت کے سامنے کہا: ''8 کروڑ روپیہ بھی آئی ایس آئی کے ''K'' فنڈ میں جمع کروایا گیا تھا۔'' اب عدالتِ عظمیٰ کا حکم ہے کہ یہ 8 کروڑ روپیہ منافع سمیت واپس لیا جائے۔
انیس اکتوبر 2012ء کو عدالتِ عظمیٰ نے اِس سارے ناقابلِ رشک منصوبوں اور سازشوں، جن کی سرپرستی جنرل بیگ اور جنرل درانی کر رہے تھے، کے پس منظر میں فیصلہ سناتے ہوئے اپنے مختصر آرڈر میں لکھا ہے: ''(غلام اسحاق خان کے دور صدارت میں) ایوانِ صدر میں ایک الیکشن سَیل قائم کیا گیا تھا جو اپنے من پسند امیدواروں یا سیاسی جماعتوں کے ایک گروپ کو مالی امداد فراہم کر رہا تھا تاکہ انتخابات کو آلودہ کر کے اپنے پسندیدہ نتائج حاصل کیے جائیں۔'' سپریم کورٹ نے اپنے تاریخ ساز فیصلے میں آگے چل کر مزید لکھا ہے کہ پریذیڈنسی میں قائم یہ انتخابی سَیل غیر قانونی تھا اور جنرل اسلم بیگ اور جنرل اسد درانی و دیگر اِسے سپورٹ کر رہے تھے۔ اِس مختصر فیصلے میں اور بھی بہت سی دلچسپ اور انکشاف خیز باتیں لکھی گئی ہیں۔
اب فیصلہ سامنے آ چکا ہے۔ 90ء میں پیپلز پارٹی کے خلاف بروئے کار ''عظیم نام'' اور اُن کے ''عظیم کار نامے'' طشت ازبام ہو کر عوام کے سامنے ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض احمد کا کہنا ہے کہ آئی جے آئی کی قیادت میں پیسے تقسیم کرنے والے جرنیلوں کا کورٹ مارشل ہونا چاہیے۔
پیپلز پارٹی کے وزیرِ اعظم جناب پرویز اشرف اِسے ''جمہوریت کی فتح'' بھی قرار دے چکے ہیں لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ جن دو بڑوں نے 90ء کے انتخابات کو آلودہ کرنے کی کوشش اور سازش کی، اُنہیں عدالت کے کٹہرے میں لایا جا سکے گا؟ کیا اُن اخبار نویسوں کے نام بھی سامنے لائے جائیں گے جنہوں نے مبینہ طور پر اِس بہتی گنگا میں اشنان کیا؟ کیا اِسی ریفرنس میں اُن سب سیاستدانوں کے نام شایع کیے جائیں گے جنہوں نے پیپلز پارٹی کو ہرانے کی اِس قابلِ مذمت مہم کو کامیاب کرنے کے لیے پیسے پکڑے اور جن کا تفصیلی ذکر جناب اصغر خان نے اپنی کتاب میں کیا ہے؟
یہ اہم سوالات ہیں لیکن بدقسمتی یہ بھی ہے کہ جس ملک کے پہلے وزیرِ اعظم کے اصل قاتلوں کو گرفتار نہ کیا جا سکا، جس ملک کے پہلے منتخب وزیرِ اعظم کا عدالتی قتل کر دیا گیا اور اُس کی مقتدر پارٹی مقدمہ دوبارہ کھلوانے اور ذمے داروں کے خلاف ٹرائل کرنے کی جرأت نہ کر سکے، جس ملک میں دوبار منتخب ہو کر وزیرِ اعظم بننے والی خاتون کو دن دہاڑے قتل کرنے والوں کا اب تک کھُرا نہ ناپا جا سکے حالانکہ ملک میں مقتولہ ہی کی جماعت برسرِ اقتدار ہو، اُس ملک میں بیٹھ کر سپریم کورٹ کے تازہ فیصلے کی روشنی میں انتخابات میں غدر مچانے والے نامزد افراد کا تعاقب کرنا اور اُنہیں بڑی عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرنا کیسے ممکن ہو گا؟
یہ ایک بہت بڑا اور حساس سوال ہے جس کا سامنا وزیرِ اعظم راجہ پرویز اشرف کو کرنا پڑ گیا ہے۔ سارے ملک ہی میں نہیں بلکہ ساری دنیا میں استفسار کیا جا رہا ہے کہ آیا راجہ جی میں اتنی سکت ہے کہ قدم آگے بڑھا کر مطلوبہ افراد کو دبوچ لیں؟
رسید: گزشتہ روز ہمیں راولپنڈی کی اڈیالہ جیل سے ایک قیدی کا خط ملا ہے۔ وہ اپنی سزا پوری کر چکا ہے لیکن سزا کے ساتھ سنائے جانے والے جرمانے کی ادائیگی اُس کی سکت سے باہر ہے۔ کیا وطنِ عزیز میں کوئی ادارہ یا تنظیم یا این جی او ایسی ہے جو اِس قیدی کی مالی اعانت کرسکے تاکہ وہ جیل کے جہنّم سے نجات حاصل کر سکے؟ خط ملاحظہ فرمایے: ''جناب مَیں مسمی عالم زیب ولد عزیز خان ساکن تحصیل وضلع نوشہرہ کا رہائشی ہوں۔ میں ٹرک ڈرائیور تھا اور مجھے 2007ء میں ڈکیتی کے ایک جھوٹے کیس میں مقامی سیاسی لوگوں نے ملوث کروایا اور مجھے گرفتار کروا کے میرے خلاف کئی جھوٹے مقدمے درج کروا دیے گئے جس کی بنا پر مجھے عدالت سے 5 سال قید بامشقت کی سزا ہوگئی۔
میں گھر کا واحد کمانے والا تھا۔بوڑھے والدین ہیں اور میں شادی شدہ بھی ہوں۔ میری بچی کی عمر 6 سال ہو چکی ہے اور مجھے ساڑھے 5 سال جیل میں ہوگئے ہیں ۔میرے والدین اور بچے دردر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ میں 5 سال کی سزا قید بامشقت کاٹ چکا ہوں اور اب مجھ پر 194000/- روپے جرمانہ بھی ہے۔غریب آدمی ہوں اور جرمانہ ادا کرنے کی مجھ میں ہمت نہیں ہے اور جرمانے کی عدم ادائیگی پر مجھے 26 ماہ (2 سال 2 ماہ) مزید قید ابھی کاٹنی پڑرہی ہے۔آپ سے ایک قیدی کی فریاد ہے کہ میرا جرمانہ ادا کرنے میں میری مدد فرمائیں۔ میرے بیوی بچے اور بوڑھے والدین میری راہیں دیکھ رہے ہیں۔ ہم سب آپ کو دعائیں دیں گے۔ (عالم زیب ولد عزیز خان، بارک 8، کمرہ 6، اڈیالہ جیل راولپنڈی)
کبھی نہ کبھی اِن کا پردہ چاک ہو ہی جاتا ہے۔ حقائق کے پتھر سے جُھوٹے شیشوں کو آخر کار ٹوٹنا اور تڑخنا ہی ہوتا ہے۔ اِسی پتھر سے اب ایک اور آبگینہ پاش پاش ہوا ہے اور دنیا دنگ رہ گئی ہے کہ پیپلز پارٹی کو کبھی ''سیکیورٹی رسک'' قرار دے کر اور کبھی اِس کے بانیان اور پیروکاروں کو ''ملک دشمن'' کہہ کر کس دھڑلّے سے زیادتی ا ور ظلم کا شکار بنایا گیا ہے۔
''ملک کے وسیع تر مفاد میں'' کا نعرہ لگا کر آئی جے آئی (اسلامی جمہوری اتحاد) بنانے والے سابق صاحبانِ اقتدار کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اب تو کُھل کر اپنی ندامت کا اظہار کرنا چاہیے اور قوم سے معافی بھی مانگنی چاہیے یا ان لوگوں کو ہمیشہ کے لیے اپنا چہرہ قوم سے چھپا لینا چاہیے۔
جناب اصغر خان یوں تو ہمیشہ پیپلز پارٹی اور اِس جماعت کے بانی کے بارے میں منفی خیالات کا اظہار کرتے رہے ہیں (نظام مصطفی تحریک کے دوران بھٹو کو کوہالہ کے پُل پر پھانسی دینے کا مطالبہ اور نعرہ انھی صاحب کا تو تھا) لیکن قوم اب اُن کی شکر گزار ہے کہ اُنہی کے ایک مقدمے کی سماعت کے نتیجے میں عدالتِ عظمیٰ نے فرمایا ہے: ''90ء کے الیکشن میں (پیپلز پارٹی کے خلاف) دھاندلی ہوئی۔ (سیاستدانوں میں) رقوم بانٹنے والے دو ریٹائرڈ جرنیلوں (جنرل بیگ اور جنرل اسد درانی) کے خلاف کارروائی کی جائے۔''
یہ ایک شاندار فیصلہ ہے جس کی تحسین کی جانی چاہیے کہ بہت سی چھپائی باتیں دو عشروں کے بعد بے نقاب ہوئی ہیں۔ آج سے تقریباً 22 برس قبل جب 1990ء کے انتخابات کا رَن پڑا تو پیپلز پارٹی کو شکست دینے کے لیے مبینہ طور پر اُس زمانے کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے (سابق) سربراہ جنرل (ر) اسد درانی نے پیپلز پارٹی کے دشمن سیاسی گروہوں، اخبار نویسوں اور سیاسی جماعتوں میں کروڑوں روپیہ تقسیم کیا تاکہ بے نظیر بھٹو کسی بھی طرح اقتدار کے ایوانوں میں داخل نہ ہو سکیں۔ مذکورہ دونوں جرنیلوں کا یہ فعل انتہائی ناپسندیدہ بھی تھا، اپنے حلف سے انحراف بھی اور کار سرکار میں مداخلت بھی۔
اپنے مقاصد کے حصول اور پیپلز پارٹی کے خلاف عناد کے تحت مذکورہ دونوں سینئر فوجی افسران نے اپنے ہمنوا اور ''محبوب'' سیاستدانوں اور دانشوروں میں کُل کتنی رقم تقسیم کی اور اِس میں کتنی ''اِدھر اُدھر'' ہو گئی، اِس بارے میں کوئی نہیں جانتا، البتہ اِس ''اعلیٰ قومی کام'' کے لیے جس بینکر (یونس حبیب) کی خدمات حاصل کی گئیں، انھوں نے 7 مارچ 2012ء کو عدالتِ عظمیٰ کے روبرو بیان دیتے ہوئے کہا تھا: ''جنرل اسلم بیگ اور صدر غلام اسحاق نے مجھے مجبور کیا تھا کہ میَں قوم کے وسیع تر مفاد کے لیے 35 کروڑ (350 ملین) روپے کا بندوبست کروں۔''
اِس کے برعکس لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی نے 8 مارچ 2012ء کو سپریم کورٹ میں کہا تھا کہ آرمی نے درحقیقت اینٹی پیپلز پارٹی سیاستدانوں میں، 90ء کے انتخابات سے چند ماہ قبل، چودہ کروڑ (140 ملین) روپے بانٹے تھے۔ اِس کے علاوہ جناب اصغر خان کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے 20 اپریل 2012ء کو عدالت کے سامنے کہا: ''8 کروڑ روپیہ بھی آئی ایس آئی کے ''K'' فنڈ میں جمع کروایا گیا تھا۔'' اب عدالتِ عظمیٰ کا حکم ہے کہ یہ 8 کروڑ روپیہ منافع سمیت واپس لیا جائے۔
انیس اکتوبر 2012ء کو عدالتِ عظمیٰ نے اِس سارے ناقابلِ رشک منصوبوں اور سازشوں، جن کی سرپرستی جنرل بیگ اور جنرل درانی کر رہے تھے، کے پس منظر میں فیصلہ سناتے ہوئے اپنے مختصر آرڈر میں لکھا ہے: ''(غلام اسحاق خان کے دور صدارت میں) ایوانِ صدر میں ایک الیکشن سَیل قائم کیا گیا تھا جو اپنے من پسند امیدواروں یا سیاسی جماعتوں کے ایک گروپ کو مالی امداد فراہم کر رہا تھا تاکہ انتخابات کو آلودہ کر کے اپنے پسندیدہ نتائج حاصل کیے جائیں۔'' سپریم کورٹ نے اپنے تاریخ ساز فیصلے میں آگے چل کر مزید لکھا ہے کہ پریذیڈنسی میں قائم یہ انتخابی سَیل غیر قانونی تھا اور جنرل اسلم بیگ اور جنرل اسد درانی و دیگر اِسے سپورٹ کر رہے تھے۔ اِس مختصر فیصلے میں اور بھی بہت سی دلچسپ اور انکشاف خیز باتیں لکھی گئی ہیں۔
اب فیصلہ سامنے آ چکا ہے۔ 90ء میں پیپلز پارٹی کے خلاف بروئے کار ''عظیم نام'' اور اُن کے ''عظیم کار نامے'' طشت ازبام ہو کر عوام کے سامنے ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض احمد کا کہنا ہے کہ آئی جے آئی کی قیادت میں پیسے تقسیم کرنے والے جرنیلوں کا کورٹ مارشل ہونا چاہیے۔
پیپلز پارٹی کے وزیرِ اعظم جناب پرویز اشرف اِسے ''جمہوریت کی فتح'' بھی قرار دے چکے ہیں لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ جن دو بڑوں نے 90ء کے انتخابات کو آلودہ کرنے کی کوشش اور سازش کی، اُنہیں عدالت کے کٹہرے میں لایا جا سکے گا؟ کیا اُن اخبار نویسوں کے نام بھی سامنے لائے جائیں گے جنہوں نے مبینہ طور پر اِس بہتی گنگا میں اشنان کیا؟ کیا اِسی ریفرنس میں اُن سب سیاستدانوں کے نام شایع کیے جائیں گے جنہوں نے پیپلز پارٹی کو ہرانے کی اِس قابلِ مذمت مہم کو کامیاب کرنے کے لیے پیسے پکڑے اور جن کا تفصیلی ذکر جناب اصغر خان نے اپنی کتاب میں کیا ہے؟
یہ اہم سوالات ہیں لیکن بدقسمتی یہ بھی ہے کہ جس ملک کے پہلے وزیرِ اعظم کے اصل قاتلوں کو گرفتار نہ کیا جا سکا، جس ملک کے پہلے منتخب وزیرِ اعظم کا عدالتی قتل کر دیا گیا اور اُس کی مقتدر پارٹی مقدمہ دوبارہ کھلوانے اور ذمے داروں کے خلاف ٹرائل کرنے کی جرأت نہ کر سکے، جس ملک میں دوبار منتخب ہو کر وزیرِ اعظم بننے والی خاتون کو دن دہاڑے قتل کرنے والوں کا اب تک کھُرا نہ ناپا جا سکے حالانکہ ملک میں مقتولہ ہی کی جماعت برسرِ اقتدار ہو، اُس ملک میں بیٹھ کر سپریم کورٹ کے تازہ فیصلے کی روشنی میں انتخابات میں غدر مچانے والے نامزد افراد کا تعاقب کرنا اور اُنہیں بڑی عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرنا کیسے ممکن ہو گا؟
یہ ایک بہت بڑا اور حساس سوال ہے جس کا سامنا وزیرِ اعظم راجہ پرویز اشرف کو کرنا پڑ گیا ہے۔ سارے ملک ہی میں نہیں بلکہ ساری دنیا میں استفسار کیا جا رہا ہے کہ آیا راجہ جی میں اتنی سکت ہے کہ قدم آگے بڑھا کر مطلوبہ افراد کو دبوچ لیں؟
رسید: گزشتہ روز ہمیں راولپنڈی کی اڈیالہ جیل سے ایک قیدی کا خط ملا ہے۔ وہ اپنی سزا پوری کر چکا ہے لیکن سزا کے ساتھ سنائے جانے والے جرمانے کی ادائیگی اُس کی سکت سے باہر ہے۔ کیا وطنِ عزیز میں کوئی ادارہ یا تنظیم یا این جی او ایسی ہے جو اِس قیدی کی مالی اعانت کرسکے تاکہ وہ جیل کے جہنّم سے نجات حاصل کر سکے؟ خط ملاحظہ فرمایے: ''جناب مَیں مسمی عالم زیب ولد عزیز خان ساکن تحصیل وضلع نوشہرہ کا رہائشی ہوں۔ میں ٹرک ڈرائیور تھا اور مجھے 2007ء میں ڈکیتی کے ایک جھوٹے کیس میں مقامی سیاسی لوگوں نے ملوث کروایا اور مجھے گرفتار کروا کے میرے خلاف کئی جھوٹے مقدمے درج کروا دیے گئے جس کی بنا پر مجھے عدالت سے 5 سال قید بامشقت کی سزا ہوگئی۔
میں گھر کا واحد کمانے والا تھا۔بوڑھے والدین ہیں اور میں شادی شدہ بھی ہوں۔ میری بچی کی عمر 6 سال ہو چکی ہے اور مجھے ساڑھے 5 سال جیل میں ہوگئے ہیں ۔میرے والدین اور بچے دردر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ میں 5 سال کی سزا قید بامشقت کاٹ چکا ہوں اور اب مجھ پر 194000/- روپے جرمانہ بھی ہے۔غریب آدمی ہوں اور جرمانہ ادا کرنے کی مجھ میں ہمت نہیں ہے اور جرمانے کی عدم ادائیگی پر مجھے 26 ماہ (2 سال 2 ماہ) مزید قید ابھی کاٹنی پڑرہی ہے۔آپ سے ایک قیدی کی فریاد ہے کہ میرا جرمانہ ادا کرنے میں میری مدد فرمائیں۔ میرے بیوی بچے اور بوڑھے والدین میری راہیں دیکھ رہے ہیں۔ ہم سب آپ کو دعائیں دیں گے۔ (عالم زیب ولد عزیز خان، بارک 8، کمرہ 6، اڈیالہ جیل راولپنڈی)