اژدھے عقاب اورکیڑے

ایک بہت خوبصورت جنگل تھا۔درخت، گھاس، پھول، پتے اوراَن گنت جنگلی جانور


راؤ منظر حیات October 05, 2015
[email protected]

ایک بہت خوبصورت جنگل تھا۔درخت، گھاس، پھول، پتے اوراَن گنت جنگلی جانور۔صرف دوہزارسال پہلے کی بات ہے۔جنگل کے کافی نزدیک کئی قصبے تھے۔یہاں بھی انسانی زندگی بھرپوراندازمیں موجودتھی۔ بازار، دکانیں، کاروبار، منڈیاں،یعنی ہرشے موجودتھی۔جنگل اورقصبوں کاایک صحت مندانہ توازن موجودتھا۔

جنگل کے تمام جانوروں کوقدرت نے ایک خاص طاقت عطاکی ہوئی تھی۔وہ انسانوں سے بات کرسکتے تھے۔ ان کی باتوں کوسمجھ بھی سکتے تھے۔اس طاقت کی بدولت جانوروں کے باہمی اوراردگردکے لوگوں سے تعلقات بہت اچھے تھے۔ جیسے جنگل کے طوطے جب شہرکارخ کرتے تھے،توپھل والے کی دکان پرکسی پھل کونقصان نہیں پہنچاتے تھے۔ دکاندار سے خودپوچھ لیتے تھے کہ اگرکوئی ایساپھل موجود ہے،جسکی اسے ضرورت نہیں،توانھیں دے دیں۔ دکاندار فوراً ان کی بات کو سمجھ کر انھیں ایک یادوپرانے امرودیاسیب دے دیتاتھا۔ طوطوں کی بھی عیش ہوجاتی تھی اوردکاندارکوبھی کوئی ملال نہیں ہوتاتھا۔اسطرح،چڑیاں،کسانوں کے کھیت نہیں اجاڑتی تھیں۔وہ گاؤں کے کسی معتبرآدمی سے اناج مانگ لیتی تھیں۔ ایک یادوبوری اناج مل جانے پر،کئی مہینے گزرجاتے تھے۔ ہرجانور،اس قدرتی عطیہ کی بدولت بہترزندگی گزار رہا تھا۔

یہ سب کچھ کسی بغیروجہ کے نہیں تھا۔جنگل میں صدیوں پہلے،ایک بہت عقلمندعقاب رہتاتھا۔اسکاشوق تھاکہ ہرطرح کے جنگلوں، بیابانوں اور شہروں پر پرواز کرے۔ مختلف زبانیں سیکھنے کابھی بہت شوق تھا۔دس سال،ہرطرح کے علاقوں پر پروازکرنے سے طرح طرح کی زبانوں پر عبور حاصل کرلیا تھا۔عادل بادشاہوں سے انصاف کرنا سیکھا تھا۔ سچ کے راستے پرچلنے والوں سے سچائی کی ہدایت حاصل کی تھی۔ جھوٹ اور زیادتی کرنے والوں کے دردناک انجام سے بھی سبق حاصل کیا۔تمام علمی سبق عقاب نے جنگل میں جانوروں، پرندوں اورکیڑوں کوبہت محنت سے سکھائے تھے۔ تھوڑے سے عرصے میں،جنگل دنیاکی بہترین آماجگاہ بن چکی تھی۔ چشمے،صاف پانی،پھل اورپھولوں کاحسین امتزاج۔ مگر عقاب کومعلوم تھاکہ تمام جانورایک جیسے کردارکے مالک نہیں ہیں۔ ان میں سے کچھ طاقتورہیں اوراکثر کمزور۔کچھ دورتک دیکھ سکتے ہیں اورچندبینائی سے محروم۔کچھ رات کوجاگتے ہیں اورچند دن کے اجالے میں زندگی گزارتے ہیں۔سفیدعقاب نے ایک دن جنگل کے تمام باسیوں کواکھٹاکیااورانھیںنصیحتیں کیں۔

ایک یہ کہ طاقتورجانوروں کوکمزورکاخیال کرناچاہیے۔ دوسرا، لالچ اورزیادتی سے پرہیزکرناچاہیے۔تیسرا، اگرکوئی بھی جانورجرم کرے،یعنی کسی کے حق پرڈاکہ ڈالے،توجنگل کے سب سے داناپرندے،یعنی"اُلو"کوپنچائتی اختیار حاصل ہونگے۔ وہ جوبھی فیصلہ کریگا،سب پرلازم اور مقدم ہوگا۔نتیجہ یہ نکلاکہ کمزورترین جانوراورپرندے بھی مکمل محفوظ ہوگئے۔کسی شیر،چیتے یا بھیڑیے کی ہمت نہیں تھی کہ کسی کے ساتھ بھی زیادتی کرسکے۔اگرکوئی جرات کرتا،تواُلوکی عدالت سے بھرپورسزاملتی۔سزا پر عملدرامد کا اختیار ہاتھی کو دیا گیاتھا۔ہاتھی کے سامنے کوئی بولتا نہیں تھا کیونکہ وہ صرف اور صرف "اُلو"کی پنچائت کے فیصلے مانتا تھا۔ خیر اس عرصے میں جنگل کی خوبصورتی اورانصاف کے قصے ہرطرف پھیل گئے۔

دواژدھوں نے بھی یہ خبرسنی۔وہ رینگتے رینگتے اس حسین جنگل میں پہنچ گئے۔انھوں نے"عقاب"کے جنگل میں رہنے کے تمام قواعدوضوابط پرمن وعن،عمل کرنے کاوعدہ کیا۔بلکہ اپنے عقیدہ کے حساب سے قسم بھی کھالی۔یہ دونوں آپس میں بالکل ایک تھے۔ان میں حیرت انگیزطاقتیں تھیں۔ ان کی عمر ایک صدی سے زیادہ تھی،لہذا یہ اس بات پرقادرتھے،کہ کوئی بھی روپ اختیارکرسکتے تھے۔انسان بھی بن سکتے تھے۔ درخت بھی اورہرقسم کاجانوربھی۔دونوں ظالم اژدھوں نے جنگل پرقبضہ کرنے کابھرپورمنصوبہ بنایا۔اس خوفناک منصوبہ کی کسی کوبھی خبر نہیں تھی۔منصوبہ بہت عجیب ساتھا۔ اعلان کردیا کہ ان کے باہمی تعلقات خراب ہوچکے تھے۔ایک اژدھاجنگل کے ایک کونے میں رہناشروع ہوگیا اور دوسرے نے دوسرے نے مختلف کونہ سنبھال لیا۔اب انھوں نے اپنے منصوبے پر عملدرآمدشروع کردیا۔

ایک اژدھا،صبح صبح آدمی بن گیا۔ ہاتھ میںتیرکمان لیا،اورمختلف کمزورجانوروں کو مارنا شروع کردیا۔ دوسرا،ایک بھڑیے میں تبدیل ہوگیا اور اس نے ہرنوں کی ڈاریں کی ڈاریں مار ڈالیں۔ اس کے بعدیہ المناک کھیل روزانہ کی بنیادپرشروع ہوگیا۔کمزورجانورختم ہونے شروع ہوگئے۔ تمام پرندوں اورچرندوں میں ایک دوسرے کے متعلق شکوک وشبہات پیداہوگئے۔انھیں اژدھے یہی بتاتے تھے کہ طاقتور جانوراورنزدیک قصبوں کے شکاری انسان انتہائی ظالم ہیں۔ ایک دوسرے کے خلاف محاذجنگ بھرپور قائم ہوگیا۔ چڑیوں نے بلیوں سے ڈرناشروع کردیا۔ ہرن، اب ہروقت جاگتے رہتے تھے، مگر پھر بھی اپنی حفاظت نہ کرسکتے تھے۔ ہرطرف، اندھیرنگری جیسے حالات پیداہوگئے۔

ایک دن،ایک اژدھاانسان کے روپ میں شکاری بن گیا۔ اندھیرے میں آیااوربڑی بڑی جھاڑیوں میں چھپ گیا۔نزدیک ہی ہاتھیوں کاغول،آرام سے کھڑا تھا۔ اژدھا باربار،ببرشیر کی نقلی آوازنکال رہاتھا۔ہاتھی جب اردگرددیکھتے تھے توانھیں کچھ نظرنہیں آتاتھا۔وہ یہ نہ جان سکے کہ آوازکون نکال رہاہے۔خیرپوری رات،اژدھاانکوڈراتارہا۔صبح صادق کے وقت تیرکمان سے درجنوں تیر، کمزورہاتھی پر برسائے۔ پھر دورسے نیزہ مار کر، اس ہاتھی کومارڈالا۔اس کے بعد، اژدھا خود ایک ہاتھی کی جون اختیارکرگیا۔اس نے تمام ہاتھیوں کویقین دلادیاکہ دراصل جنگل میں یہ سب کچھ ببر شیر نے سب کو دھوکا دے کرکیاہے۔اب توجنگل میں گھمسان کی جنگ شروع ہوگئی۔شیروں اورہاتھیوں کی مشکل لڑائی!عجیب بات یہ تھی کہ دوسرااژدھاشیروں میں یہی بات پھیلارہاتھا،کہ ہاتھی ان کے جانی دشمن ہیں۔وہ اژدھا،اکثرببرشیر کاروپ دھار لیتا تھا۔ خیر جنگل کاامن برباد ہوگیا۔ اب وہاں کوئی کسی کے ساتھ رہنے کے لیے تیارنہیں تھا۔

دونوں اژدھے جنگل سے دور،ایک غارمیں خفیہ طور پر ملتے ہیں۔اب عملاًوہ جنگل کودوحصوں میں تقسیم کرچکے تھے۔ دونوں اب بادشاہ تھے۔ ظالم اورجلادصفت بادشاہ۔سارادن جانوروں کویقین دلاتے تھے کہ امن کے تمام اقدامات کررہے ہیں۔کمزورکوانصاف ہرقیمت پرملے گا مگر عملاً اس کے برعکس قتل وغارت میں مصروف تھے۔دونوں،بہت عرصے تک یہ ظلم کرتے رہے۔اب ان کے مزے تھے۔دونوں ایک دن جنگل سے دور،غارمیں چھپ کرمذاکرات کررہے تھے کہ ایک چرواہا وہاں سے گزرا۔اس نے اژدھوں کی باتیں سن لیں۔ کیونکہ وہ ان کی زبان سمجھتا تھا۔ ان کے خوفناک منصوبے کو سن کرحیران رہ گیا۔ عقلمندی سے وہاں سے گزرگیا۔سیدھا،جنگل کے "عقاب" کے پاس گیااور ساری بات بتادی۔عقاب سب کچھ سنکر ششدررہ گیا۔اسے تواپنی دانائی پرماتم تھا،کہ یہ بات پہلے کیوں نہ پتہ چلی اورجنگل کواس نے بربادی سے کیوں نہیں بچایا۔خیر اب بھی وقت تھا۔کیونکہ جنگل میں تمام جانور،ایک دوسرے سے خوف ذدہ اورناراض تھے،لہذاوہ کسی کے پاس نہیں گیا۔تمام رات،درخت پر بیٹھا سوچتارہا۔اچانک اسے خیال آیاکہ شہرکے اندر،ایک داناانسان رہتاہے۔اس سے مشورہ مانگا جائے۔عقاب نے اس سیانے انسان کوسارا معاملہ بتایا۔ دانا انسان نے کہا،کہ تم ان حالات میں تمام چرند اور پرند کا اعتماد حاصل نہیں کرسکتے۔اس جنگل میں کڑوڑوں کیڑے ہیں۔ سب انھیں حقیر سمجھتے ہیں۔ جاؤ۔ انکو متحد کرو اور ان سے کام لو۔

عقاب شدیدپریشانی کے عالم میں واپس آیا۔اس نے یہ نازک کام اُلوکے ذمے لگایا۔دانااُلونے ایک دن،درخت پر صبح صبح کیڑوں کے چالیس نمایندے بلائے۔انھیں سارا معاملہ سمجھایااوران سے رازداری کی قسم بھی لے لی۔کیڑوں نے اُلوکاساتھ دینے کافیصلہ کیا۔مگروہ توبالکل کمزور تھے اور نہتے بھی۔مسئلہ تھاکہ اژدھوں سے کیسے جان چھڑائی جائے۔ کیڑوں نے تمام معاملہ اپنی ذاتی کابینہ میں پیش کردیا۔وہاں چند جگنو بھی تھے۔ انھوں نے مشورہ دیاکہ اگرکیڑے اکیلے اکیلے کچھ کرناچاہینگے تو اژدھوں کاکچھ نہیں بگاڑسکتے۔اگروہ متحدہوجائیں توسب کچھ ہوسکتا ہے۔ طے یہ پایا،کہ اژدھوں کی آنکھوں پرحملہ کیاجائے۔کیڑوں کے دوبڑے بڑے جھتے بنائے گئے۔"عقاب"فضاسے دونوں کی نگرانی کررہا تھا۔ اژدھے جن درختوں پرتھے،اس پرلاکھوں کیڑے چڑھ دوڑے۔اژدھے سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ کمزور سے کیڑے انکاکچھ بگاڑ سکتے ہیں۔لاکھوں کیڑوں نے بیک وقت اژدھوں کی آنکھوں پرحملہ کیا۔حملہ اتناشدیدتھاکہ اژدھے بھاگ بھی نہ سکے۔اب وہ مکمل طورپرنابیناہوچکے تھے۔ درد سے تڑپنے لگے۔انھوں نے جانوروں سے مددحاصل کرنے کی کوشش شروع کردیں۔مگر وقت گزرچکاتھا۔

خیر، جنگل میں عدالت لگی۔"اُلو"نے ہاتھی کوحکم دیاکہ دونوں اژدھوں کولایاجائے۔اژدھے پیش ہوئے۔وہ دیکھ نہیں سکتے تھے۔دونوں نے اپنے اپنے وقت کے جھوٹے کارناموں کودہراناشروع کردیا۔ہاتھی کوحکم دیاگیاکہ ان کی دم پر پیررکھے۔ہاتھی نے ابھی ان کی دم پرپیررکھاہی تھاکہ انھوں نے معافیاں مانگنی شروع کردیں۔وہ رحم اورمعافی کی اپیل کرتے رہے۔ مگر جب ذراسی تکلیف پہنچی،تواژدھوں نے اپنا خوفناک منصوبہ کا سب کے سامنے اقرارکیا۔انھوں نے اپنے جرائم اورقتل وغارت کوبھی تسلیم کیا۔وہ چرواہا،جس نے سب کچھ سناتھا،اس نے بھی عدالت میں وہ گفتگو، سب کے سامنے پیش کردی جواژدھے چھپ کرغارمیں کررہے تھے۔

جنگل کے تمام جانورحیران تھے کہ انھیں کس منصوبہ بندی کے تحت آپس میں لڑوایاگیااورایک دوسرے سے متنفر کردیاگیا۔اُلواورعقاب نے تمام کیڑوں کی جرات کوسراہتے ہوئے فیصلہ سنادیا۔سیکڑوں چیلوں کوجمع کیاگیا۔حکم دیاگیا کہ اژدھوں کواپنے مضبوط پنجوں میں اٹھائیں اورغرقاب کردیں۔چیلوں نے اژدھوں کواٹھایا۔ہراژدھے کے لیے کئی سو چیلیںمختص کی گئیں۔ان پرندوں نے،دونوں اژدھوں کوہوا میں اٹھایا۔انکو مظالم یاد کروائے اورہوامیں پرواز کرکے، نزدیکی سمندرمیں غرقاب کردیا۔منٹوں میں، سمندر کی مچھلیوں نے دونوں ادنیٰ اژدھوں کاصفایا کردیا۔ وہ مچھلیوں کی غذابن چکے تھے۔

جنگل پھر سے آبادہوگیا۔وہی پرانازمانہ واپس آگیا۔ طاقتورجانور،کمزورچوپایوں کی حفاظت کرنے لگے۔وہی ہری بھری گھاس،پھل داردرخت اور انصاف پرقائم متوازن معاشرہ!یہ سب کچھ کڑوڑوںکیڑوں کے اتحادکی بدولت ہوا تھا۔ مگرمسئلہ یہ ہے کہ کیڑے اکثراوقات متحدنہیں ہوتے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں