رضا ربانی نے کہا
سینیٹر رضا ربانی گزشتہ دنوں جامعہ اردو کے ایک پروگرام میں پھٹ پڑے۔
سینیٹر رضا ربانی گزشتہ دنوں جامعہ اردو کے ایک پروگرام میں پھٹ پڑے۔ ان کی بدن بولی سے لگ رہا تھا کہ وہ شدید غصے کی حالت میں ہیں۔ مگر انھوں نے اپنے عہدے کا لحاظ کرتے ہوئے الفاظ کے چناؤ میں خاصی احتیاط سے کام لیا۔ وہ اس وقت سینیٹ کے چیئرمین ہیں، جو صدر مملکت کی غیر حاضری میں قائم مقام سربراہ مملکت ہوتا ہے۔ یہ پوزیشن بھی ان کے مدنظر تھی، لیکن بعض قوتوں کو بہت کچھ جتانا اور سمجھانا بھی تھا۔ اس لیے جو کچھ کہا وہ بہت کچھ تھا اور سمجھنے والوں کے لیے واضح اشارہ بھی تھا۔ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ رضا جیسے متحمل مزاج اور ٹھنڈے دماغ کے سیاستدان کو یہ سب کچھ کہنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ سندھ سمیت چھوٹے صوبے اور چھوٹی کمیونٹیاں مسلسل اپنی بے چینی کا اظہار کرنے پر کیوں مجبور ہیں؟
رضا نے کہا کہ یہ تصور غلط ہے کہ کرپشن میں صرف سیاستدان ملوث ہوتے ہیں۔ بلکہ بری حکمرانی اور جوابدہی کا واضح مکینزم نہ ہونے کے سبب ہر ریاستی ادارہ حسب توفیق کرپشن اور بدعنوانیوں میں لتھڑا ہوا ہے۔ لہٰذا انھوں نے جو سوالات اٹھائے ہیں، وہ اپنے اندر وزن رکھتے ہیں۔ ملک میں بری حکمرانی کیوں ہے؟ اس کا واضح جواب یہ ہے کہ جن بنیادوں پر پاکستان کی تشکیل ہوئی تھی، انھیں روز اول ہی سے فراموش کر دیا گیا۔ ان صفحات میں کئی بار لکھا جا چکا ہے کہ بانی پاکستان نے متحدہ ہندوستان میں دو حقوق کے لیے مسلسل آواز اٹھائی۔ ایک تو زیادہ سے زیادہ صوبائی خود مختاری اور وفاقیت کے اصول پر اس کی روح کے مطابق عمل۔ دوسرے اقلیتوں کے حقوق کا مکمل تحفظ۔ انڈین نیشنل کانگریس مضبوط مرکز کی حامی تھی۔ وہ صوبوں کو وہ اختیارات دینے کے حق میں نہیں تھی، جن کا مطالبہ محمد علی جناح کر رہے تھے۔ یہی نظریاتی تضاد تقسیم ہند کا سبب بنا۔
لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ آزادی کے بعد اسی کانگریس نے زمینی حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے صوبوں کو زیادہ سے زیادہ خودمختاری دینا شروع کر دی، جو مضبوط مرکز کی حامی تھے۔ جب کہ جناح کے پاکستان میں ان کے دونوں اصولوں سے روگردانی کا سلسلہ پہلے روز سے شروع کر دیا گیا۔ یعنی صوبائی خودمختاری اور اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ دونوں ہی کو مکمل طور پر نظرانداز کیا جانے لگا۔ اس سے بڑا ستم اور کیا ہو گا کہ بانی پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں کلیدی تقریر ہی کو قیام پاکستان کے رسمی اعلان سے تین دن قبل سنسر کر دیا جاتا ہے۔ جس سے بیوروکریسی کے آیندہ عزائم کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ پاکستان کو روز اول سے جس راہ پر گامزن کیا گیا، اس نے کشمیری رہنما شیخ عبداللہ کے ان خدشات کو درست ثابت کر دیا، جن کا اظہار انھوں نے قائداعظم سے ملاقات کے دوران 1946ء میں کیا تھا۔ اگر ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کیا جائے تو پاکستان کو درپیش مسائل و مصائب کا اصل سبب ان نظریات و افکار سے انحراف ہے، جو 1916ء سے آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیادی پالیسی کا حصہ رہے ہیں۔
کتنی عجیب، مگر دلدوز حقیقت ہے کہ جس بنگالی قوم نے پاکستان کے لیے سب سے زیادہ جدوجہد کی، وہ سب سے پہلے غدار قرار پائی۔ سندھ جس کی اسمبلی نے سب سے پہلے قرارداد پاکستان منظور کی، اس کے رہبر سائیں جی ایم سید غدار اور سندھی عوام نئے ملک کی ناپسندیدہ مخلوق ٹھہرے۔ وہ بلوچ عوام جو قائداعظم کے خان قلات کے ساتھ تحریری معاہدے کے بعد پاکستان میں شمولیت پر آمادہ ہوئے تھے، قائد کی آنکھ بند ہوتے ہی ریاستی اسٹبلشمنٹ کی چیرہ دستیوں کا شکار ہوئے۔ اسکندر مرزا سے پرویز مشرف تک کون سا ایسا حکمران ہے، جس نے بلوچوں پر بندوقیں نہ تانی ہوں۔ لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ جس صوبے کی اسمبلی میں پاکستان کے حق میں سب سے کم ووٹ پڑے وہ پاکستانی وطنیت کا سب سے بڑا چیمپئن بنا ہوا ہے ۔
دوسری طرف اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ جناح جدید طرز حیات کے حامل تعلیم یافتہ رہنما تھے۔ اس کا ثبوت میرے دوست کے گھر کے ڈرائنگ روم کی دیوار پر ان کی وہ قد آدم تصویر ہے، جس میں وہ سفید سوٹ، سرخ ٹائی میں ملبوس، آکسفورڈ شوز پہنے، منہ میں سگار دبائے بلیئرڈ کھیل رہے ہیں۔ بلاشبہ یہ تصویر ایک ماڈرن اور جدید تصور حیات کے حامل شخص کی ہے، جو برٹش انڈیا کے مسلمانوں کے سیاسی، سماجی اور ثقافتی حقوق کی لڑائی لڑ رہا تھا۔ وہ جن لوگوں کی قیادت کر رہا تھا، ان میں ہر فقہہ اور مسلک کے مسلمان شامل تھے۔
ایک اور المیہ یہ ہے کہ وہ مذہبی جماعتیں اور مولوی صاحبان، جو 13 اگست 1947ء تک قیام پاکستان کے مخالف تھے، وہ پاکستان کے مذہب کی بنیاد پر تشخص کے علمبردار بن گئے اور آج بھی تاریخ کو جھٹلاتے ہیں اور پاکستان کو مذہبی ریاست ثابت کرنے پر مصر ہیں۔ یہی وہ دہرا معیار ہے، جس نے پاکستانی ریاست کے منطقی جواز کو غیر واضح اور مبہم بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پاکستان آج تک ایک کثیرالقومی وفاقی جمہوری ریاست بننے کے بجائے فکری ابہام پر مبنی ایک وحدانی ریاست پر اصرار کرنے پر مجبور ہے، جہاں صوبائی خودمختاری کو قومی سلامتی کی ضمانت سمجھنے کے بجائے اس کے لیے خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔ وہ قوتیں، جو ملک کے سپید وسیاہ پر حاوی ہیں، صوبائی خودمختاری کے خاتمے کے درپے ہیں۔ اس عمل میں انھیں مذہبی جماعتوں کی حمایت حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ لبرل سیاسی جماعتوں کا ناطقہ بند کرنے کے لیے مذہبی جماعتوں کو استعمال کرتی ہے۔ یہ مذہبی جماعتیں 5 فیصد سے بھی کم عوامی نمایندگی رکھنے کے باوجود ریاستی پالیسی سازی پر حاوی ہیں۔
ملک میں اسٹیبلشمنٹ نے اپنی بالادستی قائم کرنے کے لیے جو اقدامات کیے ان میں سے بیشتر سفاکانہ رہے ہیں۔ مثلاً بنگالیوں کی عددی تعداد سے خوفزدہ مغربی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے پیریٹی کا جو فارمولہ استعمال کیا وہ غیر جمہوری ہونے کے ساتھ ساتھ ظالمانہ بھی تھا۔ مگر اب چھوٹے صوبوں کے مفادات کو تحفظ دینے کے لیے اس اصول کو دوبارہ نافذ نہیں کیا جا رہا، اس وقت وفاق کے زیر انتظام کسی بھی سروس میں چھوٹے صوبوں کو ان کی آبادی کے تناسب سے حصہ نہیں مل رہا۔ جس کی مثال وفاقی سیکریٹریوں کی صوبوں کے لحاظ سے تعداد ہے۔ اس وقت 39 وفاقی سیکریٹری ہیں، جن میں خیبرپختونخوا سے 12، سندھ سے 2، جب کہ بلوچستان سے ایک بھی وفاقی سیکریٹری نہیں ہے۔ باقی تمام سیکریٹریوں کا تعلق پنجاب سے ہے۔ حالانکہ سندھ دوسرا بڑا صوبہ ہے۔
حالت یہ ہے کہ کرپشن اور دہشت گردی کے خلاف آپریشن کا رخ سندھ کی جانب موڑ دیا ہے گیا ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے، جیسے صرف ایک صوبے میں فرشتے آباد ہیں، باقی صوبے جرائم پیشہ افراد اور غیر ملکی ایجنٹوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ ایک ایسی صورتحال میں اگر رضاربانی اس ناانصافی کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں، تو ان پر انگشت نمائی کی جاتی ہے۔ لیکن کوئی یہ سوچنے پر آمادہ نہیں کہ انھوں نے جو کچھ کہا، وہ قوم کے وسیع تر مفاد میں کہا اور اس ملک کو مزید انتشار اور فکری تقسیم سے بچانے کی خاطر کہا۔