جو ہم پہ گزری سو گزری
ہمیشہ سے سنتے آرہے ہیں کہ اللہ نے دنیا میں ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجے، چند کے نام تو بیان کیے جاتے ہیں۔
اللہ نے شیطان کو اجازت دے دی کہ ''جا! جو تجھے کرنا ہے کر۔۔۔ اور یاد رکھ! جو میرے نیک بندے ہوں گے وہ تیرے بہکاوے میں نہیں آئیں گے۔'' اور میں سوچتا ہوں کہ یہ جو ہمارا حال ہے اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ جنت تو بہت چھوٹی ہوگی باقی دوزخ ہی دوزخ ہوگی۔ اللہ سے کوئی ڈرتا ہی نہیں، اللہ کی کوئی مانتا ہی نہیں۔ دیکھیں ذاتی فعل کا ہر کوئی خود ذمے دار ہے، مگر ایسے فعل جس سے دوسرے متاثر ہوں، ناقابل معافی ہیں، مگر ہم شیطان کی بات مانے جا رہے ہیں، اور اس کے کام کرے جارہے ہیں۔
ہمیشہ سے سنتے آرہے ہیں کہ اللہ نے دنیا میں ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجے، چند کے نام تو بیان کیے جاتے ہیں۔ یہ جو دوسرے مذاہب ہیں ان کے اوتاروں نے بھی شانتی ہی کا درس دیا ہے۔ اللہ کے انکاری مفکروں نے بھی محبت، بھائی چارے ہی کا درس دیا ہے۔ وہ پیغمبر، اوتار، مفکر سب صحیح تھے۔ ہم پیروکاروں، کلمہ گوؤں نے ہی حدیں مکا دیں۔ اور شیطان کو ہی بڑا مان کر اسی کے ساتھ ہو لیے۔ ہمارے زلفی بھائی جل بھن کر کہا کرتے ہیں ''اور آؤ۔۔۔مارو کنکریاں، اگلے سال پھر آنا، پھر کنکریاں مارنا، مگر دیکھ لو میں کھڑا ہوں۔''
منیٰ میں کیا ہوا؟ تفصیل میں کیا جانا۔ بادشاہوں اور شہزادوں کی خیر ہو۔ آج بھی کہیں اعلانیہ بادشاہتیں ہیں اور کہیں بھیس بدلے ہوئے ہیں۔
ہندوستان کے دارالحکومت سے محض 47 کلومیٹر دور ایک گاؤں میں مسلمان کو اس شبے میں اینٹیں، پتھر، ڈنڈے مار مار کر ختم کردیا کہ اس کے گھر میں گائے کا گوشت ہے۔ مرنے والے کی بیٹی روتے ہوئے کہہ رہی تھی ''اگر وہ گائے کا گوشت نہ نکلا تو کیا میرے ابا واپس آجائیں گے؟'' اللہ کے بعد بڑا مرتبہ انسان کا ہے، مگر ہم انسانوں نے گھوڑے، گائے کو آگے کردیا۔ جالب نے کہا تھا:
ایدھر گھوڑا' اودھر گاں
دس بندیا' میں کدھر جاں
ہم ہندوستان کی کیا بات کریں، ادھر اپنے پاکستان میں کیا کیا ناپاک کام نہیں ہوئے ہیں اور خصوصاً ہمارے شہر کراچی میں انسانوں کو انسانوں نے کس کس انداز سے مارا ہے۔ ابھی تو سب چپ ہیں ذرا اور وقت گزر جانے دو، دھڑا دھڑ کتابیں آئیں گی اور خوب بکیں گی، لکھاری خوب پیسہ کمائیں گے۔
المیہ یہی ہے کہ جب ظلم ہو، تو کوئی نہیں لکھتا۔ بستی اجڑ رہی ہوتی ہے تو کوئی آگے بڑھ کر ظالم کا ہاتھ نہیں روکتا، کوئی نہیں بولتا۔ جالب نے اسی رویے پر کہا تھا:
کج فہم و کج نگاہ ادیبوں کو دیکھیے
بستی اجڑ چکے گی' تو لکھیں گے مرثیے
ہندوستان میں ہندو مسلمانوں کے ساتھ وہی کچھ کر رہے ہیں جو پاکستان میں مسلمان، مسلمانوں کے ساتھ کر رہے ہیں۔ غور کرلیں بھرے پرے گھروں کو آگ ہم بھی لگاتے ہیں، فیکٹریوں کو آگ لگا کر مین گیٹ پر تالے لگا دیتے ہیں کہ کوئی جان بچا کر باہر نہ نکل سکے، بلڈنگوں کو آگ لگا دیتے ہیں، وکلا جل کر کوئلہ بن جاتے ہیں، ہم اینٹوں کے بھٹے میں زندہ میاں بیوی کو پھینک دیتے ہیں۔ پورے پورے محلے، آبادیاں جلا کر راکھ کردیتے ہیں۔ مسجدوں میں بم باندھ کر گھس جاتے ہیں، نمازی مارے جاتے ہیں، اللہ کی کتاب بھی ماری جاتی ہے۔ نبیؐ کے فرمان کو ایک طرف رکھ کے گرجے، مندر بھی نہیں چھوڑتے۔ ارے ہم نے تو اولیا اللہ کے مزارات کو بھی نہیں بخشا۔ بہنوں نے اپنے دوپٹے، قاتلوں کے پیروں میں ڈال دیے، بے ردا ہوکر اپنے بھائیوں کی جان بخشی چاہی، مگر موبائل پر ہدایات آرہی تھیں ''جلدی کام ختم کرو۔'' اور چار بھائیوں کے سینوں میں پورے پورے برسٹ اتار دیے گئے۔ کئی بار یوں بھی ہوا کہ باپ بیٹے کو گھر والوں کے سامنے مار دیا گیا۔
میں تو کچھ بھی نہیں لکھ رہا جو حالات کے ''ساز گار'' ہوتے ہی اسکرین پلے کے ساتھ لکھا جائے گا۔ عوام کو چاہیے کہ ایسی کتابوں کو یکسر رد کردیں۔ یہ تو زخموں پر نمک چھڑکنے والی بات ہوگی۔
جناب! گھر کو اجڑتے، بکھرتے ہم دیکھتے رہے۔ الیکشن ہوتے رہے، ایوان بالا و زیریں چمکتے دمکتے رہے، ابن الوقت سیاستدان نہایت ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تھالی کا بینگن بنتے ہوئے قلابازیاں کھاتے رہے اس چھتری سے اس چھتری پر جاتے رہے۔ کیا ملا کیا رہبر۔ سب ظلم کے حصے دار رہے۔ عوام بھوک سے مرتے رہے۔ بغیر دوا غریب مرتے رہے، غریب بچے تعلیم سے محروم رہے، اسکولوں میں وڈیروں جاگیرداروں کے گھوڑے بندھے رہے اور وزیروں کی تقریریں آج بھی جاری ہیں۔ میں حیران ہوں کہ یہ تقریروں کی بجائے روزانہ کی بنیاد پر غریبوں کے لیے کام کیوں نہیں کرتے۔ روزانہ رات کو سونے سے پہلے اپنی ڈائری دیکھیں کہ آج غریبوں کے لیے کیا کام کرنے تھے، کتنے ہوگئے، کل کیا کام کرنے ہیں، وہ جیسے وکیل اپنی ڈائری لکھتا ہے کہ اسے کس کس عدالت میں کون کون سا کیس لڑنا ہے۔مگر یہ وزیران کرام بس تقریریں ہی کیے جا رہے ہیں۔ ہمارے شہر کراچی کے رضا ربانی ان کی بڑی جدوجہد ہے۔ 30 ستمبر 2015 کی صبح ربانی صاحب فتح یاب علی خاں کی یاد میں ہونے والے جلسے میں آئے ہوئے تھے۔ فتح یاب صاحب کی بیگم ڈاکٹر معصومہ نے بڑی محبت کے ساتھ مجھے مدعو کیا تھا۔ سو میں گیا، رضا ربانی کو عرصے بعد سامنے دیکھا۔ مجھے پارلیمنٹ کا راستہ معلوم نہیں۔ اسلام آباد چار مرتبہ گیا تو بس ادھر ادھر کتب گھر یا کسی ادیب شاعر سے مل کر چلا آیا۔
ماشا اللہ اپنے رضاربانی پہلے بھی ''ہمارے'' بڑے لیڈر تھے، مگر میں نے دیکھا اب وہ ''چوٹی کے لیڈر'' بن گئے ہیں۔ تقریر وہ پہلے بھی خوب کرتے تھے، سو اس روز بھی بڑی دھواں دھار تقریر کی۔ کہہ رہے تھے کہ احتساب سب کا ہونا چاہیے۔ ہم اس بات پر ان کے ساتھ ہیں مگر عرض ہے کہ 68 سال میں کتنا گند ہوا ہے، حشر یہ ہے کہ ہر طرف تعفن پھیلا ہوا ہے۔ اتنی بدبو ہے کہ خدا کی پناہ۔ اس طویل گند کے خاتمے کے لیے موجودہ اکتساب کچھ بھی نہیں۔ بات چلنے دو، اور اصل احتساب سے ڈرو ۔۔۔۔کہ بقول فیض ''جب تاج اچھالے جائیں گے /جب تخت گرائے جائیں گے''یہ والا احتساب تو عوام ہی کرسکتے ہیں۔ ''اور کچھ دیر کہ ٹوٹا درِ زنداں یارو''۔
لگتا ہے اپنے رضاربانی کے بال خاصے لمبے ہوگئے ہیں، اسی لیے انھوں نے بالوں کو ''پونی'' سے باندھ رکھا تھا۔ باقی یہ جو نزلے زکام کی دوا لینے بیرون ملک جاتے ہیں اور جو باہر کی اعلیٰ درسگاہوں میں پڑھنے جاتے ہیں ان پر ہر سطح کے الیکشن میں حصہ لینا بند کردو۔ ورنہ یہ تعلیم یہیں حاصل کریں اور اپنے ہر مرض کا علاج یہیں کروائیں۔ رضا ربانی! دیوانے کی بڑ پر ذرا توجہ دینا۔