قدرت کا قانون
ان کے نانا ایک بڑے آدمی تھے۔ والد کا بھی بڑا نام تھا اور والدہ فاطمہ۔
ان کے نانا ایک بڑے آدمی تھے۔ والد کا بھی بڑا نام تھا اور والدہ فاطمہ۔ جی ہاں ڈاکٹر فاطمہ نے اپنے شوہر کے ساتھ مل کر ڈاکٹر ضیا الدین اسپتال کی بنیاد رکھی۔ جب سے ڈاکٹر عاصم گرفتار ہوئے ہیں اس وقت سے میڈیا پر ایک قسم کی بحث ہو رہی ہے۔ ایسی بحث جو کرپشن یا دہشت گردوں کی امداد کے سلسلے میں کسی ملزم کے حوالے سے نہیں ہوئی۔ کہا جا رہا ہے ایک بڑی شخصیت کے نواسے اور بڑے قابل و خوشحال والدین کی اولاد کو اس طرح کے کام کرکے ان کی بدنامی کا سبب نہیں بننا چاہیے تھا۔ انسانی نفسیات سے آگہی نہ ہونے کے سبب لوگ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر عاصم کو یہ سب کچھ نہیں کرنا چاہیے تھا۔
ڈاکٹر عاصم کے والد تجمل حسین اور والدہ ڈاکٹر فاطمہ نے ان کے نانا ڈاکٹر ضیا الدین کے نام سے اسپتال قائم کیا۔ ایک ماہر تعلیم اور انتہائی قابل شخصیت کے نواسے کو اپنے نانا کے نام کی لاج رکھنی چاہیے تھی۔ ان کے نام سے قائم کراچی میں کئی ایکڑوں پر مشتمل اسپتال سے روزانہ کئی لاکھ کی آمدنی ہوتی ہوگی۔ مزید اسپتال و ٹی وی چینل و دیگر ذرایع اور وسائل کو شامل کیا جائے تو ڈاکٹر عاصم کو کچھ کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ پھر ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ، سمجھ دار اور سلجھے ہوئے شخص نے وہ کچھ کیوں کیا کہ الزام کی زد میں آگیا۔ صدیوں کی بنائی ہوئی ساکھ کو برسوں میں کیوں گنوا دیا گیا قدرت کے قانون اور انسانی نفسیات کو سمجھنے والوں کو اس پر کوئی حیرت نہیں ہوئی۔ آئیے دونوں باتوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
انسان کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے؟ دولت۔ 99.99 فیصد لوگ خوشحالی چاہتے ہیں۔ اچھا کھانا، عمدہ لباس، بہترین گھر، شاندار سواری، دنیا بھر کا سفر۔ آگے بڑھ کر دیکھیں تو انسان قابل و خوبصورت بیوی، لائق بچے، بے شمار دوست، ہزاروں احباب اور لاکھوں چاہنے والوں کی تمنا کرتا ہے۔ پہلی پانچ چیزوں کو دیکھیں تو وہ یقیناً دولت ہی سے حاصل ہوتی ہیں۔ چاہے ٹھیلے سے روٹی و چھولے کھائے جائیں یا فائیو اسٹار ہوٹل کا کھانا ہو، یہ کچھ پیسے کے بغیر ممکن نہیں۔ لوٹ سیل میں لگا سستا سا لباس ہو یا عمدہ تراش خراش کا شاندار کمپنی کا کئی ملین کا سوٹ، دونوں کے لیے روپے پیسے کی حاجت ہوتی ہے۔
غریب کی کُٹیا ہو یا کسی بل گیٹس کا محل، دونوں کے لیے روپے یا ڈالرز کی ضرورت ہر وقت رہتی ہے۔ پرانی سائیکل ہو یا دنیا کی قیمتی ترین گاڑی دونوں کے لیے دولت کی حاجت رہتی ہے۔ اسی طرح چھوٹے سے چھوٹا سفر کسی ریل گاڑی پر ہو یا چارٹرڈ طیارے کے ذریعے دنیا بھر کی سیر ہو یا ذاتی ہیلی کاپٹر کے ذریعے آنا جانا، ٹکٹ کی رقم ہر حال دینی پڑتی ہے یا بیلنس شیٹ میں اخراجات والے کالم میں پٹرول و اسٹاف کی تنخواہ کے آگے کچھ نہ کچھ رقم لکھی ہوتی ہے۔ یوں انسان کی پہلی خواہش دولت ان تمام کاموں کے لیے درکار ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ تو ڈاکٹر عاصم کے پاس تھا۔ پھر کیوں الزامات و گرفتاریوں کے صدمے؟
قابل و خوب صورت بیوی، لائق بچے، بے شمار دولت، ہزاروں احباب اور لاکھوں چاہنے والے۔ ان پانچ چیزوں کے لیے دولت کی ضرورت نہیں رہتی۔ یہ کسی بھی غریب شخص، سماجی کارکن، مخلص، خدمت گزار اور عام سے مبلغ کو حاصل ہوسکتی ہیں۔ یہ 5+5 چیزیں انسان کو عزت دیتی ہیں۔ دولت سے بھی انسان عزت حاصل کرتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ خالی ہاتھ ہوتے ہوئے بھی ہزاروں ہاتھ اس سے ہاتھ ملانے کے شیدائی ہوتے ہیں۔ یوں کسی بھی ایک ذریعے سے ڈاکٹر عاصم کو عزت تو حاصل تھی ہی۔ پھر کیوں ایسی صورت حال پیدا ہوئی کہ ان کی اہلیہ عدالت سے رہائی کی درخواست نہیں کر رہیں، ضمانت کی درخواست نہیں کر رہیں بلکہ صرف اسپتال میں داخلے کی تمنا تھی اور وہ بھی دل کے معاملے کو لے کر، بالخصوص ان دنوں میں جب دنیا بھر میں ''یوم امراض قلب'' منایا جا رہا تھا۔ رینجرز کے ڈاکٹر نے کہا کہ ڈاکٹر عاصم صحت مند ہیں یوں وہ اسپتال کے بجائے اب تفتیشی اداروں کی تحویل میں ہیں۔ یہ سب کچھ کیوں جب کہ انھیں عزت و دولت تو حاصل تھی۔ انسانی نفسیات مزید کن چیزوں کی طالب ہوتی ہے؟ قانون قدرت اس حوالے سے کیا کہتا ہے؟
دولت و عزت کے بعد انسان کی تیسری خواہش ہوتی ہے کہ اسے شہرت نصیب ہو۔ لوگ اسے جانیں اور پہچانیں۔ وہ کسی محفل میں جائے تو شرکا ایک دوسرے کو کہنیوں سے اشارے کریں کہ ''یہ وہ ہیں''۔ خواتین پرستاروں کا جھرمٹ ہو اور بچے آٹو گراف کو لپکیں۔ فنکاروں اور کھلاڑیوں کو اس قسم کی شہرت مل رہی ہے۔ سیاست دانوں اور سیاست کی بات کرنے والے ٹی وی میزبان بھی اب اس فہرست میں شامل ہیں۔ ڈاکٹر عاصم نے دولت و عزت کے بعد شہرت بھی حاصل کرلی تھی۔ انھوں نے ایک اور چیز کا حصول چاہا۔ حکومت و اقتدار کو چوتھی انسانی خواہش قرار دیا جاسکتا ہے۔ آصف زرداری سے کالج کے زمانے کی دوستی نے ڈاکٹر عاصم کو اقتدار کی غلام گردشوں سے زیادہ قریب کردیا۔ پٹرولیم کی وزارت سونے کی کان ہوتی ہے۔ یہاں تقرر و تبادلے سے ہی کروڑوں کی آمدنی ہوسکتی ہے۔ اقتدار و مکمل اقتدار اسی طرح کی خواہش لے کر آتا ہے جیسے دولت و بے تحاشا دولت کی ہوس انسانی دل میں مچلنے لگتی ہے۔
دو روٹیوں کے لیے جدوجہد کرنے والے مرد، دو جوڑوں کے لیے ترسنے والی خواتین، دو کھلونوں (مہنگی اسکوٹر اور قیمتی فون) کے لیے مچلنے والے نوجوان، دو ہندسے تنخواہ بڑھانے کے خواہش مند ملازمین، دو گریڈ مزید ترقی پانے کے آرزو مند افسران، دوسری دکان کی تمنا کرنے والے تاجر، دوسرے کارخانے کے خواہش مند صنعتکار اور دوسری شادی کے خواہش مند ''نالائق'' شاید اس بات کو نہ سمجھ سکیں۔ بے تحاشا دولت اور مکمل اقتدار کی آرزو والی بات شاید ان کی سمجھ میں نہ آسکے کہ ان کے اندر اب تک صرف خواہشیں مچلتی ہیں۔ یہ پوری ہو جائیں تو بعض انسانوں میں یہ خواہش، ہوس کی شکل میں بدل جاتی ہے۔ قناعت نہ ہو تو انسان، عزت، دولت، شہرت اور حکومت کے بعد بھی سکون سے نہیں بیٹھتا۔ ملک بھر میں حکومت کے بعد علاقائی قیادت، براعظم کی لیڈری اور دنیا بھر کی سیادت چاہتا ہے۔ آخری انسانی خواہش انسان کو اپنے آگے جھکانے کی خواہش ہوتی ہے۔ فرعون کا ''انا ربکم الاعلیٰ'' کا کہنا اور چند بادشاہوں کا چھوٹے دروازے بناکر آنے والوں کو جھکانے کی خواہش اس کا ثبوت ہیں۔
انسانی نفسیات یہ ہے تو قدرت کا قانون کیا ہے؟ وہ کس شخص یا خاندان کو عزت، دولت، شہرت و حکومت مخصوص وقت کے لیے دیتا ہے۔ جب تک وہ قدرت کے قانون کا پابند رہتا ہے اس وقت تک دولت اس کی باندی، عزت اس کی رکھوالی ، شہرت اس کی نیک نامی اور حکومت اس کی خلق خدا کی خدمت گزاری کا ذریعہ بنتی ہے۔ قدرت کا قانون اس کے بندوں کی خبر گیری اور دست گیری کے گرد گھومتا رہتا ہے۔ قدرت بعض اوقات دوسری یا تیسری اور کبھی کبھار چوتھی یا پانچویں نسل تک اس خاندان پر اپنا لطف و کرم جاری رکھتی ہے کہ بڑے آدمی کی اولاد بڑے کام کرتی رہتی ہے۔ پھر قدرت کسی ایک گروہ سے دوسرے کو پٹوا کر اسے عبرت کا نشان بنا دیتی ہے۔ قناعت و خدمت خلق ہو تو قدرت کی رسی دراز رہتی ہے۔ فضول خرچی اور خودغرضی ہو تو کھینچ لی جاتی ہے قدرت کی لگام کہ یہ ہے انسانی نفسیات اور یہ ہے قدرت کا قانون۔