ٹیکسوں کی بھرمار کے باعث ٹیلی کام سیکٹر میں سرمایہ کاری رکنے کا خدشہ
نیکسٹ جنریشن کے باقی اسپیکٹرم اورایک لائسنس کی نیلامی سے حکومت کو65ارب کی آمدن کے حصول کا ہدف بھی مشکل میں پڑگیا
ٹیلی کام سیکٹر پر ٹیکسوں کی بھرمار اور وفاقی اور صوبوں کی جانب سے عائد کردہ دہرے ٹیکسوں کی وجہ سے اس شعبے میں سرمایہ کاری کا عمل رکنے کا خدشہ ہے۔
ٹیلی کام کمپنیاں اپنے ریونیو کا 50فیصد حصہ ٹیکسوں میں ادا کررہی ہیں۔ انٹرنیٹ پر صوبائی ٹیکس کے نفاذ کے بعد انٹرنیٹ کے استعمال کے رجحان میں کمی کی وجہ سے ٹیلی کام کمپنیوں کو بھی ریونیو میں کمی کا سامنا ہے۔ انڈسٹری ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹیلی کام سروسز پر ٹیکسوں کی بھرمار کی وجہ سے حکومت کیلیے رواں مالی سال کے دوران نیکسٹ جنریشن (تھری جی /فورجی) کے باقی اسپیکٹرم اور ایک کمپنی کے لیے لائسنس کی نیلامی سے 65ارب روپے کی آمدن کا ہدف دشوار تر ہوگیا ہے۔ انڈسٹری ماہرین نے انکشاف کیا کہ پاکستان میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کرنے و الی ٹیلی کام کمپنیاں ٹیکسوں کی وجہ سے بلند کاروباری لاگت اور ریونیو میں کمی کے سبب خسارے میں چل رہی ہیں ٹیلی کام کمپنیاں آپریٹنگ منافع تو کما رہی ہیں لیکن ٹیکس منہا کرکے خسارے کا سامنا ہے۔ مالی سال 2013-14کے اعدادوشمار کے مطابق ٹیلی کام سیکٹر کی مجموعی آمدن 465ارب 54کروڑ روپے کے مقابلے میں محصولات کی مالیت 234ارب 53کروڑ روپے رہی، اس طرح اس شعبے نے اپنے ریونیو کا 50فیصد ٹیکسوں اور پی ٹی اے ڈپازٹ کی مد میں ادا کیا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کو اپنے اہداف کی حصولی میں ناکامی پر مزید ٹیکسز عائد کرنے کے بجائے اپنی ٹیکس پالیسیوں پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال اپریل میں ٹیلی کام کمپنیوں نے 3G اور4G کی مد میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کی تھی جبکہ حکومت کی جانب سے یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ اس سیکٹر کی بہتری کیلیے مزید اقدامات کیے جائیں گے۔ اس کے برخلاف موجودہ بجٹ میں اس سیکٹر پرود ہولڈنگ ٹیکس میں اضافہ کے ساتھ ڈیٹا سروسز پر 19 فیصد تک صوبائی جی ایس ٹی عائد کر دیا گیا ہے جو ملک میں جدید ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ میں بڑی رکاوٹ بن سکتا ہے۔ان کا موقف تھا کہ ان ٹیکسز سے ملک کا متوسط طبقہ شدید متاثر ہو گا جو پہلے ہی لاتعداد بلا واسطہ ٹیکسز ادا کر رہا ہے۔ پاکستان میں تھری جی اور فور جی ٹیکنالوجی کیلیے ٹیلی کام سیکٹر کی جانب سے ایک ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کی گئی اس سرمایہ کاری کے فوری بعد انفرااسٹرکچر اور تھری جی رول آؤٹ پروگرام پر بھی اربوں روپے خرچ کیے گئے تاہم ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں موبائل فونز کے غیرقانونی استعمال کی روک تھام کیلیے سموں کی ازسر نو بائیومیٹرک تصدیق کی مہم کے دوران چار ماہ تک نئی سموں کی فروخت بند رہی جبکہ مہم کے اختتام پر بھی 4کروڑ سے زائد سمیں بلاک کردی گئیں، ان عوامل نے مل کر ٹیلی کام سیکٹر کے ریونیو اور گروتھ پر شدید منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔
صوبوں کی جانب سے انٹرنیٹ پر ٹیکسوں کے نفاذ اور وفاقی سطح پر بھی ود ہولڈنگ ٹیکس نے انٹرنیٹ کی لاگت کو 34فیصد تک بڑھا دیا ہے، اس صورتحال میں وہ کمپنیاں جنہوں نے رواں مالی سال کے دوران انٹرنیٹ ٹیکس اپنے صارفین سے وصول نہیں کیا، شدید مالی خدشات سے دوچار ہیں بالخصوص پنجاب حکومت کی جانب سے انٹرنیٹ ٹیکس عائد نہ کرنے کی یقین دہانی کے باوجود ٹیکس عائد کیے جانے کی وجہ سے ان کمپنیوں کی اعلیٰ انتظامیہ سر جوڑ کر انٹرنیٹ پر ٹیکس کے سبب کمپنی کی مالی کارکردگی پر ممکنہ اثرات سے نمٹنے کی پیش بندی میں مصروف ہیں جبکہ متعدد کمپنیاں بڑے پیمانے پر چھانٹیوں پر بھی غور کررہی ہیں۔ ٹیلی کام سیکٹر کو خدشہ ہے کہ اگر حکومت نے انٹرنیٹ ٹیکس پر لچک نہ دکھائی تو کمپنیوں کو اپنے ذرائع سے پہلی سہ ماہی کا ٹیکس ادا کرنا ہوگا جس سے کمپنی کے ریونیو اور منافع میں نمایاں کمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ادھر رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں ٹیکس وصولیاں ہدف سے 63 ارب روپے کم رہنے کے بعد ہے بعید ہے کہ حکومت ترقیاتی فنڈز میں کمی کرتے ہوئے ان سیکٹرز پر مزید ٹیکسز عائد کریگی جو پہلے ہی ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ ان شعبوں میں سرفہرست سگریٹ انڈسٹری، ٹیلی کام سیکٹر، مین پاور آؤٹ سورسنگ کمپنیاں، محدود پیمانے پر کام کرنے والی سروسز فراہم کرنے والی کمپنیاں اور دیگر کئی ایسے سیکٹرز ہیں جن پر ٹیکسز کا مزید دباؤ ڈالا جا سکتا ہے۔
ٹیلی کام کمپنیاں اپنے ریونیو کا 50فیصد حصہ ٹیکسوں میں ادا کررہی ہیں۔ انٹرنیٹ پر صوبائی ٹیکس کے نفاذ کے بعد انٹرنیٹ کے استعمال کے رجحان میں کمی کی وجہ سے ٹیلی کام کمپنیوں کو بھی ریونیو میں کمی کا سامنا ہے۔ انڈسٹری ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹیلی کام سروسز پر ٹیکسوں کی بھرمار کی وجہ سے حکومت کیلیے رواں مالی سال کے دوران نیکسٹ جنریشن (تھری جی /فورجی) کے باقی اسپیکٹرم اور ایک کمپنی کے لیے لائسنس کی نیلامی سے 65ارب روپے کی آمدن کا ہدف دشوار تر ہوگیا ہے۔ انڈسٹری ماہرین نے انکشاف کیا کہ پاکستان میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کرنے و الی ٹیلی کام کمپنیاں ٹیکسوں کی وجہ سے بلند کاروباری لاگت اور ریونیو میں کمی کے سبب خسارے میں چل رہی ہیں ٹیلی کام کمپنیاں آپریٹنگ منافع تو کما رہی ہیں لیکن ٹیکس منہا کرکے خسارے کا سامنا ہے۔ مالی سال 2013-14کے اعدادوشمار کے مطابق ٹیلی کام سیکٹر کی مجموعی آمدن 465ارب 54کروڑ روپے کے مقابلے میں محصولات کی مالیت 234ارب 53کروڑ روپے رہی، اس طرح اس شعبے نے اپنے ریونیو کا 50فیصد ٹیکسوں اور پی ٹی اے ڈپازٹ کی مد میں ادا کیا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کو اپنے اہداف کی حصولی میں ناکامی پر مزید ٹیکسز عائد کرنے کے بجائے اپنی ٹیکس پالیسیوں پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال اپریل میں ٹیلی کام کمپنیوں نے 3G اور4G کی مد میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کی تھی جبکہ حکومت کی جانب سے یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ اس سیکٹر کی بہتری کیلیے مزید اقدامات کیے جائیں گے۔ اس کے برخلاف موجودہ بجٹ میں اس سیکٹر پرود ہولڈنگ ٹیکس میں اضافہ کے ساتھ ڈیٹا سروسز پر 19 فیصد تک صوبائی جی ایس ٹی عائد کر دیا گیا ہے جو ملک میں جدید ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ میں بڑی رکاوٹ بن سکتا ہے۔ان کا موقف تھا کہ ان ٹیکسز سے ملک کا متوسط طبقہ شدید متاثر ہو گا جو پہلے ہی لاتعداد بلا واسطہ ٹیکسز ادا کر رہا ہے۔ پاکستان میں تھری جی اور فور جی ٹیکنالوجی کیلیے ٹیلی کام سیکٹر کی جانب سے ایک ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کی گئی اس سرمایہ کاری کے فوری بعد انفرااسٹرکچر اور تھری جی رول آؤٹ پروگرام پر بھی اربوں روپے خرچ کیے گئے تاہم ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں موبائل فونز کے غیرقانونی استعمال کی روک تھام کیلیے سموں کی ازسر نو بائیومیٹرک تصدیق کی مہم کے دوران چار ماہ تک نئی سموں کی فروخت بند رہی جبکہ مہم کے اختتام پر بھی 4کروڑ سے زائد سمیں بلاک کردی گئیں، ان عوامل نے مل کر ٹیلی کام سیکٹر کے ریونیو اور گروتھ پر شدید منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔
صوبوں کی جانب سے انٹرنیٹ پر ٹیکسوں کے نفاذ اور وفاقی سطح پر بھی ود ہولڈنگ ٹیکس نے انٹرنیٹ کی لاگت کو 34فیصد تک بڑھا دیا ہے، اس صورتحال میں وہ کمپنیاں جنہوں نے رواں مالی سال کے دوران انٹرنیٹ ٹیکس اپنے صارفین سے وصول نہیں کیا، شدید مالی خدشات سے دوچار ہیں بالخصوص پنجاب حکومت کی جانب سے انٹرنیٹ ٹیکس عائد نہ کرنے کی یقین دہانی کے باوجود ٹیکس عائد کیے جانے کی وجہ سے ان کمپنیوں کی اعلیٰ انتظامیہ سر جوڑ کر انٹرنیٹ پر ٹیکس کے سبب کمپنی کی مالی کارکردگی پر ممکنہ اثرات سے نمٹنے کی پیش بندی میں مصروف ہیں جبکہ متعدد کمپنیاں بڑے پیمانے پر چھانٹیوں پر بھی غور کررہی ہیں۔ ٹیلی کام سیکٹر کو خدشہ ہے کہ اگر حکومت نے انٹرنیٹ ٹیکس پر لچک نہ دکھائی تو کمپنیوں کو اپنے ذرائع سے پہلی سہ ماہی کا ٹیکس ادا کرنا ہوگا جس سے کمپنی کے ریونیو اور منافع میں نمایاں کمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ادھر رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں ٹیکس وصولیاں ہدف سے 63 ارب روپے کم رہنے کے بعد ہے بعید ہے کہ حکومت ترقیاتی فنڈز میں کمی کرتے ہوئے ان سیکٹرز پر مزید ٹیکسز عائد کریگی جو پہلے ہی ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ ان شعبوں میں سرفہرست سگریٹ انڈسٹری، ٹیلی کام سیکٹر، مین پاور آؤٹ سورسنگ کمپنیاں، محدود پیمانے پر کام کرنے والی سروسز فراہم کرنے والی کمپنیاں اور دیگر کئی ایسے سیکٹرز ہیں جن پر ٹیکسز کا مزید دباؤ ڈالا جا سکتا ہے۔