معاملے بچوں کے دل کے ۔ ۔ ۔
والدین کی طرف سے محبت کے خلاف فیصلے کے بعد بچے اداسی کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔
BAHAWALPUR:
گزشتہ دنوں کراچی کے ایک نجی اسکول میں ساتھی طالبہ کے قتل کے بعد طالب علم کی خود کُشی کے افسوس ناک واقعے نے ہر شخص کو دکھی کر دیا۔ نوعمری کی محبت کا اندوہ ناک انجام دیکھ کر سب کے دل دہل گئے۔ یہ حادثہ آج کل کے والدین کے لیے ایک لمحۂ فکریہ ہے، کتنی ہی مصروفیات کیوں نہ ہو، بچے والدین سے ہی سب سے زیادہ قریب ہونے چاہئیں۔ اگر یہ فاصلہ بڑھ رہا ہے، تو والدین کو فکر کرنی چاہیے۔
محبت ایک خوب صورت جذبہ ہے، انسان میں صنف مخالف سے محبت زندگی میں ایک مسرت کے احساس کو جنم دیتی ہے، بعض اوقات یہ جذبہ انسان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت میں خلل ڈال دیتا ہے، اور پھر اس کے نتائج منفی نکلتے ہیں، لیکن والدین اپنے دوستانہ رویے کے ذریعے اولاد کو جذباتی کیفیت سے نکال سکتے ہیں۔ خصوصاً ماں کا کردار بے حد اہم ہے، کیوں کہ ماں بچے کی کیفیت اس وقت بھی جان جاتی ہے، جب وہ کچھ کہنے کے قابل بھی نہیں ہوتا۔
ایسے مسلئے پر والدین کو دوستانہ رویہ اپنانا چاہیے، بصورت دیگر اولاد میں باغیانہ سوچ پنپنے لگتی ہے۔ لڑکپن کے جذبات خاصے نازک ہوتے ہیں۔ اس عمر میں عموماً بہت سنجیدہ قسم کی محبت کا اظہار کیا جاتا ہے۔ اس وقت والدین کو ٹھنڈے دل و دماغ سے کام لیتے ہوئے بچوں کو اپنی اقدار اور توقعات سے آگاہ کرنا چاہیے۔ بچے کی پسند، اس کی محبت کے متعلق سن کر شدید ردعمل کے بہ جائے بغور سنیں۔ ممکن ہو تو ملاقات بھی کر لیں۔ اگر وہ لڑکا یا لڑکی موزوں انتخاب ہے، تو سراہیں شادی کے لیے آمادگی کا اظہار کرتے ہوئے سمجھائیں کہ ''تعلیم مکمل ہونے اور لڑکے کے معاشی طور پر مستحکم ہونے کے بعد کر دیں گے۔'' ان کو شفقت سے سمجھائیں یا کچھ عرصے کے لیے معاملے کو التوا میں ڈال دیں۔
آج کل نوعمر بچوں کی سماجی ذرایع اِبلاغ (سوشل میڈیا) پر صنف مخالف سے دوستی بھی عام ہوتی جا رہی ہے۔ بچے ایسے کسی دوست کا تذکرہ کریں، تو توجہ اور دل چسپی سے سنیں اور مثبت تاثر دیتے ہوئے، خود بھی اسے اپنے پاس شامل کر لیں۔
عموماً عمر کے اس دور میں معاملات وقتی بھی ہوتے ہیں۔ جب اولاد والدین سے اپنی محبت اور شادی کی خواہش کا اظہار کریں، تو والدین کو اولاد کی عمر کے لحاظ سے دانش مندانہ رویہ اپنانا چاہیے۔ یہ محبت کتنی ہی غیر حقیقی اور نامناسب کیوں نہ ہو، لیکن پوری توجہ سے اس کے بارے میں معلومات حاصل کریں اور ان کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچائیں، ورنہ اندیشہ ہے کہ اس کو دکھ ہوگا اور آیندہ وہ آپ سے اس موضوع پر بات کرنے سے کترائے گا۔ بات سننے کے بعد فوری طور پر کوئی فیصلہ صادر کرنے سے گریز کریں۔
اگر آپ رضا مند ہوں، تب بھی اسے پہلے اپنی تعلیم پر توجہ دینے کے لیے کہیں۔ متوازن حالات میں پرورش پانے والے بچے والدین کی خوشی مقدم رکھتے ہیں، بشرطے کہ والدین کی طرف سے انہیں شفقت اور محبت کا احساس رہے۔
جن بچوں کو گھر میں کوئی ہم راز نہیں ملتا، تو وہ یہ کمی باہر کے کسی فرد سے پوری کر لیتے ہیں۔ ویسے بھی سخت مزاج لوگوں کے ساتھ رہنے والے خوف کا شکار ہوتے ہیں یا بغاوت کر بیٹھتے ہیں۔ اولاد اگر دوسرا رویہ اپنالے تو خطرے کی علامت ہوتی ہے۔ لہٰذا والدین اپنی اولاد کی محبت کو سمجھتے ہوئے اس لڑکے یا لڑکی سے ضرور ملیں۔
اگر وہ لڑکا یا لڑکی ٹھیک ہو تو رضا مندی ظاہر کر دیں، دوسری صورت میں غصے کے بغیر اولاد کو اُس کی خامیوں کا احساس دلائیں۔ اولاد اسی وقت اپنے لیے کوئی بہتر فیصلہ کر پاتی ہے، جب اس کو احساس ہو کہ والدین سب سے زیادہ مخلص ہیں اور وہ حکم نہیں دے رہے۔ البتہ عمر کے اس جذباتی دور میں اولاد کی طرف سے کوئی جذباتی ردعمل بھی سامنے آسکتا ہے، جو والدین کے لیے مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔ گھر میں کم وقت دینا، بات چیت اور نہ کھانا پینا اور انتہائی قدم کے طور پر گھر سے فرارکی دھمکی سامنے آسکتی ہے۔ اگر سخت انکار بھی ہو تو، کوئی بھی وجہ درمیان میں لا کر اسے مسئلے کو التوا میں ڈال دیں، مقصد صرف وقت گزارنا ہو، تاکہ آپ کو بچے کو سمجھانے کے لیے وقت بھی مل سکے۔
والدین کی طرف سے محبت کے خلاف فیصلے کے بعد بچے اداسی کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے میں ان کی توجہ کسی اور جانب مبذول کرانا ضروری ہے۔ مثلاً بچوں کے ساتھ کہیں گھومنے جانا، باہر کھانا کھلانے لے جانا، ان کی من پسند شے تحفے میں دینا، گھر میں خوش گوار ماحول رکھنا، مزاحیہ باتیں کرنا وغیرہ۔ غرض ایسی کوششیں ہیں جو بچے کو اس یاسیت کے خول سے باہر نکلنے میں مدد گار ثابت ہوں۔ ہو سکتا ہے، ابتدا میں چند گھنٹوں کی اس سرگرمی میں اس کا مزاج خوش گوار محسوس ہو۔ اس کے بعد دوبارہ اداسی غالب آ جائے، لیکن چند ہفتوں میں وہ معمول کی زندگی کی طرف لوٹ آئیں گے، لیکن اس دوران والدین کو بچے کو مثبت سرگرمیوں میں مصروف رکھنا پڑے گا۔
محبت میں ناکامی یا والدین کی مخالفت سے اکثر اس عمر میں سب سے پہلے نوجوانوں کے ذہن میں منفی باغیانہ خیالات آتے ہیں۔ مثلاً گھر سے بھاگ جانا یا خود کُشی وغیرہ۔ اس ضمن میں والدین کو دوستوں کی طرح غیر محسوس انداز میں سمجھانا چاہیے۔ مثلاً کسی ڈرامے یا فلم میں خود کُشی یا محبت میں گھر سے بھاگنے کا منظر ہو تو بتائیں کہ یہ اس نے صحیح نہیں کیا۔بچہ اگر پریشانی، ذہنی دباؤ یا اداسی کا شکار نظر آئے، تو نظرانداز نہ کریں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ تھکاوٹ کا شکار ہوں یا اس کا دن اچھا نہ گزرا ہو۔ اس لیے اس کا مزاج خوش گوار نہ ہو، لیکن خودکُشی کرنے والے اکثر اپنی جان لینے سے قبل ایسی کیفیات کا شکار ہوتے ہیں، وہ اکثر چھپ چھپ کر روتے ہیں۔ یہاں تک کہ والدین سے بھی چھپاتے ہیں۔ خصوصاً لڑکے اپنے جذبات بیان کرنے سے گھبراتے ہیں کہ کوئی ان کو کمزور نہ سمجھے۔ لہٰذا اولاد کا انتظار نہ کریں، بلکہ خود پوچھ لیں کہ تم کیوں پریشان یا اداس نظر آرہے ہو۔ اگر شفقت سے کوشش کی جائے گی، تو یقیناً مسئلے کے حوالے سے ضرور آگاہی حاصل ہوگی۔
والدین اور اولاد کے درمیان گفتگو کا مضبوط تعلق نہ ہونے کے سبب بچے انتہائی قدم اٹھاتے ہیں اور والدین غفلت میں رہ جاتے ہیں۔ بچوں سے گفتگو اور ان سے قربت ضروری ہے۔
بچے کی اپنی جان لینے کی دھمکی کو کبھی بھی مذاق نہ سمجھیں۔ زبانی یا تحریری طور پر زندگی یا لوگوں سے مایوسی کی بات کہنا ایک واضح علامت ہوتی ہے۔ اکثر بچے متعدد بار اپنے والدین کو بتاتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ بہت سے لوگ مدد حاصل کرنے کے لیے بھی ایسی باتیں کرتے ہیں، لہٰذا انہیں فوری محبت اور اپنائیت کا احساس دلانے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ مایوسی اور تنہائی کے خول سے باہر نکلیں۔
اکثر لوگ زندگی میں ایک یا دو مرتبہ ایسا محسوس کرتے ہیں، وہ اچھی طرح اس بات کا مطلب سمجھ رہے ہوتے ہیں، لیکن وہ ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں، یہ ہمیں اداسی کے حصار میں قید کر دیتی ہے، بلکہ آپ کی سوچوں پر قابو پا کر آپ کو اس اداسی کے خول سے باہر نکلنے نہیں دیتی اور آپ کو اداسی کے علاوہ کوئی اور راستہ دکھائی نہیں دیتا۔
والدین کی محبت و شفقت کا احساس، ان کا ساتھ جینے کی نئی امنگ پیدا کرتا ہے۔ اگر بچے کے رویے میں تبدیلی محسوس نہ ہو، تو ماہر نفسیات سے رجوع کرنا ضروری ہے۔ کوشش کرنی چاہیے کہ ایسی کیفیات کا شکار بچہ تنہا نہ رہے۔ اکثر اوقات بچے اہل خانہ اور دوستوں سے الگ تھلگ اپنے کمرے میں خود کو قید کر لیتے ہیں۔ اس وقت بچے کا لوگوں کے درمیان رہنا بہتر ہوتا ہے، لیکن اس کے لیے اس کو مجبور نہ کیا جائے۔ جسمانی سرگرمی، ورزش، چہل قدمی بھی اس کیفیت کو ختم کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ درحقیقت اس سے مزاج بہتر ہوتا ہے اور درد کا احساس ختم ہونے لگتا ہے، کیوں کہ ورزش کے ذریعے ہماری توجہ کچھ دیر کے لیے دوسری طرف منتقل ہوجاتی ہے اور ہم بہتر محسوس کرنے لگتے ہیں۔
یاسیت کا شکار نوجوانوں سے یا بچوں سے اس بات کی توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ وہ پہلے کی طرح اپنی ذمے داریوں کو ادا کر پائیں گے، بلکہ اس سلسلے میں ان کی مدد کریں۔ ان کے کاموں کو چھوٹے حصوں میں تقسیم کر دیں۔ زیادہ سے زیادہ ان کی پسندیدہ سرگرمیوں میں شرکت یقینی بنائیں۔ اس کا مقصد ان کا اعتماد بحال کرنا ہے۔
اس کے علاوہ بطور والدین عام حالات میں بھی آپ کی ذمہ داری ہے کہ اگر آپ کے پاس پستول وغیرہ ہے، تو اسے محفوظ مقام پر رکھیں۔ اس کے علاوہ خود کو نقصان پہنچانے والی ادویہ اور کیمیکل وغیرہ تک بھی بچوں کی رسائی نہیں ہونی چاہیے۔ اس کے علاوہ مذہبی تعلیمات سے لگاؤ بھی ہمیں زندگی کی طرف لے کر آتا ہے۔ پنج وقتہ نماز اور اذکار وغیرہ پریشانی اور مایوسی سے نجات دلاتے ہیں۔
گزشتہ دنوں کراچی کے ایک نجی اسکول میں ساتھی طالبہ کے قتل کے بعد طالب علم کی خود کُشی کے افسوس ناک واقعے نے ہر شخص کو دکھی کر دیا۔ نوعمری کی محبت کا اندوہ ناک انجام دیکھ کر سب کے دل دہل گئے۔ یہ حادثہ آج کل کے والدین کے لیے ایک لمحۂ فکریہ ہے، کتنی ہی مصروفیات کیوں نہ ہو، بچے والدین سے ہی سب سے زیادہ قریب ہونے چاہئیں۔ اگر یہ فاصلہ بڑھ رہا ہے، تو والدین کو فکر کرنی چاہیے۔
محبت ایک خوب صورت جذبہ ہے، انسان میں صنف مخالف سے محبت زندگی میں ایک مسرت کے احساس کو جنم دیتی ہے، بعض اوقات یہ جذبہ انسان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت میں خلل ڈال دیتا ہے، اور پھر اس کے نتائج منفی نکلتے ہیں، لیکن والدین اپنے دوستانہ رویے کے ذریعے اولاد کو جذباتی کیفیت سے نکال سکتے ہیں۔ خصوصاً ماں کا کردار بے حد اہم ہے، کیوں کہ ماں بچے کی کیفیت اس وقت بھی جان جاتی ہے، جب وہ کچھ کہنے کے قابل بھی نہیں ہوتا۔
ایسے مسلئے پر والدین کو دوستانہ رویہ اپنانا چاہیے، بصورت دیگر اولاد میں باغیانہ سوچ پنپنے لگتی ہے۔ لڑکپن کے جذبات خاصے نازک ہوتے ہیں۔ اس عمر میں عموماً بہت سنجیدہ قسم کی محبت کا اظہار کیا جاتا ہے۔ اس وقت والدین کو ٹھنڈے دل و دماغ سے کام لیتے ہوئے بچوں کو اپنی اقدار اور توقعات سے آگاہ کرنا چاہیے۔ بچے کی پسند، اس کی محبت کے متعلق سن کر شدید ردعمل کے بہ جائے بغور سنیں۔ ممکن ہو تو ملاقات بھی کر لیں۔ اگر وہ لڑکا یا لڑکی موزوں انتخاب ہے، تو سراہیں شادی کے لیے آمادگی کا اظہار کرتے ہوئے سمجھائیں کہ ''تعلیم مکمل ہونے اور لڑکے کے معاشی طور پر مستحکم ہونے کے بعد کر دیں گے۔'' ان کو شفقت سے سمجھائیں یا کچھ عرصے کے لیے معاملے کو التوا میں ڈال دیں۔
آج کل نوعمر بچوں کی سماجی ذرایع اِبلاغ (سوشل میڈیا) پر صنف مخالف سے دوستی بھی عام ہوتی جا رہی ہے۔ بچے ایسے کسی دوست کا تذکرہ کریں، تو توجہ اور دل چسپی سے سنیں اور مثبت تاثر دیتے ہوئے، خود بھی اسے اپنے پاس شامل کر لیں۔
عموماً عمر کے اس دور میں معاملات وقتی بھی ہوتے ہیں۔ جب اولاد والدین سے اپنی محبت اور شادی کی خواہش کا اظہار کریں، تو والدین کو اولاد کی عمر کے لحاظ سے دانش مندانہ رویہ اپنانا چاہیے۔ یہ محبت کتنی ہی غیر حقیقی اور نامناسب کیوں نہ ہو، لیکن پوری توجہ سے اس کے بارے میں معلومات حاصل کریں اور ان کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچائیں، ورنہ اندیشہ ہے کہ اس کو دکھ ہوگا اور آیندہ وہ آپ سے اس موضوع پر بات کرنے سے کترائے گا۔ بات سننے کے بعد فوری طور پر کوئی فیصلہ صادر کرنے سے گریز کریں۔
اگر آپ رضا مند ہوں، تب بھی اسے پہلے اپنی تعلیم پر توجہ دینے کے لیے کہیں۔ متوازن حالات میں پرورش پانے والے بچے والدین کی خوشی مقدم رکھتے ہیں، بشرطے کہ والدین کی طرف سے انہیں شفقت اور محبت کا احساس رہے۔
جن بچوں کو گھر میں کوئی ہم راز نہیں ملتا، تو وہ یہ کمی باہر کے کسی فرد سے پوری کر لیتے ہیں۔ ویسے بھی سخت مزاج لوگوں کے ساتھ رہنے والے خوف کا شکار ہوتے ہیں یا بغاوت کر بیٹھتے ہیں۔ اولاد اگر دوسرا رویہ اپنالے تو خطرے کی علامت ہوتی ہے۔ لہٰذا والدین اپنی اولاد کی محبت کو سمجھتے ہوئے اس لڑکے یا لڑکی سے ضرور ملیں۔
اگر وہ لڑکا یا لڑکی ٹھیک ہو تو رضا مندی ظاہر کر دیں، دوسری صورت میں غصے کے بغیر اولاد کو اُس کی خامیوں کا احساس دلائیں۔ اولاد اسی وقت اپنے لیے کوئی بہتر فیصلہ کر پاتی ہے، جب اس کو احساس ہو کہ والدین سب سے زیادہ مخلص ہیں اور وہ حکم نہیں دے رہے۔ البتہ عمر کے اس جذباتی دور میں اولاد کی طرف سے کوئی جذباتی ردعمل بھی سامنے آسکتا ہے، جو والدین کے لیے مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔ گھر میں کم وقت دینا، بات چیت اور نہ کھانا پینا اور انتہائی قدم کے طور پر گھر سے فرارکی دھمکی سامنے آسکتی ہے۔ اگر سخت انکار بھی ہو تو، کوئی بھی وجہ درمیان میں لا کر اسے مسئلے کو التوا میں ڈال دیں، مقصد صرف وقت گزارنا ہو، تاکہ آپ کو بچے کو سمجھانے کے لیے وقت بھی مل سکے۔
والدین کی طرف سے محبت کے خلاف فیصلے کے بعد بچے اداسی کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے میں ان کی توجہ کسی اور جانب مبذول کرانا ضروری ہے۔ مثلاً بچوں کے ساتھ کہیں گھومنے جانا، باہر کھانا کھلانے لے جانا، ان کی من پسند شے تحفے میں دینا، گھر میں خوش گوار ماحول رکھنا، مزاحیہ باتیں کرنا وغیرہ۔ غرض ایسی کوششیں ہیں جو بچے کو اس یاسیت کے خول سے باہر نکلنے میں مدد گار ثابت ہوں۔ ہو سکتا ہے، ابتدا میں چند گھنٹوں کی اس سرگرمی میں اس کا مزاج خوش گوار محسوس ہو۔ اس کے بعد دوبارہ اداسی غالب آ جائے، لیکن چند ہفتوں میں وہ معمول کی زندگی کی طرف لوٹ آئیں گے، لیکن اس دوران والدین کو بچے کو مثبت سرگرمیوں میں مصروف رکھنا پڑے گا۔
محبت میں ناکامی یا والدین کی مخالفت سے اکثر اس عمر میں سب سے پہلے نوجوانوں کے ذہن میں منفی باغیانہ خیالات آتے ہیں۔ مثلاً گھر سے بھاگ جانا یا خود کُشی وغیرہ۔ اس ضمن میں والدین کو دوستوں کی طرح غیر محسوس انداز میں سمجھانا چاہیے۔ مثلاً کسی ڈرامے یا فلم میں خود کُشی یا محبت میں گھر سے بھاگنے کا منظر ہو تو بتائیں کہ یہ اس نے صحیح نہیں کیا۔بچہ اگر پریشانی، ذہنی دباؤ یا اداسی کا شکار نظر آئے، تو نظرانداز نہ کریں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ تھکاوٹ کا شکار ہوں یا اس کا دن اچھا نہ گزرا ہو۔ اس لیے اس کا مزاج خوش گوار نہ ہو، لیکن خودکُشی کرنے والے اکثر اپنی جان لینے سے قبل ایسی کیفیات کا شکار ہوتے ہیں، وہ اکثر چھپ چھپ کر روتے ہیں۔ یہاں تک کہ والدین سے بھی چھپاتے ہیں۔ خصوصاً لڑکے اپنے جذبات بیان کرنے سے گھبراتے ہیں کہ کوئی ان کو کمزور نہ سمجھے۔ لہٰذا اولاد کا انتظار نہ کریں، بلکہ خود پوچھ لیں کہ تم کیوں پریشان یا اداس نظر آرہے ہو۔ اگر شفقت سے کوشش کی جائے گی، تو یقیناً مسئلے کے حوالے سے ضرور آگاہی حاصل ہوگی۔
والدین اور اولاد کے درمیان گفتگو کا مضبوط تعلق نہ ہونے کے سبب بچے انتہائی قدم اٹھاتے ہیں اور والدین غفلت میں رہ جاتے ہیں۔ بچوں سے گفتگو اور ان سے قربت ضروری ہے۔
بچے کی اپنی جان لینے کی دھمکی کو کبھی بھی مذاق نہ سمجھیں۔ زبانی یا تحریری طور پر زندگی یا لوگوں سے مایوسی کی بات کہنا ایک واضح علامت ہوتی ہے۔ اکثر بچے متعدد بار اپنے والدین کو بتاتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ بہت سے لوگ مدد حاصل کرنے کے لیے بھی ایسی باتیں کرتے ہیں، لہٰذا انہیں فوری محبت اور اپنائیت کا احساس دلانے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ مایوسی اور تنہائی کے خول سے باہر نکلیں۔
اکثر لوگ زندگی میں ایک یا دو مرتبہ ایسا محسوس کرتے ہیں، وہ اچھی طرح اس بات کا مطلب سمجھ رہے ہوتے ہیں، لیکن وہ ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں، یہ ہمیں اداسی کے حصار میں قید کر دیتی ہے، بلکہ آپ کی سوچوں پر قابو پا کر آپ کو اس اداسی کے خول سے باہر نکلنے نہیں دیتی اور آپ کو اداسی کے علاوہ کوئی اور راستہ دکھائی نہیں دیتا۔
والدین کی محبت و شفقت کا احساس، ان کا ساتھ جینے کی نئی امنگ پیدا کرتا ہے۔ اگر بچے کے رویے میں تبدیلی محسوس نہ ہو، تو ماہر نفسیات سے رجوع کرنا ضروری ہے۔ کوشش کرنی چاہیے کہ ایسی کیفیات کا شکار بچہ تنہا نہ رہے۔ اکثر اوقات بچے اہل خانہ اور دوستوں سے الگ تھلگ اپنے کمرے میں خود کو قید کر لیتے ہیں۔ اس وقت بچے کا لوگوں کے درمیان رہنا بہتر ہوتا ہے، لیکن اس کے لیے اس کو مجبور نہ کیا جائے۔ جسمانی سرگرمی، ورزش، چہل قدمی بھی اس کیفیت کو ختم کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ درحقیقت اس سے مزاج بہتر ہوتا ہے اور درد کا احساس ختم ہونے لگتا ہے، کیوں کہ ورزش کے ذریعے ہماری توجہ کچھ دیر کے لیے دوسری طرف منتقل ہوجاتی ہے اور ہم بہتر محسوس کرنے لگتے ہیں۔
یاسیت کا شکار نوجوانوں سے یا بچوں سے اس بات کی توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ وہ پہلے کی طرح اپنی ذمے داریوں کو ادا کر پائیں گے، بلکہ اس سلسلے میں ان کی مدد کریں۔ ان کے کاموں کو چھوٹے حصوں میں تقسیم کر دیں۔ زیادہ سے زیادہ ان کی پسندیدہ سرگرمیوں میں شرکت یقینی بنائیں۔ اس کا مقصد ان کا اعتماد بحال کرنا ہے۔
اس کے علاوہ بطور والدین عام حالات میں بھی آپ کی ذمہ داری ہے کہ اگر آپ کے پاس پستول وغیرہ ہے، تو اسے محفوظ مقام پر رکھیں۔ اس کے علاوہ خود کو نقصان پہنچانے والی ادویہ اور کیمیکل وغیرہ تک بھی بچوں کی رسائی نہیں ہونی چاہیے۔ اس کے علاوہ مذہبی تعلیمات سے لگاؤ بھی ہمیں زندگی کی طرف لے کر آتا ہے۔ پنج وقتہ نماز اور اذکار وغیرہ پریشانی اور مایوسی سے نجات دلاتے ہیں۔