سگ گزیدگی کا انسداد
آپ کتے کو خواہ کتنا بھی حقیر کیوں نہ سمجھیں مگر اس کی افادیت اور اہمیت سے انکار ممکن ہی نہیں ہے
ISLAMABAD:
کتے کو ہمارے معاشرے میں بڑی حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اس حقارت کی شدت کا اندازہ اس بات سے با آسانی لگایا جاسکتا ہے کہ برصغیر کی آزادی سے قبل فرنگیوں کی غلامی کے دور میں ریستورانوں اورہوٹلوں کے باہر آویزاں تختیوں پر موٹے موٹے حروف میں لکھا ہوا ہوتا تھا کہ ''Dogs and Indians are not allowed'' یعنی ''کتوں اور ہندوستانیوں کا داخلہ ممنوع ہے'' تاہم ہندوؤں کی مقدس کتابوں میں کتے کا تذکرہ کثرت سے ملتا ہے، خود ہمارے یہاں اصحاب کہف کے قصے میں کتے کا ذکر موجود ہے۔
آپ کتے کو خواہ کتنا بھی حقیر کیوں نہ سمجھیں مگر اس کی افادیت اور اہمیت سے انکار ممکن ہی نہیں ہے، پالتو جانوروں میں وفاداری کے اعتبار سے کتا سر فہرست ہے۔ یہ اور بات ہے کہ کتا کتے کا بیری ہوتا ہے مگر گستاخی معاف اب تو انسان جو فخریہ طور پر خود کو اشرف المخلوقات کہلواتا ہے، ہم جنس کشی اور باہمی رقابت میں کتے کو میلوں کوسوں پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ اسی لیے تو مرزا غالب کو بہت پہلے یہ کہنے پر مجبور ہونا پڑا تھا کہ:
ڈرتا ہوں آدمی سے کہ مردم گزیدہ ہوں
ہماری زبان ادب پرکتے کے بڑے احسانات ہیں کیوں کہ بعض مشہور ومقبول کہاوتیں اس عظیم جانورکی مرہون منت ہیں۔ مثال کے طور پر فارسی کی مشہور کہاوت کہ ''سگ باش، برادرِ خورد مباش'' یعنی کتا بن جا لیکن چھوٹا بھائی ہرگز نہ بن۔یہ الگ بات ہے کہ فی زمانہ اب یہ برسوں پرانی کہاوت تبدیل ہوکر یوں ہوگئی ہے کہ'سگ باش ، برادرکلاں مباش۔' یعنی کتا بن جا لیکن بڑا بھائی ہرگز نہ بن ۔ اردو زبان کی بڑی مشہور اور زبان زد عام کہاوت ''دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا'' بھی کتے ہی کی مرہون منت ہے، سچ پوچھیے تو ہمیں اس کہاوت سے کتے کے خلاف تعصب کی بو آتی ہے، کیوں کہ دھوبی کا کتا گھاٹ پر دن کے وقت کپڑوں کی رکھوالی کرتا ہے جب کہ رات کے اوقات میں وہ دھوبی کے گھر کے باہر پہرہ دیتا ہے۔ کتے کی موت مارے جانے والی کہاوت بھی کتے ہی کی مرہون منت ہے۔
ہمارے مشرقی معاشرے میں کتے کو ایک بے وقعت پالتو جانور سمجھا جاتا ہے جب کہ مغربی معاشرے میں اس کی بڑی آؤ بھگت اور قدرو منزلت کی جاتی ہے، ان کے کھانے پینے سے لے کر ان کے رہنے سہنے اور ان کی صحت کا خاص خیال رکھا جاتا ہے ان کے علاج معالجے کے لیے بڑے بڑے نامی گرامی ڈاکٹروں سے رجوع کیا جاتا ہے جس کے عوض انھیں بڑی بھاری بھاری فیسیں بھی ادا کی جاتی ہیں اس کے علاوہ کتوں کو نہلانے اور ٹہلانے کے کام پرملازم مامور ہوتے ہیں ۔
جنھیں بڑی تنخواہیں ادا کی جاتی ہیں، اونچے اونچے گھرانوں کی فرنگی عورتیں جنھیں عرف عام میں ''میمیں'' کہا جاتا ہے بڑے ذوق و شوق سے اپنی گودوں میں چھوٹے چھوٹے کتے لیے ہوئے پھرتی ہیں جو "Cap Dogs" کہلاتے ہیں، یہ کتے ان خواتین کو اپنے شوہروں سے بھی زیادہ عزیز ہوتے ہیں اور یہ ان کے ناز و نخرے اٹھانے میں کوئی بھی کسر باقی نہیں چھوڑتیں۔ انگریزی زبان کی انتہائی معتبر اور نام ور شاعر الیگزینڈر پوپ کی مشہور طویل نظم "Rape of The Lock" میں Cap Dog کا تذکرہ نہایت دلچسپ انداز میں کیا گیا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
اپنے مالک سے وفاداری کتے پر ختم ہے، کتا اپنے مالک کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دے سکتا ہے، حتیٰ کہ اپنی جان بھی نچھاور کرسکتا ہے، مالک اپنے پالتوکتے کے ساتھ خواہ کتنی بھی بد سلوکی کیوں نہ کرے لیکن اس کے باوجود آپ اسے اپنے مالک کے پاؤں میں لوٹتا ہوا ہی پائیں گے۔
کتا اپنے مالک کو صرف ایک صورت میں کوئی نقصان پہنچاسکتا ہے اور وہ ہے باؤلے پن کی حالت۔وطن عزیز میں جس کی آبادی 186 ملین سے تجاوز کرکے نہایت تیز رفتاری کے ساتھ بڑھ رہی ہے کتوں کی تعداد میں بھی بلا روک ٹوک اضافہ ہورہاہے۔ ہمارے بڑے بڑے شہروں کی گلیوں اور سڑکوں پر آپ کو آوارہ کتوں کی ٹولیاں بلا روک ٹوک گھومتی پھرتی ہوئی نظر آئیںگی۔ رات کے وقت یہ آوارہ کتے گلیوں اورکوچوں میں مشاعروں کی محفلیں منعقد کرکے مکینوں کی شب بیداری کا اہتمام کرتے ہیں اور داد وفرمائش سے بے نیاز ہوکر اپنا کلام بے لگام پیش کرتے رہتے ہیں۔
اگرچہ یہ کہاوت بہت مشہور ہے کہ بھونکنے والے کتے کبھی کسی کو نہیں کاٹتے مگر اس کہاوت میں بہت بڑا رسک پوشیدہ ہے کیوں کہ ان میں کوئی باؤلا کتا بھی شامل ہوسکتا ہے جو آپے سے باہر ہوکرکچھ بھی کرگزرسکتا ہے، ابھی حال ہی میں یہ خبر ہماری نظروں سے گزرچکی ہے کہ سندھ کے علاقے دادو میں ایک آٹھ سالہ لڑکے کو کتوں کی ایک ٹولی نے بری طرح سے بھنبھوڑ ڈالا۔ باؤلے کتوں نے اس کی کھوپڑی کو اپنے جبڑوں سے گھائل کردیا اور جگہ جگہ سے اس کے جسم کو نوچ ڈالا اس کا باپ اسی حالت میں اس کے علاج کے لیے مختلف اسپتالوں میں دھکے کھاتا پھرا اور بالآخرکراچی کے ایک مشہور اسپتال میں پہنچ کر اس لڑکے کی جان بچی، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک دور ایسا بھی آئے گا جب یہ لڑکا بڑا ہوجائے گا لیکن کتے کا خوف اس کے دل و دماغ سے تادم آخر بھی نہ جائے گا۔دنیا بھر میں ہر سال باؤلے جانوروں کے کاٹے سے ساٹھ ہزار انسان لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔
بلاشبہ یہ ایک بہت بڑی تعداد ہے جس کی غالب اکثریت پاگل کتوں کے کاٹے ہوئے انسانوں پر مشتمل ہے اگرچہ اس سلسلے میں کوئی مصدقہ سروے دستیاب نہیں ہے تاہم باور کیا جاتا ہے کہ بھارت میں پاگل کتوں کے کاٹے سے ہر سال 20 ہزار لوگ ہلاک ہوتے ہیں جب کہ پاکستان میں ایسے ہلاک شدگان کی تعداد 2 ہزار سے 5 ہزار کے درمیان ہے جوکہ آبادی کے تناسب کے لحاظ سے انتہائی باعث تشویش ہے۔
عالمی ادارۂ صحت سے اسپانسر شدہ ایک Rabies Surveillance Project کے تحت پاگل کتوں کے کاٹے ہوئے 10 ہزار مریضوں کا مطالبہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ ان میں 80 فی صد مرد حضرات شامل تھے ان میں سے صرف چند لوگوں نے اپنے زخموں کی صفائی کے لیے صابن اور پانی استعمال کیا تھا جب کہ زیادہ تر لوگوں نے دیسی ٹوٹکے آزمائے ہوئے زخموں پر سرخ مرچیں اور نمک چھڑکا تھا یا پھر ہلدی استعمال کی تھی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ شعور کا فقدان ہے جب کہ پاگل کتے کے علاج کے لیے اسپتال میں ہونے والی دوا کی عدم دستیابی بھی اس کا ایک بہت بڑا سبب ہے، سرکاری اسپتالوں میں دیگر ادویات کی طرح اس دوا کی کامیابی کی شکایت بھی بہت عام ہے مگر اسپتالوں کی انتظامیہ اس کا سدباب کرنے میں مسلسل ناکام دکھائی دے رہی ہے۔
گاؤں گوٹھوں میں تو سب سے زیادہ برا حال ہے جس کی وجہ سے پریشان حال لوگ باؤلے کتے کے کاٹے ہوئے اپنے مریض کا علاج فقیروں اور عطائیوں سے کروانے پر مجبور ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں مریضوں کی غالب اکثریت اجل کے قزاق کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے اور بے چارے لواحقین محض کف افسوس ملتے ہوئے ہی رہ جاتے ہیں۔
ابھی حال ہی میں سارک کی تنظیم کے زیر اہتمام سری لنکا میں پاگل کتے کے کاٹے ہوئے مریضوں کے موضوع پر منعقدہ ایک ورکشاپ میں اس مسئلے پر بڑی تفصیل کے ساتھ غوروخوض کیا گیا اور اس نتیجے پر پہنچا گیا کہ باؤلے کتوں کی Vaccination کا بندوبست کیا جائے تاکہ وہ لوگوں کو گزند پہنچانے کے قابل ہی نہ رہیں۔ سارک ممالک میں شامل سری لنکا اور بھوٹان یہی طریقہ کار اختیار کرچکے ہیں جب کہ تھائی لینڈ میں بھی یہی طریقہ آزمایا جارہاہے۔
وطن عزیز میں جانوروں کے علاج کی تعلیم حاصل کرنے والے ڈاکٹروں کی غالب اکثریت کی توجہ زیادہ تر مویشیوں کے ہی علاج پر مرکوز ہے اور باؤلے کتوں کی طرف توجہ نہ ہونے کے برابر ہے یہی وجہ ہے کہ باؤلے کتوں کے کاٹے ہوئے بے چارے مریض علاج معالجے کی معقول سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے مارے مارے پھرتے ہیں اور بالآخر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، گزشتہ 28 ستمبر کو منایاگیا باؤلے کتوں کے کاٹے ہوئے مریضوں کا عالمی دن ۔ اس میں اس عظیم چیلنج سے نمٹنے کی دعوت عمل دیتا ہے۔
کتے کو ہمارے معاشرے میں بڑی حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اس حقارت کی شدت کا اندازہ اس بات سے با آسانی لگایا جاسکتا ہے کہ برصغیر کی آزادی سے قبل فرنگیوں کی غلامی کے دور میں ریستورانوں اورہوٹلوں کے باہر آویزاں تختیوں پر موٹے موٹے حروف میں لکھا ہوا ہوتا تھا کہ ''Dogs and Indians are not allowed'' یعنی ''کتوں اور ہندوستانیوں کا داخلہ ممنوع ہے'' تاہم ہندوؤں کی مقدس کتابوں میں کتے کا تذکرہ کثرت سے ملتا ہے، خود ہمارے یہاں اصحاب کہف کے قصے میں کتے کا ذکر موجود ہے۔
آپ کتے کو خواہ کتنا بھی حقیر کیوں نہ سمجھیں مگر اس کی افادیت اور اہمیت سے انکار ممکن ہی نہیں ہے، پالتو جانوروں میں وفاداری کے اعتبار سے کتا سر فہرست ہے۔ یہ اور بات ہے کہ کتا کتے کا بیری ہوتا ہے مگر گستاخی معاف اب تو انسان جو فخریہ طور پر خود کو اشرف المخلوقات کہلواتا ہے، ہم جنس کشی اور باہمی رقابت میں کتے کو میلوں کوسوں پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ اسی لیے تو مرزا غالب کو بہت پہلے یہ کہنے پر مجبور ہونا پڑا تھا کہ:
ڈرتا ہوں آدمی سے کہ مردم گزیدہ ہوں
ہماری زبان ادب پرکتے کے بڑے احسانات ہیں کیوں کہ بعض مشہور ومقبول کہاوتیں اس عظیم جانورکی مرہون منت ہیں۔ مثال کے طور پر فارسی کی مشہور کہاوت کہ ''سگ باش، برادرِ خورد مباش'' یعنی کتا بن جا لیکن چھوٹا بھائی ہرگز نہ بن۔یہ الگ بات ہے کہ فی زمانہ اب یہ برسوں پرانی کہاوت تبدیل ہوکر یوں ہوگئی ہے کہ'سگ باش ، برادرکلاں مباش۔' یعنی کتا بن جا لیکن بڑا بھائی ہرگز نہ بن ۔ اردو زبان کی بڑی مشہور اور زبان زد عام کہاوت ''دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا'' بھی کتے ہی کی مرہون منت ہے، سچ پوچھیے تو ہمیں اس کہاوت سے کتے کے خلاف تعصب کی بو آتی ہے، کیوں کہ دھوبی کا کتا گھاٹ پر دن کے وقت کپڑوں کی رکھوالی کرتا ہے جب کہ رات کے اوقات میں وہ دھوبی کے گھر کے باہر پہرہ دیتا ہے۔ کتے کی موت مارے جانے والی کہاوت بھی کتے ہی کی مرہون منت ہے۔
ہمارے مشرقی معاشرے میں کتے کو ایک بے وقعت پالتو جانور سمجھا جاتا ہے جب کہ مغربی معاشرے میں اس کی بڑی آؤ بھگت اور قدرو منزلت کی جاتی ہے، ان کے کھانے پینے سے لے کر ان کے رہنے سہنے اور ان کی صحت کا خاص خیال رکھا جاتا ہے ان کے علاج معالجے کے لیے بڑے بڑے نامی گرامی ڈاکٹروں سے رجوع کیا جاتا ہے جس کے عوض انھیں بڑی بھاری بھاری فیسیں بھی ادا کی جاتی ہیں اس کے علاوہ کتوں کو نہلانے اور ٹہلانے کے کام پرملازم مامور ہوتے ہیں ۔
جنھیں بڑی تنخواہیں ادا کی جاتی ہیں، اونچے اونچے گھرانوں کی فرنگی عورتیں جنھیں عرف عام میں ''میمیں'' کہا جاتا ہے بڑے ذوق و شوق سے اپنی گودوں میں چھوٹے چھوٹے کتے لیے ہوئے پھرتی ہیں جو "Cap Dogs" کہلاتے ہیں، یہ کتے ان خواتین کو اپنے شوہروں سے بھی زیادہ عزیز ہوتے ہیں اور یہ ان کے ناز و نخرے اٹھانے میں کوئی بھی کسر باقی نہیں چھوڑتیں۔ انگریزی زبان کی انتہائی معتبر اور نام ور شاعر الیگزینڈر پوپ کی مشہور طویل نظم "Rape of The Lock" میں Cap Dog کا تذکرہ نہایت دلچسپ انداز میں کیا گیا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
اپنے مالک سے وفاداری کتے پر ختم ہے، کتا اپنے مالک کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دے سکتا ہے، حتیٰ کہ اپنی جان بھی نچھاور کرسکتا ہے، مالک اپنے پالتوکتے کے ساتھ خواہ کتنی بھی بد سلوکی کیوں نہ کرے لیکن اس کے باوجود آپ اسے اپنے مالک کے پاؤں میں لوٹتا ہوا ہی پائیں گے۔
کتا اپنے مالک کو صرف ایک صورت میں کوئی نقصان پہنچاسکتا ہے اور وہ ہے باؤلے پن کی حالت۔وطن عزیز میں جس کی آبادی 186 ملین سے تجاوز کرکے نہایت تیز رفتاری کے ساتھ بڑھ رہی ہے کتوں کی تعداد میں بھی بلا روک ٹوک اضافہ ہورہاہے۔ ہمارے بڑے بڑے شہروں کی گلیوں اور سڑکوں پر آپ کو آوارہ کتوں کی ٹولیاں بلا روک ٹوک گھومتی پھرتی ہوئی نظر آئیںگی۔ رات کے وقت یہ آوارہ کتے گلیوں اورکوچوں میں مشاعروں کی محفلیں منعقد کرکے مکینوں کی شب بیداری کا اہتمام کرتے ہیں اور داد وفرمائش سے بے نیاز ہوکر اپنا کلام بے لگام پیش کرتے رہتے ہیں۔
اگرچہ یہ کہاوت بہت مشہور ہے کہ بھونکنے والے کتے کبھی کسی کو نہیں کاٹتے مگر اس کہاوت میں بہت بڑا رسک پوشیدہ ہے کیوں کہ ان میں کوئی باؤلا کتا بھی شامل ہوسکتا ہے جو آپے سے باہر ہوکرکچھ بھی کرگزرسکتا ہے، ابھی حال ہی میں یہ خبر ہماری نظروں سے گزرچکی ہے کہ سندھ کے علاقے دادو میں ایک آٹھ سالہ لڑکے کو کتوں کی ایک ٹولی نے بری طرح سے بھنبھوڑ ڈالا۔ باؤلے کتوں نے اس کی کھوپڑی کو اپنے جبڑوں سے گھائل کردیا اور جگہ جگہ سے اس کے جسم کو نوچ ڈالا اس کا باپ اسی حالت میں اس کے علاج کے لیے مختلف اسپتالوں میں دھکے کھاتا پھرا اور بالآخرکراچی کے ایک مشہور اسپتال میں پہنچ کر اس لڑکے کی جان بچی، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک دور ایسا بھی آئے گا جب یہ لڑکا بڑا ہوجائے گا لیکن کتے کا خوف اس کے دل و دماغ سے تادم آخر بھی نہ جائے گا۔دنیا بھر میں ہر سال باؤلے جانوروں کے کاٹے سے ساٹھ ہزار انسان لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔
بلاشبہ یہ ایک بہت بڑی تعداد ہے جس کی غالب اکثریت پاگل کتوں کے کاٹے ہوئے انسانوں پر مشتمل ہے اگرچہ اس سلسلے میں کوئی مصدقہ سروے دستیاب نہیں ہے تاہم باور کیا جاتا ہے کہ بھارت میں پاگل کتوں کے کاٹے سے ہر سال 20 ہزار لوگ ہلاک ہوتے ہیں جب کہ پاکستان میں ایسے ہلاک شدگان کی تعداد 2 ہزار سے 5 ہزار کے درمیان ہے جوکہ آبادی کے تناسب کے لحاظ سے انتہائی باعث تشویش ہے۔
عالمی ادارۂ صحت سے اسپانسر شدہ ایک Rabies Surveillance Project کے تحت پاگل کتوں کے کاٹے ہوئے 10 ہزار مریضوں کا مطالبہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ ان میں 80 فی صد مرد حضرات شامل تھے ان میں سے صرف چند لوگوں نے اپنے زخموں کی صفائی کے لیے صابن اور پانی استعمال کیا تھا جب کہ زیادہ تر لوگوں نے دیسی ٹوٹکے آزمائے ہوئے زخموں پر سرخ مرچیں اور نمک چھڑکا تھا یا پھر ہلدی استعمال کی تھی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ شعور کا فقدان ہے جب کہ پاگل کتے کے علاج کے لیے اسپتال میں ہونے والی دوا کی عدم دستیابی بھی اس کا ایک بہت بڑا سبب ہے، سرکاری اسپتالوں میں دیگر ادویات کی طرح اس دوا کی کامیابی کی شکایت بھی بہت عام ہے مگر اسپتالوں کی انتظامیہ اس کا سدباب کرنے میں مسلسل ناکام دکھائی دے رہی ہے۔
گاؤں گوٹھوں میں تو سب سے زیادہ برا حال ہے جس کی وجہ سے پریشان حال لوگ باؤلے کتے کے کاٹے ہوئے اپنے مریض کا علاج فقیروں اور عطائیوں سے کروانے پر مجبور ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں مریضوں کی غالب اکثریت اجل کے قزاق کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے اور بے چارے لواحقین محض کف افسوس ملتے ہوئے ہی رہ جاتے ہیں۔
ابھی حال ہی میں سارک کی تنظیم کے زیر اہتمام سری لنکا میں پاگل کتے کے کاٹے ہوئے مریضوں کے موضوع پر منعقدہ ایک ورکشاپ میں اس مسئلے پر بڑی تفصیل کے ساتھ غوروخوض کیا گیا اور اس نتیجے پر پہنچا گیا کہ باؤلے کتوں کی Vaccination کا بندوبست کیا جائے تاکہ وہ لوگوں کو گزند پہنچانے کے قابل ہی نہ رہیں۔ سارک ممالک میں شامل سری لنکا اور بھوٹان یہی طریقہ کار اختیار کرچکے ہیں جب کہ تھائی لینڈ میں بھی یہی طریقہ آزمایا جارہاہے۔
وطن عزیز میں جانوروں کے علاج کی تعلیم حاصل کرنے والے ڈاکٹروں کی غالب اکثریت کی توجہ زیادہ تر مویشیوں کے ہی علاج پر مرکوز ہے اور باؤلے کتوں کی طرف توجہ نہ ہونے کے برابر ہے یہی وجہ ہے کہ باؤلے کتوں کے کاٹے ہوئے بے چارے مریض علاج معالجے کی معقول سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے مارے مارے پھرتے ہیں اور بالآخر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، گزشتہ 28 ستمبر کو منایاگیا باؤلے کتوں کے کاٹے ہوئے مریضوں کا عالمی دن ۔ اس میں اس عظیم چیلنج سے نمٹنے کی دعوت عمل دیتا ہے۔