مغل نسل کے دانت مضبوط کیوں تھے
بازار میں کھانے پینے کی تیار شدہ مصنوعات جو مختلف بین الاقوامی کمپنیوں کے نام سے فروخت ہورہی ہیں
QUETTA:
بازار میں کھانے پینے کی تیار شدہ مصنوعات جو مختلف بین الاقوامی کمپنیوں کے نام سے فروخت ہورہی ہیں، اُن کے ڈبوں پر اشیا کی تیاری کی تاریخ اور اتلافی تاریخ درج ہوتی ہے ۔قانون یہ ہے کہ بغیر اتلافی تاریخ کے اشیاء فروخت نہیں کی جاسکتیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اشیاء کی عمر بڑھانے کے لیے اِن میں ایسے خطرناک، زہریلے کیمیائی مادے شامل ہوتے ہیں کہ جِن کے مضر اثرات کا اندازہ عام آدمی نہیں لگاسکتا ۔کاغذ، ٹن، پلاسٹک، ٹیٹرا پیک ، وغیرہ میں محفوظ کردہ ان غذائی مادوں میں کس کس طرح کے زہریلے اثرات ہیں ۔
اِس کا اندازہ لگانا آسان نہیں۔ ا بھی کچھ ہی عرصہ قبل (2009)کی بات ہے جب امریکا میں نَمکین پِستوں کی تمام مصنوعات دُکانوں سے اٹھا لی گئیں ۔اِن پِستوں میں''سالمونیلا'' مادے کی آلودگی پائی گئی تھی۔ جس کے باعث صارفین میں عجیب قسم کی بیماریاں پیدا ہوگئی تھیں۔یہ تو صرف ایک مثال ہے۔اور اِس لیے بیان کی گئی کہ بہت مشہور ہے۔ورنہ تو مثالیں بہت ہیں۔ہمسایہ ممالک میں ڈبے کے دودھ میں خطرناک کیمیکل ''میلامائن'' کی ملاوٹ اور نوڈلز میں زہریلے مادوں کی آمیزش سے کینسروغیرہ بھی مشہور واقعات ہیں۔
بہت سی کمپنیاں غذائی اجناس کے ڈبوں پر تاریخ میعاد درج کرتی ہیں ۔یعنی اِن ڈبوں پر میعاد استعمال درج ہوتی تھی۔ اب سرمایہ داروں نے اس کا بھی متبادل تلاش کرلیا ہے اور وہ ہے''بیسٹ بی فور'' یہ ایک مبہم اصطلاح ہے۔یوں اُن پرکوئی ذمے داری بھی عائد نہ ہوسکے اور کوئی قانونی کارروائی بھی نہ کی جاسکے (جو ویسے ہی نا ممکن ہے)۔
لیکن کسے معلوم کہ''بیسٹ بی فور''کی یہ تاریخ درست ہے یا غلط۔آیا یہ اشیاء قابلِ استعمال ہیں یا نہیں؟اندازہ کرنا مشکل ہے۔یہ صرف یقین کا مسئلہ بنا دیا گیا ہے ۔ہم بلاوجہ یقین کرلیتے ہیں کہ جوکچھ ڈبے پر لکھا ہے وہ سچ ہے۔اس میں کوئی شک نہ کریں کہ اگر آپ نے شک کرنا اور سوال اُٹھانا شروع کردیا تو یہ شک آپ کی زندگی اجیرن کردے گا۔دوسری جانب اشتہارات وغیرہ کے ذریعے ہمیں سمجھایا جاچکا ہوتا ہے کہ یہ اشیاء استعمال کرنا بہت ضروری ہے (مثلاً ایک گلاس دودھ روزانہ وغیرہ)نیز یہ کہ اگر یہ اشیاء نہیں کھائی گئی تو بہت برا انجام ہوگا۔
تہذیبوں کے عروج و زوال پر نظرکیجیے ۔آپ دیکھیں گے کہ عاد، ثمود، سباء، مسلم ہسپانیہ، فراعنہ مصر، یونان، چین، ہند، ایران اور روما کی سلطنتوں کا زوال اس لیے نہیںہوا کہ وہ ترقی نہ کرسکے تھے بلکہ اس لیے ہوا کہ وہ ترقی کرچکے تھے ۔اس سے زیادہ ترقی ممکن نہ تھی ۔سوال یہ ہے کہ کیا قوموں کے عروج و زوال سے دسترخوان کا کچھ تعلق ہے؟ تاریخ عالم کی بڑی تہذیبو ں کے بڑے لوگ کیا خوراک لیتے تھے ؟سادہ غذا یا پرتعیش تغذیہ۔اپنے دانتوں سے اپنی قبریں کھودنے کی تاریخ کتنی قدیم ہے؟ کیا وجہ ہے کہ یورپی ممالک کے بچوں کی اکثریت کے دانت بچپن میں ہی بے کار ہو جاتے ہیں ؟ہم اپنے آس پاس نظر دوڑائیں تو کئی معصوم اور کم سِن بچے ایسے نظر آتے ہیں جن کے دانت ضدِ حیوی(اینٹی بائیو ٹِکس) کے استعمال کے باعث گل کے جھڑگئے ہیں۔
جب کہ انسان مرتے دم تک دانتوں کا ضرورت مند ہے ۔جن دانتوں کی زندگی کے آخری سانسوں تک ضرورت ہے ان کو بچپن میں تباہ کردینے کی ثقافت کہاں سے تخلیق ہوئی ہے؟دانتوں کی صنعت کتنے کھرب روپے کمارہی ہے ؟اس کا براہِ راست تعلق مصنوعی غذاؤں اور بازاری کھانے و اشیائے خورو نوش تیار کرنے والی کھربوں کی صنعت سے کیا ہے؟ مغل نسل کے دانت آج کل کی جدید یورپی نسلوں سے زیادہ مضبوط کیوںتھے ؟ وہ اِس قدر کھانے بلکہ کھاتے رہنے کے باوجود امراضِ دنداں کا شکار کیوں نہ ہوتے تھے؟ مغلیہ عہد میں دانتوں کی بیماریاں برائے نام کیوںتھیں ؟کیا دانتوں کی صحت مندی اور بیماری کا براہ راست تعلق سفید( زہر ) شکر اور برفیلی اشیاء سے تو نہیںہے؟ مغلیہ عہد ان دونوں زہروں سے یکسرخالی تھا ۔اس دور میں مٹھائیاں گُڑ سے بنائی جاتی تھیں ۔
گُڑ خود ایک غذا اور دوا ہے۔ کیا اس کی وجہ یہ تھی کہ مغل ٹوتھ پیسٹ، برش، ماؤتھ واش کے زہریلے مادوں کے بجائے قدرتی اشیاء مسواک، منجن، اور جڑی بوٹی و قدرتی اجزاء سے صفائی کے عادی تھے، لہٰذا ان کے دانت مسوڑھے بہت مضبوط ہوتے تھے اور اس قدرکھا لینے کے بعد وہ گاڑی میں سفر کے بجائے گھوڑے ،اونٹ ، ہاتھی پر سفر کرتے اور سخت کوشی کے کچھ نہ کچھ کام ضرور کرتے جیسے پہلوانی، گھڑ سواری، تیر و تلوار بازی وغیرہ۔ سفید (زہر) شکر کے بارے میں خود سائنس کیا کیا انکشاف و اکتشاف کرتی ہے؟یہ اہم موضوعات ہیں ،اس کے ساتھ ساتھ روایتی تہذیبوں کے دسترخوانوں کا جائزہ بھی لے لیا جائے تو تاریخ کے بند دریچے خود بخود کھلتے بکھرتے چلے جائیں گے۔
ملٹی نیشنل کمپنیاں لوگوں کو کس طرح بے وقوف بنا کر مال کماتی ہیں اس کی ایک مثال امریکا کی کمپنی ''ٹارگٹ کارپوریشن ''ہے۔یہ ''منی پولس'' وغیرہ میں کام کرتی ہے۔ اس نے دیکھا کہ کاجو، پستے، بادام، مونگ پھلی جیسے خشک میوے لوگوں میں مقبول ہیں اور اعلیٰ معیار کے میوے کھائے جاتے ہیں، تو اس نے ردی میوہ جات کو فروخت کر کے زیادہ نفع کمانے کا منصوبہ بنایا۔ اعلیٰ ثابت خشک میوے چھانٹتے ہوئے جو میوے ٹوٹے ہوئے اور ٹکڑے ٹکڑے ہوتے ہیں انھیں الگ کر دیا جاتا ہے اس کمپنی نے یہ تمام کچرا خرید لیا اور ''ہالوز اینڈ پیسز،کیشیوز''کے نام سے بازار میں ردی مال مہنگے ترین داموں پر بیچنا اور لوگوں نے خریدنا شروع کر دیا۔ دھوکا دہی کی انتہا یہ ہے کہ ڈبے پر لکھا ہے ''کیشیوز'' اور تصویر بھی کاجوکی ہے، لیکن ڈبے کی عبارت میںانگیرڈئنٹس:کیشیوز، پی نٹ،آئل اور سالٹ لکھا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس میں مونگ پھلی کہاں سے آگئی؟ مونگ پھلی اور کاجو کی قیمتوں میں زمین وآسمان کا فرق ہے دونوں کا کوئی جوڑ نہیں۔ اس عبارت کے نیچے مزید لکھا ہے''مے کونٹین پی نٹ ،ادر ٹری نٹس، مِلک،سوئے اینڈ ویٹ''۔ یہ صریحاً دھوکا دہی نہیںہے ؟اور دنیا بھر میں ٹارگٹ کارپوریشن کے یہ دھوکے مقبول ہیں ۔تعلیمِ جدیدکے جدید بقراط اذہان نے کبھی یہ سوال اُٹھائے؟کیوں اِس جانب توجہ نہیں ہو پاتی؟یہ کون سی ایمانیات ہے؟یہ کون سا یقین ہے؟ملٹی نیشنلز کے غذائی ڈبوں پر یہ اندھا اعتماد کس ذہنیت کی غمازی ہے؟کور چشمی اور ذہنی غلامی کیا ہوتی ہے؟ لذت کی خاطرغذائی اشیاء تیار کرنے والی کمپنیاں خطر ناک قسم کے کیمیائی مادے شامل کررہی ہیں ۔اجینو موتو نمک جوکھانوں کی لذت بڑھا دیتا ہے اس کے خطرناک اثرات کل کی بات ہے ۔
''دی لینسٹ'' طب کی دنیا کا ایک معتبر نام مانا جاتا ہے۔یہ طبی جرنل 1823سے شایع ہورہا ہے۔کچھ عرصہ قبل کئی ممالک کے ماہرین ِطب کی ایک تحقیق شایع کی گئی۔اِس میں بتایا گیا تھا کہ کس طرح ''مارکیٹنگ'' کے ہتھ کنڈوں اور''پراسیسڈ فوڈ'' کے ذریعے عوام کی صحت سے کھلواڑ جاری ہے ۔لینسٹ نے بتایا کہ آج کے ''کرانک''اور وبائی امراض مثلاً دل کی بیماریوں اورکینسر وغیرہ کا بڑا سبب یہ ''الٹرا پراسیسڈ فوڈ''اور''ڈرنکس'' ہیں۔ان اشیا پر اجارہ داری کن کی ہے؟
آج کافی کی 40فی صد سے زائد عالمی فروخت پرصرف 3ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اجارہ داری ہے۔کوکا اور چوکلیٹ کی عالمی فروخت 8 کمپنیوں کے پاس ہے۔ چائے کی85فی صد سے زائد آمدنی صرف 7ملٹی نیشنلز کے قبضے میں ہے۔عالمی سطح پر سفید شکر کی تجارت دو تہائی سے زائد تجارت پر 6کمپنیاں قابض ہیں۔''فئیر ٹریڈ فاؤنڈیشن ''ایسے کئی حقائق آشکار کرتا رہتا ہے۔یہ تمام اعداد وشمارکس جانب اشارہ کرتے نظر آرہے ہیں؟
ہم کیا کھارہے ہیں ؟ہمیں کیا کھلایا جارہا ہے ہمیں کچھ پتہ نہیں ہے اس کے باوجود عہد حاضر کے انسان کو تاریخ کا عقل مند اور ذہین ترین اوردانش مند شخص کہا جارہا ہے۔افسوس کہ یہ وہ شخص ہے جسے یہ بھی پتہ نہیں کہ وہ کیا کھا رہا ہے؟ یہ سائنسی آدمی جوکھارہا ہے وہ اُس کا کیمیائی تجزیہ بھی کرنے کے قابل نہیں ہے۔
بازار میں کھانے پینے کی تیار شدہ مصنوعات جو مختلف بین الاقوامی کمپنیوں کے نام سے فروخت ہورہی ہیں، اُن کے ڈبوں پر اشیا کی تیاری کی تاریخ اور اتلافی تاریخ درج ہوتی ہے ۔قانون یہ ہے کہ بغیر اتلافی تاریخ کے اشیاء فروخت نہیں کی جاسکتیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اشیاء کی عمر بڑھانے کے لیے اِن میں ایسے خطرناک، زہریلے کیمیائی مادے شامل ہوتے ہیں کہ جِن کے مضر اثرات کا اندازہ عام آدمی نہیں لگاسکتا ۔کاغذ، ٹن، پلاسٹک، ٹیٹرا پیک ، وغیرہ میں محفوظ کردہ ان غذائی مادوں میں کس کس طرح کے زہریلے اثرات ہیں ۔
اِس کا اندازہ لگانا آسان نہیں۔ ا بھی کچھ ہی عرصہ قبل (2009)کی بات ہے جب امریکا میں نَمکین پِستوں کی تمام مصنوعات دُکانوں سے اٹھا لی گئیں ۔اِن پِستوں میں''سالمونیلا'' مادے کی آلودگی پائی گئی تھی۔ جس کے باعث صارفین میں عجیب قسم کی بیماریاں پیدا ہوگئی تھیں۔یہ تو صرف ایک مثال ہے۔اور اِس لیے بیان کی گئی کہ بہت مشہور ہے۔ورنہ تو مثالیں بہت ہیں۔ہمسایہ ممالک میں ڈبے کے دودھ میں خطرناک کیمیکل ''میلامائن'' کی ملاوٹ اور نوڈلز میں زہریلے مادوں کی آمیزش سے کینسروغیرہ بھی مشہور واقعات ہیں۔
بہت سی کمپنیاں غذائی اجناس کے ڈبوں پر تاریخ میعاد درج کرتی ہیں ۔یعنی اِن ڈبوں پر میعاد استعمال درج ہوتی تھی۔ اب سرمایہ داروں نے اس کا بھی متبادل تلاش کرلیا ہے اور وہ ہے''بیسٹ بی فور'' یہ ایک مبہم اصطلاح ہے۔یوں اُن پرکوئی ذمے داری بھی عائد نہ ہوسکے اور کوئی قانونی کارروائی بھی نہ کی جاسکے (جو ویسے ہی نا ممکن ہے)۔
لیکن کسے معلوم کہ''بیسٹ بی فور''کی یہ تاریخ درست ہے یا غلط۔آیا یہ اشیاء قابلِ استعمال ہیں یا نہیں؟اندازہ کرنا مشکل ہے۔یہ صرف یقین کا مسئلہ بنا دیا گیا ہے ۔ہم بلاوجہ یقین کرلیتے ہیں کہ جوکچھ ڈبے پر لکھا ہے وہ سچ ہے۔اس میں کوئی شک نہ کریں کہ اگر آپ نے شک کرنا اور سوال اُٹھانا شروع کردیا تو یہ شک آپ کی زندگی اجیرن کردے گا۔دوسری جانب اشتہارات وغیرہ کے ذریعے ہمیں سمجھایا جاچکا ہوتا ہے کہ یہ اشیاء استعمال کرنا بہت ضروری ہے (مثلاً ایک گلاس دودھ روزانہ وغیرہ)نیز یہ کہ اگر یہ اشیاء نہیں کھائی گئی تو بہت برا انجام ہوگا۔
تہذیبوں کے عروج و زوال پر نظرکیجیے ۔آپ دیکھیں گے کہ عاد، ثمود، سباء، مسلم ہسپانیہ، فراعنہ مصر، یونان، چین، ہند، ایران اور روما کی سلطنتوں کا زوال اس لیے نہیںہوا کہ وہ ترقی نہ کرسکے تھے بلکہ اس لیے ہوا کہ وہ ترقی کرچکے تھے ۔اس سے زیادہ ترقی ممکن نہ تھی ۔سوال یہ ہے کہ کیا قوموں کے عروج و زوال سے دسترخوان کا کچھ تعلق ہے؟ تاریخ عالم کی بڑی تہذیبو ں کے بڑے لوگ کیا خوراک لیتے تھے ؟سادہ غذا یا پرتعیش تغذیہ۔اپنے دانتوں سے اپنی قبریں کھودنے کی تاریخ کتنی قدیم ہے؟ کیا وجہ ہے کہ یورپی ممالک کے بچوں کی اکثریت کے دانت بچپن میں ہی بے کار ہو جاتے ہیں ؟ہم اپنے آس پاس نظر دوڑائیں تو کئی معصوم اور کم سِن بچے ایسے نظر آتے ہیں جن کے دانت ضدِ حیوی(اینٹی بائیو ٹِکس) کے استعمال کے باعث گل کے جھڑگئے ہیں۔
جب کہ انسان مرتے دم تک دانتوں کا ضرورت مند ہے ۔جن دانتوں کی زندگی کے آخری سانسوں تک ضرورت ہے ان کو بچپن میں تباہ کردینے کی ثقافت کہاں سے تخلیق ہوئی ہے؟دانتوں کی صنعت کتنے کھرب روپے کمارہی ہے ؟اس کا براہِ راست تعلق مصنوعی غذاؤں اور بازاری کھانے و اشیائے خورو نوش تیار کرنے والی کھربوں کی صنعت سے کیا ہے؟ مغل نسل کے دانت آج کل کی جدید یورپی نسلوں سے زیادہ مضبوط کیوںتھے ؟ وہ اِس قدر کھانے بلکہ کھاتے رہنے کے باوجود امراضِ دنداں کا شکار کیوں نہ ہوتے تھے؟ مغلیہ عہد میں دانتوں کی بیماریاں برائے نام کیوںتھیں ؟کیا دانتوں کی صحت مندی اور بیماری کا براہ راست تعلق سفید( زہر ) شکر اور برفیلی اشیاء سے تو نہیںہے؟ مغلیہ عہد ان دونوں زہروں سے یکسرخالی تھا ۔اس دور میں مٹھائیاں گُڑ سے بنائی جاتی تھیں ۔
گُڑ خود ایک غذا اور دوا ہے۔ کیا اس کی وجہ یہ تھی کہ مغل ٹوتھ پیسٹ، برش، ماؤتھ واش کے زہریلے مادوں کے بجائے قدرتی اشیاء مسواک، منجن، اور جڑی بوٹی و قدرتی اجزاء سے صفائی کے عادی تھے، لہٰذا ان کے دانت مسوڑھے بہت مضبوط ہوتے تھے اور اس قدرکھا لینے کے بعد وہ گاڑی میں سفر کے بجائے گھوڑے ،اونٹ ، ہاتھی پر سفر کرتے اور سخت کوشی کے کچھ نہ کچھ کام ضرور کرتے جیسے پہلوانی، گھڑ سواری، تیر و تلوار بازی وغیرہ۔ سفید (زہر) شکر کے بارے میں خود سائنس کیا کیا انکشاف و اکتشاف کرتی ہے؟یہ اہم موضوعات ہیں ،اس کے ساتھ ساتھ روایتی تہذیبوں کے دسترخوانوں کا جائزہ بھی لے لیا جائے تو تاریخ کے بند دریچے خود بخود کھلتے بکھرتے چلے جائیں گے۔
ملٹی نیشنل کمپنیاں لوگوں کو کس طرح بے وقوف بنا کر مال کماتی ہیں اس کی ایک مثال امریکا کی کمپنی ''ٹارگٹ کارپوریشن ''ہے۔یہ ''منی پولس'' وغیرہ میں کام کرتی ہے۔ اس نے دیکھا کہ کاجو، پستے، بادام، مونگ پھلی جیسے خشک میوے لوگوں میں مقبول ہیں اور اعلیٰ معیار کے میوے کھائے جاتے ہیں، تو اس نے ردی میوہ جات کو فروخت کر کے زیادہ نفع کمانے کا منصوبہ بنایا۔ اعلیٰ ثابت خشک میوے چھانٹتے ہوئے جو میوے ٹوٹے ہوئے اور ٹکڑے ٹکڑے ہوتے ہیں انھیں الگ کر دیا جاتا ہے اس کمپنی نے یہ تمام کچرا خرید لیا اور ''ہالوز اینڈ پیسز،کیشیوز''کے نام سے بازار میں ردی مال مہنگے ترین داموں پر بیچنا اور لوگوں نے خریدنا شروع کر دیا۔ دھوکا دہی کی انتہا یہ ہے کہ ڈبے پر لکھا ہے ''کیشیوز'' اور تصویر بھی کاجوکی ہے، لیکن ڈبے کی عبارت میںانگیرڈئنٹس:کیشیوز، پی نٹ،آئل اور سالٹ لکھا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس میں مونگ پھلی کہاں سے آگئی؟ مونگ پھلی اور کاجو کی قیمتوں میں زمین وآسمان کا فرق ہے دونوں کا کوئی جوڑ نہیں۔ اس عبارت کے نیچے مزید لکھا ہے''مے کونٹین پی نٹ ،ادر ٹری نٹس، مِلک،سوئے اینڈ ویٹ''۔ یہ صریحاً دھوکا دہی نہیںہے ؟اور دنیا بھر میں ٹارگٹ کارپوریشن کے یہ دھوکے مقبول ہیں ۔تعلیمِ جدیدکے جدید بقراط اذہان نے کبھی یہ سوال اُٹھائے؟کیوں اِس جانب توجہ نہیں ہو پاتی؟یہ کون سی ایمانیات ہے؟یہ کون سا یقین ہے؟ملٹی نیشنلز کے غذائی ڈبوں پر یہ اندھا اعتماد کس ذہنیت کی غمازی ہے؟کور چشمی اور ذہنی غلامی کیا ہوتی ہے؟ لذت کی خاطرغذائی اشیاء تیار کرنے والی کمپنیاں خطر ناک قسم کے کیمیائی مادے شامل کررہی ہیں ۔اجینو موتو نمک جوکھانوں کی لذت بڑھا دیتا ہے اس کے خطرناک اثرات کل کی بات ہے ۔
''دی لینسٹ'' طب کی دنیا کا ایک معتبر نام مانا جاتا ہے۔یہ طبی جرنل 1823سے شایع ہورہا ہے۔کچھ عرصہ قبل کئی ممالک کے ماہرین ِطب کی ایک تحقیق شایع کی گئی۔اِس میں بتایا گیا تھا کہ کس طرح ''مارکیٹنگ'' کے ہتھ کنڈوں اور''پراسیسڈ فوڈ'' کے ذریعے عوام کی صحت سے کھلواڑ جاری ہے ۔لینسٹ نے بتایا کہ آج کے ''کرانک''اور وبائی امراض مثلاً دل کی بیماریوں اورکینسر وغیرہ کا بڑا سبب یہ ''الٹرا پراسیسڈ فوڈ''اور''ڈرنکس'' ہیں۔ان اشیا پر اجارہ داری کن کی ہے؟
آج کافی کی 40فی صد سے زائد عالمی فروخت پرصرف 3ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اجارہ داری ہے۔کوکا اور چوکلیٹ کی عالمی فروخت 8 کمپنیوں کے پاس ہے۔ چائے کی85فی صد سے زائد آمدنی صرف 7ملٹی نیشنلز کے قبضے میں ہے۔عالمی سطح پر سفید شکر کی تجارت دو تہائی سے زائد تجارت پر 6کمپنیاں قابض ہیں۔''فئیر ٹریڈ فاؤنڈیشن ''ایسے کئی حقائق آشکار کرتا رہتا ہے۔یہ تمام اعداد وشمارکس جانب اشارہ کرتے نظر آرہے ہیں؟
ہم کیا کھارہے ہیں ؟ہمیں کیا کھلایا جارہا ہے ہمیں کچھ پتہ نہیں ہے اس کے باوجود عہد حاضر کے انسان کو تاریخ کا عقل مند اور ذہین ترین اوردانش مند شخص کہا جارہا ہے۔افسوس کہ یہ وہ شخص ہے جسے یہ بھی پتہ نہیں کہ وہ کیا کھا رہا ہے؟ یہ سائنسی آدمی جوکھارہا ہے وہ اُس کا کیمیائی تجزیہ بھی کرنے کے قابل نہیں ہے۔