’کاش‘ کامیابی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ

آج کا نوجوان تو معاشرے کی وہ طاقتور ترین ہستی ہے جو کائنات کو تسخیر کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔


فہیم زیدی October 07, 2015
جب نوجوان رفتہ رفتہ تعلیم و شعور کا زینہ سر کرنے لگتا ہے تو اس کی شخصیت سے لفظ ’’کاش‘‘ خود بہ خود اپنی اہمیت کھو دیتا ہے۔

لفظ ''کاش'' اگرچہ تین حرف تہجی پر مبنی ایک مختصر سا مجموعہ ہے اور اگر کوئی شخص لفظ ''کاش'' کا لبادہ اوڑھ لے تو وہ خود کو ہمیشہ کے لئے مایوسی کی دلدل میں پھینک دیتا ہے اور یہ ''کاش'' اگر کوئی نوجوان اپنے اوپر طاری کر لے تو کسی بھی شعبے میں اس کی کامیابی کے امکانات کم نظر آتے ہیں، اور وہ ترقی کی راہ پر گامزن ہونے میں کافی مشکلات کا شکار نظر آتا ہے۔ سب سے پہلے تو ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ لفظ ''کاش'' ہے کیا؟

دراصل اس مختصر مگر مضر لفظ میں مایوسی، کم مائیگی، محرومی اور کمتری جیسے عوامل کو ہم واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں اور جس نوجوان میں اگر یکمشت یہ سب عوامل ایک ساتھ سرائیت کر جائیں تو وہ کبھی بھی خود کو ترقی کی شاہراہ پر رواں دواں نہیں رکھ سکے گا، وہ ہمیشہ کے لئے خود کو ایک ناکام اور نا مراد نوجوان ہی تصور کر تا رہے گا اور اگر لفظ ''کاش'' انسانی رگ و پے میں کسی موذی مرض کی طرح تحلیل ہوجائے تو پھر انسان مشکل سے اس سے چھٹکارا حاصل کر پاتا ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ ہمارے نوجوان اس لفظ کو مختلف زاویوں اور کیفیات کے سانچوں میں ڈھال کر اپنے ذہن اور وجود میں اتار لیتے ہیں۔

مختلف مواقعوں اور اوقات میں خاص کر نوجوان طبقہ دوسرے فرد میں کوئی واضح خوبی یا برتری دیکھ کر مایوسی کا شکار ہو کر خود کو کم تر اور کمزور تصور کرنے لگتا ہے، اور سامنے والے کو رشک بھرے انداز میں دیکھ کر اس میں موجود وہ خوبی، صلاحیت یا انفرادیت کو محسوس ک کے اپنے آپ کو نا صرف ایک نامکمل انسان سمجھ بیٹھتا ہے بلکہ وہ سامنے والے نوجوان سے حسد بھی کرنے لگتا ہے، جو کہ سراسر غلط ہے کیونکہ اس طرح وہ خود سے ناانصافی کرتا نظر آتا ہے۔ حالاںکہ آج کا نوجوان تو معاشرے کی وہ طاقتور ترین ہستی ہے جو پوری کائنات کو تسخیر کرنے کی اہلیت رکھتا ہے، اس میں مخفی بے پناہ صلاحیتیں اور اس کی ذہنی سطح اس قدر بلند ہوتی ہے کہ وہ اپنے عزم و حوصلہ سے مشکل سے مشکل ہدف بھی باآسانی حاصل کرسکتا ہے کیوںکہ، آج کا نوجوان اس قدر فعال اور متحرک ہے کہ وہ اپنے قوی ارادوں کو اپنے افکار وعمل کا پیراہن دے کر کسی بھی شعبے میں نمایاں مقام حاصل کر سکتا ہے، تا وقت یہ کہ وہ اپنے اندر سے کاش کو ازخود اپنے ہی ہاتھوں سے نوچ نہ پھینکے۔

نوجوان طبقے میں یہ بیماری اکثر عام ہے کہ اکثر اگر کسی نوجوان کو دوسرے نوجوان کے پاس قیمتی کار نظر آئے تو ''کاش'' کی کیفیت میں مبتلا دوسرا نوجوان اس کو دیکھ کر رشک بھرے انداز میں کہتا نظر آئے گا کہ ''کاش'' میرے پاس بھی بینک بیلنس روپیہ پیسہ ہوتا تو میں بھی اسی قسم کی ایک خوب صورت سی کار کا ملک ہوتا، ''کاش'' میں بھی تعلیمی میدان میں ایک خاص کارنامہ سرانجام دے پاتا تو آج مجھے بھی اسی طرح ہر انداز میں پذیرائی اور عزت کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہوتا۔ ''کاش'' میں بھی کرکٹ کا ایک نامور کھلاڑی ہوتا تو ہر جگہ میری واہ واہ ہورہی ہوتی۔ ''کاش'' میں بھی فلم یا ٹی وی کا ایک چمکتا دمکتا ستارہ ہوتا تو ہر جانب میری پہچان ہوتی وغیرہ وغیرہ۔

یہ سب آج کے نوجوانوں کے قلوب میں پلنے والی وہ معصوم معصوم سی خواہشات ہیں جو، بغیر کسی عملی جدوجہد کے پالینے کا ارمان رکھتے ہیں۔ جب کہ ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہئے ''کاش'' کچھ نہیں ہوتا، اگر ہم کامیاب انسانوں کے پس منظر میں جھانک کر دیکھیں گے تو ہم پر یہ بات باآسانی آشکار ہوجائے گی کہ ان کامیابیوں کے پیچھے ان کی کتنی ریاضت وتگ و دو کار ہائے نمایاں ہے، کتنی بے تکان شبانہ روز محنت کے ثمرات آج ان کو حاصل ہو رہے ہیں۔ کسی بھی شعبے میں کامیابی کے لئے ایک طویل وقت درکار ہوتا ہے۔ معاشرے میں عزت و مقام حاصل کرنے والے نوجوانوں کو کامیابی پلیٹ میں رکھی ہوئی نہیں ملتی بلکہ اس کے لئے اس کے اسرار و رموز اور آگاہی سے واقفیت حاصل کرنے کے لئے انہوں نے سعیِ مسلسل کو اپنایا ہوا ہوتا ہے۔ ایک طویل اور بے تکان جدوجہد کو اپنا شعار بنایا ہوتا ہے تب کہیں جا کر اس کے ثمرات وہ حاصل کر پاتے ہیں۔

جب بچہ لڑکپن کی حدود سے نکل کر نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھتا ہے تو اس کے والدین کے ساتھ ساتھ اسے خود بھی اپنے اچھے اور پائیدار مستقبل کی فکر لاحق ہوجاتی ہے اور وہ اپنے تشخص کا طائرانہ جائزہ لیتا ہے کہ وہ کس شعبے میں خود کو منوا کر کامیابیوں کی بلندیوں کو چھو سکتا ہے، بعد ازاں وہ اس شعبہ میں قدم رکھنے سے قبل آگاہی اور معلومات حاصل کرنے کے لئے تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ تعلیم یافتہ گھرانوں میں بچپن سے بچوں کو اِس بات کا عادی بنا دیا جاتا ہے کہ اسے کسی بھی شعبے میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے تعلیم کے ساتھ ساتھ مستقل مزاجی اور جدوجہد پر یقین رکھنا ہوگا، اور جب یہ بات اسے اچھی طرح ذہن نشین ہوجاتی ہے تو اس بچے یا نوجوان کے ذہن کے کسی بھی کونے میں لفظ ''کاش'' کا گھر کر لینا ناممکن ہوجاتا ہے۔

جب نوجوان رفتہ رفتہ تعلیم و شعور کا زینہ سر کرنے لگتا ہے تو اس کی شخصیت سے لفظ ''کاش'' خود بہ خود اپنی اہمیت کھو دیتا ہے اور وہ اس لفظ ''کاش'' کو ہمیشہ کے لئے دفن کرکے پیچھے کی جانب دیکھے بغیر اپنے تشخص کو بلند سے بلند تر مقام پر نہ صرف لے جاتا ہے، بلکہ لفظ ''کاش'' کے اثر میں آجانے والے نوجوانوں کے لئے بھی مشعل راہ بن کر انہیں حوصلہ اور جذبہ دینے میں اہم کردار ادا کرتا نظر آتا ہے۔

[poll id="703"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں