معذورالیکشن کمیشن اور عائشہ ممتاز
یہ انتخابی معرکہ دونوں جماعتوں کے لیے انا کا مسئلہ بنا ہوا ہے،
حلقہ این اے 122 کے ضمنی انتخاب میں شاہانہ خرچ کر کے جس طرح غریب ملک کے باسیوں اور سسٹم کا مذاق اُڑایا جا رہا ہے، اس کی مثال کہیں نہیں ملتی۔ عمران خان ہو یا نواز شریف خوفِ خدا نام کی تو چیز ہی نہیں ہے، اس ملک میں غریب مر رہے ہیں اورادھر ایک سیٹ کے لیے اربوں روپے لٹائے جارہے ہیں، ایسا لگ رہا ہے جیسے دولت سے انسان خریدے جا رہے ہیں ۔
یہ انتخابی معرکہ دونوں جماعتوں کے لیے انا کا مسئلہ بنا ہوا ہے، قومی اسمبلی کی ایک سیٹ پر انتخابی امیدوار کو ہمارا انتخابی نظام 15لاکھ روپے خرچ کرنے کی اجازت دیتا ہے لیکن یہاں تو گزشتہ ماہ سے روزانہ 15سے 50لاکھ روپے تک یا اس سے بھی زیادہ خرچ کیے جارہے ہیںاور یہ خرچ دونوں جماعتوں کے امیدواروں ایاز صادق اور علیم خان کی جانب سے ہو رہا ہے۔
'' عمران خان بھی ''تبدیلی'' کو چھوڑ کر اب روایتی سیاست کے رنگ میں ڈھلتے دکھائی دے رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن کو ''سب'' پتا ہے لیکن وہ بھی بس اِکا دُکا نوٹس بھیج کر اپنے موجود ہونے کااحساس دلا یاہے۔ اس حلقے کے گلی کوچوں کو بینرز، پلے کارڈز، فلیکسز وغیرہ سے اس طرح سے سجایا گیا ہے کہ آسمان بھی مشکل سے نظر آتا ہے۔
یہ کروڑوں روپے کی پبلسٹی کی جا رہی ہے ۔ اس حلقے سے اگر کسی کا گزر ہو تو وہ یقیناََ اس سوچ میں مبتلا ضرور ہوگا کہ اس ملک میں جس طرح کبھی بجلی ہوا کرتی تھی شاید یہاں پہلے الیکشن کمیشن بھی ہوتا ہو گا، کیونکہ آپ کو الیکشن کمیشن کی رٹ کہیں دکھائی نہیں دے گی۔ ایسا نہیں ہے کہ الیکشن کمیشن ٹھیک نہیں ہو سکتا اگر کوئی باہمت افسر چاہے تو سب کچھ ٹھیک ہو سکتا ہے اس کی ایک مثال لاہور کی عائشہ ممتاز ہے جس نے لاہور میں فوڈ کے نظام کو بہتر کر دیا ہے۔
میرے خیال میں اگر اس الیکشن کمیشن میں عائشہ ممتاز جیسی کوئی افسر آجائے تو یقیناََ سب سیدھے ہو جائیں، اس خاتون نے کم از کم لاہور کے ریستوران کو تو بہتر کر دیا ہے، ہر کچن صاف نظرآ رہا ہے اور ریسٹورنٹ کے ہر اسٹاف ممبر کے پاس میڈیکل سرٹیفیکیٹ کی دستیابی بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ اب تک وہ 7ہزار سے زائد چھاپے مار چکی ہے۔ عائشہ ممتاز تو اپنا کام کر رہی ہیں ۔
اے کاش کہ ہمارا الیکشن کمیشن جو ان سیاستدانوں کے ہاتھوں مفلوج ہو گیا ہے جاگ جائے اور سیاسی اثرو رسوخ سے بالا تر ہو کر کام کرے ۔آپ بھارت کی مثال لے لیں وہاں بھی انتخابات ہوتے ہیں، وہاں الیکشن کمیشن نہ صرف حکومتی اثر و رسوخ سے آزاد ہے بلکہ تمام ریاستوں میں اس کا مستقل اور تجربہ کار عملہ بھی ہے اگر پولنگ عملے کے کسی کی وفاداری یا اہلیت پر شک گزرے تو اسے ملازمت سے برخاست کردیاجاتاہے۔
بھارتی الیکشن کمشنر اس قدر طاقتور ہے کہ ایک مرتبہ وزیر اعلیٰ اپنی کابینہ کے ارکان کے ساتھ کسی وضاحت کے لیے الیکشن کمیشن کے دفتر آئے، انھیں الیکشن کمشنر کے حکم پر سرکاری ہیلی کاپٹروں کو چھوڑ کر اپنی جیب سے کرایہ اداکرکے عام بسوں میں واپس جانا پڑا۔ بھارت میں الیکشن کمشنر وزیر اعظم کو بھی طلب کرسکتا ہے۔ الیکشن کمشنر کے اہلکار ویڈیو کیمروں کے ذریعے حلقہ کے ہر امیدوار کے اخراجات اور تقریروں پر کڑی نظر رکھتے ہیں۔ خلاف ورزی کرنے والاکتنا بھی بااثر کیوں نہ ہو و ہ سزا سے نہیں بچ سکتا۔سزا ہمیشہ کے لیے نااہلی بھی ہوسکتی ہے اور قید کی صورت میں بھی۔
مجھے ایک خبر نے حیران کردیا کہ مسلم لیگ ن کی طرف سے ٹکٹ ہولڈر اور آئی جی پنجاب کے حقیقی بھائی اعجاز احمد سکھیرا تحصیل دیپالور کی یوسی 135 سے بلا مقابلہ ''منتخب'' ہوگئے ہیں، اب انھیں چیئرمین ضلع کونسل بنانے کے لیے بھی تمام انتظامات مکمل کر لیے گئے ہیں،پنجاب و سندھ کے بلدیاتی انتخابات میں کم و بیش 100سیٹوں پر چیئرمین بلامقابلہ منتخب ہو چکے ہیں۔ خواجہ احمد حسان جو پنجاب حکومت کے مشیر اور لاہور ٹرانسپورٹ کمپنی کے چیئرمین ہیں وہ بھی پہلے مرحلہ میں یوسی107 سے بلامقابلہ چیئرمین منتخب ہو گئے ہیں۔
وہاڑی یونین کونسل 23کوٹ غلام قادر سے (ن) لیگ کی رہنما تہمینہ دولتانہ کے بڑے بھائی میاں زاہد دولتانہ بلامقابلہ چیئرمین منتخب ہوگئے ہیں، سکھر سے قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کے بیٹے فرخ شاہ ضلع کونسل کے بلا مقابلہ رکن منتخب ہوگئے ہیں، لاڑکانہ سے سینئر صوبائی وزیر نثار کھوڑو کی بیٹی ندا کھوڑو بلا مقابلہ منتخب ہوگئیں ہیں، ضلع کونسل شکار پور کی5 یونین کونسلوں سے آزاد گروپ جتوئی برادران کے تمام امیدوار بلا مقابلہ منتخب ہو گئے ہیں۔
عنقریب وزیراعلیٰ سندھ کے بھانجے، بھانجے کے بیٹے، صوبائی وزیر خوراک منظوروسان کے بھانجے،ایم پی اے فضل علیشاہ کے چچازاد بھائیوں اورایم پی اے نعیم کھرل کے بھتیجوں کے منتخب ہونے کی ''خوشخبری'' آنے والی ہے، ان کے علاوہ بھی ایک طویل فہرست موجود ہے ۔ ایک بات زیر غور ہے کہ یہ صاحبِ اقتدار لوگ جب 'پاور' میں نہیں ہوتے تو اس وقت یہ اپنے رشتے داروں کو بلا مقابلہ کوئی عہدہ دلوانے کے قابل کیوں نہیںہوتے۔ واہ رے ہمارا سسٹم۔
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
پاکستان کا نظام اس قدر خراب ہو چکا ہے کہ جس کا زور چلتا ہے اختیارات مرضی سے استعمال کرتا ہے ، توقیر ضیا کو کرکٹ بورڈ کے چیئرمین ہیں تو جنید ضیاء بین الاقوامی کرکٹ میںہے اور جب وہ عہدہ پر نہیں رہتے تووہ بھی کرکٹ سے غائب ہو جاتا ہے۔ یہاں وحیدہ شاہ جیسی خواتین انتخابی عملے کو سرعام پھینٹی لگا دیتی ہے۔
میں یہاں یہ بھی کلیئر کرتا چلوں کہ مجھے کوئی شوق نہیں ہے کہ میں الیکشن کمیشن کو مفلوج ومعذور قرار دوں، وجہ یہ ہے کہ نہ تو الیکشن کمیشن کااپنا کوئی الگ انتظامی ڈھانچہ ہے اور نہ ہی مستقل عملہ۔ مختلف سرکاری اداروں، اسکولوں اور کالجزسے مستعار لیے جانے والے لوگوں کو مناسب تربیت، اہلیت اورحفاظتی تحفظ کے بغیر ذمے داری سونپ کرپولنگ کے لیے خطرناک ترین علاقوںمیں بھیج دیاجاتاہے۔ جب شام کو گنتی کے بعد نتایج کا وقت آتا ہے تو پولنگ اسٹیشن کو مسلح گروہوںنے گھیر رکھا ہوتا ہے۔
پولیس اہلکار جو عملے کی حفاظت پر مامور ہوتے ہیں مسلح افراد کو دیکھ کر موقعہ واردات سے ہی رفوچکر ہوجاتے ہیں ان لمحات میں جب کہ الیکشن عملے کی اپنی جانیں بھی داؤپر لگی ہوں انھیں یہ بھی یقین نہ ہو کہ وہ اپنے ریٹرنگ افسر کے دفتر تک زندہ پہنچ بھی جائیںگے یا نہیں۔ یہ کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے فرائض کو صحیح انداز میں انجام دیں گے۔
ہمیں 2018ء میں ہونے والے الیکشن کے لیے ایسا نظام وضع کرنے پر اصرار کرنا چاہیے کہ مستقبل میں 100فیصد درست نتائج برآمد ہوسکیں۔ اس مقصد کے لیے برطانیہ امریکا اور بھارت کے انتخابی نظام کا جائزہ لے کر پاکستان میں رائج کرنے کی قانون سازی کرنی چاہیے۔ پھر ہر بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں سمیت ہر پاکستانی کو ووٹ ڈالنے کا قانونی طور پر پابند کیاجائے جو ووٹ نہ ڈال سکے اس کی شہریت منسوخ کردی جائے۔
بائیو میٹرک نظام کے تحت آن لائن ووٹنگ سسٹم شروع کیا جائے، لمبی قطاروں کا توہین آمیز طریقہ ختم کیاجائے۔ ووٹر جہاں بھی ہو اپنے نزدیکی کمپیوٹر سینٹرز ( جن میں اسپتال، سرکاری دفاتر، فوجی یونٹیں، پولیس ہیڈکوارٹر، تھانوں ، جیلوں، اسکول کالجز یونیورسٹیوں، میڈیکل اسٹوروں، نیٹ کیفے)اپنی مرضی سے کسی رکاوٹ اور تکلیف کے بغیر ووٹ ڈال سکے۔
اس وقت فوج پولیس انتظامی اداروں، جیلوں میں بند قیدی، تھانوںمیں حوالاتی ، بیرون ملک پاکستانیوں، امیر زادوں سمیت پولنگ عملے کے اراکین بھی ووٹ نہیں ڈالتے اور نہ ہی انھیں ووٹ ڈالنے کی سہولت میسر ہے۔ 70 فیصد پاکستانیوں کے ووٹوں کے بغیر الیکشن کو کیسے منصفانہ قرار دیاجاسکتاہے۔
اللہ کرے کہ ہمارا الیکشن کمیشن جاگ جائے اور اپنا آئینی اور قانونی کردار ادا کرے۔ پاکستان کی دنیا میں ایک جمہوری ملک کی پہچان اور شناخت کے لیے الیکشن کمیشن کا کلیدی کردار ہو گا۔ امید ہے کہ اگلے الیکشن تک ہمیں اس ملک و قوم کے لیے ایسے دبنگ الیکشن کمیشن کے سربراہ کی دستیابی میسر آجائے جو اس ملک کی تقدیر بدل کر رکھ دے، جو عائشہ ممتاز کی طرح دبنگ ہو، کیونکہ ہمیں اس ملک کی حفاظت بھی تو کرنی ہے۔۔۔ بقول شاعر
موج بڑھے یا آندھی آئے
دیا جلائے رکھنا ہے
گھر کی خاطر ، سو دکھ جھیلیں
گھر تو آخر اپنا ہے !