محبت کی حقیقت
فضیلۃ الشیخ سمیر حلبی اپنی کتاب میں جس کا ترجمہ اردو میں شیخ الحدیث حافظ محمد امین نے کیا ہے
فضیلۃ الشیخ سمیر حلبی اپنی کتاب میں جس کا ترجمہ اردو میں شیخ الحدیث حافظ محمد امین نے کیا ہے ''محبت کی حقیقت'' کے عنوان سے لکھتے ہیں۔ ''اس میں کوئی شک نہیں کہ محبت ہی زندگی کی اساس اور محبت ہی وجود کائنات کا جوہر ہے، محبت ہی عبادت کی جان اور محبت ہی انسانوں کے باہمی تعلقات کی بنیاد ہے اور محبت ہی اشیا کے درمیان ربط کا ذریعہ ہے بلکہ لوگوں نے تو یہاں تک کہا ہے آسمانوں اور زمین میں ہونے والی حرکت محبت ہی کے سبب سے ہے۔''
سمیر حلبی کہتے ہیں کہ محبت کے کئی درجے ہیں۔ محبت کا پہلا درجہ ھویٰ ہے جس کے معنی ہیں ایسی محبت جو دل میں پیوست ہو جائے، پھر کَلَف ہے جس کے معنی انتہائی محبت کے ہیں، پھر عشق جو اس سے بھی بڑا درجہ ہے۔ محبت کا آخری درجہ شغف ہے جو دل میں ایک لذت آمیز سوز پیدا کر دیتا ہے۔
اس کے بعد محبت کا ایک وہ درجہ بھی ہے جس میں انسان بیمار ہو جاتا ہے اور عقل بھی جاتی رہتی ہے۔شیخ لکھتے ہیں ''اصل محبت اللہ تعالیٰ کی ایسی محبت ہے جس میں کسی اور چیز کا شائبہ تک نہ ہو۔ یہی محبت ساری محبتوں کی بنیاد ہے۔ اس محبت میں ایک ایسی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے کہ انسان کے لیے ہر مصیبت آسان ہو جاتی ہے، وہ ہر حال میں راضی رہتا ہے۔ اسے اس کی پرواہ نہیں ہوتی کے اس کے دن رات کس حال میں بسر ہوتے ہیں۔ جب کسی وقتِ مشکل میں وہ اپنے پروردگار کی طرف متوجہ ہو کر اسے پکارتا ہے تو درحقیقت وہ اپنے پروردگار کے ساتھ اسبابِ محبت کو مضبوط کر رہا ہوتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ سے عفو و درگزر کا امیدوار ہوتا ہے اور اپنی اطاعت و عاجزی، محبت و قربت اور رجوع الی اللہ کا اعلان کر رہا ہوتا ہے۔''
سمیر حلبی لکھتے ہیں ''اللہ تعالیٰ کی محبت نفس کو مہذب بناتی ہے، روح کو بلند کرتی ہے، عزم کو قوت عطا کرتی ہے اور خصائل کو پاکیزہ بناتی ہے۔ اس لیے انسان ہر ایسے عمل کا خواہش مند ہوتا ہے جو اسے اللہ سے نزدیک کر دے اور ہر اس کام سے دور رہتا ہے جو اللہ کی ناراضی کا موجب ہو۔ اس طرح وہ دنیا سے بے رغبت ہو جاتا ہے۔
آخرت پر اس کا یقین بڑھ جاتا ہے اور وہ اس فانی دنیا کے عوض آخرت کے ثواب کا طلب گار بن جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی سچی اطاعت ہی سچی محبت کی نشانی ہے۔''
شیخ کہتے ہیں کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتا ہے وہ اس کے رسولؐ سے بھی محبت رکھتا ہے۔ رسول اللہؐ سے محبت عظمت و احترام والی محبت ہے اور یہ اللہ تعالیٰ ہی سے محبت کی دلیل ہے۔ یہ ضروری ہے کہ رسول اللہؐ کی محبت سے بڑھ کر ہمارے دل میں کسی اور انسان کی محبت نہ ہو، اور جس طرح اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے اس کی سچی عبادت اور خلوص سے محبت ضروری ہے اسی طرح اللہ کے رسولؐ سے بھی خلوص سے محبت کی جائے۔ قرآن مجید میں تقریباً بائیس مقامات پر رسول اللہؐ کی اطاعت کو اللہ کی اطاعت سے منسلک کیا گیا ہے۔
ارشاد ہوتا ہے ''اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو اگر تم مومن ہو''۔ بلاشبہ رسول اللہؐ کی محبت کی اساس اللہ تعالیٰ ہی کی محبت ہے اور یہ سچے ایمان اور یقین محکم کی دلیل ہے۔ ہر مومن اس محبت کو اپنے دل اور روح میں محسوس کرتا ہے اور اس کا اظہار آپؐ کی پیروی سے ہوتا ہے۔
الشیخ سمیر حلبی لکھتے ہیں۔ اللہ اور اس کے رسولؐ سے محبت کی نشانیاں آپؐ کے صحابہ کی زندگیوں میں نظر آتی ہیں۔ تاریخ ایسی مخلصانہ محبت کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے جس میں کسی دنیاوی مقصد یا کسی لالچ کا شائبہ تک نہ ہو۔ رسول اللہؐ کے ایک صحابی حضرت طلحہ بن عبید اللہ تھے۔ غزوہ احد میں جب مسلمان بکھر گئے اور کافروں نے رسول اللہؐ کو شہید کرنے کے ارادے سے آپؐ کو گھیر لیا تو وہ طلحہ ہی تھے جنھوں نے موت کی پروا نہ کرتے ہوئے آپؐ کا دفاع کیا تھا۔ حتیٰ کہ کافروں کے ہر وار کو اپنے ہاتھ پر لے لیا اور آپؐ پر آنچ نہ آنے دی۔
نتیجتاً وہ ہاتھ ہمیشہ کے لیے شل ہو گیا۔ نبی کریمؐ نے فرمایا، طلحہ نے اپنے لیے اللہ اور اس کے رسول کی رضا اور جنت کو واجب کر لیا۔وہ لکھتے ہیں۔ دلوں میں محبت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب ایک شخص دوسرے میں قبولیت و مناسبت پاتا ہے۔ اس طرح روحوں میں مناسبت پیدا ہوتی ہے اور طبیعت اور مزاج موافق ہو جاتے ہیں۔ جب محبت کی اساس اللہ تعالیٰ کی ذات عالی ہو تو مومن کے دل و دماغ میں ایک بے مثال روشنی پیدا ہوتی ہے جو اسے مادہ اور محسوسات سے بلند کر دیتی ہے اور پھر وہ اپنی کسی ذاتی غرض یا مفاد کی بنا پر محبت نہیں کرتا۔ اس کی محبت فی اللہ ہوتی ہے۔
اسلام اس محبت کا جسے جذباتی محبت یا ''چہرے کا عشق'' کہا جاتا ہے یکسر انکار نہیں کرتا۔ محبت انسان کی فطری عادات میں سب سے زیادہ طاقتور اور اثر انگیز عادت ہے۔ سمیر حلبی لکھتے ہیں۔ رسول اللہؐ نے جذباتی محبت کو ایک حقیقت قرار دیا ہے۔ آپؐ نے اسے برا نہیں سمجھا بلکہ اس کی تصویب فرمائی ہے۔ اس کا ثبوت یہ واقعہ ہے۔
ایک لونڈی کا غلام شوہر اپنی بیوی کا شیدائی تھا لیکن لونڈی اس غلام سے نفرت کرتی تھی۔ غلام جس کا نام مغیث تھا اس لونڈی کے جس کا نام بریرہ تھا پیچھے پیچھے روتا ہوا جا رہا تھا۔ رسول اللہؐ نے اسے دیکھا تو اس قدر متاثر ہوئے کہ خود پیش قدمی فرمائی۔ لونڈی سے بات کی اور غلام کی سفارش فرمائی۔ حضرت عباسؓ اس واقعے کے راوی ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ بریرہ جب آزاد ہو گئی تو اسے نکاح ختم کرنے کا اختیار حاصل ہو گیا۔ مغیث جو غلام تھا اس کے پیچھے پیچھے مدینہ کی گلیوں میں گھومتا پھرتا تھا۔
اس کے آنسو ڈاڑھی پر بہہ رہے تھے۔ رسول اللہؐ نے اس حالت میں اسے دیکھا تو فرمایا۔ ''اے عباس! کیا تمہیں تعجب نہیں کہ مغیث کو بریرہ سے کس قدر محبت ہے اور بریرہ کو مغیث سے کتنا بغض ہے۔'' پھر آپؐ نے بریرہ سے فرمایا، ''اگر تُو اس کے گھر میں آباد رہے تو کتنی اچھی بات ہے۔'' وہ کہنے لگی ''یا رسول اللہؐ! آپ مجھے حکم دے رہے ہیں؟'' آپؐ نے فرمایا ''نہیں۔ میں صرف سفارش کر رہا ہوں۔'' وہ کہنے لگی ''اے اللہ کے رسولؐ! پھر مجھے اس کی ضرورت نہیں۔''
الشیخ سمیر حلبی لکھتے ہیں۔ ''انسان کے بدن میں بہت سے فطری جذبات و احساسات ہیں۔ ان کی بنا پر انسانی شخصیت بنتی ہے۔ ان جذبات میں سب سے اہم فطری جذبہ محبت ہے جس کے بہت سے عوامل ہیں۔ جذبہ محبت کے زیر اثر یہ نوبت بھی آ جاتی ہے کہ انسان اس جذبے کا قیدی بن کر رہ جاتا ہے اور اپنے بلند مقصد کو فراموش کر دیتا ہے۔
اسلام انسان کو اس کے بدن، عقل اور روح ہر لحاظ سے مدنظر رکھتا ہے اور اس کی فطرت کے مطابق ہی اس کی زندگی کی تنظیم کرتا ہے۔ چنانچہ جذبہ محبت کے لیے لازمی ہے کہ وہ اس بلند پیغام سے ہم آہنگ ہو جس کی خاطر انسان کو پیدا کیا گیا ہے۔ یقینا قابل تعریف محبت وہی ہے جو نیک ہو، فاسد نہ ہو۔ محبت کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ جذبۂ محبت کو عفت و پاکیزگی سے آراستہ رکھے اور شریعت کے مطابق عمل کرے۔
سمیر حلبی کہتے ہیں کہ محبت کے کئی درجے ہیں۔ محبت کا پہلا درجہ ھویٰ ہے جس کے معنی ہیں ایسی محبت جو دل میں پیوست ہو جائے، پھر کَلَف ہے جس کے معنی انتہائی محبت کے ہیں، پھر عشق جو اس سے بھی بڑا درجہ ہے۔ محبت کا آخری درجہ شغف ہے جو دل میں ایک لذت آمیز سوز پیدا کر دیتا ہے۔
اس کے بعد محبت کا ایک وہ درجہ بھی ہے جس میں انسان بیمار ہو جاتا ہے اور عقل بھی جاتی رہتی ہے۔شیخ لکھتے ہیں ''اصل محبت اللہ تعالیٰ کی ایسی محبت ہے جس میں کسی اور چیز کا شائبہ تک نہ ہو۔ یہی محبت ساری محبتوں کی بنیاد ہے۔ اس محبت میں ایک ایسی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے کہ انسان کے لیے ہر مصیبت آسان ہو جاتی ہے، وہ ہر حال میں راضی رہتا ہے۔ اسے اس کی پرواہ نہیں ہوتی کے اس کے دن رات کس حال میں بسر ہوتے ہیں۔ جب کسی وقتِ مشکل میں وہ اپنے پروردگار کی طرف متوجہ ہو کر اسے پکارتا ہے تو درحقیقت وہ اپنے پروردگار کے ساتھ اسبابِ محبت کو مضبوط کر رہا ہوتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ سے عفو و درگزر کا امیدوار ہوتا ہے اور اپنی اطاعت و عاجزی، محبت و قربت اور رجوع الی اللہ کا اعلان کر رہا ہوتا ہے۔''
سمیر حلبی لکھتے ہیں ''اللہ تعالیٰ کی محبت نفس کو مہذب بناتی ہے، روح کو بلند کرتی ہے، عزم کو قوت عطا کرتی ہے اور خصائل کو پاکیزہ بناتی ہے۔ اس لیے انسان ہر ایسے عمل کا خواہش مند ہوتا ہے جو اسے اللہ سے نزدیک کر دے اور ہر اس کام سے دور رہتا ہے جو اللہ کی ناراضی کا موجب ہو۔ اس طرح وہ دنیا سے بے رغبت ہو جاتا ہے۔
آخرت پر اس کا یقین بڑھ جاتا ہے اور وہ اس فانی دنیا کے عوض آخرت کے ثواب کا طلب گار بن جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی سچی اطاعت ہی سچی محبت کی نشانی ہے۔''
شیخ کہتے ہیں کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتا ہے وہ اس کے رسولؐ سے بھی محبت رکھتا ہے۔ رسول اللہؐ سے محبت عظمت و احترام والی محبت ہے اور یہ اللہ تعالیٰ ہی سے محبت کی دلیل ہے۔ یہ ضروری ہے کہ رسول اللہؐ کی محبت سے بڑھ کر ہمارے دل میں کسی اور انسان کی محبت نہ ہو، اور جس طرح اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے اس کی سچی عبادت اور خلوص سے محبت ضروری ہے اسی طرح اللہ کے رسولؐ سے بھی خلوص سے محبت کی جائے۔ قرآن مجید میں تقریباً بائیس مقامات پر رسول اللہؐ کی اطاعت کو اللہ کی اطاعت سے منسلک کیا گیا ہے۔
ارشاد ہوتا ہے ''اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو اگر تم مومن ہو''۔ بلاشبہ رسول اللہؐ کی محبت کی اساس اللہ تعالیٰ ہی کی محبت ہے اور یہ سچے ایمان اور یقین محکم کی دلیل ہے۔ ہر مومن اس محبت کو اپنے دل اور روح میں محسوس کرتا ہے اور اس کا اظہار آپؐ کی پیروی سے ہوتا ہے۔
الشیخ سمیر حلبی لکھتے ہیں۔ اللہ اور اس کے رسولؐ سے محبت کی نشانیاں آپؐ کے صحابہ کی زندگیوں میں نظر آتی ہیں۔ تاریخ ایسی مخلصانہ محبت کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے جس میں کسی دنیاوی مقصد یا کسی لالچ کا شائبہ تک نہ ہو۔ رسول اللہؐ کے ایک صحابی حضرت طلحہ بن عبید اللہ تھے۔ غزوہ احد میں جب مسلمان بکھر گئے اور کافروں نے رسول اللہؐ کو شہید کرنے کے ارادے سے آپؐ کو گھیر لیا تو وہ طلحہ ہی تھے جنھوں نے موت کی پروا نہ کرتے ہوئے آپؐ کا دفاع کیا تھا۔ حتیٰ کہ کافروں کے ہر وار کو اپنے ہاتھ پر لے لیا اور آپؐ پر آنچ نہ آنے دی۔
نتیجتاً وہ ہاتھ ہمیشہ کے لیے شل ہو گیا۔ نبی کریمؐ نے فرمایا، طلحہ نے اپنے لیے اللہ اور اس کے رسول کی رضا اور جنت کو واجب کر لیا۔وہ لکھتے ہیں۔ دلوں میں محبت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب ایک شخص دوسرے میں قبولیت و مناسبت پاتا ہے۔ اس طرح روحوں میں مناسبت پیدا ہوتی ہے اور طبیعت اور مزاج موافق ہو جاتے ہیں۔ جب محبت کی اساس اللہ تعالیٰ کی ذات عالی ہو تو مومن کے دل و دماغ میں ایک بے مثال روشنی پیدا ہوتی ہے جو اسے مادہ اور محسوسات سے بلند کر دیتی ہے اور پھر وہ اپنی کسی ذاتی غرض یا مفاد کی بنا پر محبت نہیں کرتا۔ اس کی محبت فی اللہ ہوتی ہے۔
اسلام اس محبت کا جسے جذباتی محبت یا ''چہرے کا عشق'' کہا جاتا ہے یکسر انکار نہیں کرتا۔ محبت انسان کی فطری عادات میں سب سے زیادہ طاقتور اور اثر انگیز عادت ہے۔ سمیر حلبی لکھتے ہیں۔ رسول اللہؐ نے جذباتی محبت کو ایک حقیقت قرار دیا ہے۔ آپؐ نے اسے برا نہیں سمجھا بلکہ اس کی تصویب فرمائی ہے۔ اس کا ثبوت یہ واقعہ ہے۔
ایک لونڈی کا غلام شوہر اپنی بیوی کا شیدائی تھا لیکن لونڈی اس غلام سے نفرت کرتی تھی۔ غلام جس کا نام مغیث تھا اس لونڈی کے جس کا نام بریرہ تھا پیچھے پیچھے روتا ہوا جا رہا تھا۔ رسول اللہؐ نے اسے دیکھا تو اس قدر متاثر ہوئے کہ خود پیش قدمی فرمائی۔ لونڈی سے بات کی اور غلام کی سفارش فرمائی۔ حضرت عباسؓ اس واقعے کے راوی ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ بریرہ جب آزاد ہو گئی تو اسے نکاح ختم کرنے کا اختیار حاصل ہو گیا۔ مغیث جو غلام تھا اس کے پیچھے پیچھے مدینہ کی گلیوں میں گھومتا پھرتا تھا۔
اس کے آنسو ڈاڑھی پر بہہ رہے تھے۔ رسول اللہؐ نے اس حالت میں اسے دیکھا تو فرمایا۔ ''اے عباس! کیا تمہیں تعجب نہیں کہ مغیث کو بریرہ سے کس قدر محبت ہے اور بریرہ کو مغیث سے کتنا بغض ہے۔'' پھر آپؐ نے بریرہ سے فرمایا، ''اگر تُو اس کے گھر میں آباد رہے تو کتنی اچھی بات ہے۔'' وہ کہنے لگی ''یا رسول اللہؐ! آپ مجھے حکم دے رہے ہیں؟'' آپؐ نے فرمایا ''نہیں۔ میں صرف سفارش کر رہا ہوں۔'' وہ کہنے لگی ''اے اللہ کے رسولؐ! پھر مجھے اس کی ضرورت نہیں۔''
الشیخ سمیر حلبی لکھتے ہیں۔ ''انسان کے بدن میں بہت سے فطری جذبات و احساسات ہیں۔ ان کی بنا پر انسانی شخصیت بنتی ہے۔ ان جذبات میں سب سے اہم فطری جذبہ محبت ہے جس کے بہت سے عوامل ہیں۔ جذبہ محبت کے زیر اثر یہ نوبت بھی آ جاتی ہے کہ انسان اس جذبے کا قیدی بن کر رہ جاتا ہے اور اپنے بلند مقصد کو فراموش کر دیتا ہے۔
اسلام انسان کو اس کے بدن، عقل اور روح ہر لحاظ سے مدنظر رکھتا ہے اور اس کی فطرت کے مطابق ہی اس کی زندگی کی تنظیم کرتا ہے۔ چنانچہ جذبہ محبت کے لیے لازمی ہے کہ وہ اس بلند پیغام سے ہم آہنگ ہو جس کی خاطر انسان کو پیدا کیا گیا ہے۔ یقینا قابل تعریف محبت وہی ہے جو نیک ہو، فاسد نہ ہو۔ محبت کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ جذبۂ محبت کو عفت و پاکیزگی سے آراستہ رکھے اور شریعت کے مطابق عمل کرے۔