میرے زندہ ہونے کا ثبوت
بہت خوش نصیب ہوتے ہیں وہ لوگ جن کی سانسیں چل رہی ہوتی ہیں اور انھیں معلوم ہو جاتا ہے
بہت خوش نصیب ہوتے ہیں وہ لوگ جن کی سانسیں چل رہی ہوتی ہیں اور انھیں معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ تو کب کے مر چکے ہیں۔ ورنہ یہاں تو لاشیں ہر وقت زندہ رہنے کی اداکاری کر رہی ہوتی ہیں۔ انھیں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ تو کب کے مر چکے ہیں اور یہ مردہ پرست شہر ہمیشہ اُن لاشوں کو کاندھوں پر بیٹھا کر جئے جئے کے نعرے لگا رہا ہوتا ہے۔
شکر ادا کیجیے کہ جنھیں اپنی زندگی میں ہی یہ سماج باقاعدہ سرٹیفکیٹ جاری کر دے کہ آپ تو مر چکے ہیں۔ یہاں اگر کوئی جسمانی طور پر مر جائے تو اُس کا سرٹیفکیٹ لینا مشکل ہو جاتا ہے، زندہ جسموں اور مری ہوئی روحوں کا سرٹیفکیٹ جاری ہو جانا یقینی طور پر کمال ہے۔
ایسا ہی کچھ محمد سلیم کے ساتھ ہوا ہے، جسے اب پتہ چلا ہے کہ وہ تو کئی سال پہلے مر چکا ہے، مگر یہ کیسی موت تھی کہ نہ تو جنازہ اٹھا، نہ زندہ لاشوں نے یہ کہا کہ مرنے والا سلیم بہت اچھا آدمی تھا، نہ ہی کوئی جائیداد کے لیے جھگڑا ہوا، نہ ہی اس بات پر بحث ہوئی کہ کون سی مسجد میں نماز جنازہ ہو گا، نہ ہی کوئی اس بات پر الجھا کہ سلیم میاں کی آخری خواہش کیا تھی، اور نہ ہی کسی چاہنے والے نے یہ طے کیا کہ تین دن تک کھانے کون کون سے بننے ہیں۔ تو پھر سلیم کیسے مر گیا؟
سلیم چلتا پھرتا، گھومتا دوڑتا، اچھے خاصے آدمی کو کیسے معلوم ہوا کہ وہ مر چکا ہے۔ سلیم سرگودھا کا رہائشی ہے۔ جہاں بلدیاتی الیکشن ہونے والے ہیں۔ یہ سوچ کر کہ وہ اس نظام کو تبدیل کرے گا۔ الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ قسمت اچھی کہیے یا پھر کچھ جان پہچان کہ اسے اپنی یونین کونسل 34 سے مسلم لیگ (ن) کا ٹکٹ مل گیا۔ شاید اسے بھی نئے پاکستان میں نہیں رہنا اسی لیے اس نے شیر کا انتخاب کیا۔ جب کہ یہاں تو ساری پرانی لاشیں لائن میں کھڑی ہوئی ہیں کہ انھیں نئی قبر میں جگہ مل جائے۔
لیکن جیسے ہی سلیم نے انتخابی عمل میں حصہ لینے کا سوچا تو سب سے پہلا مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن کی لسٹ میں آپ کا نام ہو۔ سلیم جو خود کو زندہ سمجھ رہا تھا اُسے معلوم ہوا کہ الیکشن کمیشن کی فہرست میں تو وہ کب کا مر چکا ہے۔ اُس نے کہا کہ میں تو زندہ ہوں۔ لیکن شاید الیکشن کمیشن یہ سمجھ رہا تھا کہ یہ تو اندر سے مر گیا ہے اس لیے تو پرانی پارٹی سے الیکشن لڑ رہا ہے۔ سلیم سے کہا گیا کہ نادرا سے رابطہ کریں۔ جب وہ نادرا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ وہاں بھی مر چکا ہے۔
ایک زندہ آدمی اپنی موجودگی کا احساس دلا رہا تھا اور ریٹرننگ آفیسر بار بار یہ کہہ رہا تھا کہ ہماری فہرست کے مطابق آپ مر چکے ہو اس لیے آپ یہاں سے الیکشن نہیں لڑ سکتے۔
سلیم کبھی الیکشن کمیشن جاتا اور کبھی نادرا۔ اب اُسے کہا گیا کہ وہ اپنے زندہ ہونے کا ثبوت جمع کرائے تب ہی وہ الیکشن میں حصہ لے سکتا ہے۔ کیا عقلمند لوگ رہتے ہیں یہاں پر جو زندہ لوگوں سے پوچھتے ہیں کہ آپ اس بات کا ثبوت دیں کہ آپ کی سانسیں چل رہی ہیں۔ جیسے کہ آج کل سیاسی جماعتوں سے پوچھا جا رہا ہے کہ آپ ثابت کریں کہ آپ سے زیادہ محب وطن کوئی نہیں ہے۔ ویسے جس طرح یہاں محب وطن ہونے کہ تعریف ہمیشہ بدلتی رہتی ہے، اس لیے زندہ ہونے کا ثبوت بھی بدلتا رہتا ہے۔ اب سلیم کو ثبوت دینا تھا کہ وہ زندہ ہے۔ اُس نے اپنے خاندان والوں کو بھی پیش کیا کہ وہ بتائیں کہ میں زندہ ہوں۔ مگر قانون کو تو زندہ آدمی نہیں بلکہ ایک مردہ کاغذ چاہیے تھا جس پر لکھا ہو کہ وہ زندگی بانٹتا ہے۔
اسی طرح کا ایک واقعہ اسلام آباد میں پیش آیا تھا جب ایک صاحب جن کے بچے بھی ہیں، انھیں شناختی کارڈ میں تیسری جنس لکھ دیا گیا تھا۔ اب انھیں ڈاکٹر سے ایک سرٹیفکیٹ لینا پڑا جس میں لکھا تھا کہ وہ مرد ہیں۔ اب اسی طرح عورتوں کو اور مردوں کو بھی ثابت کرنا پڑے گا کہ وہ کیا واقعی میں مرد ہیں یا عورت۔ خیر اللہ اللہ کر کے سلیم سے یہ کہا گیا کہ وہ جس یونین کونسل کا چیئرمین بننے کا خواب دیکھ رہا ہے وہاں جا کر منت سماجت کرے۔
اُس کلرک کے پاس جائے جس کو بعد میں اُس کے ماتحت کام کرنا ہے۔ اُس کے پیروں میں گر کر یہ کہے کہ براہِ مہربانی مجھے ایک مردہ کاغذ دے دو جس سے یہ ثابت ہو جائے کہ میں زندہ ہوں۔ آپ خود سوچیں کہ اُس شخص کے دل پر کیا گزر رہی ہو گی جو یہ خواب دیکھ رہا ہو کہ مجھے اس یونین کونسل کا چیئرمین بننا ہے۔ وہ یہ سوچ رہا ہو کہ میں یہاں کی مقامی بیورکریسی کو کیسے ٹھیک کروں گا اور پھر اُسے پہلے جا کر اُسی بیورکریسی کی منت سماجت کرنی ہو کہ پہلے مجھے زندہ ثابت کرو۔
اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے ہر شخص کو افسر بننے کے لیے پہلے اپنے نیچے والوں سے ہی اجازت چاہیے ہوتی ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ بڑے بڑے وزراء کو کسی کا آشیرباد چاہیے ہوتا ہے، تو وہ کسی کرسی پر آ کر بیٹھتے ہیں۔ ہمارے لیے یہ ایک مذاق ہو گا جو کچھ سلیم کے ساتھ ہوا۔ اُسے تو ایک یونین کونسل نے سرٹیفکیٹ دے کر یہ ثابت کر دیا کہ وہ زندہ ہے۔ لیکن اُن لوگوں کا کیا جائے کہ جو اس دلدل میں ہوں کہ وہ تو محب وطن ہی نہیں ہیں۔
ایسے میں انھیں کس جگہ سے سرٹیفکیٹ چاہیے ہو گا کہ پھر یہ ثابت ہو جائے کہ وہ اس ملک کی خدمت دل و جان سے کریں گے۔ اور اگر انھیں ایک کاغذ کا ٹکڑا مل بھی جائے تو اب عوام کے دماغوں سے یہ بات کون مٹائے گا کہ اب کاغذ کا ٹکڑا ملنے کے بعد ان پر شک نہیں کیا جا سکتا ہے۔ یہ لوگ بعد میں اگر عدالتوں سے رہا بھی ہو جائیں تو کون اس بات کا یقین کرے گا کہ پہلے آپ نے سارے الزام کسی اور وجہ سے لگائے تھے۔
وہ لوگ جن پر سیاسی وجوہات سے الزام لگائے جاتے ہیں انھیں عوام میں کون سا کاغذ قابل قبول بنائے گا؟ یہاں زندہ ہونے کا سرٹیفکیٹ تو یونین کونسل دے دے گی، مجھ جیسے ناسمجھ کے دماغ میں یہ بات بیٹھ ہی نہیں رہی کہ آخر یہاں پر حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ کون دیتا ہے۔ اور اُس میں کتنی کرپشن ہوتی ہے۔
یہ حب الوطنی کی تعریف ہر دور میں کیوں بدلتی رہتی ہے اور ابھی چلنے والی چال آگے چل کر کتنی دیرپا ہو گی۔ ایسا تو نہیں ابھی کسی کلرک سے پاک دامنی کا کاغذ لے لیں اور بعد میں آنے والا افسر اسے ماننے سے انکار کر دے اور اگر دو افسر دو الگ الگ کاغذ جاری کریں تو پھر ہم جیسے سادہ عوام کس کی بات کا اعتبار کریں۔
اب آپ دیکھیں ہمیں تو صبح شام یہ بتایا جاتا ہے کہ جتنے کرپٹ لوگ ہیں وہ سارے پیپلز پارٹی میں ہیں۔ لیکن اُسی جماعت کو لوگ ووٹ ڈالیں تو ہم کس پر اعتبار کریں۔ ہمارے سابق صدر کے بقول کیا یہ لوگ سارے جاہل ہیں جو انھیں ووٹ دیتے ہیں یا پھر وہ سارے دانشور سمجھ دار ہیں جو اسے کرپٹ جماعت کہتے ہیں۔ اور ٹی وی کی اسکرین پر ہمیں ہمیشہ یہ فرماتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ اگلے مہینے پیپلز پارٹی کا وجود ختم ہو جائے گا۔ اب کس کے کاغذ پر ہم اعتبار کریں۔
اُس پر جو ووٹ کے کاغذ پر اپنا نشان لگاتے ہیں یا پھر اُن پر جو روز لکھ لکھ کر کاغذ کالے کر رہے ہیں۔ اب آپ ہی بتائیں کہ روزانہ یہ جو روز کی بنیاد پر قتل کے اعتراف کر رہے ہیں وہ سچے ہیں یا پھر ہمارے سینیٹ کے چئیرمین جو متحدہ کا استعفیٰ منظور نہیں کرتے۔ یہاں بھی دو افسر ہیں، کس کے کاغذ سے یہ پتہ چلے گا کہ متحدہ آخری سانسیں لے رہی ہے یا پھر زندگی کو بھرپور انجوائے کر رہی ہے۔
مسلم لیگ (ن) کو کس سے کاغذ لینا پڑے گا کہ وہ عوام کی پسندیدہ جماعت ہے۔ کیونکہ یہاں تو ٹی وی دیکھ کر یہ لگتا ہے کہ پرانی زمین کب سے ختم ہو چکی اور نیاپاکستان دنیا میں جگمگا رہا ہے۔ سب لوگ سلیم کی طرح مجھے گھما رہے ہیں۔ جیسے سلیم اپنے زندہ ہونے کا ثبوت لینے کے لیے کبھی نادرا، کبھی الیکشن کمیشن اور کبھی یونین کونسل کے چکر لگا رہا تھا، اسی طرح سیاسی جماعتوں کومحب وطن، صاف، شفاف ثابت کرنے کا کاغذ کس سے لینا ہو گا؟ میڈیا سے، عوام سے یا پھر نادیدہ قوتوں سے؟ مجھے اپنا ہم خیال سمجھ کر کان میں بتا دیں کہ اگلی بارکے لیے آپ نے سرٹیفکیٹ کس کو جاری کیا ہے تا کہ ہم تو کنارے لگ جائیں۔
شکر ادا کیجیے کہ جنھیں اپنی زندگی میں ہی یہ سماج باقاعدہ سرٹیفکیٹ جاری کر دے کہ آپ تو مر چکے ہیں۔ یہاں اگر کوئی جسمانی طور پر مر جائے تو اُس کا سرٹیفکیٹ لینا مشکل ہو جاتا ہے، زندہ جسموں اور مری ہوئی روحوں کا سرٹیفکیٹ جاری ہو جانا یقینی طور پر کمال ہے۔
ایسا ہی کچھ محمد سلیم کے ساتھ ہوا ہے، جسے اب پتہ چلا ہے کہ وہ تو کئی سال پہلے مر چکا ہے، مگر یہ کیسی موت تھی کہ نہ تو جنازہ اٹھا، نہ زندہ لاشوں نے یہ کہا کہ مرنے والا سلیم بہت اچھا آدمی تھا، نہ ہی کوئی جائیداد کے لیے جھگڑا ہوا، نہ ہی اس بات پر بحث ہوئی کہ کون سی مسجد میں نماز جنازہ ہو گا، نہ ہی کوئی اس بات پر الجھا کہ سلیم میاں کی آخری خواہش کیا تھی، اور نہ ہی کسی چاہنے والے نے یہ طے کیا کہ تین دن تک کھانے کون کون سے بننے ہیں۔ تو پھر سلیم کیسے مر گیا؟
سلیم چلتا پھرتا، گھومتا دوڑتا، اچھے خاصے آدمی کو کیسے معلوم ہوا کہ وہ مر چکا ہے۔ سلیم سرگودھا کا رہائشی ہے۔ جہاں بلدیاتی الیکشن ہونے والے ہیں۔ یہ سوچ کر کہ وہ اس نظام کو تبدیل کرے گا۔ الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ قسمت اچھی کہیے یا پھر کچھ جان پہچان کہ اسے اپنی یونین کونسل 34 سے مسلم لیگ (ن) کا ٹکٹ مل گیا۔ شاید اسے بھی نئے پاکستان میں نہیں رہنا اسی لیے اس نے شیر کا انتخاب کیا۔ جب کہ یہاں تو ساری پرانی لاشیں لائن میں کھڑی ہوئی ہیں کہ انھیں نئی قبر میں جگہ مل جائے۔
لیکن جیسے ہی سلیم نے انتخابی عمل میں حصہ لینے کا سوچا تو سب سے پہلا مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن کی لسٹ میں آپ کا نام ہو۔ سلیم جو خود کو زندہ سمجھ رہا تھا اُسے معلوم ہوا کہ الیکشن کمیشن کی فہرست میں تو وہ کب کا مر چکا ہے۔ اُس نے کہا کہ میں تو زندہ ہوں۔ لیکن شاید الیکشن کمیشن یہ سمجھ رہا تھا کہ یہ تو اندر سے مر گیا ہے اس لیے تو پرانی پارٹی سے الیکشن لڑ رہا ہے۔ سلیم سے کہا گیا کہ نادرا سے رابطہ کریں۔ جب وہ نادرا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ وہاں بھی مر چکا ہے۔
ایک زندہ آدمی اپنی موجودگی کا احساس دلا رہا تھا اور ریٹرننگ آفیسر بار بار یہ کہہ رہا تھا کہ ہماری فہرست کے مطابق آپ مر چکے ہو اس لیے آپ یہاں سے الیکشن نہیں لڑ سکتے۔
سلیم کبھی الیکشن کمیشن جاتا اور کبھی نادرا۔ اب اُسے کہا گیا کہ وہ اپنے زندہ ہونے کا ثبوت جمع کرائے تب ہی وہ الیکشن میں حصہ لے سکتا ہے۔ کیا عقلمند لوگ رہتے ہیں یہاں پر جو زندہ لوگوں سے پوچھتے ہیں کہ آپ اس بات کا ثبوت دیں کہ آپ کی سانسیں چل رہی ہیں۔ جیسے کہ آج کل سیاسی جماعتوں سے پوچھا جا رہا ہے کہ آپ ثابت کریں کہ آپ سے زیادہ محب وطن کوئی نہیں ہے۔ ویسے جس طرح یہاں محب وطن ہونے کہ تعریف ہمیشہ بدلتی رہتی ہے، اس لیے زندہ ہونے کا ثبوت بھی بدلتا رہتا ہے۔ اب سلیم کو ثبوت دینا تھا کہ وہ زندہ ہے۔ اُس نے اپنے خاندان والوں کو بھی پیش کیا کہ وہ بتائیں کہ میں زندہ ہوں۔ مگر قانون کو تو زندہ آدمی نہیں بلکہ ایک مردہ کاغذ چاہیے تھا جس پر لکھا ہو کہ وہ زندگی بانٹتا ہے۔
اسی طرح کا ایک واقعہ اسلام آباد میں پیش آیا تھا جب ایک صاحب جن کے بچے بھی ہیں، انھیں شناختی کارڈ میں تیسری جنس لکھ دیا گیا تھا۔ اب انھیں ڈاکٹر سے ایک سرٹیفکیٹ لینا پڑا جس میں لکھا تھا کہ وہ مرد ہیں۔ اب اسی طرح عورتوں کو اور مردوں کو بھی ثابت کرنا پڑے گا کہ وہ کیا واقعی میں مرد ہیں یا عورت۔ خیر اللہ اللہ کر کے سلیم سے یہ کہا گیا کہ وہ جس یونین کونسل کا چیئرمین بننے کا خواب دیکھ رہا ہے وہاں جا کر منت سماجت کرے۔
اُس کلرک کے پاس جائے جس کو بعد میں اُس کے ماتحت کام کرنا ہے۔ اُس کے پیروں میں گر کر یہ کہے کہ براہِ مہربانی مجھے ایک مردہ کاغذ دے دو جس سے یہ ثابت ہو جائے کہ میں زندہ ہوں۔ آپ خود سوچیں کہ اُس شخص کے دل پر کیا گزر رہی ہو گی جو یہ خواب دیکھ رہا ہو کہ مجھے اس یونین کونسل کا چیئرمین بننا ہے۔ وہ یہ سوچ رہا ہو کہ میں یہاں کی مقامی بیورکریسی کو کیسے ٹھیک کروں گا اور پھر اُسے پہلے جا کر اُسی بیورکریسی کی منت سماجت کرنی ہو کہ پہلے مجھے زندہ ثابت کرو۔
اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے ہر شخص کو افسر بننے کے لیے پہلے اپنے نیچے والوں سے ہی اجازت چاہیے ہوتی ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ بڑے بڑے وزراء کو کسی کا آشیرباد چاہیے ہوتا ہے، تو وہ کسی کرسی پر آ کر بیٹھتے ہیں۔ ہمارے لیے یہ ایک مذاق ہو گا جو کچھ سلیم کے ساتھ ہوا۔ اُسے تو ایک یونین کونسل نے سرٹیفکیٹ دے کر یہ ثابت کر دیا کہ وہ زندہ ہے۔ لیکن اُن لوگوں کا کیا جائے کہ جو اس دلدل میں ہوں کہ وہ تو محب وطن ہی نہیں ہیں۔
ایسے میں انھیں کس جگہ سے سرٹیفکیٹ چاہیے ہو گا کہ پھر یہ ثابت ہو جائے کہ وہ اس ملک کی خدمت دل و جان سے کریں گے۔ اور اگر انھیں ایک کاغذ کا ٹکڑا مل بھی جائے تو اب عوام کے دماغوں سے یہ بات کون مٹائے گا کہ اب کاغذ کا ٹکڑا ملنے کے بعد ان پر شک نہیں کیا جا سکتا ہے۔ یہ لوگ بعد میں اگر عدالتوں سے رہا بھی ہو جائیں تو کون اس بات کا یقین کرے گا کہ پہلے آپ نے سارے الزام کسی اور وجہ سے لگائے تھے۔
وہ لوگ جن پر سیاسی وجوہات سے الزام لگائے جاتے ہیں انھیں عوام میں کون سا کاغذ قابل قبول بنائے گا؟ یہاں زندہ ہونے کا سرٹیفکیٹ تو یونین کونسل دے دے گی، مجھ جیسے ناسمجھ کے دماغ میں یہ بات بیٹھ ہی نہیں رہی کہ آخر یہاں پر حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ کون دیتا ہے۔ اور اُس میں کتنی کرپشن ہوتی ہے۔
یہ حب الوطنی کی تعریف ہر دور میں کیوں بدلتی رہتی ہے اور ابھی چلنے والی چال آگے چل کر کتنی دیرپا ہو گی۔ ایسا تو نہیں ابھی کسی کلرک سے پاک دامنی کا کاغذ لے لیں اور بعد میں آنے والا افسر اسے ماننے سے انکار کر دے اور اگر دو افسر دو الگ الگ کاغذ جاری کریں تو پھر ہم جیسے سادہ عوام کس کی بات کا اعتبار کریں۔
اب آپ دیکھیں ہمیں تو صبح شام یہ بتایا جاتا ہے کہ جتنے کرپٹ لوگ ہیں وہ سارے پیپلز پارٹی میں ہیں۔ لیکن اُسی جماعت کو لوگ ووٹ ڈالیں تو ہم کس پر اعتبار کریں۔ ہمارے سابق صدر کے بقول کیا یہ لوگ سارے جاہل ہیں جو انھیں ووٹ دیتے ہیں یا پھر وہ سارے دانشور سمجھ دار ہیں جو اسے کرپٹ جماعت کہتے ہیں۔ اور ٹی وی کی اسکرین پر ہمیں ہمیشہ یہ فرماتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ اگلے مہینے پیپلز پارٹی کا وجود ختم ہو جائے گا۔ اب کس کے کاغذ پر ہم اعتبار کریں۔
اُس پر جو ووٹ کے کاغذ پر اپنا نشان لگاتے ہیں یا پھر اُن پر جو روز لکھ لکھ کر کاغذ کالے کر رہے ہیں۔ اب آپ ہی بتائیں کہ روزانہ یہ جو روز کی بنیاد پر قتل کے اعتراف کر رہے ہیں وہ سچے ہیں یا پھر ہمارے سینیٹ کے چئیرمین جو متحدہ کا استعفیٰ منظور نہیں کرتے۔ یہاں بھی دو افسر ہیں، کس کے کاغذ سے یہ پتہ چلے گا کہ متحدہ آخری سانسیں لے رہی ہے یا پھر زندگی کو بھرپور انجوائے کر رہی ہے۔
مسلم لیگ (ن) کو کس سے کاغذ لینا پڑے گا کہ وہ عوام کی پسندیدہ جماعت ہے۔ کیونکہ یہاں تو ٹی وی دیکھ کر یہ لگتا ہے کہ پرانی زمین کب سے ختم ہو چکی اور نیاپاکستان دنیا میں جگمگا رہا ہے۔ سب لوگ سلیم کی طرح مجھے گھما رہے ہیں۔ جیسے سلیم اپنے زندہ ہونے کا ثبوت لینے کے لیے کبھی نادرا، کبھی الیکشن کمیشن اور کبھی یونین کونسل کے چکر لگا رہا تھا، اسی طرح سیاسی جماعتوں کومحب وطن، صاف، شفاف ثابت کرنے کا کاغذ کس سے لینا ہو گا؟ میڈیا سے، عوام سے یا پھر نادیدہ قوتوں سے؟ مجھے اپنا ہم خیال سمجھ کر کان میں بتا دیں کہ اگلی بارکے لیے آپ نے سرٹیفکیٹ کس کو جاری کیا ہے تا کہ ہم تو کنارے لگ جائیں۔