انجام سے بے خبر
اب دیکھیں نا سنا تھا کہ ناظم آباد نمبر 1 پر فلائی اوور بن رہا ہے پھر سنا کہ انڈر گراؤنڈ بنے گا۔
RAWALPINDI:
پہلے ہم خواب دیکھتے ہیں اور پھر جب ہم ان خوابوں کو سنبھال نہیں پاتے اور وہ تعمیر و تعبیر کی منزل کی جانب بڑھتے ہوئے سر راہ بکھر جاتے ہیں تو ہم انھیں سمیٹنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ بکھرنے اور سمٹنے کا یہ عمل ہمیں مصروف عمل رکھتا ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی۔ لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم عمل تو کرتے ہیں لیکن بغیر یہ سوچے سمجھے کہ یہ عمل ہمیں جنت کی طرف لے جائے گا یا جہنم کی طرف۔ یہی تو ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ ہم سوچتے ہی نہیں اور انجام سے بے خبر کام شروع کر دیتے ہیں۔
اب دیکھیں نا سنا تھا کہ ناظم آباد نمبر 1 پر فلائی اوور بن رہا ہے پھر سنا کہ انڈر گراؤنڈ بنے گا۔ اب دیکھ رہے ہیں کہ کچھ بھی نہیں بن رہا ہے۔ صرف راستہ بند ہے ایک مصروف شاہراہ کا راستہ بند ہو تو ٹریفک کو کنٹرول کرنا اور وقت مقررہ پر متعلقہ اداروں میں پہنچنا کتنا مشکل کام ہے جب کہ اس چورنگی کے اطراف کئی تعلیمی ادارے بھی موجود ہیں اور فرسٹ ایئر کے داخلوں کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے۔
سلسلہ تو احتساب کا بھی شروع ہو چکا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خود احتسابی کا سلسلہ کب شروع ہو گا۔ لیکن کیا کیا جائے زندگی مصروف بہت ہے اور آئینے کے سامنے کھڑے ہونے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ آئینے کے سامنے کھڑے ہونے کا موقع ملے یا نہ ملے ہاتھ صاف کرنے کا موقع اکثر و بیشتر مل جاتا ہے اور ہاتھ کی صفائی دکھانے میں تو ہم اس قدر ماہر ہو چکے ہیں کہ کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ لیکن اب ہوشیار۔ دیواروں کے کان بھی تیز ہو گئے ہیں۔ بس ہونٹ ہلنے کی دیر ہے کہ جنبش لب کے ساتھ خبر پھیل جاتی ہے۔
خیر پھیلنے کی بات نہ کریں۔ پہلے چادر دیکھ کر پیر پھیلاتے تھے اور اب بغیر دیکھے کبھی سر ننگا اور کبھی پاؤں بقول اماں سر، پیر کی کچھ خبر ہی نہیں۔ پہلے سر کی پگڑی عزت کی علامت تھی اور اب شہر کی تیز دھوپ میں سب ننگے سر پھرتے ہیں نہ ٹوپی، نہ کلاہ، نہ پگڑی وقت ضرورت رومال باندھ لیتے تھے تو اب اس کی جگہ ٹشو پیپر نے لے لی۔ رہ گئے پاؤں تو اب پاؤں کے جوتے اچھالنے کے کام آنے لگے ہیں۔
اچھالنے کا کیا ہے اب تو لوگ ایسے ایسے جملے ایک دوسرے کی طرف پھینکتے ہیں کہ کیچ کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اب تو سیاسی بیانات میں کھیلوں کی اصطلاحات استعمال ہونے لگی ہیں کیا کیا جائے کھیل میں سیاست اور سیاست میں کھیل جو شامل ہو گیا ہے۔ اب گل و بلبل کی اصطلاحات پرانی ہو گئی ہیں اب تو چوکے اور چھکے لگانے کی باتیں ہوتی ہیں کھیل اور سیاست کا آپس میں گہرا رشتہ ہے۔ اور اس کی بنیادی وجہ وہ افواہ ہے جو کہ اکثر سننے میں آتی ہے کہ میچ فکس ہے (فکسFix) ہے۔ خیر افواہیں تو افواہیں ہیں کان دھرنے کی ضرورت نہیں۔ ویسے بھی اگر آپ ثابت بھی کر دیں تو کون سا تیر مار لیں گے پرانی باتیں ہیں لوگ نئی خبریں سننا چاہتے ہیں تو جناب نئی خبر تلاش کریں اور اگر آپ بنا سکتے ہیں تو بنا لیں تردید کا حق آپ کے پاس محفوظ ہے۔
بات حق کی چلی ہے تو دکھ ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں شہری اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔روٹی، کپڑا اور مکان جن کے لیے لوگ ترستے ہیں بنیادی ضرورتیں ہیں جن کے وعدے انتخابات کے وقت کیے جاتے ہیں۔ لیکن جناب! وہ وعدہ ہی کیا جو وفاہوگیا۔ وعدہ تو وعدہ ہی رہ گیا اور وفا تو بے وفاؤں سے وفا کی امید بیوقوفی ہے۔ اور ہماری عوام نہایت ذہین ہونے کے باوجود اکثر و بیشتر بیوقوفی کے اس عمل سے گزرتی ہے۔ اب ہمیں یہ انتخاب نہیں کرنا پڑتا کہ کون برا ہے اور کون اچھا بلکہ یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ کون کم برا ہے اور کون زیادہ۔ ویسے نظر اپنوں ہی پر پڑتی ہے کیونکہ کہتے ہیں کہ اپنا مارے چھاؤں میں ڈالے توصاحب! ہم اپنوں کی مار کھا رہے ہیں، رہ گئے غیر۔۔۔۔ تو وہ تماشا دیکھ رہے ہیں۔ ہم یہ سوچ کر دل کو تسلی دے لیتے ہیں کہ وقت ایک سا نہیں رہتا۔
سچ ہے کہ وقت ایک سا نہیں رہتا۔ وقت اور انسان دونوں ہی بدلتے رہتے ہیں ہم نے تو دنیا اور تجربے سے یہی سیکھا ہے کہ زمانہ اچھے وقتوں کا ساتھی ہوتا ہے اور برے وقت میں۔۔۔۔ جو لوگ پھول نچھاور کرتے ہیں، راہ میں کانٹے بچھانے لگتے ہیں، طوطا چشم۔ طوطے کی طرح آنکھیں پھیر لیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ جب زبان بند ہو تو آنکھیں بولتی ہیں۔ ڈر لگتا ہے کہ کہیں زبان بندی کے ساتھ آنکھیں بھی بند کر لینے کی باتیں نہ ہونے لگیں نہ دیکھو نہ بولو۔
ہم نے خواب میں دیکھا کہ ایک گونگے پر حکم صادر ہوا کہ بہرے کو آواز دو، آنکھ کھلنے پر سوچا کہ اگر یہ حقیقت ہو جائے۔ توبہ توبہ۔۔۔۔۔۔ اب ہم اتنے بھی بے عقل نہیں ہیں، لیکن برا نہ مانیے گا کوئی خاص عقل کے فیصلے بھی نہیں کرتے اور یہ فیصلے ہی تو ہماری زندگی کی شکست و ریخت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
کردار کی تو بات ہی نہ کریں۔ پہلے ہم صاحب کردار ہوا کرتے تھے، مگر اب ہمارا کوئی کردار نہیں رہ گیا۔ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہیں۔ کردار بھی بدلتا رہتا ہے۔ روپ بہروپ کا کھیل کچھ ہمیں پسند آگیا ہے۔ ہم سب بہروپیے بنتے جا رہے ہیں اور اپنا اصل روپ کھوتے جا رہے ہیں۔
خیر کھونے کی تو بات ہی نہ کریں کھونے اور پانے کی کہانی بہت طویل ہے۔ آزادی کی کہانی بھی کوئی مختصر نہیں۔ آزادی کے بعد کیا کھویا اور کیا پایا۔ ذرا حساب لگا کر دیکھیں اور پھر غور کریں کہ اس میں قصور وار کون ہے۔ قصور واروں کی طویل فہرست تیار ہوجائے گی لیکن اس میں ہمارا نام شامل نہ ہو گا۔ کیونکہ اب ہماری زندگی کا یہ اصول بنتا جا رہا ہے کہ ہم ہمیشہ اپنے آپ کو بے قصور ہی سمجھتے ہیں۔ دوسرے کے دامن پر باریک سا چھینٹا بھی نظر آ جاتا ہے اور اپنے دامن کا بڑے سے بڑا دھبہ بھی نظر نہیں آتا۔
کیا واقعی نظر نہیں آتا۔۔۔۔۔ہاں کچھ ایسا ہی ہے سامنے دلدل ہوتا ہے اور ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا۔ لوگ بتاتے ہیں کہ سامنے دلدل ہے لیکن ہم سنتے ہی نہیں ہیں۔ اور پھنستے چلے جاتے ہیں۔ انسان کو ہمیشہ آنکھیں کھول کر چلنا چاہیے۔ اور صرف آنکھیں ہی نہیں بلکہ دل بھی کھلا رکھنا چاہیے۔ اور دل کھول کر ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہیے۔ تنگ دل اور تنگ راستہ دونوں ہی تکلیف دہ ہوتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ تکلیف دہ بننے کے بجائے دوسروں کے لیے بہتر مثال بن جائیں تا کہ اس دنیا سے جانے کے بعد لوگ اچھے لفظوں میں یاد تو کریں۔ تو پھر کیوں نہ ہم دعا کریں۔
اے اللہ! ہمارے کام کا انجام بہتر کر، اور ہم کو دنیاکی رسوائی سے اور آخرت کے عذاب سے بچا (آمین)۔