مولانا نور احمد خان فریدی کی کتب کا خریدار کون
بھلے وقتوں میں مغل بادشاہ اپنی تاریخ لکھوانے کے لیے بہت سے مصاحبوں کو اردگرد رکھتے تھے
بھلے وقتوں میں مغل بادشاہ اپنی تاریخ لکھوانے کے لیے بہت سے مصاحبوں کو اردگرد رکھتے تھے تا کہ ان کی حکومت ختم ہونے کے بعد ان کے سیاہ کارنامے لوگوں کی نظروں سے دور رہیں اور سب اچھا ہے کی خبر ملتی رہے۔ اسی روایت کو اب تک ایشیاء میں بڑے اہتمام سے حکمرانوں نے جاری رکھا ہوا ہے۔ یہ بات مجھے اس لیے یاد آئی کہ ایک مرتبہ سابق گورنر پنجاب مخدوم سجاد حسین قریشی کتاب نگر پر تشریف لائے اور آ کر پوچھنے لگے کہ ملتان پر کوئی نئی کتاب شایع ہوئی ہے۔
انھی دنوں معروف تاریخ دان سید اولاد علی شاہ گیلانی کی مشہور زمانہ کتاب ''مرقع مولتان'' کا دوسرا ایڈیشن تقریباً 45 سال بعد شایع ہوا تھا۔ میں نے وہ کتاب ان کے سامنے رکھی اور انھوں نے وہ کتاب دیکھے بغیر یہ کہہ کر رکھ دی، ملتان پر سب سے اچھی تاریخ مولانا نور احمد خان فریدی نے لکھی ہے اور اس کے بعد میں نہیں سمجھتا کہ جو بھی کوئی ملتان کی تاریخ لکھے گا وہ ان سے متاثر ہوئے بغیر رہ نہیں سکے گا۔ مخدوم سجاد حسین قریشی نے کچھ انگریزی کی کتابیں خریدیں اور چلے گئے۔
ان کے جانے کے بعد میں سوچتا رہا کہ یقینی طور پر مولانا نور احمد خان فریدی نے ملتان کی تواریخ پر جو کتب تحریر کی ہیں اس کے پیچھے مخدوم سجاد کی فرمائش لازمی کارفرما ہو گی۔ اس واقعہ کے کچھ عرصے بعد میری ملاقات منشی عبدالرحمن خان سے ہوئی وہ بھی تاریخ ملتان پر ''ملتان، ذی شان'' کے نام سے کتاب لکھ چکے تھے۔ میں نے ان سے دریافت کیا کہ ملتان پر آپ نے بھی تاریخ لکھی ہے آپ کیا سمجھتے ہیں کہ ملتان پر سب سے مستند تاریخ کس نے لکھی ہے؟ تو وہ ہنس کر کہنے لگے، نور احمد خان فریدی نے جو ملتان پر کتابیں لکھی ہیں وہ مخدوم سجاد حسین قریشی کی فرمائش پر لکھی گئی تھیں۔
اکرام الحق کی کتاب ''ارض ملتان'' کے بارے میں وہ کہنے لگے کہ اس کتاب کے لکھنے میں بھی بے شمار احباب کی فرمائشیں شامل تھیں۔ سید اولاد علی شاہ گیلانی سیکریٹری ڈسٹرکٹ کونسل تھے اور اس کتاب میں گیلانی خاندان کو سب سے بڑا خاندان قرار دیا گیا ہے۔ میں خان صاحب کی باتیں سنتا رہا اور سوچتا رہا کہ تاریخ کا موضوع بھی کتنا مظلوم ہے کہ جو جب چاہتا ہے اس کو مشق سخن بنا لیتا ہے۔ قارئین کرام یہ تمہید ہم نے ملک کے ممتاز دانشور اور محقق مولانا نور احمد خان فریدی مرحوم کو یاد کرنے کے لیے باندھی ہے جو صاحب طرز ادیب، مورخ اور سوانح نگار تھے۔
سلسلہ سہروردیہ پر ان کی تین کتب ''حضرت شیخ بہاؤ الدین زکریا ملتانی، حضرت شیخ صدرالدین عارف اور شیخ شاہ رکن الدین عالم'' شایع ہوئیں۔ تاریخ ملتان پر بھی سرزمین ملتان، تاریخ ملتان، ملتان اور مورخین کے علاوہ بلوچ قوم پر ان کی تحقیق بھی کتابی صورت میں شایع ہو کر منظر عام پر آئی۔ ان کے فن کا ایک اور وصف یہ تھا کہ اسلامی تاریخ کے پس منظر میں انھوں نے اسلامی افسانے تحریر کیے اور قیام پاکستان کے بعد وہ پہلے پاکستانی مورخ تھے جنہوں نے تاریخ ملتان اور مشائخ سہروردیہ پر کام کیا۔ حضرت خواجہ غلام فرید کی 272 سرائیکی کافیوں کا اردو میں ترجمہ اور شرح کے ساتھ 1700 صفحات کے ساتھ شایع کیا۔ اس کے علاوہ مشائخ چشت، یادرفتگان، چاکر اعظم، سندھ کے تالپور حکمران کے موضوعات پر بھی ان کی کتابیں شایع ہوئیں۔
مولانا نور احمد خان فریدی نے پاکستان بننے سے پہلے 1933ء میں ہندؤوں کے مقابلے میں مسلمانوں کی ترجمانی کے لیے ہفت روزہ ''صداقت''، پاکستان بننے کے بعد1957ء میں بلوچی دنیا، 1962ء میں ہفت روزہ ''اختر'' اور 1971ء میں ماہنامہ ''سرائیکی ادب'' کا اجراء کر کے علاقے کی محرومیوں کو انھوں نے نمایاں جگہ دی۔ نور احمد خان فریدی کا اصل کام جہاں تحقیق ہے وہاں انھوں نے اس زمانے میں خواجہ غلام فرید کی کافیوں کا اردو میں ترجمہ کیا جب ان کی کافیوں کو سمجھنے والے بہت کم لوگ تھے۔
مخدوم سجاد حسین قریشی کے ساتھ ان کی خاص محبت تھی اور جب مخدوم صاحب گورنر بنے تو انھوں نے مولانا نور احمد خان فریدی کی تمام کتب کو ملک کی تمام لائبریریز کو خریدنے کا حکم جاری کیا اور پھر اس خاکسار نے یہ دیکھا کہ مولانا صاحب اپنے گھر میں بیٹھے اپنی کتابوں کے خود پیکٹ بناتے اور ہر اسکول کالج کو وی پی پی کرواتے۔ زندگی کے آخری ایام میں ان کی اگرچہ کوئی نئی کتاب تو سامنے نہ آ سکی لیکن وہ اپنے پہلے سے طبع شدہ کتب کو دیکھ کر پریشان ہوتے رہتے تھے کہ ان موضوعات پر پڑھنے والے آہستہ آہستہ کم ہوتے جا رہے ہیں۔
روزنامہ ایکسپریس نے اپنے کالم ''تاریخ کے جھروکوں میں'' ان کی بے شمار کتب کے گاہے گاہے اقتباسات دیے جس سے ان کی تخلیقات پوری دنیا میں پڑھی گئیں۔ اکتوبر1994ء میں مولانا نور احمد خان فریدی کا جب انتقال ہوا تو ان کے انتقال کی خبر چاروں اور پھیل گئی۔ نماز جنازہ میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ ان کے انتقال کے بعد ان کا بیٹا عمر علی خان بلوچ ہر سال اکتوبر میں ایک ریفرنس کا اہتمام کرتے ہیں اور ہر سال اہل علم سے یہ گزارش کرتے ہیں کہ میرے والد صاحب کی کتابوں کو دیمک چاٹ رہی ہے لیکن لگتا ہے کہ اہل علم کا اب کتابوں سے کوئی تعلق نہیں۔ ملتان شہر میں ہر سال 7 اکتوبر کو جب مولانا نور احمد خان فریدی کی یاد میں ریفرنس ہوتا ہے تو اس میں بھی فریدی صاحب کے چاہنے والے کم اور عمر علی خان بلوچ سے تعلق نبھانے والے زیادہ شرکت کرتے ہیں۔
بہت سے لوگوں کو شاید یہ بھی معلوم نہ ہو کہ مولانا صاحب کی تخلیقات کے کون سے شعبے تھے۔ ان کی کتنی کتابیں منظر عام پر آئیں۔1994ء سے لے کر 2014ء تک میری کوشش ہوتی ہے کہ میں ہر سال اس تقریب میں حاضری دوں جہاں مولانا صاحب کی باتیں کی جاتی ہیں۔ ان کی کتابوں کا تذکرہ ہوتا ہے۔
اس سال ان کو ہم سے بچھڑے 21 سال ہو گئے اور یہ کتنے بڑے المیے کی بات ہے کہ گزرے ہوئے 21 سالوں میں ان کی کسی بھی کتاب کا نیا ایڈیشن شایع نہیں ہوا بلکہ ان کا بیٹا ہمیشہ حاضرین محفل سے پوچھتا ہے کہ یہ کتابیں ہم کس طریقے سے فروخت کریں۔ مجھ سمیت تمام حاضرین محفل کے پاس ان کے اس آسان سوال کا کو ئی مشکل جواب نہیں ہوتا کہ ہم ہوٹل میں ایک وقت کے کھانے پر چار دوست کم از کم پانچ ہزار روپے تو خرچ کر سکتے ہیں لیکن مولانا نور احمد خان فریدی کی پانچ سو روپے کی کوئی کتاب نہیں خرید سکتے۔
اس سے بڑھ کر ہمارا اور المیہ کیا ہو گا کہ ہماری زندگیوں سے کتاب ختم ہو رہی ہے اور فاسٹ فوڈ فرض عبادت کی طرح شامل ہو رہا ہے ایسے میں اگر مولانا نور احمد خان فریدی مرحوم کی کتابوں کو دیمک لگ بھی جائے تو ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ ہم فی الحال من حیث القوم اپنے وجود کو دیمک لگوانے کے لیے روزانہ ہزاروں روپے خرچ کر کے فاسٹ فوڈ اور ہوٹلوں کے وہ کھانے کھا رہے ہیں جس کے بارے میں اب یہ یقین ہی نہیں ہے کہ وہ کھانے حلال کے جانوروں کے ہیں یا حرام کے۔ ہم نے تو بس پیٹ پوجا کرنی ہے۔ اسی لیے ہمارے اردگرد دیمک زدہ دیواریں تیزی سے دکھائی دے رہی ہیں اور صاف اور شفاف ذہن اب تلاش کرنے پر بھی نہیں ملتے جیسا ماضی میں لکھنے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہر شہر میں علم و ا دب کے فروغ کے لیے کوشاں رہتی تھی۔
انھی دنوں معروف تاریخ دان سید اولاد علی شاہ گیلانی کی مشہور زمانہ کتاب ''مرقع مولتان'' کا دوسرا ایڈیشن تقریباً 45 سال بعد شایع ہوا تھا۔ میں نے وہ کتاب ان کے سامنے رکھی اور انھوں نے وہ کتاب دیکھے بغیر یہ کہہ کر رکھ دی، ملتان پر سب سے اچھی تاریخ مولانا نور احمد خان فریدی نے لکھی ہے اور اس کے بعد میں نہیں سمجھتا کہ جو بھی کوئی ملتان کی تاریخ لکھے گا وہ ان سے متاثر ہوئے بغیر رہ نہیں سکے گا۔ مخدوم سجاد حسین قریشی نے کچھ انگریزی کی کتابیں خریدیں اور چلے گئے۔
ان کے جانے کے بعد میں سوچتا رہا کہ یقینی طور پر مولانا نور احمد خان فریدی نے ملتان کی تواریخ پر جو کتب تحریر کی ہیں اس کے پیچھے مخدوم سجاد کی فرمائش لازمی کارفرما ہو گی۔ اس واقعہ کے کچھ عرصے بعد میری ملاقات منشی عبدالرحمن خان سے ہوئی وہ بھی تاریخ ملتان پر ''ملتان، ذی شان'' کے نام سے کتاب لکھ چکے تھے۔ میں نے ان سے دریافت کیا کہ ملتان پر آپ نے بھی تاریخ لکھی ہے آپ کیا سمجھتے ہیں کہ ملتان پر سب سے مستند تاریخ کس نے لکھی ہے؟ تو وہ ہنس کر کہنے لگے، نور احمد خان فریدی نے جو ملتان پر کتابیں لکھی ہیں وہ مخدوم سجاد حسین قریشی کی فرمائش پر لکھی گئی تھیں۔
اکرام الحق کی کتاب ''ارض ملتان'' کے بارے میں وہ کہنے لگے کہ اس کتاب کے لکھنے میں بھی بے شمار احباب کی فرمائشیں شامل تھیں۔ سید اولاد علی شاہ گیلانی سیکریٹری ڈسٹرکٹ کونسل تھے اور اس کتاب میں گیلانی خاندان کو سب سے بڑا خاندان قرار دیا گیا ہے۔ میں خان صاحب کی باتیں سنتا رہا اور سوچتا رہا کہ تاریخ کا موضوع بھی کتنا مظلوم ہے کہ جو جب چاہتا ہے اس کو مشق سخن بنا لیتا ہے۔ قارئین کرام یہ تمہید ہم نے ملک کے ممتاز دانشور اور محقق مولانا نور احمد خان فریدی مرحوم کو یاد کرنے کے لیے باندھی ہے جو صاحب طرز ادیب، مورخ اور سوانح نگار تھے۔
سلسلہ سہروردیہ پر ان کی تین کتب ''حضرت شیخ بہاؤ الدین زکریا ملتانی، حضرت شیخ صدرالدین عارف اور شیخ شاہ رکن الدین عالم'' شایع ہوئیں۔ تاریخ ملتان پر بھی سرزمین ملتان، تاریخ ملتان، ملتان اور مورخین کے علاوہ بلوچ قوم پر ان کی تحقیق بھی کتابی صورت میں شایع ہو کر منظر عام پر آئی۔ ان کے فن کا ایک اور وصف یہ تھا کہ اسلامی تاریخ کے پس منظر میں انھوں نے اسلامی افسانے تحریر کیے اور قیام پاکستان کے بعد وہ پہلے پاکستانی مورخ تھے جنہوں نے تاریخ ملتان اور مشائخ سہروردیہ پر کام کیا۔ حضرت خواجہ غلام فرید کی 272 سرائیکی کافیوں کا اردو میں ترجمہ اور شرح کے ساتھ 1700 صفحات کے ساتھ شایع کیا۔ اس کے علاوہ مشائخ چشت، یادرفتگان، چاکر اعظم، سندھ کے تالپور حکمران کے موضوعات پر بھی ان کی کتابیں شایع ہوئیں۔
مولانا نور احمد خان فریدی نے پاکستان بننے سے پہلے 1933ء میں ہندؤوں کے مقابلے میں مسلمانوں کی ترجمانی کے لیے ہفت روزہ ''صداقت''، پاکستان بننے کے بعد1957ء میں بلوچی دنیا، 1962ء میں ہفت روزہ ''اختر'' اور 1971ء میں ماہنامہ ''سرائیکی ادب'' کا اجراء کر کے علاقے کی محرومیوں کو انھوں نے نمایاں جگہ دی۔ نور احمد خان فریدی کا اصل کام جہاں تحقیق ہے وہاں انھوں نے اس زمانے میں خواجہ غلام فرید کی کافیوں کا اردو میں ترجمہ کیا جب ان کی کافیوں کو سمجھنے والے بہت کم لوگ تھے۔
مخدوم سجاد حسین قریشی کے ساتھ ان کی خاص محبت تھی اور جب مخدوم صاحب گورنر بنے تو انھوں نے مولانا نور احمد خان فریدی کی تمام کتب کو ملک کی تمام لائبریریز کو خریدنے کا حکم جاری کیا اور پھر اس خاکسار نے یہ دیکھا کہ مولانا صاحب اپنے گھر میں بیٹھے اپنی کتابوں کے خود پیکٹ بناتے اور ہر اسکول کالج کو وی پی پی کرواتے۔ زندگی کے آخری ایام میں ان کی اگرچہ کوئی نئی کتاب تو سامنے نہ آ سکی لیکن وہ اپنے پہلے سے طبع شدہ کتب کو دیکھ کر پریشان ہوتے رہتے تھے کہ ان موضوعات پر پڑھنے والے آہستہ آہستہ کم ہوتے جا رہے ہیں۔
روزنامہ ایکسپریس نے اپنے کالم ''تاریخ کے جھروکوں میں'' ان کی بے شمار کتب کے گاہے گاہے اقتباسات دیے جس سے ان کی تخلیقات پوری دنیا میں پڑھی گئیں۔ اکتوبر1994ء میں مولانا نور احمد خان فریدی کا جب انتقال ہوا تو ان کے انتقال کی خبر چاروں اور پھیل گئی۔ نماز جنازہ میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ ان کے انتقال کے بعد ان کا بیٹا عمر علی خان بلوچ ہر سال اکتوبر میں ایک ریفرنس کا اہتمام کرتے ہیں اور ہر سال اہل علم سے یہ گزارش کرتے ہیں کہ میرے والد صاحب کی کتابوں کو دیمک چاٹ رہی ہے لیکن لگتا ہے کہ اہل علم کا اب کتابوں سے کوئی تعلق نہیں۔ ملتان شہر میں ہر سال 7 اکتوبر کو جب مولانا نور احمد خان فریدی کی یاد میں ریفرنس ہوتا ہے تو اس میں بھی فریدی صاحب کے چاہنے والے کم اور عمر علی خان بلوچ سے تعلق نبھانے والے زیادہ شرکت کرتے ہیں۔
بہت سے لوگوں کو شاید یہ بھی معلوم نہ ہو کہ مولانا صاحب کی تخلیقات کے کون سے شعبے تھے۔ ان کی کتنی کتابیں منظر عام پر آئیں۔1994ء سے لے کر 2014ء تک میری کوشش ہوتی ہے کہ میں ہر سال اس تقریب میں حاضری دوں جہاں مولانا صاحب کی باتیں کی جاتی ہیں۔ ان کی کتابوں کا تذکرہ ہوتا ہے۔
اس سال ان کو ہم سے بچھڑے 21 سال ہو گئے اور یہ کتنے بڑے المیے کی بات ہے کہ گزرے ہوئے 21 سالوں میں ان کی کسی بھی کتاب کا نیا ایڈیشن شایع نہیں ہوا بلکہ ان کا بیٹا ہمیشہ حاضرین محفل سے پوچھتا ہے کہ یہ کتابیں ہم کس طریقے سے فروخت کریں۔ مجھ سمیت تمام حاضرین محفل کے پاس ان کے اس آسان سوال کا کو ئی مشکل جواب نہیں ہوتا کہ ہم ہوٹل میں ایک وقت کے کھانے پر چار دوست کم از کم پانچ ہزار روپے تو خرچ کر سکتے ہیں لیکن مولانا نور احمد خان فریدی کی پانچ سو روپے کی کوئی کتاب نہیں خرید سکتے۔
اس سے بڑھ کر ہمارا اور المیہ کیا ہو گا کہ ہماری زندگیوں سے کتاب ختم ہو رہی ہے اور فاسٹ فوڈ فرض عبادت کی طرح شامل ہو رہا ہے ایسے میں اگر مولانا نور احمد خان فریدی مرحوم کی کتابوں کو دیمک لگ بھی جائے تو ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ ہم فی الحال من حیث القوم اپنے وجود کو دیمک لگوانے کے لیے روزانہ ہزاروں روپے خرچ کر کے فاسٹ فوڈ اور ہوٹلوں کے وہ کھانے کھا رہے ہیں جس کے بارے میں اب یہ یقین ہی نہیں ہے کہ وہ کھانے حلال کے جانوروں کے ہیں یا حرام کے۔ ہم نے تو بس پیٹ پوجا کرنی ہے۔ اسی لیے ہمارے اردگرد دیمک زدہ دیواریں تیزی سے دکھائی دے رہی ہیں اور صاف اور شفاف ذہن اب تلاش کرنے پر بھی نہیں ملتے جیسا ماضی میں لکھنے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہر شہر میں علم و ا دب کے فروغ کے لیے کوشاں رہتی تھی۔