اب کیا کیا جائے
اس تناظر میں ان ممالک کی سیاسی و سماجی صورتحال انتہائی ناگفتہ بہ ہے
اس وقت دنیا کوکئی چیلنجوں کا سامنا ہے۔ اگر فہرست مرتب کی جائے تو ماحولیاتی آلودگی، موسمیاتی تغیرات، جوہری ہتھیاروں کی دوڑ، آبادی کا بڑھتا ہوا دباؤ، غذائی بحران کے ممکنہ خدشات، دنیا میں ابھرتی نئی فکری اور نظریاتی تقسیم اور ریاستی اور غیر ریاستی دہشت گردی کی نئی جہتیں سر فہرست قرار پائیں گی۔ اس کے بعد انسانی حقوق کی پامالی، انصاف کی عدم فراہمی اور عقیدے کی بڑھتی ہوئی تقسیم انسانیت کے لیے چند بڑے چیلنجز ہیں۔ مگر ایسا محسوس ہو رہا ہے، جیسے دنیا یا تو ان مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت سے محروم ہے یا پھر دانستہ انھیں حل کرنا نہیں چاہتی۔
تبدیلی کی تیز رفتار لہر نے اس وقت دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، جب گزشتہ صدی کی آخری دو دہائیوں کے دوران انفارمیشن اور سیٹلائٹ ٹیکنالوجی تک عام آدمی کی رسائی ممکن ہوگئی۔ یہ صنعتی انقلاب سے بڑا انقلاب ہے جس نے دنیا کی فکری، سماجی اور ثقافتی ہئیت ہی تبدیل کرکے رکھ دی ہے۔ اطلاعتی ٹیکنالوجی تک عام آدمی کی رسائی نے جہاں اس کی فہم و دانش میں بے پناہ اضافہ کیا ہے وہیں دو خرابیاں بھی پیدا ہوئی ہیں۔ اول، انفرادی سطح پر فکری بالیدگی میں ہونے والا اضافہ Institutionalise نہیں ہوسکا یا دانستہ ریاستی(یا عالمی) منصوبہ سازوں نے ہونے نہیں دیا۔ دوئم، دنیا کی اطلاعتی گلوبلائزیشن نے ترقی پذیر معاشروں سے تعلق رکھنے والے بیشتر افرادکوشناخت کے بحران سے دوچارکردیا جو وقت گذرنے کے ساتھ متشدد شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔
ایک اور خرابی بسیار جس نے سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سر اٹھایا ، وہ امریکی تھنک ٹینکس کی جانب سے ابھارا جانے والا تہذیبوں کے ٹکراؤ کا تصور ہے، جس نے دنیا میں بدترین نظریاتی تصادم کی شکل اختیار کرلی ہے۔ آج اسی مظہر نے مشرق وسطیٰ کو اپنی لپیٹ میں لے رکھاہے۔ سرد جنگ کے خاتمے کے ساتھ ہی سرمائے کی عالمی گلوبلائزیشن کا راستہ کھل گیا۔ وہ سیاسی، معاشی اور اخلاقی بندشیں ختم ہوگئیں، جو کمیونزم کی بدولت سرمایہ کے بے دریغ بہاؤ پر لگی ہوئی تھیں۔ نتیجتاً سرمایہ شتر بے مہار کی مانند دنیا بھر میں دندناتا پھر رہا ہے۔ مگر اس کا فائدہ غریب اور ترقی پذیر ممالک کے عوام کو نہیں پہنچ رہا۔ بلکہ دنیا میں امیر اور غریب کا فرق جتنا آج بڑھ چکا ہے، انسان کی معلوم تاریخ میں شاید اتنا نہیں تھا۔ اس صورتحال کا ایک اور مضحکہ خیز پہلو یہ ہے کہ سرمایہ داری کے حامی دانشور سرمائے کے بلاروک ٹوک بہاؤ کو عالمگیریت کے بڑھتے ہوئے رجحان سے تعبیر کرتے ہیں حالانکہ ان دو دہائیوں کے دوران ترقی یافتہ ممالک نے جس انداز میں انسانی سرمایہ(Human Capital)کی نقل و حرکت پر قدغن عائد کیے ہیں، وہ گلوبلائزیشن کے اصل تصور کے منافی ہے۔
سوویت یونین کے انہدام اور کمیونزم کے بطور سیاسی قوت کمزور پڑنے کے بعد سے عالمی سطح پر ہر ملک میں سیاست اور سیاسی جماعتیں بھی ہر قسم کی نظریاتی بندش سے آزاد ہوچکی ہیں۔ خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں سیاسی جماعتیں سیاسی عزم و بصیرت اور مستقبل بینی کی بنیاد پر منصوبہ سازی کی اہلیت کھو چکی ہیں۔ بیشتر ترقی پذیر ممالک بالخصوص مسلم دنیا میں جہاں بائیں بازو کی سیاست ہمیشہ ہی سے کمزور بنیاد رکھتی تھی، اپنا وجود تقریباً کھو چکی ہے۔ اس کی جگہ عسکریت پسندی (Militancy) پر مبنی مذہبیت(Religiosity) نے لینا شروع کردی ہے۔جس کے نتیجے میں ایک طرف مسلم دنیا میں عقیدے کی بنیاد پر ایک نئی سرد جنگ پیدا ہوگئی ہے جب کہ دوسری طرف ان معاشروں میں متشدد فرقہ واریت نے بدترین انداز میں سر اٹھا کر انھیں تقسیم کردیا ہے۔
ایک اور پہلو جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے، وہ عالمی سطح پر کسی منظم سیاسی تحریک کی عدم موجودگی ہے۔ صنعتی انقلاب کے بعد فلاسفہ اور سماجی ماہرین نے عام آدمی بالخصوص محنت کشوں کے حقوق کو تحفظ دینے کے لیے عالمی سطح پر مضبوط سیاسی تحریکیں شروع کی تھیں جن کی وجہ سے سرمایہ دار ممالک بھی اپنے عوام کو بہت سی سہولیات فراہم کرنے پر مجبور ہوئے تھے۔ مگر سرد جنگ کے خاتمے اور بعد از جدیدیت(Post Modern)انقلاب کے نتیجے میں ایسی کوئی عالمی تحریک پیدا نہیں ہو سکی، جو آج کی دنیا میں جنم لیتے مسائل اور عام آدمی کو درپیش مشکلات کے حل کا کوئی جامع کلیہ پیش کرسکے۔ حالانکہ 19ویں صدی کے مقابلے میں آج انسانوں کے انسانوں سے روابط خاصے آسان ہوگئے ہیں۔ مارکسی فلسفے اور نظریے کی جدید تقاضوں کے مطابق تفہیم و تشریح پر بھی توجہ نہیں دی جارہی۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے عالمی سطح پر سوشلسٹ تحریک بے جان ہوچکی ہے اور اہل دانش کو اب اس میں کوئی دلچسپی باقی نہیں رہی ہے۔
اس تناظر میں ان ممالک کی سیاسی و سماجی صورتحال انتہائی ناگفتہ بہ ہے، جو اپنے قیام کے وقت ہی سے فکری تضادات کا شکار چلے آرہے ہیں۔ میری مراد پاکستان سے ہے۔پاکستان جہاں ریاستی منصوبہ ساز پہلے روز ہی سے یہ فیصلہ نہیں کر پائے تھے کہ اس ملک کو بطور ایک وفاقی جمہوریہ چلانا ہے یا ایک وحدانی ریاست کے طور پر۔ اگر جمہوریہ بنانا ہے تو یہ پارلیمانی نوعیت کی ہوگی یا صدارتی۔ کیونکہ آج 68برس گذر جانے کے بعد بھی ایسی آواز اٹھتی رہتی ہیں، جن سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ملک کے اندر نظم حکمرانی کے حوالے سے ان گنت ابہام موجود ہیں۔ کچھ حلقے آج بھی صدارتی نظام کے حق میں دلائل دیتے جب کہ اکثر صوبائی خود مختاری کے خلاف زہر اگلتے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح پاکستان جو اپنے جغرافیائی محل وقوع کے لحاظ سے تو جنوبی ایشیا کا حصہ ہے مگر پاکستانی مقتدر اشرافیہ کبھی اسے وسط ایشیا اور کبھی مشرق وسطیٰ کا حصہ ثابت کرنے پر اپنی توانائیاں صرف کرتی رہتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ جنوبی ایشیا کے ساتھ فطری تعلق کے باوجود ہم اس خطے کے ساتھ سیاسی، سماجی، اقتصادی اور ثقافتی تعلق کو گہرا کرنے میں ناکام ہیں۔
اب جہاں تک ان گلوبل مسائل کا تعلق ہے، جن کا ذکر ابتدائیہ میں کیا گیا ہے، تو پاکستانیوں کی ایک بہت بڑی تعداد (بلکہ کثیر آبادی)ان مسائل کی نوعیت اور ان کی شدت کے بارے میں قطعی کوئی علم نہیں رکھتی۔ موسمیاتی تغیرات کے ہمارے ملک و معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہونے کے خدشات ہیں؟ آبادی میں تیز رفتار اضافہ کن نئی اجتماعی اور انفرادی پریشانیوں کا باعث بننے جا رہاہے؟ غذائی قلت اور پانی کا ممکنہ بحران معاشرے پر کیا اثرات مرتب کرے گا؟ ملک میں بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی اور متشدد فرقہ واریت ملک کو کس نہج پر پہنچا سکتے ہیں؟ان تمام معاملات سے عام آدمی اس لیے بے خبر ہے کیونکہ نہ تو ریاستی منصوبہ ساز ان معاملات پر توجہ دیتے ہوئے عوام کی رہنمائی کے لیے کو ئی واضح پالیسی ترتیب دے رہے ہیں اور نہ ہی ذرائع ابلاغ ان معاملات و مسائل کی آگہی کواپنی ترجیح بنانے پر آمادہ ہیں۔اس لیے مستقبل کا منظر نامہ عام پاکستانی کے لیے خاصی حد تک غیر واضح اور مبہم ہے۔
عرض ہے کہ پاکستان میں پارلیمانی اور صدارتی نظام کی بحث لایعنی اور بے مقصد ہے۔ ملک میں آئین موجود ہے، جو پارلیمانی جمہوری نظام کاداعی ہے۔ اس لیے اب پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت کے علاوہ کوئی اور نظم حکمرانی نہیں چل سکتا۔ لہٰذا اسی نظام کے تحت گورننس کو بہترکرنے پر توجہ دی جانی چاہیے۔ اس کے علاوہ ملک تاریخی اور آئینی طورپر ایک وفاق ہے، جس میں وفاقی اکائیوں کو مزید اختیارات تفویض کیے جانے پر توجہ دی جانی چاہیے۔ اس لیے جو حلقے 18 ویں آئینی ترمیم اور صوبائی خودمختاری کے خلاف قلم اٹھا رہے ہیں یا رطب اللسان ہیں، وہ اس ملک کو مزید انتشار کا شکار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔اسی طرح جو عناصر ملک کے منطقی جواز کی تشریح وتفہیم عقیدے کی بنیاد پر کررہے ہیں، وہ دراصل ملک کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر مزید تقسیم در تقسیم کرنے کے درپے ہیں۔
لہٰذا یہ بات سامنے آتی ہے کہ اب اہل دانش اورسیاسی کارکنوں کو نان ایشوز کی بحث میں الجھنے کے بجائے ان معاملات و مسائل پر توجہ مرکوز کرنا چاہیے، جو عالمی سطح پر پوری انسانیت کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج بن چکے ہیں اور خاص طور پر ہمارے وجود کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ ہیں۔
ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ آبادی میں اضافے کی شرح کو کس طرح کنٹرول کیا جائے؟ پانی کو ذخیرہ کرنے کے کیا نئے طریقے دریافت کیے جائیں؟ زرعی پیداوار کو اگر زیادہ نہیں کرسکتے تو اسے کم ہونے سے کس طرح بچایاجائے؟ ملکی معیشت کو مستحکم بنیاد فراہم کرنے کے لیے کیا اقدامات ضروری ہیں؟ اور ملک میں ہر قسم کی دہشت گردی اور شدت پسندی کے سدباب کے لیے کیا حکمت عملی مرتب کی جائے؟ اس لیے اب توجہ ان مسائل پر مرکوز کی جائے جو ہمارے مستقبل کو غیر محفوظ بنانے کا سبب بنے ہوئے ہیں۔یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم فروعیات سے جان چھڑاکر ذہنی طور پر ٹھوس حکمت عملی بنانے پرآمادہ ہوجائیں گے۔