کیا یہ حسنِ زن ہے

بات ہو رہی تھی اسکولز کی۔ پاکستانی اسکولز بھی فارن کے کی مہر کے ساتھ تو ٹھیک ہے


Shehla Aijaz October 08, 2015
[email protected]

پاکستانی خواتین عظیم ترین ہیں۔ ان کے مہنگے مہنگے موتیوں ستاروں سے چمکتے ملبوسات، مہنگے مہنگے زیورات، ان کی ڈنر پارٹیز، فارن ٹورز، بڑی بڑی شخصیات کے ساتھ دانت نکالتے تصاویر بنوانا، سیلفیز اور پھر اعلیٰ کوالٹی کے انگریزی شماروں میں ان کی بڑی اور مکھی جیسی چھوٹی چھوٹی تصاویر دکھا دکھا کر اپنی فرینڈز پر شیخیاں بگھارنا، بچے ان کے اعلیٰ اسکولز میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں، کیونکہ اب ان میں سے ہی بہت سے امراء سمجھ چکے ہیں کہ جتنی زیادہ لاکھوں کی فیسیں اتنا ہی بلند معیار اور معیار میں بھی کیا رکھا ہے، فارن کی استانیاں اور استاد اب میں اور آپ ان کی ڈگریاں کیا جانیں۔

بات ہو رہی تھی اسکولز کی۔ پاکستانی اسکولز بھی فارن کے کی مہر کے ساتھ تو ٹھیک ہے۔ ورنہ باہر کے تعلیمی ادارے زندہ باد۔ اور یہ بڑے بڑے اعلیٰ اعلیٰ اسکولز بھی بڑے بڑے اعلیٰ لوگوں کے ہی ہوتے ہیں۔ بات پھر ادھر ادھر ہو گئی۔۔۔۔ خواتین۔۔۔۔ اب تک ان کے بچوں تک آ سکے ہیں ایک دوسرے پر اپنے بچوں کے اعلیٰ تعلیمی معیار کی گپیں ہانکنا اور ان کے شوہر حضرات ظاہر ہے کہ جیسے اعلیٰ مقام کی بیگمات تو ویسے ہی شوہر حضرات جو اپنی اپنی باربی ڈول کی تعریف دوسرے مردوں سے سن کر زیادہ خوش ہوتے ہیں۔ رابطے بھی بڑھانے میں بیگمات ایک بہت بڑا کردار ادا کرتی ہیں، کنٹریکٹ دلوانا ہو یا کنہ کٹوانا ہو۔۔۔۔ کام آ جاتی ہیں۔

یہ وہ خواتین ہوتی ہیں جو پاکستان کے اعلیٰ طبقے کی نمائندگی کرتی ہیں انھیں ملک سے باہر دیکھ کر احساس تک نہیں ہوتا کہ ان کا تعلق ایک ایسے ملک سے ہے جس کی آبادی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے جس کے وسائل کم اور اخراجات زیادہ ہیں۔ غربت کی شرح دیکھ کر پسینے چھوٹ جاتے ہیں (صرف کمزور دل حضرات کے) جہاں خواتین اپنے بچوں سمیت نہر میں کود کر جان دے دیتی ہیں، کیونکہ ان کے پاس بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی نہیں ہوتی یا ان کے شوہر ان پر بدچلنی کا الزام لگا کر انھیں دنیا بھر کی رسوائیوں میں چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں۔ یہ دمکتے چہرے خوشبوؤں میں سر سراتے وجود والی خواتین اسی دیس کی ہیں ۔۔۔۔ اور ان کے دل۔۔۔۔

درجے تو بہت ہیں کہ اب طبقات بھی ان میں بٹ چکے ہیں۔ ایک گنجان آبادی والے علاقے کی معمولی سی عورت جس کے گھر کمانے والا ایک ہے بچوں کی لائن تین سے چار اور کبھی اس سے کراس بھی کر جاتی ہے۔ بچے آس پڑوس کے پرائیویٹ اسکولز میں پڑھتے ہیں کہ اب سرکاری اسکولز میں تعلیم حاصل کرنے کا فیشن بھی کہاں رہا ہے۔

گھر میں فریج سے لے کر مصالحہ پیسنے تک کی مشین بجلی سے چلتی ہے، دن بھر مختلف ایف ایم چینلز شور مچاتے رہتے ہیں کہ کان اب اس شور کے عادی ہو چکے ہیں، ایسے میں بچوں کے رونے کی آوازیں بھی کم سنائی دیتی ہیں۔ میاں کی تنخواہ اتنی زیادہ ہو نہ ہو، گھر میں کام کرنے والی تو آتی ہی ہے چاہے گھر ہو یا فلیٹ یہ تو ضروری ہے ورنہ محلے بھر میں کیسی سبکی ہو گی کہ ایک نوکرانی نہیں رکھ سکتی۔ ایسی شرمندگی سے تو موت بھلی۔ نوکرانی جھاڑو پوچا کرتی ہے، برتن بھی دھو دیتی ہے، کپڑوں کے لیے میاں اگر بیوی کے دیدوں سے دب جائے تو ٹھیک ورنہ واشنگ مشین بھی ہفتے بھر میں لگائی جا سکتی ہے۔

آج کل تو سب کچھ آسان ہے۔ اب کیبل والے کو جو تین چار سو روپے مہینے کے دیے جاتے ہیں اس کی وصولیابی بھی ضروری ہے پھر نت نئے فیشن کا پتہ بھی ساز رنگ شوز اور ڈراموں سے چلتا ہے دن بھر ان کی نشریات بھی دیکھنا اہم ہے کہ بے چارے چیخ چیخ کر راگ الاپتے رہتے ہیں کہ ہمیں دیکھو۔ یہ ہیں ہمارے لوئر مڈل کلاس کی خواتین۔

اس سے ذرا نیچے چلتے ہیں۔ کام کرنے والیاں۔ گھروں میں جا کر برتن دھونا، روٹی پکانا، جھاڑو پوچا کرنا اور شام کو نت نئے کھانے جمع کر کر کے لانا۔ نئے نئے کپڑے بخشش کے الگ۔ زیادہ وصول کرنا ہو تو دکھ بھری داستان سے بھی کام چلایا جا سکتا ہے۔ گھر والا یا گھر کے دوسرے افراد ویسے بھی کیبل کے چٹخارے پروگراموں سے مستفید ہوتے رہتے ہیں۔ رہائش کے لیے بھی جگہ بہت۔ فرق یہ کہ دینے اور لینے والوں کے اسٹینڈرڈ تو ذرا مختلف ہی ہوں گے۔

''میرے گھر کے تین فلورز ہیں اوپر سے لے کر نیچے تک کی میں روزانہ صفائی کرتی ہوں اور صفائی بھی ایسی کہ اگر آپ کو ایک بال بھی نظر آ جائے تو بتائیے۔ گھر کے سارے کام کاج میں خود کرتی ہوں۔ کھانا پکانا، برتن دھونا، کپڑے دھونا، بچوں اور میاں کے کپڑے پریس کرنا، گھر میں سودا سلف کے لیے کیا کچھ لانا ہے، کیا سامان چاہیے یہ ساری میری ذمے داری ہے اس کے علاوہ بچوں کی پارٹیز ہوتی ہیں ان کی بھی تیاری کرنا Each and Everything۔ میرے میاں کو کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ کتنے ٹمپریچر پر کیا چیز تیار ہو گی۔ اس معاملے میں وہ بالکل صفر ہیں۔'' وہ نہایت سادگی اور سنجیدگی سے اپنے روز مرہ کے کاموں کی تفصیلات بیان کر رہی تھی۔

''میرے شوہر بے چینی سے میرے منتظر ہیں، انھوں نے پورا میرا شیڈول بتایا کہ تم اس ڈیٹ کو فلائٹ میں بیٹھو گی، اور دوحہ اترو گی، پھر تم دوسری فلائٹ پکڑو گی اور اس ڈیٹ پر تم نیدرلینڈ اترو گی۔ تو میں ہنس کر بولی اور اس ڈیٹ پر میں کچن میں ہوں گی۔ تو وہ ہنسنے لگے۔ اپنے گھر والے گھر اور بچوں کے ذکر پر اس کے چہرے پر ایک نور سا پھیل گیا تھا۔

اس کا شوہر انگریز تھا، معاشی طور پر ایک مستحکم شخص جو اپنے بیوی بچوں کو ایک اچھی زندگی گزارنے کے لیے آسائشیں فراہم کر رہا تھا۔ جب وہ پاکستان سے بیاہ کر ہالینڈ گئی تھی اس وقت اس کی عمر سترہ برس کے لگ بھگ تھی وہ ڈچ زبان سے ناواقف تھی۔ آج وہ ایک اسمارٹ، ذمے دار، ماں اور بیوی ہے، اس کے تین بچے ہیں دن رات کام کاج میں مصروف رہنے والی ایک عام مشرقی لڑکی جس کا اصل حسن مغرب میں جا کر کھل گیا۔ اس کا شوہر جس کی ذہنیت بھی مشرقی ہے بہت خوش اور مطمئن ہے ماشا اللہ۔ کیونکہ حقیقتاً اس کی بیوی نے اس کے گھر کو جنت بنا دیا ہے۔

''جب میری شادی ہوئی تھی تو میں نے اسے ہلہ گلہ سمجھا تھا لیکن اب پتہ چلا کہ یہ تو میرا امتحان ہے۔ میر اللہ مجھ سے پوچھے گا کہ بندی تُو نے کیا کیا۔ اپنے گھر اور گھر والوں کی کیسی تربیت کی تو میں کیا جواب دوں گی۔ میں نہایت سنجیدگی سے سوچتی ہوں کہ عورت کا اصل امتحان اس کی شادی کے بعد شروع ہوتا ہے، کم عمری کی شادی خواب دکھاتی ہے اگر عورت محض خوابوں میں رہے تو حقیقت میں کچھ ہاتھ نہیں آتا۔''

سچ تو یہ ہے کہ ایک اچھی ماں ہی ایک اچھے معاشرے کی تخلیق کر سکتی ہے۔ آج ہمارے معاشرے کی عورت کس نہج پر چل رہی ہے۔ صرف چل رہی خوابوں کے راستوں پر۔ خواب جھوٹے بھی ہوتے ہیں یہ بھول جاتی ہے۔ نپولین نے کہا تھا کہ ''آپ مجھے اچھی ماں دیں میں آپ کو ایک اچھی قوم دے دوں گا۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں