امن سے فرار
کشمیر کے متنازعہ خطے کو برملا بھارت کا حصہ قرار دیتے ہیں جو کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
بھارت کے بزرگ صحافی کلدیپ نیئر نے اپنے ایک حالیہ کالم میں ایک دہشت گرد اور ایک انقلابی کے درمیان فرق بتاتے ہوئے لکھا ہے ''برطانوی حکومت کو دہشت گرد اور انقلابی میں فرق کا پتہ ہی نہیں تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ برطانیہ خود دہشت گرد کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ اس نے آزادی طلب کرنے والے ہزاروں ہندوستانی انقلابیوں کو ہلاک کیا اور دوسری طرف وہ دنیا کی قدیم ترین جمہوریت ہونے کا دعویدار ہے۔ دراصل غیر ملکی حکمراں ہمیشہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کی حکومت محکوموں کی مدد کرتی ہے لیکن اگر ان کی ایذا رسانیوں کا شمار کیا جائے تو ریکارڈ بے حد ہولناک بنتا ہے۔''
یہ بات انھوں نے بھگت سنگھ کے حوالے سے لکھی ہے۔ بھگت سنگھ یقینا ایک انقلابی تھا اور وہ برطانوی حکومت سے ہندوستان کی آزادی کا مطالبہ کر رہا تھا مگر انگریزوں نے اس کے مطالبے کی پاداش میں اسے ایک قتل میں ملوث کر کے پھانسی پر لٹکا دیا تھا۔ کلدیپ نیئر صاحب جس طرح بھگت سنگھ کی وکالت کر رہے ہیں اسی طرح وہ کشمیریوں کی وکالت کیوں نہیں کرتے۔ کشمیری بھی تو انقلابی ہیں وہ بھی تو آزادی مانگ رہے ہیں اور ان کی آزادی کا تو اقوام متحدہ نے انھیں حق دیا ہے مگر بھارت انھیں آزادی دینے کے بجائے انتہائی بربریت سے کچل رہا ہے جب کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویدار ہے تو پھر برطانیہ کی طرح بھارت بھی خود کو ایک سامراجی اور استعماری ملک ثابت کر رہا ہے۔
کاش کہ کلدیپ نیر اپنے ملک کے حکمرانوں کو بھی سمجھائیں کہ وہ کشمیریوں کی آزادی کے حصول میں روڑے اٹکا کر برطانوی سامراج کا سا رول ادا نہ کریں۔ بدقسمتی سے دیکھنے میں آیا ہے کہ بھارت کے اکثر دانشور دہرا معیار رکھتے ہیں۔ انھیں اپنے حکمرانوں کے ظلم و ستم نظر نہیں آتے اور قانونی آزادی مانگنے والے انقلابی کشمیریوں کو بھی وہ دہشت گرد گردانتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں میں خود کلدیپ نیئر بھی شامل ہیں، تاہم بھارت میں ایک دو ایسی بھی شخصیات ہیں جو حق بات کہنے میں ذرا بھی نہیں ہچکچاتیں۔ وہ کشمیریوں کی آزادی کی مکمل حمایت کرتی ہیں، ان میں سب سے نمایاں نام ارون دھتی رائے کا ہے وہ کشمیریوں کے کاز کی حمایت کرنے پر بھارتی حکومت اور ساتھ ہی بی جے پی کے غنڈوں سے کافی زک اٹھا چکی ہیں مگر ان کا موقف آج بھی وہی ہے جو پہلے تھا۔
انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مغربی میڈیا خصوصاً بی بی سی اور سی این این دو ایسے ادارے ہیں جو محض اپنے کاروبار کو بڑھاوا دینے کے لیے حق بات کو پیش کرنے کے بجائے اپنے اسپانسرز ممالک، جن میں بھارت نمایاں ہے، کی پروپیگنڈہ مشین بن کر رہ گئے ہیں۔ یہ ادارے ہر معاملے میں بھارت کی فیور کرتے نظر آتے ہیں۔
کشمیر کے متنازعہ خطے کو برملا بھارت کا حصہ قرار دیتے ہیں جو کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ یہی ادارے بھارت کی ہدایت کے مطابق ہر مسئلے میں پاکستان پر تنقید کی بوچھاڑ کرتے رہتے ہیں اور بلاتحقیق پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دیتے ہیں۔ دراصل یہ ادارے اپنی پیشہ ورانہ اور غیر جانبدارانہ رپورٹنگ کو ترک کر کے سراسر اپنے فرائض سے بددیانتی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ حکومت پاکستان کو ان کی شر انگیزیوں کا ضرور نوٹس لینا چاہیے۔
جہاں تک بھارتی میڈیا کا تعلق ہے تو اس نے کبھی اپنا معیار برقرار نہیں رکھا۔ جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنا کر پیش کرنا اس کا ہمیشہ شیوہ رہا ہے۔ خاص طور پر پاکستان کے بارے میں اس کا رویہ ہمیشہ ہی معاندانہ رہا ہے۔ نیویارک میں وزیر اعظم نواز شریف کی حالیہ تقریر پر اس وقت تمام بھارتی ٹی وی چینلز پر بلاجواز تنقید کی جا رہی ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق میاں نواز شریف نے جنوبی ایشیا میں امن کی بحالی کے لیے جو چار نکاتی فارمولا پیش کیا ہے وہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے انھیں پیش کرنے کے لیے دیا گیا تھا پھر بھی کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کو فوج چلا رہی ہے، میاں نواز شریف تو بس نام کے وزیر اعظم ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اوفا (روس) میں ان سے جو کچھ کوتاہی ہو گئی تھی اس کا ازالہ کرنے کے لیے انھیں یہ راستہ اختیار کرنا پڑا پھر ان کے خطاب میں جو نکات پیش کیے گئے یا جو تجاویز دی گئیں وہ کشمیریوں اور پاکستانی عوام کی امنگوں کی آئینہ دار ہیں۔
سشما سوراج نے اقوام متحدہ میں پاکستان کے خلاف جو جارحانہ اور غیر اخلاقی تقریر کی اسے بھارتی میڈیا بہت سراہ رہا ہے لیکن حقیقتاً سشما سوراج کی تقریر اقوام متحدہ جیسے معزز ادارے میں ایک سیاہ دھبے سے کم نہ تھی انھوں نے جو زبان اور لہجہ اختیار کیا اور یو این او کے چارٹر کی دھجیاں اڑائیں اس پر پاکستان کو ضرور احتجاج ریکارڈ کرانا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ نواز شریف کی حقیقت پسندانہ اور تاریخی تقریر سے بھارتی لیڈر بوکھلاہٹ کا شکار ہو گئے ہیں، میاں صاحب نے دراصل کوئی لگی لپٹی نہیں رکھی اور صاف صاف الفاظ میں بھارت کی چانکیائی پالیسی کی پول کھول دی۔
بھارتی وفد ان کی تقریر سے جس قدر مایوس ہوا تھا۔ سشما سوراج کی جارحانہ تقریر دراصل اس کی واضح عکاس تھی۔ بھارت کو تو چھوڑیے خود پاکستان میں بعض حلقے میاں صاحب کی تقریر پر اعتراض کر رہے ہیں ان کا موقف ہے کہ انھوں نے اپنی تقریر میں پاکستان میں بھارتی دہشت گردی کو صحیح طریقے سے اجاگر نہیں کیا میرے خیال سے یہ الزام وزن نہیں رکھتا۔ کیونکہ تقریر میں انھوں نے بھارتی دہشت گردی کا واضح ذکر کیا ہے پھر پاکستانی وفد نے بھارتی دہشت گردی کے ثبوت بان کی مون کو پیش کر دیے ہیں ساتھ ہی مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے ایک پریس کانفرنس کر کے سشما سوراج کے پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات کی نہ صرف تردید کی بلکہ پاکستان میں بھارتی دہشت گردی کو خوب خوب اجاگر کیا۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ میاں صاحب کی تقریر میں جو چار نکاتی امن فارمولا پیش کیا گیا وہ جنوبی ایشیا میں امن قائم کرنے کا واحد راستہ ہے مگر بھارت کی جانب سے اسے رد کیا جانا کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ یہ تو ہونا ہی تھا کیونکہ مودی کی حکومت پاکستان دشمنی پر قائم ہوئی تھی اسی نکتے پر چل رہی ہے اور آیندہ بھی چلتی رہے گی۔
ریاست بہار میں انتخابات قریب ہیں وہاں پاکستان مخالف پروپیگنڈہ عروج پر ہے اب اگر مودی سرکار پاکستانی امن فارمولے کو مان لیتی تو بہار کے الیکشن کا کیا ہوتا؟ چنانچہ اب ثابت ہو چکا ہے کہ جب تک آر ایس ایس کی حمایت یافتہ مودی سرکار برسر اقتدار ہے کشمیر پر کسی قسم کی پیش رفت ہونا مشکل ہے پھر آر ایس ایس کتنی پاکستان مخالف ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایڈوانی جنھیں مودی کی جگہ بھارت کا وزیر اعظم بننا طے تھا محض اس لیے انھیں اس دوڑ سے باہر ہی نہیں کیا گیا بلکہ ذلیل و خوار کر دیا گیا کہ انھوں نے قائد اعظم کو سیکولر کہہ دیا تھا۔
بہرحال یہ حقیقت ہے کہ میاں صاحب نے اپنی تقریر کے ذریعے بھارتی حکمرانوں کو یہ بات اچھی طرح باور کرا دی ہے کہ پاکستان کشمیر کاز سے کسی طرح بھی پیچھے ہٹنے والا نہیں ہے۔ بھارتی ٹی وی چینلز نے میاں صاحب کی تقریر کو اپنے ناظرین کو لائیو دکھانے کا اہتمام کیا تھا۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ تقریر سیدھی سادی ہو گی کیونکہ بھارتی وزارت خارجہ کا ترجمان پہلے ہی دھمکی دے چکا تھا کہ اگر پاکستان نے سخت موقف اختیار کیا اور کشمیر کا ذکر کیا تو بھارت اس کا معقول جواب دے گا مگر پاکستان اپنے سے چارگنا بڑی فوج اور خطرناک ترین اسلحے کا ذخیرہ رکھنے کے باوجود بھارت سے کبھی نہیں ڈرا تو بھارتی ترجمان کی دھمکی کو کیا خاطر میں لاتا چنانچہ میاں صاحب نے نہایت دبنگ اور حقیقت پسندانہ تقریر کی۔
جس نے بھارتی وفد کے ساتھ ساتھ بھارتی میڈیا کے بھی پسینے چھڑا دیے چنانچہ بعض ٹی وی چینلز نے تو درمیان میں ہی تقریر دکھانا روک دی تھی۔ بہرحال تقریر کے سلسلے میں کوئی کچھ بھی کہے لیکن اس تقریر نے نہ صرف مسئلہ کشمیر کو زبردست تقویت پہنچائی ہے بلکہ بھارت کے سلامتی کونسل کے مستقل رکن بننے کے خواب کو چکنا چور کر کے رکھ دیا ہے۔