تھونگ بھی کیا خوب ہے

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آج میں شاید کسی جڑی بوٹی کے بارے میں کوئی معلومات فراہم کرنے جا رہی ہوں

shabnumg@yahoo.com

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آج میں شاید کسی جڑی بوٹی کے بارے میں کوئی معلومات فراہم کرنے جا رہی ہوں۔ یا پھر کسی نئے دریافت ہونے والے علم کے بارے میں وضاحت پیش کی جائے گی۔ درحقیقت آج نہ تو کسی جڑی بوٹی کے بارے میں بات ہو گی اور نہ ہی کسی نئے علم کے بارے میں۔

دراصل یہ مسٹر تھونگ ہیں۔ ہمارے تھائی گائیڈ، جو ہمیں بینکاک سے کنچنابوری شہر کی طرف لے کر جا رہے ہیں۔ یہ شہر دریا کے کنارے آباد ہے۔ یہ بینکاک سے 80 میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ زرعی علاقہ گنے، چاول اور انناس کی پیداوار کی وجہ سے مشہور ہے۔ اس علاقے کی خاص بات ڈیتھ ریلوے برج ہے۔

تھونگ دلچسپ آدمی ہے۔ وین میں ہمارے ساتھ انڈیا سے آئے ہوئے تین نوجوان بھی ہیں۔ یہ لوگ ٹائیگر ٹیمپل دیکھنے جا رہے ہیں۔ جب کہ ہم ڈیتھ ریلوے برج کی طرف۔

کنچنابوری پہنچ کر گاڑی پٹرول پمپ پر رکی تو تھونگ صاحب درخت کے پیچھے لباس تبدیل کرنے لگے۔ پینٹ شرٹ کے نیچے سے ٹی شرٹ اور برمودہ برآمد ہوا۔ کپڑے تہہ کر کے وہ پوٹلی بغل میں دبائی اور فرنٹ سیٹ پر براجمان ہو گئے۔ پیروں میں بوٹ کی جگہ ہوائی چپل تھی۔

''یہ سامنے بیکری ہے اگر کھانے کے لیے کچھ لینا ہے تو بہت عمدہ بیکری ہے۔'' تھونگ نے معلومات فراہم کی۔

ہم لوگ بیکری میں داخل ہوئے تو پیچھے تھونگ صاحب بھی داخل ہو گئے۔ وہ بھی کھانے کی چیزیں لینے لگے اور وہاں سے کھسک لیے۔ وہ بل ہم نے ادا کیا۔

گاڑی میں واپس بیٹھے تو میں نے کہا ''یہ تھونگ بھی کیا خوب ہے۔''

''کیا ہوا امی؟'' عرین پوچھنے لگی۔

''اس شخص کا نام ڈھونگ ہونا چاہیے۔''

''کس شخص کا نام امی؟'' عرصم نے پوچھا۔

''کچھ نہیں۔'' میں نے مسکرا کے بات بدل دی۔ سفر میں اچھا احساس بانٹنا چاہیے۔ سب سے پہلے کشتی میں دریا کی سیر کی۔ دور سے سرمئی پہاڑ اور سبزہ خوبصورت لگ رہے تھے۔ سورج کی تپش کچھ مہربان سی تھی۔ معطر ٹھنڈی ہوا حواس پر چھا گئی۔ کنول کے پھولوں پر بھنورے اور شہدکی مکھیاں منڈلا رہی تھیں۔

اس کے بعد ہم قریب ہی ایک چھوٹے سے میوزیم میں داخل ہو گئے۔ یہ جھونپڑا نما دیہاتی ہٹ تھا۔ جس میں جا بجا تصویریں آویزاں تھیں۔ یہ تصویریں دوسری جنگ عظیم کے دوران جنگی قیدیوں کی حالت زار پر مبنی تھیں۔ خاص طور پر رورکوائی برج پر کام کرنے والے یورپی جنگی قیدی اور مقامی مزدوروں پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے جاتے تھے۔

راستے میں انڈین لڑکے ٹائیگر ٹیمپل دیکھنے اتر گئے۔ جہاں ایک اورگاڑی کھڑی تھی، جو انھیں لے کر روانہ ہو گئی، لیکن اس سے پہلے تھونگ نے ایک آنکھ بند کر کے رازداری سے اشتیاق صاحب سے کہا۔ ''ٹائیگر ٹیمپل سے زیادہ ڈیتھ ریلوے برج اچھا ہے۔ آپ لوگ میرے اسپیشل مہمان ہیں، لہٰذا میرا فرض ہے کہ میں آپ کی مناسب رہنمائی کروں۔''

''تھونگ سے ہوشیار رہیے گا۔'' میں نے میاں سے کہا تو وہ مسکرائے۔

''توبہ امی! آپ کس قدر جج مینٹل ہیں۔'' عرین نے کہا۔


''تمام جج کرنے والے لوگ مینٹل ہو جاتے ہیں آخر میں''۔ میں نے مسکرا کے جواب دیا تو سب لوگ ہنسنے لگے سوائے تھونگ کے۔ انڈین پیچھے بیٹھے تھے۔ وہ ہماری بات نہ سن سکے۔ ''انسان باہر سفر پر نکلے تو اسے چہرے پڑھنے کا فن آنا چاہیے۔'' عرصم نے میری بات کی تائید کی۔

ریلوے اسٹیشن پر پہنچ کر تھونگ صاحب نے ہمارے لیے ٹکٹ خریدے اور ایک صاحب کو تاکید کی کہ ٹرین کے سفر کے دوران ہمارا خاص خیال رکھے۔ ہر طرف غیر ملکی ٹوئرسٹ پھیلے ہوئے تھے۔ پوری دنیا سے لوگ یہ ریلوے برج دیکھنے آتے ہیں۔ اسٹیشن پر بازار بھی تھا۔ زیادہ تر اسٹالز پر خواتین دکھائی دیں۔ سامنے بدھا کا خوبصورت مجسمہ آویزاں تھا، جو شہر اور سبزے کے پس منظر میں انتہائی خواب ناک لگ رہا تھا۔ غیر ملکی سیاحوں کے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے۔ سب لوگ ٹرین کا انتظار کر رہے تھے جو انھیں حال سے ماضی کی طرف لے کر جائے گی۔تھونگ نے بتایا کہ یہ سفر انتہائی خوبصورت ہے۔ راستہ سبزے، درختوں اور فطری مناظر سے بھرا ہوا ہے۔آپ لوگ تھائی زندگی کے دیہی مناظر دیکھ سکیں گے۔ یہ کہہ کر اس نے ہاتھ لہرا کے الوداع کہا اور سیاحوں کی بھیڑ میں غائب ہو گیا۔

ٹرین پہنچی اور ہم اس ڈبے میں سوار ہو گئے جس کے ٹکٹ ہمارے ہاتھوں میں تھے۔ دس پندرہ منٹ بعد ٹرین چلنے لگی۔ یہ قدیم زمانے کی ایک چھکڑہ ٹرین تھی۔ ہلتی جلتی، ادھم مچاتی ہوئی ٹرین جو ماضی کے دنوں کی یادگار تھی۔

کھڑکی کے باہر خوبصورت فطری مناظر تیزی سے دوڑ رہے تھے۔ یہ وہ خونی پل ہے، جو دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپانیوں نے انگریز اور یورپی جنگی قیدیوں کے ذریعے بنوایا گیا تھا۔ سخت مشقت، بھوک اور بیماری کے باعث ہزاروں لوگ لقمہ اجل بنے۔ اس برج پر فلم بھی بن چکی ہے جو کتاب ''دی برج آن ریورکوائی'' پر مبنی تھی۔ اس برج کے حوالے سے جابجا ظلم کی داستانیں بکھری ہوئی ہیں مگر جو آج قصہ پارینہ بن چکی ہیں۔ راشن بچانے کی خاطر کئی بوڑھے، بیمار اور لاچار لوگوں کو جاپانی جلا دیا کرتے تھے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران ایک طرف جرمنی کا یورپ اور انگلینڈ پر غلبہ تھا تو دوسری طرف جاپانی ایشیا کے ممالک پر قابض ہوتے جا رہے تھے۔ ایشیا کے ان ممالک پر پہلے ہی انگریز، فرنچ و دیگر یورپی ممالک کے جھنڈے لہرا رہے تھے۔ ناگاساکی اور ہیروشیما کی تباہی کے بعد جا کے جاپانیوں کے ہوش ٹھکانے لگے۔ اس زمانے میں تھائی لینڈ اور برما میں ریل کا مشترکہ نظام نہ تھا۔ جاپانیوں کو ریل کا راستہ چاہیے تھا تا کہ وہ برما میں اپنی فوج کے لیے خوراک اور اسلحہ پہنچا سکتے۔ 1942ء میں اس ریلوے کا کام شروع ہوا اور 1943ء میں کوائی پل سمیت یہ مشکل ترین کام پایہ تکمیل پر پہنچا۔ جس میں مشینوں کی جگہ انسانی ہاتھوں نے پہاڑوں کو چھید کر راستے بنائے۔ لاکھوں جنگی قیدی، انڈونیشیا و ملئی شہریوں سمیت بھوک، بیماری اور جنگلی جانوروں کی خوراک بن گئے۔ یہ تمام تر جنگی قیدی کانچنابوری شہر میں واقع دو قبرستانوں میں دفن ہیں۔ جس میں آسٹریلیا، امریکا، انگریز، فرنچ، نیوزی لینڈ، کینیڈا وغیرہ کے فوجی شامل ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جاپانی یہ فوجی سنگاپور، انڈونیشیا اور ملائیشیا سے پکڑ کر لے آئے تھے اور انھیں ریلوے کے جبری کام میں لگا دیا۔

گائیڈ وقفے سے مسافروں کو معلومات دے رہے تھے۔ دو ڈھائی گھنٹے کا حسین سفر تھا۔ جس میں حال کے حسین مناظر کے ساتھ ماضی کے تکلیف دہ لمحوں کی کسک بھی شامل تھی۔ انیسویں صدی خون خرابے، مظالم اور غیر انسانی رویوں کی صدی کہلاتی ہے۔ یہ موت کا ریلوے برج جبر و تشدد کے ان دنوں کی تلخ ترین یادگار ہے۔ جس کی ہر اینٹ میں لاکھوں آنکھوں کے خواب، امیدیں و انتظار دفن ہیں۔

آخری اسٹیشن پر گاڑی رکی تو گائیڈ تھونگ گاڑی لیے ہمارا منتظر تھا۔

''سفر خوشگوار رہا ہو گا۔'' تھونگ نے مسکرا کے پوچھا۔

''ایک جگہ غار کے قریب بہت سے سیاح تھے۔ ہم نے بھی وہ غار دیکھنا ہے۔'' میں نے کہا۔

''اس غار میں کیڑے مکوڑے اور بلائیں ہیں۔'' یہ کہہ کر اس نے پیچھا چھڑایا۔

گاڑی ریسٹورنٹ کے پاس رکی جہاں لنچ کرنا تھا۔ لنچ بہت مزیدار تھا۔

واپسی کی طرف سفر شروع ہوا۔ راستے میں انڈین کھڑے تھے۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی تھونگ پر چیخنے چلانے لگے۔

بکواس تھا ٹائیگر ٹیمپل۔۔۔۔۔ کھانا بھی بدمزہ اور باسی تھا وغیرہ وغیرہ۔

تھونگ کھسیانا سا کھڑکی کے باہر دیکھنے لگا۔ گاڑی جیسے ہی بینکاک میں داخل ہوئی تھونگ نے عجلت میں کپڑوں کی پوٹلی اٹھائی، دروازے سے بائیں چھلانگ لگائی اور خدا حافظ کہے بغیر روانہ ہو گیا۔

''اسے کیا ہوا؟'' میں نے حیرت سے کہا۔

''اس نے کچھ پیسے ادھار لیے تھے۔'' میاں نے مسکرا کے جواب دیا۔

''آپ نے اس سے واپس کیوں نہیں لیے؟'' لنچ میں بھی اس کا حصہ نہ تھا۔ وہ ایک کونے میں ہماری پلیٹوں سے ڈبل روٹی کا ٹکڑا اٹھا کے چبا رہا تھا۔ اشتیاق صاحب ازراہ ہمدردی بولے۔ تھونگ بھی کیا خوب ہے۔ میں کہے بنا نہ رہ سکی۔ اب سمجھ میں آیا کہ ہم کیوں اس کے خاص مہمان تھے۔
Load Next Story