تہذیب عالم اور نظریہ پاکستان… آخری حصہ
کیونکہ ان تمام صاحب ِ عمل محققین جنھوں نے اپنی تحقیقات سے انسانی فطرت کے بنیادی اصولو ں کو ثابت کیا تھا
دین فطرت: اور پھر وہ وقت بھی آیا جب فلکی اجسام میں اساسی اور تجربہ گاہ کی حیثیت رکھنے والے سیارے زمین پر انتظامِ ارض و سماء پر کی گئی تحقیقات ِ ابراہیمی ؑکی ثابت شدہ تعلیمات کو عملاََ نافذ کر کے ان کو اگلے مرحلے میں داخل کیا جانا ممکن ہوا۔ قوانینِ مادہ کو مسخر کرنے کے ساتھ قوانینِ فطرت پر غلبے کی تحقیقات بھی سامنے لائی گئیں۔
کیونکہ ان تمام صاحب ِ عمل محققین جنھوں نے اپنی تحقیقات سے انسانی فطرت کے بنیادی اصولو ں کو ثابت کیا تھا، ان کے سردار و اِمام ﷺ نے انسانی فطرت پر قابو پانے کا عملی تجربہ کر کے دکھایا۔1۔ جنگ میں زخمی ہونے اور داندان مبارک شہید کروانے کے باو جود جنگی قیدیوں پر صرف لکھنے پڑھنے کا فن دینے کا قابلِ ادائیگی جنگی تاوان رکھا گیا (معاہدہ ورسائی کروانے اور نازیوں کے ہاتھوں ان کے نتائج بھگتنے والو دیکھو) ۔2۔ طائف کے میدان میں پتھروں کی بارش میں خون مبارک بہنے پر بھی جنابِ ایوب ؑ کی اپنی بیوی کو سو دُرے مارنے اور جنابِ یونس ؑ کی مچھلی کے پیٹ میں جانے کی تحقیقات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے اختیارات کا استعمال کرنے کی بجائے رؤفی و رحیمی (درگزر اور معاف ) کر جانے کو عالمِ انسانیت کی بقاء کے بنیادی اصول کے تحت نہ صرف متعارف کروایا بلکہ اس سے عبدیت کا اعلیٰ درس بھی دیا جانا ممکن ہوا۔
جس کے نتیجے کے طور پر تحقیقی تاریخ کے اس مقام پر ''لاینال عہدالظالمین'' کی تفسیرات کچھ اس طرح کی گئی جس سے اس وقت کی دنیا پر رائج تمام تہذیبوں کی منسوخی کو سمجھا جانا ممکن ہوا۔1۔ ایک غلام کو سردارِ قریش کا بھائی بنا کر فرعونی و بخت نصری عظیم الجثہ عمارتوں کی تہذ یبوں 2۔ خانہ کعبہ سے بُت نکال کر عربوں میں رائج بُت پرستی پر منتج صوفیانیت زدہ تہذیبوں 3۔ اور اپنے شجرہ نسب سے منقطع رہنے والے ِ بلالؓ کو کعبۃ اللہ کی چھت پر کھڑا کر کے متذکرہ بالا تہذیبوں کی کوکھ سے جنم لیتی، قدیم تہذیبوں کی جدید اشکال میں ظاہر ہونے والی سُفیانیت زدہ یعنی لاینال عہد الظالمین کے فرمان کے خلاف جانے اور مادی وسائل و اسباب کو برتری کا پیمانہ بنانیوالی تہذیبوں کو عربی زبان میں باطل (ناپائیدار اصولوں پر بنی اور ختم ہو جانیوالی تہذیبیں) قرار دیے جانے کو بھی سمجھایا گیا۔
علت و معلول کے محققین کو بات سمجھانے کے لیے تہذیبِ بیت المقدس کے حقِ ملکیت تبدیل ہو جانے کی ان خود ان ہی کی جانب سے صدیوں تک اقرار کرنے جیسی ناقابلِ تردید دلیل بھی فراہم کی گئی ہے۔ جب کہ انتظامِ معاشرت کے لیے کھڑی کی جانیوالی اس تہذیب کے حقِ ملکیت کو لاینال عہدالظالمین کی تحقیق پر عمل کرنے سے مشروط کر کے عالمِ انسانیت کو یہ بھی جتایا گیا کہ عرب کو عجم پر کوئی فضیلت نہیں اس لیے جو کوئی اس قانون سے روگردانی کرے گا، وہ اپنا حق ملکیت کھودیے گا۔ چونکہ حقیقت کائنات کو سمجھانے والے محققین کو عربی زبان میں نبی اور رسول اللہ علیہ وسلم کے الفاظ سے بیان کیا گیا ہے جس کے لفظی، لغوی اور ارتقائی معنی ٰو مطالب ثابت شدہ تحقیقات پر عمل کرنے کی دعوت دینے والے کے طور پر لی جاتی ہے۔
جب کہ ازروئے توراۃ ( جناب سعد ؓبن معاذ کی منصفی میں) یہ ثابت کیا گیا کہ تہذیبِ بیت المقدس سے بے دخل ہونے والی قومِ یہود (عہد فاروقی ؓ میں خیبر کے علاقے سے بھی نکالے جانے والے) ذمی کے طور پر بھی قابلِ قبول نہیں کیے جا سکتے، یورپ کی مادہ پرست اقوام گزشتہ تیرہ صدیوں سے قومِ یہود سے روا رکھے جانے والے اپنے رویے اس کا عملی اظہار بھی کرتی آئی ہیں، جن کی تفصیل میں بھی ہم جائیں گے، لیکن ریاستِ مدینہ سے قومِ یہود کو دی جانیوالی نیکالی کے تاریخی استدلالی مقام پر یہ بھی واضح کیا گیا کہ خالقِ کائنات کی جانب سے فلکی اجسام کو ان کے محور میں گردش دینے والی اس تہذیبِ کعبۃ اللہ کو نجاست سے اس طرح پاک کر دیے جانے کا اعلان کیا گیا جیسا پاک ہونے کا اس کا حق ہے۔ اللہ عزوجل اور ان کے فرشتے اس پاکی کے تسلسل کو قائم رکھنے میں مصروف عمل ہیں اور ایمان والوں کو بھی ان ہی جیسا عمل اختیار کرنے کی دعوت ِعام بھی جاری کی گئیں۔
حضرتِ انسان نے اپنی فطرت سے مجبور ہو کر ان قوانین سے روگردانی کی تو قوانینِ مادہ نے ان پر غلبہ پا لیا اور تہذیب ِبیت المقدس ہی کی طرح پندرہ صدیوں کی مسافت کے بعد جب خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کیا گیا تو فرعونی، نمرودی، رومی و یونانی تہذیبوں کی آمیزش زدہ سفیانیت اور یہودیت کے مرکب سے بننے والی ''قومِ الذین ہا دوا'' یعنی مادی وسائل و اسباب پر تکیہ کرنے والوں کو اپنی جدید فرعونیت کی بقاء سامنے نظر آنے لگی۔ لیکن ان کے فکر ِعمل کے خمیر ی خلل کے تحت ان کے تاریخی بھوندے پن پر مبنی مشاہدے کی حقیقت کو کچھ اس طرح بیان کیا گیا کہ جس طرح جنابِ موسیٰؑ کی حفاظت کے لیے انھیں ؑ فرعون ہی کی گود میں ڈال دیا گیا تھا۔
بالکل اسی طرح ان ہی کے مادی نظریات کی بنیاد پر نظامِ معاشرت کو ان کو صحیح خطوط پر استوار کر کے تہذیبِ کعبۃ اللہ کو نجس سے اس طرح پاک کرنے کی دعوتِ الٰہی پر عمل کرنے سے کیا گیا، جس طرح اس کے پاک کیے جانے کا حق ہے اور یہ تاریخی واقعہ دنیا کے کسی اور خطے میں نہیں بلکہ ہندوستان جیسے اس ملک میں رونماء ہوا جہاں ان تمام مردہ مادہ پرست تہذیب عالم کے ورثاء جدید ارتقائی شکل میں انسانیت کی گردن پر اپنے دانت جمائے اس کا خون چوسنے میں مصروفِ عمل تھے ۔
یعنی جدید فرعونیت اپنے شباب پر تھی۔ وہیں نظریہ پاکستان نے آگے بڑھ کر عالمِ انسانیت کا وہ پرچم بلند کیا جو خیبر میں عطا کیا گیا تھا اور جو شق القمر کی ارتقائی شکل میں چاند ستارے کو خوشحالی اور امن کے رنگوں سے سجائے ہوئے ہے۔ جس طرح حضرت ابراہیم ؑ نے فطرت پر کی گئی اپنی تحقیقات کے عملی اظہار کے لیے دو تہذیبوں کی بنیاد رکھی تھی، بالکل اسی طرح قوانینِ فطرت نے فلسطین پر قومِ یہود کے غاصبانہ قبضے کے خلاف نظریہ پاکستان کے تحت مملکت خداداد کا وجود عملاََ ان کے مدِ مقابل دیدیا گیا ہے۔ یہ دنیا ابھی تباہ ہونے والی نہیں، پاکستان بھی یہیں ہے بس ذرا تطہیر کا عمل شروع ہونے دو۔
کیونکہ ان تمام صاحب ِ عمل محققین جنھوں نے اپنی تحقیقات سے انسانی فطرت کے بنیادی اصولو ں کو ثابت کیا تھا، ان کے سردار و اِمام ﷺ نے انسانی فطرت پر قابو پانے کا عملی تجربہ کر کے دکھایا۔1۔ جنگ میں زخمی ہونے اور داندان مبارک شہید کروانے کے باو جود جنگی قیدیوں پر صرف لکھنے پڑھنے کا فن دینے کا قابلِ ادائیگی جنگی تاوان رکھا گیا (معاہدہ ورسائی کروانے اور نازیوں کے ہاتھوں ان کے نتائج بھگتنے والو دیکھو) ۔2۔ طائف کے میدان میں پتھروں کی بارش میں خون مبارک بہنے پر بھی جنابِ ایوب ؑ کی اپنی بیوی کو سو دُرے مارنے اور جنابِ یونس ؑ کی مچھلی کے پیٹ میں جانے کی تحقیقات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے اختیارات کا استعمال کرنے کی بجائے رؤفی و رحیمی (درگزر اور معاف ) کر جانے کو عالمِ انسانیت کی بقاء کے بنیادی اصول کے تحت نہ صرف متعارف کروایا بلکہ اس سے عبدیت کا اعلیٰ درس بھی دیا جانا ممکن ہوا۔
جس کے نتیجے کے طور پر تحقیقی تاریخ کے اس مقام پر ''لاینال عہدالظالمین'' کی تفسیرات کچھ اس طرح کی گئی جس سے اس وقت کی دنیا پر رائج تمام تہذیبوں کی منسوخی کو سمجھا جانا ممکن ہوا۔1۔ ایک غلام کو سردارِ قریش کا بھائی بنا کر فرعونی و بخت نصری عظیم الجثہ عمارتوں کی تہذ یبوں 2۔ خانہ کعبہ سے بُت نکال کر عربوں میں رائج بُت پرستی پر منتج صوفیانیت زدہ تہذیبوں 3۔ اور اپنے شجرہ نسب سے منقطع رہنے والے ِ بلالؓ کو کعبۃ اللہ کی چھت پر کھڑا کر کے متذکرہ بالا تہذیبوں کی کوکھ سے جنم لیتی، قدیم تہذیبوں کی جدید اشکال میں ظاہر ہونے والی سُفیانیت زدہ یعنی لاینال عہد الظالمین کے فرمان کے خلاف جانے اور مادی وسائل و اسباب کو برتری کا پیمانہ بنانیوالی تہذیبوں کو عربی زبان میں باطل (ناپائیدار اصولوں پر بنی اور ختم ہو جانیوالی تہذیبیں) قرار دیے جانے کو بھی سمجھایا گیا۔
علت و معلول کے محققین کو بات سمجھانے کے لیے تہذیبِ بیت المقدس کے حقِ ملکیت تبدیل ہو جانے کی ان خود ان ہی کی جانب سے صدیوں تک اقرار کرنے جیسی ناقابلِ تردید دلیل بھی فراہم کی گئی ہے۔ جب کہ انتظامِ معاشرت کے لیے کھڑی کی جانیوالی اس تہذیب کے حقِ ملکیت کو لاینال عہدالظالمین کی تحقیق پر عمل کرنے سے مشروط کر کے عالمِ انسانیت کو یہ بھی جتایا گیا کہ عرب کو عجم پر کوئی فضیلت نہیں اس لیے جو کوئی اس قانون سے روگردانی کرے گا، وہ اپنا حق ملکیت کھودیے گا۔ چونکہ حقیقت کائنات کو سمجھانے والے محققین کو عربی زبان میں نبی اور رسول اللہ علیہ وسلم کے الفاظ سے بیان کیا گیا ہے جس کے لفظی، لغوی اور ارتقائی معنی ٰو مطالب ثابت شدہ تحقیقات پر عمل کرنے کی دعوت دینے والے کے طور پر لی جاتی ہے۔
جب کہ ازروئے توراۃ ( جناب سعد ؓبن معاذ کی منصفی میں) یہ ثابت کیا گیا کہ تہذیبِ بیت المقدس سے بے دخل ہونے والی قومِ یہود (عہد فاروقی ؓ میں خیبر کے علاقے سے بھی نکالے جانے والے) ذمی کے طور پر بھی قابلِ قبول نہیں کیے جا سکتے، یورپ کی مادہ پرست اقوام گزشتہ تیرہ صدیوں سے قومِ یہود سے روا رکھے جانے والے اپنے رویے اس کا عملی اظہار بھی کرتی آئی ہیں، جن کی تفصیل میں بھی ہم جائیں گے، لیکن ریاستِ مدینہ سے قومِ یہود کو دی جانیوالی نیکالی کے تاریخی استدلالی مقام پر یہ بھی واضح کیا گیا کہ خالقِ کائنات کی جانب سے فلکی اجسام کو ان کے محور میں گردش دینے والی اس تہذیبِ کعبۃ اللہ کو نجاست سے اس طرح پاک کر دیے جانے کا اعلان کیا گیا جیسا پاک ہونے کا اس کا حق ہے۔ اللہ عزوجل اور ان کے فرشتے اس پاکی کے تسلسل کو قائم رکھنے میں مصروف عمل ہیں اور ایمان والوں کو بھی ان ہی جیسا عمل اختیار کرنے کی دعوت ِعام بھی جاری کی گئیں۔
حضرتِ انسان نے اپنی فطرت سے مجبور ہو کر ان قوانین سے روگردانی کی تو قوانینِ مادہ نے ان پر غلبہ پا لیا اور تہذیب ِبیت المقدس ہی کی طرح پندرہ صدیوں کی مسافت کے بعد جب خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کیا گیا تو فرعونی، نمرودی، رومی و یونانی تہذیبوں کی آمیزش زدہ سفیانیت اور یہودیت کے مرکب سے بننے والی ''قومِ الذین ہا دوا'' یعنی مادی وسائل و اسباب پر تکیہ کرنے والوں کو اپنی جدید فرعونیت کی بقاء سامنے نظر آنے لگی۔ لیکن ان کے فکر ِعمل کے خمیر ی خلل کے تحت ان کے تاریخی بھوندے پن پر مبنی مشاہدے کی حقیقت کو کچھ اس طرح بیان کیا گیا کہ جس طرح جنابِ موسیٰؑ کی حفاظت کے لیے انھیں ؑ فرعون ہی کی گود میں ڈال دیا گیا تھا۔
بالکل اسی طرح ان ہی کے مادی نظریات کی بنیاد پر نظامِ معاشرت کو ان کو صحیح خطوط پر استوار کر کے تہذیبِ کعبۃ اللہ کو نجس سے اس طرح پاک کرنے کی دعوتِ الٰہی پر عمل کرنے سے کیا گیا، جس طرح اس کے پاک کیے جانے کا حق ہے اور یہ تاریخی واقعہ دنیا کے کسی اور خطے میں نہیں بلکہ ہندوستان جیسے اس ملک میں رونماء ہوا جہاں ان تمام مردہ مادہ پرست تہذیب عالم کے ورثاء جدید ارتقائی شکل میں انسانیت کی گردن پر اپنے دانت جمائے اس کا خون چوسنے میں مصروفِ عمل تھے ۔
یعنی جدید فرعونیت اپنے شباب پر تھی۔ وہیں نظریہ پاکستان نے آگے بڑھ کر عالمِ انسانیت کا وہ پرچم بلند کیا جو خیبر میں عطا کیا گیا تھا اور جو شق القمر کی ارتقائی شکل میں چاند ستارے کو خوشحالی اور امن کے رنگوں سے سجائے ہوئے ہے۔ جس طرح حضرت ابراہیم ؑ نے فطرت پر کی گئی اپنی تحقیقات کے عملی اظہار کے لیے دو تہذیبوں کی بنیاد رکھی تھی، بالکل اسی طرح قوانینِ فطرت نے فلسطین پر قومِ یہود کے غاصبانہ قبضے کے خلاف نظریہ پاکستان کے تحت مملکت خداداد کا وجود عملاََ ان کے مدِ مقابل دیدیا گیا ہے۔ یہ دنیا ابھی تباہ ہونے والی نہیں، پاکستان بھی یہیں ہے بس ذرا تطہیر کا عمل شروع ہونے دو۔