سورج ایک نارنگی کی طرح نارنجی تھا

تعلیم شخص کسی کا حق مارے بغیر ہر اس شخص ہر اس چیزکو حاصل کر لیتا ہے جو اس کو پسند ہے۔


قادر خان October 08, 2015
[email protected]

KARACHI: میں Freeway سے Wilshire Wast پر نکل آیا اور پُل پر سے گزرتے ہوئے پہلی ٹریگ لائٹ پر westwood village کے لیے لفٹ ٹرن لے کر تین بلاک کے بعد میں یونیورسٹی آف کیلی فورنیا لاس اینجلس (اکلا) کے کیمپس میں داخل ہو رہا تھا۔''اکلا'' امریکا کی دس مشہور یونیورسٹیوں میں شمار ہوتی ہے اور میرے دوست احباب کی محافل بھی اکثر یہیں جما کرتی تھیں، میرے بہترین موضوعات میں فلسفہ تھا، اکلا یونیورسٹی گو کہ ایک پبلک یونیورسٹی ہے، اُس وقت کی فیکلٹی کا اسٹاف 33 ہزار سے زائد تھا جن میں 5 نوبل پرائز یافتہ افراد بھی شامل ہیں، میرے لیے سب سے بڑی دلچسپی کا سامنا اس کی لائیبریری کی سات ملین کتابیں تھیں، اس میں 174بلڈنگ جو کہ چار سو انیس ایکڑ پر پھیلی ہوئی تھی۔تعلیم مخصوصہ سے مراد، تعلیم کا استعمال، کسی مقصد کو حاصل کرنے میں، صنعت کار اس تعلیم سے دولت کماتا ہے۔ تعلیم ایک ایسی صلاحیت کا نام ہے جب اسے حاصل کر کے ایک قوت بنا لیا جاتا ہے۔

سیکڑوں لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی اسکول نہ جائے اور وہاں تعلیم حاصل نہ کرے تو تو وہ تعلیم یافتہ نہیں بن سکتا، دراصل ایجوکیشن ایک اٹالین ''ایڈوکو'' سے بنی ہے جس کے معنی 'اندر سے ابھرنا' انکشاف کرنا' ضروری یہ بھی نہیں کہ جس کے پاس تعلیم عامہ کی بہتات ہو تو اس تعلیم مخصوصہ کی بنا پر ایسے تعلیم یافتہ ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ دراصل تعلیم یافتہ وہ شخص ہے جس نے اپنے ذہن کو تربیت دی ہے۔

تعلیم شخص کسی کا حق مارے بغیر ہر اس شخص ہر اس چیزکو حاصل کر لیتا ہے جو اس کو پسند ہے۔ یہاں میں ایک ایسے دوست کا ذکر ضرور کروں گا۔ مسٹر جوگن زاؤلس کالج کے طالب علم تھے، عمومی طور پر تعلیم کے نظام پر میری ان سے بڑی تنقیدی نشستیں ہوتی تھیں، ایک تو میرے ساتھ مسئلہ یہ تھا کہ میں مسلمان بھی تھا اور پختون بھی تھا، اس لیے مغربی معاشرے میں ان کی اقدار کے ساتھ گفت و شنید میں اپنی عادت کی مطابق کچھ جذباتی بھی ہو جاتا تھا لیکن مقصد تعمیری بحث و تحقیق کا تھا، اس لیے ہم ایک دوسرے کو برداشت کر لیا کرتے تھے۔ اچانک بیٹھے بیٹھے ایک پروگرام دماغ میں آیا کہ از خود ایک کالج بنا کر اس میں پرانے رسمی طریق تعلیم کے بجائے جدید اور موثر تعلیمی نظام نافذ کریں گے۔

اب مسئلہ یہ تھا کہ اس کے پاس رقم تو بالکل نہیں تھی لیکن خیالات کی بھرمار بہت تھی، کوئی ایک ملین سے دو ملین ڈالر کا تخمینہ ابتدائی طور پر لگایا گیا تھا۔ ایک دن ڈاکٹر نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں بھی وہی سوچ رہا ہوں، ہاں جو تم سوچ رہو، میں نے جواب دیا کہ دو سالوں میں اس کے علاوہ سوچنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں سوجھ رہا۔ پر ایک دم ڈاکٹر میں ایک ہیجانی کیفیت طاری ہو گئی اور اس نے کہا کہ میں ایک ہفتے میں ایک ملین ڈالر اکٹھا کر لوں گا، میں حیرانی سے اس کی جانب دیکھنے لگا کہ دو سال کا عرصہ یہی سوچتے ہوئے گزار دیا اب یکدم ایسا کیا ہوا۔

بہرحال ہمیں ایک دوسرے پر اعتماد تھا، اس نے مقامی اخبارات میں ایک اشتہار چھپوا دیا کہ اگر میرے پاس ایک ملین ڈالر ہوں تو میں یہ کام کروں گا ۔ ایک تقریب میں جلد بازی میں وہ اپنی لکھی ہوئی تقریر گھر بھول آیا تھا لیکن جوش و جذبے بھرپور الفاظ پر مبنی تقریر نے ایک شخص مسٹر آرمر کو بہت متاثر کیا اور اس نے ڈاکٹرگن زاؤلس کو اپنے دفتر بلا کر ایک ملین ڈالرکا چیک دے دیا۔ آج اس کالج کا نام Illinois Institute of Technology ہے۔

بونا وینچر ہوٹل میں آرگنائزیشن پر ایک سلائیڈ پریزینٹیشن کرنا تھی، بونا وینچر ہوٹل کا شمار پانچ اسٹار ہوٹلوں میں ہوتا ہے، بہت خوبصورت25 منزلہ سلنڈریکل بلڈنگ ہے۔ تمام بیرونی کھڑکھیاں سلور رنگ کی ہیں مگر شیشے کی بنی ہوئی ہیں۔ یہ ہوٹل ڈاون ٹاون لاس اینجلس کے فنانشنل ڈسٹرکٹ میں ہے۔ اس کا ریوالونگ لاؤنج اور روف ٹاپ اسٹک ہاؤس، ایل اے پرائم سے آپ لاس انجلس کا خوبصورت نظارہ کر سکتے ہیں۔ میں نے appetizer کے لیے lobsterlobster briscuit اور Main Course کے لیے newyork Sirlion Steak ساتھی دوست سادیہ کے لیے baked Oyster Rockfeller, Chilean, tiramisu کا آرڈر دیا۔دراصل ثابت قدمی ہی کامیابی کی کنجی ہے ہر تکلیف میں ثابت قدم رہنے والے ہی کامیابی کی منزل کو پا لیتے ہیں۔

اپنی قوت ارادی اورصحیح عادت کی بنا پر ہی ہمیں کامیابی نصیب ہوتی ہے۔ 1932 ء میں 'محمت ایسادبے' نے پیغمبر اسلام محمد ﷺ پر ایک کتاب لکھی ''حیرت انگیز محمد صلی اللہ علیہ وسلم''۔ نبی اکرم ﷺ صوفی نہیں تھے، انھوں نے اسکول، مدرسے کی تعلیم حاصل نہیں کی، انھوں نے تو اسلام کی تبلیغ بھی چالیس سال قبل شروع نہیں کی تھی لیکن جب انھوں نے سچائی کا اپنی قوم کو بتایا تو کسی نے مذاق اڑایا اور کسی نے کیا کہا، ایذا دینے کی کوشش کی، بچوں نے اڑنگے لگائے عورتوں نے غلاظت، شہر مکہ سے ہجرت پر مجبور کیا، نبی اکرم ﷺ کو ماننے والوں کی جائیدادیںچھین لیں۔ دس سال تک اسلام پھیلانے کی کوشش کرنے کے بعد بھی صرف گنے چنے لوگ تھے، جنھوں نے اسلام قبول کیا وہ غربت میں رہے۔

مگر جب ثابت قدم رہے تو اگلے دس میں آپ ﷺ سارے عرب کے حکمران اور دنیا کے آخری صاحب الکتاب دین کے پیغمبر بن گئے۔ضمناََ ایک اور ذکر کرتے چلوں کہ پاکستانی امریکن کمیونٹی کے اہم و نمایندہ تنظیم پاکستان لیگ آف امریکا کے ایک پروگرام گرینڈ روز ویلٹ بال روم میں کچھ وقت کے لیے رکا اور پھر نکل آیا۔ اس تقریب کے حوالے سے کچھ کہنا نہیں چاہتا۔ آج کا کالم دراصل کراچی علاقے بنارس میں واقع گورنمنٹ ڈگری عبدالحامد بدایونی کالج کو قبضہ کرنے کے لیے نذر آتش کرنے کے المیے سے متعلق ہے۔

15 ایکٹر زمین پر پہلے بکرا پیڑی اور جوتوں کی مارکیٹ بنا کر قبضہ کر لیا گیا اور پھر یہیں پر بس نہیں کی گئی۔ بلکہ کالج پر بھی قبضہ کرنے کے لیے اسے آگ لگا دی گئی، پندرہ ایکڑ زمین پر قبضے کے لیے تقریباََ ہر جماعت کو لینڈ مافیا نے حصہ دیا تھا۔ بڑی تکلیف ہوتی ہے کہ ایک پس ماندہ علاقے میں ایک عظیم درس گاہ جیسے جنرل ایوب نے امداد دی، ایک بڑی جگہ دی، لیکن اس کا یہ حال ہوا۔ مجھے یہاں مسٹر جوگن زاؤلس اور لاس انیجلس کے خوبصورت صورت نظاروں میں تعلیمی درسگاہ کیے لیے کی جانے والی جد وجہد یاد آ جاتی ہے، مجھے سرسید احمد خاں کی تاریخی جدوجہد یاد آ جاتی ہے۔

مجھے باچا خان بابا کی اصلاحی تحریک افغانیہ کے مدارس یاد آ جاتے ہیں، میں کس کس کو کتنا یاد کروں کتنی تاریخ پڑھوں، لیکن جب بدایوانی کالج کی آتشزدگی کو دیکھتا ہوں اور اپنی سیاسی و مذہبی جماعتوں کے ساتھ سماجی تنظیموں کے بے حس رویے کو دیکھتا ہوں تو مجھے شدت پسند اور داعش میں کچھ فرق محسوس نہیں ہوتا کہ تعلیم سے کسی کو محروم کرنے کے لیے جو ہتھکنڈے وہ استعمال کرتے ہیں، وہی لینڈ مافیا والے استعمال کرتے ہیں، ایک ایک اینکر سے بات کی، انھیں تصویریں دکھائیں انھیں تما م حالات سے آگاہی کرائی، کئی اینکر پرسنز نے مغرورانہ انداز میں انکار کر دیا، سیاسی جماعتوں کو واٹس اپ کو تصویر پوسٹ کر کے ایک ایک کو فون کر کے مذمتی بیان لگوائے، حکومت کا تو کچھ پوچھیں ہی نہیں۔ سیکڑوں طالب علموں کا مستقبل داؤ پر لگ گیا لیکن کسی کو پرواہ نہیں، امرا کے پرائیوٹ اسکولوں کی فیسیں کیا بڑھیں کہ میڈیا کئی روز تک ہاتھ دھو کر پیچھے پڑ گیا۔

یہ ہم سب کا المیہ ہے اس پر کسی بھی سیاسی جماعت سول سوسائٹی، سرکاری سطح پر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا کیونکہ ان کے ایجنڈے میں غریب بچوں کو تعلیم کا کوئی حق نہیں ہے۔ میں یونیورسٹی آف کیلی فورنیا لاس اینجلس (اکلا) کا ذکر اپنی ذات کے حوالے سے نہ کرتا، لیکن کبھی کبھی یہ سوچنے پر ضرور مجبور ہو جاتا ہوں کہ ہزار مخالفتوں کے باوجود وہاں تعلیم کے لیے ایک زندہ انسانوں کی سوچ ضمیر کے ساتھ زندہ ہے، یہاں ایسا نہیں ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں