دو چراغ ایک ساتھ گُل ہوئے
برصغیر کے معروف دانشور سندھی زبان کے ادیب سوبھوگیان چندانی سے ان کی ملاقات وہیں پر ہوئی۔
یہ ایک عجیب اتفاق ہے، دو مختلف لوگ دو مختلف علاقوں میں کم و بیش ایک ہی ماہ و سال میں ایک سرزمین سیالکوٹ میں وارد ہوئے دوسرے سرزمین امروہہ ، تقریباً 90 سال کی عمر پائی اور اس سے بھی بڑا اتفاق، یہ دونوں ایک ہی روز خالقِ حقیقی سے لاہور میں اور دوسرا کراچی میں جا ملے کہ دونوں کا چراغِ زندگی ہفتہ 3 اکتوبر کو گُل ہو گیا۔
ایک ڈاکٹر جاوید اقبال جو جسٹس بھی رہ چکے ان کا یہ اعزاز کافی تھا کہ وہ علامہ اقبال کے فرزند تھے ۔ان کی نماز جنازہ میں ملک کے صاحب اقتدار اشرافیہ کے بندگان نے شرکت کی اور خراج عقیدت پیش کیا، مگر مجھے اصل میں چاک گریباں والے مجاہد، کاوش رضوی کا تذکرہ مقصود ہے کیونکہ ان کی موت کی خبر بھی نہ آئی جو نہ الیکٹرانک میڈیا کی زینت بنے اور نہ پرنٹ میڈیا کی زینت، بلکہ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ وہ حبیب جالبؔ کی طرح زندہ رہے جیسا کہ جالب صاحب جیتے جی نہ الیکٹرانک میڈیا کی اور نہ پرنٹ میڈیا کی زینت رہے کیونکہ یہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جدوجہد میں مصروف عمل تھے یہی حال بلوچ شاعر گل خاں نصیر کا بھی رہا۔
سید کاوش رضوی ایک متمول گھرانے میں پیدا ہوئے آپ کا گھر کشادہ حویلی جیسا تھا جب عطا اللہ شاہ بخاری اور مولانا حسین احمد مدنی امروہہ جاتے تو وہیں قیام فرماتے تھے آپ کو پاکستان کا نعرہ اور آواز اچانک 1948ء کے ابتدائی دور میں کراچی کھینچ لایا آپ کا پورا گھرانہ تعلیم کے زیور سے آراستہ تھا۔ کراچی آنے کے لیے بس اہل خانہ کو چند دن پہلے مطلع کیا یہ غیر کی بستی تھی کئی روز در بدر مارے پھرے مگر پرعزم انسان تھے ایک روز وہ لائٹ ہاؤس کے پاس سے گزر رہے تھے بقول ان کے (کتاب سرخ دھمال)، انھوں نے ایک بلڈنگ پر ایک ہتھوڑا اور درانتی بنا ہوا نشان دیکھا اوپر گئے تو ان کی ملاقات کامریڈ امام علی نازش سے ہوئی اور چند لوگوں نے دوستوں جیسا سلوک کیا۔ اسی دوران کچھ عرصہ رہائش رہی۔ آفس میں سونے کی جگہ مل گئی۔ غرض یہ ان کی جوانی کی ابتدا تھی اور ذہنی نشوونما انھی مزدور کسان نظریات سے ہوئی۔
برصغیر کے معروف دانشور سندھی زبان کے ادیب سوبھوگیان چندانی سے ان کی ملاقات وہیں پر ہوئی۔ ان کی صحبت میں رہ کر انھوں نے سندھی زبان سے خاصی واقفیت حاصل کر لی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت میں جب ممتاز بھٹو سندھ کے وزیر اعلیٰ بنائے گئے تو اردو سندھی رفیقوں میں دوریاں پیدا ہونے لگیں تو یہ سید کاوش رضوی نے اردو سندھی سنگت قائم کی تا کہ اس خلیج کو پاٹا جا سکے۔ سید کاوش رضوی نے ہاری حقدار تحریک میں حیدر بخش جتوئی کا بھرپور ساتھ دیا اور جیل کی کوٹھڑیاں دیکھیں کیونکہ یہ لوگ وڈیرے نہ تھے جو جیلر ان کے ساتھ ایسا سلوک کرتا جیسا کہ منی لانڈرنگ والے آج کل جیل میں آرام کرتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جیل جانا کوئی آسان نہیں ہوتا تھا یہ جیل بے شمار لوگوں سے زندگی کی سوغات چھین چکے ہیں۔ جن میں حسن ناصر اور نذیر عباسی اس کی نمایاں مثال ہیں اور کامریڈ جام ساقی گمنامی کے دن گزار رہے ہیں۔
کاوش صاحب اپنے نظریات میں سامراجی عزائم کے خلاف رہے۔ 1950ء میں جب حضرت مولانا حسرتؔ موہانی پاکستان آئے تو اس جلسے کے انتظامات ڈینسو ہال لائبریری میں موصوف نے کیے جس میں خصوصیت سے شاعر و ادیب اور دانشوروں نے شرکت کی۔ ذرا غور فرمائیے 1950ء میں حسرت موہانی نے ڈینسو ہال میں کیا کہا۔ ''پاکستان کی فضا رومی امارات، ایرانی شہنشایت اور انتہا پسندی کے رجحانات سے آلودہ ہے۔ یہاں میرا دم گھٹتا ہے۔'' مولانا نے اپنی تقریر میں کہا کہ ملک میں حبس کا عالم ہے اگر یہاں ادیبوں، صحافیوں نے قلم نہ اٹھایا اور قدم نہ بڑھایا تو برصغیر کے کروڑوں انسانوں کا مستقبل تاریکی میں ڈوب جائے گا مولانا نے قرارداد مقاصد کی شدید مذمت کرتے ہوئے اس وقت کے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی شدید مذمت کی۔ کاوش رضوی نے 1956ء میں نیشنل پارٹی کی بنیاد رکھی۔ چاروں صوبوں کے اکابرین لاہور میں میاں افتخار الدین کے گھر پر جمع کیے۔
جن میں نمایاں حضرات محمود علی قصوری، جی ایم سید، حیدر بخش جتوئی، شہزادہ عبدالکریم، شیخ عبدالمجید سندھی، خان عبدالغفار خان اور دیگر حضرات شامل ہوئے جو کچھ عرصے بعد مولانا عبدالحمید بھاشانی کی شمولیت کے بعد نیشنل عوامی پارٹی کہلائی۔ 1969ء میں سکرنڈ ہاری کانفرنس میں شرکت کے لیے جو قافلہ پاپیادہ کراچی سے سکرنڈ پہنچا تھا اس کے روح رواں ہادی نقوی اور کاوش رضوی تھے۔ آپ نے سیاسی دھڑے بندیوں کو ختم کر کے قوم پرست سیکولر اور بائیں بازو کے لیڈروں کو یکجا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
مگر 1976ء کے اختتام کا دور تھا وہ ایک شام خدیجہ مارکیٹ شمالی ناظم آباد 5 مئی 1978ء کو ایک مشاعرے کی صدارت کر کے نکل رہے تھے کہ ایک برینڈ نیو مزدا کار نے انھیں اس شدت سے ہٹ کیا کہ وہ عمر بھر کے لیے اپنی ٹانگ سے محروم ہو گئے اور جدوجہد کی محفل ان کے بغیر سونی ہو گئی اور مرتے دم تک وہ اپنے پاؤں پر کھڑے نہ ہو سکے۔ موصوف اکثر آرٹس کونسل میں رفتگاں کی محفل پر جب کوئی پروگرام ہوتا تو صدارت فرماتے۔ کبھی کبھی ان کی نسل کے بعد آنے والے ان کو اپنے پروگرام میں لاتے اور لے جاتے خاکسار اکثر ان کے گھر جاتا رہا۔
یہ رفاقت زمانہ طالب علمی میں جب میں نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا صدر تھا اس وقت قائم ہوا۔ اور تادم مرگ جاری رہا۔ روزنامہ ایکسپریس میں صدر ممنون حسین صاحب کے عنوان سے ایک کالم لکھ ڈالا کیونکہ نوجوانی کے دور میں صدر صاحب بھی محفل نشین ہوتے تھے۔ کالم چھپتے ہی لاہور شہر کے کئی ادب نواز لوگوں نے فون کر ڈالے اور سب سے اہم بات یہ ہوئی کہ قصر صدارت کے معاونین میں صدر مملکت کا فون آ گیا۔ باقی جو ادب نواز حضرات تھے ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اگر آپ کی ضرورت پڑی تو ضرور ملاقات کروں گا۔ پہلے ممنون صاحب سے رابطہ بذریعہ پروٹوکول کیا۔ تاریخ ملاقات طے کی معاشی حالات کا ذکر کیا گیا تھا مرحوم کی5 بیٹیاں اور 2 لڑکے ہیں آخر وہ دن آ ہی گیا جب صدر صاحب سے ملاقات کراچی میں طے پائی۔
میں نے بتایا کہ میں براہ راست پہنچ جاؤں گا آپ اپنی فیملی کے ہمراہ آ جائیے گا۔ صدر مملکت جناب ممنون حسین نے خصوصی وقت ان کے لیے نکالا۔ میں ساڑھے 10 بجے طے شدہ جگہ پہنچ گیا مگر وہ نہ آئے۔ جب گیارہ بجنے والے تھے میں نے گھر رابطہ کیا۔ معلوم ہوا کہ وہ نہیں آ رہے۔ میرا عالم یہ ہوا بہ درجہ شرمندگی، کہ کاٹو تو لہو نہیں۔ کیونکہ نظریات ایک طرف مگر وعدہ خلافی ایسا کیوں ہوا؟ معلوم ہوا ان کے کچھ ہم عمر دوستوں نے ان کو مشورہ دیا کہ یہ اسٹوڈنٹس لیڈر قابل اعتبار نہیں ہوتے، ان کے جانے کیا مفادات ہیں۔ وہ لوگ ان کو عسرت میں چھوڑ گئے جو ان کے دوست بنتے تھے۔
اور کاوش صاحب کے گھر سے عشرت آج بھی کوسوں دور ہے، جب میں میت میں گیا تھا تو جہاں غم و اندوہ کی باتیں تھیں وہاں ان کے لواحقین کی مشکلات بھی تھیں مگر وقت اپنا سفر طے کرتا جا رہا ہے۔ اتوار کو ان کا جنازہ تھا اور نماز جنازہ۔ اسی وقت ملک میں ڈاکٹر جاوید اقبال کا پرشکوہ جنازہ جو ان کے شایان شان تھا۔ دوسری جانب دوسروں کے لیے مر جانے والے شاعر کا جنازہ تصویر غم بنا رہا۔ تمام احباب کو علم نہ ہوا کیونکہ گھر والوں نے میڈیا میں کوئی پٹی نہ چلائی نہ پرنٹ میڈیا کو معلوم ہوا مزدوروں، ہاریوں اور اہل دانش کی محفل کا یہ ستارہ غروب ہو گیا۔ مگر ان کی نظمیں اور انقلابی آہنگ کبھی نہ مٹنے والے ہیں۔ اس لیے ان کے کلام کی مختصر جھلکیاں ان کی کتاب سرخ دھمال سے اقتباس پیش خدمت ہے۔
تخت نہ ہو گا تاج نہ ہو گا
زر داروں کا راج نہ ہو گا
لرزاں ہیں ایوان
جاگا ہے انسان
دوسری آزاد نظم کے چند اشعار:
زندگی فکر سقراط ہے
زندگی علم مزدک کی سوغات ہے
زندگی ابن مریم کی سونپی ہوئی
سرکشیدہ' جواں' چاندنی رات ہے
ایک نئی بحر دیکھیے:
جب کوئی گھنی شعلہ گوں آواز
اس گھنی رات کے اندھیرے میں
چاندنی بن کے پھیل جاتی ہے
قبر ایسی خموش ظلمت میں
تیرا پیغام یوں مہکتا ہے
ایک ڈاکٹر جاوید اقبال جو جسٹس بھی رہ چکے ان کا یہ اعزاز کافی تھا کہ وہ علامہ اقبال کے فرزند تھے ۔ان کی نماز جنازہ میں ملک کے صاحب اقتدار اشرافیہ کے بندگان نے شرکت کی اور خراج عقیدت پیش کیا، مگر مجھے اصل میں چاک گریباں والے مجاہد، کاوش رضوی کا تذکرہ مقصود ہے کیونکہ ان کی موت کی خبر بھی نہ آئی جو نہ الیکٹرانک میڈیا کی زینت بنے اور نہ پرنٹ میڈیا کی زینت، بلکہ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ وہ حبیب جالبؔ کی طرح زندہ رہے جیسا کہ جالب صاحب جیتے جی نہ الیکٹرانک میڈیا کی اور نہ پرنٹ میڈیا کی زینت رہے کیونکہ یہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جدوجہد میں مصروف عمل تھے یہی حال بلوچ شاعر گل خاں نصیر کا بھی رہا۔
سید کاوش رضوی ایک متمول گھرانے میں پیدا ہوئے آپ کا گھر کشادہ حویلی جیسا تھا جب عطا اللہ شاہ بخاری اور مولانا حسین احمد مدنی امروہہ جاتے تو وہیں قیام فرماتے تھے آپ کو پاکستان کا نعرہ اور آواز اچانک 1948ء کے ابتدائی دور میں کراچی کھینچ لایا آپ کا پورا گھرانہ تعلیم کے زیور سے آراستہ تھا۔ کراچی آنے کے لیے بس اہل خانہ کو چند دن پہلے مطلع کیا یہ غیر کی بستی تھی کئی روز در بدر مارے پھرے مگر پرعزم انسان تھے ایک روز وہ لائٹ ہاؤس کے پاس سے گزر رہے تھے بقول ان کے (کتاب سرخ دھمال)، انھوں نے ایک بلڈنگ پر ایک ہتھوڑا اور درانتی بنا ہوا نشان دیکھا اوپر گئے تو ان کی ملاقات کامریڈ امام علی نازش سے ہوئی اور چند لوگوں نے دوستوں جیسا سلوک کیا۔ اسی دوران کچھ عرصہ رہائش رہی۔ آفس میں سونے کی جگہ مل گئی۔ غرض یہ ان کی جوانی کی ابتدا تھی اور ذہنی نشوونما انھی مزدور کسان نظریات سے ہوئی۔
برصغیر کے معروف دانشور سندھی زبان کے ادیب سوبھوگیان چندانی سے ان کی ملاقات وہیں پر ہوئی۔ ان کی صحبت میں رہ کر انھوں نے سندھی زبان سے خاصی واقفیت حاصل کر لی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت میں جب ممتاز بھٹو سندھ کے وزیر اعلیٰ بنائے گئے تو اردو سندھی رفیقوں میں دوریاں پیدا ہونے لگیں تو یہ سید کاوش رضوی نے اردو سندھی سنگت قائم کی تا کہ اس خلیج کو پاٹا جا سکے۔ سید کاوش رضوی نے ہاری حقدار تحریک میں حیدر بخش جتوئی کا بھرپور ساتھ دیا اور جیل کی کوٹھڑیاں دیکھیں کیونکہ یہ لوگ وڈیرے نہ تھے جو جیلر ان کے ساتھ ایسا سلوک کرتا جیسا کہ منی لانڈرنگ والے آج کل جیل میں آرام کرتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جیل جانا کوئی آسان نہیں ہوتا تھا یہ جیل بے شمار لوگوں سے زندگی کی سوغات چھین چکے ہیں۔ جن میں حسن ناصر اور نذیر عباسی اس کی نمایاں مثال ہیں اور کامریڈ جام ساقی گمنامی کے دن گزار رہے ہیں۔
کاوش صاحب اپنے نظریات میں سامراجی عزائم کے خلاف رہے۔ 1950ء میں جب حضرت مولانا حسرتؔ موہانی پاکستان آئے تو اس جلسے کے انتظامات ڈینسو ہال لائبریری میں موصوف نے کیے جس میں خصوصیت سے شاعر و ادیب اور دانشوروں نے شرکت کی۔ ذرا غور فرمائیے 1950ء میں حسرت موہانی نے ڈینسو ہال میں کیا کہا۔ ''پاکستان کی فضا رومی امارات، ایرانی شہنشایت اور انتہا پسندی کے رجحانات سے آلودہ ہے۔ یہاں میرا دم گھٹتا ہے۔'' مولانا نے اپنی تقریر میں کہا کہ ملک میں حبس کا عالم ہے اگر یہاں ادیبوں، صحافیوں نے قلم نہ اٹھایا اور قدم نہ بڑھایا تو برصغیر کے کروڑوں انسانوں کا مستقبل تاریکی میں ڈوب جائے گا مولانا نے قرارداد مقاصد کی شدید مذمت کرتے ہوئے اس وقت کے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی شدید مذمت کی۔ کاوش رضوی نے 1956ء میں نیشنل پارٹی کی بنیاد رکھی۔ چاروں صوبوں کے اکابرین لاہور میں میاں افتخار الدین کے گھر پر جمع کیے۔
جن میں نمایاں حضرات محمود علی قصوری، جی ایم سید، حیدر بخش جتوئی، شہزادہ عبدالکریم، شیخ عبدالمجید سندھی، خان عبدالغفار خان اور دیگر حضرات شامل ہوئے جو کچھ عرصے بعد مولانا عبدالحمید بھاشانی کی شمولیت کے بعد نیشنل عوامی پارٹی کہلائی۔ 1969ء میں سکرنڈ ہاری کانفرنس میں شرکت کے لیے جو قافلہ پاپیادہ کراچی سے سکرنڈ پہنچا تھا اس کے روح رواں ہادی نقوی اور کاوش رضوی تھے۔ آپ نے سیاسی دھڑے بندیوں کو ختم کر کے قوم پرست سیکولر اور بائیں بازو کے لیڈروں کو یکجا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
مگر 1976ء کے اختتام کا دور تھا وہ ایک شام خدیجہ مارکیٹ شمالی ناظم آباد 5 مئی 1978ء کو ایک مشاعرے کی صدارت کر کے نکل رہے تھے کہ ایک برینڈ نیو مزدا کار نے انھیں اس شدت سے ہٹ کیا کہ وہ عمر بھر کے لیے اپنی ٹانگ سے محروم ہو گئے اور جدوجہد کی محفل ان کے بغیر سونی ہو گئی اور مرتے دم تک وہ اپنے پاؤں پر کھڑے نہ ہو سکے۔ موصوف اکثر آرٹس کونسل میں رفتگاں کی محفل پر جب کوئی پروگرام ہوتا تو صدارت فرماتے۔ کبھی کبھی ان کی نسل کے بعد آنے والے ان کو اپنے پروگرام میں لاتے اور لے جاتے خاکسار اکثر ان کے گھر جاتا رہا۔
یہ رفاقت زمانہ طالب علمی میں جب میں نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا صدر تھا اس وقت قائم ہوا۔ اور تادم مرگ جاری رہا۔ روزنامہ ایکسپریس میں صدر ممنون حسین صاحب کے عنوان سے ایک کالم لکھ ڈالا کیونکہ نوجوانی کے دور میں صدر صاحب بھی محفل نشین ہوتے تھے۔ کالم چھپتے ہی لاہور شہر کے کئی ادب نواز لوگوں نے فون کر ڈالے اور سب سے اہم بات یہ ہوئی کہ قصر صدارت کے معاونین میں صدر مملکت کا فون آ گیا۔ باقی جو ادب نواز حضرات تھے ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اگر آپ کی ضرورت پڑی تو ضرور ملاقات کروں گا۔ پہلے ممنون صاحب سے رابطہ بذریعہ پروٹوکول کیا۔ تاریخ ملاقات طے کی معاشی حالات کا ذکر کیا گیا تھا مرحوم کی5 بیٹیاں اور 2 لڑکے ہیں آخر وہ دن آ ہی گیا جب صدر صاحب سے ملاقات کراچی میں طے پائی۔
میں نے بتایا کہ میں براہ راست پہنچ جاؤں گا آپ اپنی فیملی کے ہمراہ آ جائیے گا۔ صدر مملکت جناب ممنون حسین نے خصوصی وقت ان کے لیے نکالا۔ میں ساڑھے 10 بجے طے شدہ جگہ پہنچ گیا مگر وہ نہ آئے۔ جب گیارہ بجنے والے تھے میں نے گھر رابطہ کیا۔ معلوم ہوا کہ وہ نہیں آ رہے۔ میرا عالم یہ ہوا بہ درجہ شرمندگی، کہ کاٹو تو لہو نہیں۔ کیونکہ نظریات ایک طرف مگر وعدہ خلافی ایسا کیوں ہوا؟ معلوم ہوا ان کے کچھ ہم عمر دوستوں نے ان کو مشورہ دیا کہ یہ اسٹوڈنٹس لیڈر قابل اعتبار نہیں ہوتے، ان کے جانے کیا مفادات ہیں۔ وہ لوگ ان کو عسرت میں چھوڑ گئے جو ان کے دوست بنتے تھے۔
اور کاوش صاحب کے گھر سے عشرت آج بھی کوسوں دور ہے، جب میں میت میں گیا تھا تو جہاں غم و اندوہ کی باتیں تھیں وہاں ان کے لواحقین کی مشکلات بھی تھیں مگر وقت اپنا سفر طے کرتا جا رہا ہے۔ اتوار کو ان کا جنازہ تھا اور نماز جنازہ۔ اسی وقت ملک میں ڈاکٹر جاوید اقبال کا پرشکوہ جنازہ جو ان کے شایان شان تھا۔ دوسری جانب دوسروں کے لیے مر جانے والے شاعر کا جنازہ تصویر غم بنا رہا۔ تمام احباب کو علم نہ ہوا کیونکہ گھر والوں نے میڈیا میں کوئی پٹی نہ چلائی نہ پرنٹ میڈیا کو معلوم ہوا مزدوروں، ہاریوں اور اہل دانش کی محفل کا یہ ستارہ غروب ہو گیا۔ مگر ان کی نظمیں اور انقلابی آہنگ کبھی نہ مٹنے والے ہیں۔ اس لیے ان کے کلام کی مختصر جھلکیاں ان کی کتاب سرخ دھمال سے اقتباس پیش خدمت ہے۔
تخت نہ ہو گا تاج نہ ہو گا
زر داروں کا راج نہ ہو گا
لرزاں ہیں ایوان
جاگا ہے انسان
دوسری آزاد نظم کے چند اشعار:
زندگی فکر سقراط ہے
زندگی علم مزدک کی سوغات ہے
زندگی ابن مریم کی سونپی ہوئی
سرکشیدہ' جواں' چاندنی رات ہے
ایک نئی بحر دیکھیے:
جب کوئی گھنی شعلہ گوں آواز
اس گھنی رات کے اندھیرے میں
چاندنی بن کے پھیل جاتی ہے
قبر ایسی خموش ظلمت میں
تیرا پیغام یوں مہکتا ہے