امن فارمولا اور مودی سرکار کی ہٹ دھرمی
آپ کا کیا خیال ہے جنگ بہت آسان اورسیدھا راستہ ہے؟
آپ کا کیا خیال ہے جنگ بہت آسان اورسیدھا راستہ ہے؟ ہرگز نہیں، ہرگز نہیں، یہ وہ طوفان ہے جس کی موجوں کا تخمینہ نہیں لگایا جاسکتا، ہر وہ لیڈر جو جنگ کرنے کا سوچ رہا ہے اسے ادراک ہونا چاہیے کہ ایک مرتبہ طبل جنگ بج گیا تو پالیسی آپ کے گھرکی باندی نہیں رہے گی بلکہ ان دیکھے اور ناقابل اختیارحالات کی غلام ہوگی۔ جنگ کی ہولناکیوں سے باخبر آئن اسٹائن نے کہا تھا کہ مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ تیسری عالمی جنگ کن ہتھیاروں سے لڑی جائے گی لیکن یہ ضرور جانتا ہوں کہ چوتھی عالمی جنگ لاٹھیوں اور پتھروں سے لڑی جائے گی۔
پاک بھارت کے معاملات خاصے پیچیدہ ہیں۔ اس میں کئی تلخ یادیں بھی ہیں لیکن حسن نیت، تدبر و حکمت اور صبروتحمل کے ساتھ ہرگرہ کھولی جاسکتی ہے، تمام مشکلات پر قابو پایا جاسکتا ہے، دنیا بھرکے سماجی وعسکری ماہرین کا متفقہ قول ہے کہ دنیا کے تمام مسائل کا حل جنگ نہیں مذاکرات ہی سے ممکن ہے۔ مذاکرات سے کوئی بھی ذی فہم انسان انکار نہیں کرسکتا کیونکہ بڑی سے بڑی جنگ یہاں تک کہ جنگ عظیم کا آخری معرکہ بھی مذاکرات کی صورت میں لڑا گیا تھا۔
مذاکرات بھی جنگ کا ایک لازمی حصہ ہوتے ہیں۔ جنگ کا خاتمہ بھی مذاکرات کے معرکے سے ہوتا ہے۔ مذاکرات کے معرکہ میں اسلحہ وبارود استعمال نہیں کیا جاتا،دلائل استعمال کیے جاتے ہیں، کوائف پیش کیے جاتے ہیں،کوائف کے ثبوت سامنے رکھے جاتے ہیں، مذاکرات کی میز پر آنے سے گریزکرنیوالا فریق یہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ وہ جنگ جیت رہا ہے، اس کی فتح گلی کا آخری موڑ مڑ رہی ہے، مگر یہ تاریخی صداقت ہے کہ آج تک کسی نے بھی جنگ جیت کر نہیں دکھائی۔ جنگ میں فتح کا دعویٰ خواہ کسی بھی فریق کی جانب سے کیا جائے، حقیقت میں کوئی فاتح نہیں ہوتا، سب ہارجاتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے چار نکاتی امن فارمولا پیش کرکے اپنی نیک نیتی اورخلوص کا ثبوت دیدیا ہے، وزیر اعظم پاکستان نے بالکل درست کہا کہ امن اور مسائل کے حل کا راستہ وہی ہے جو ہم نے تجویز کیا ہے اور آج یا کل بھارت کو اسی راستے پر آنا ہوگا۔
کئی دہائیوں سے بھارت کشمیریوں پر مظالم ڈھا رہا ہے۔ بھارت کو ایک نہ ایک دن کشمیر میں ظلم کا راستہ چھوڑنا پڑے گا، عالمی سطح پر کشمیر کے بارے میں پاکستان کی بات سنی اور مانی جا رہی ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے صرف مسائل ہی نہیں بلکہ ان کا حل بھی بتایا کہ ہم نے خطے میں امن کے لیے خلوص کے ساتھ تجاویز دی ہیں، امن اور مسائل کے حل کا راستہ وہی ہے، جو ہم نے تجویز کیا ہے، امن کے لیے پاکستان کی تجاویز پر عمل کرنا ہوگا، اس راستے پر آج آیا جائے یا کل راستہ یہی ہے، جتنی جلد یہ راستہ اختیارکیا جائے اتنا ہی بہتر ہے۔
دوسری جانب بھارت برسوں سے قائم اپنی ہٹ دھرمی برقرار رکھے ہوئے ہے اور میں نہ مانوں کے مصداق ایک ہی رٹ لگائے ہوئے ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کے بیان میں صرف ایک نکتہ دہشتگردی چھوڑنے پر زور دینا ''چورمچائے شور'' کی مانند ہے۔ کون نہیں جانتا کہ بھارت ایک عرصے سے مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشتگردی میں ملوث ہے، پاکستان کے سرحدی علاقوں، بلوچستان میں کشیدگی اور شورش میں بھارت کس حد تک ملوث ہے یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے۔
پاکستان کو دولخت کرنے اور سانحہ سقوط ڈھاکا میں ملوث ہونے کا اعتراف بھارتی وزیر اعظم بزبان خود کرچکے ہیں۔عجیب منطق ہے،دہشتگردی کی جڑ کو نظر اندازکرکے دہشتگردی کو ختم کرنے کی باتیں کی جارہی ہے۔ عالمی سطح پر دہشتگردی کی بڑی وجہ ایسی ہی غاصبانہ پالیسیاں ہے۔ جو مسئلہ خطے میں بے چینی اور کشیدگی کے بنیادی اسباب میں سرفہرست ہے۔ جب تک اس مسئلے پر بات نہیں ہوگی اس کا منصفانہ حل تلاش نہیں کیا جائے گا اس وقت تک کشمیریوں میں پائے جانے والا بے انصافی اور اپنے جائز حقوق سے محرومی کا احساس دور نہیں ہوسکتا۔
اصل میں مودی سرکار ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم نہیں کرنا چاہتی کیونکہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی سیاست انتہا پسندی پر مبنی ہے۔ اس سیاست کے دو بنیادی عوامل ہیں یعنی ہندو توا اور پاکستان دشمنی۔ نریندرمودی کے ہوتے ہوئے بھارت کبھی بھی پاکستان کے ساتھ مذاکرات نہیں کرے گا کیونکہ جیسے ہی پاکستان کے ساتھ بھارت نے مذاکرات شروع کیے نریندر مودی کی سیاست کی نظریاتی بنیادیں منہدم ہوجائیں گی۔ وہ یہ تاثر نہیں دینا چاہتے کہ وہ پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ تاثر ان کی انتہا پسندانہ سیاست کے رائج طریقوں کے خلاف ہے، اس لیے بھارت مذاکرات سے بھاگ رہا ہے۔
بھارت ہمیشہ الزام لگاتا رہا کہ پاکستان کی سرحدوں سے بھارت میں دہشتگردی ہوتی ہے لیکن دنیا جان چکی ہے کہ بھارت کے الزامات درست نہیں، بھارت میں دہشتگردی کی ہونے والی بعض کارروائیوں میں خود بھارت نے ہی منصوبہ بندی کی تھی۔ سمجھوتہ ایکسپریس کے واقعے سمیت کئی واقعات میں بھارت ایکسپوز ہوچکا ہے۔بھارت کی پاکستان مخالف پالیسی نہ صرف اس خطے کے امن کے لیے خطرہ ہے بلکہ نئی دنیا کی تعمیر اور نئی عالمی صف بندی کی راہ میں بھی رکاوٹ ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کی بنیادی وجہ مسئلہ کشمیر ہے، جسے حل ہونا چاہیے۔ کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے سلامتی کونسل نے خود قرار داد منظور کی تھی مگر اس کی عدم دلچسپی اور بے حسی سے واضح ہوتا ہے کہ اس نے مسئلے کے حل کے لیے نہ کبھی بھارت پر دباؤ ڈالا اور نہ کبھی کوئی واضح اور ٹھوس پالیسی اپنائی۔ اقوام متحدہ مسئلہ کشمیر پر اپنی قرار دادوں پر عملدرآمد کرادیتی تو آج دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ صورتحال نہیں ہوتی، تعلقات بہتر ہوتے، خطے میں امن قائم ہوجاتا، جنگ کے خطرات ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ٹل جاتے مگر اقوام متحدہ مسئلہ کشمیر پر اپنی قرار دادوں پر عملدرآمد کرانے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے۔
وزیر اعظم نے عالمی فورم پر جنوبی ایشیا کی سلامتی اور امن کے لیے بھارت کی جانب سے پیدا کردہ تناؤ اورکشیدہ صورتحال کو اجاگر کرکے پاکستان کا موقف نہ صرف بڑے جراتمندانہ انداز سے پیش کیا بلکہ اقوام متحدہ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ یہ ایک جیتی جاگتی حقیقت ہے کہ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل اگر چاہیں تو کہیں انڈونیشیا میں مشرقی تیمورکے نام سے اور سوڈان میں جنوبی سوڈان کے نام سے عیسائی ریاستیں قائم ہوجاتی ہیں اور نہ چاہیں توکشمیر، فلسطین، افغانستان اور چیچنیا میں حق خود ارادیت کی تحریکوں کے حق میں آواز بلند نہیں کی جاتی، یہ عالمی طاقتوں کا دہرا معیار ہے، عالمی برادری کو مسلمانوں کے خلاف امتیازی رویے کو ختم کرنا ہوگا۔ اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں پر یہ ذمے دارے عائد ہوتی ہے کہ وہ امن فارمولے کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے بھارت پر دباؤ بڑھائیں تاکہ اس خطے میں مستقل طور پر امن قائم ہوسکے۔
پاک بھارت کے درمیان سالہا سال سے جو کھیل جاری ہے اسے اب ختم ہونا چاہیے اب اس لاحاصل جنگ کو ختم ہونا چاہیے، یہ اسی صورت ختم ہوگی جب فریقین وسعت قلبی کا مظاہرہ کرینگے۔اندھیروں سے اندھیرے نہیں مٹائے جاسکتے، تاریکیاں دور کرنے کے لیے شمعیں جلانا پڑتی ہیں، نفرتوں کی دیواریں نفرتوں سے نہیں گرائی جاسکتیں۔ انھیں زمین بوس کرنے کے لیے محبت کا سیل رواں درکار ہوا کرتا ہے۔اگر اس خطے میں مستقل بنیادوں پر امن قائم کرنا ہے تو کشمیر سمیت تمام متنازعہ امور پر بات چیت کے لیے عالمی طاقتوں کو اپنا موثر عملی کردار ادا کرنا چاہیے۔