قائد اعظم دیکھ رہے ہو اپنا پاکستان
منزل کا تعین ہوچکا تھا، سامنے نظر آتی منزل سے نظریں نہیں ہٹائی جاسکتی تھیں۔
ہمارے قائد کو اردو نہیں آتی تھی، وہ انگریزی ہی میں تقریرکیا کرتے تھے اور انگریزی کی الف ب سے ناواقف عوام اپنے قائد کی طرف منہ کیے خاموشی سے ان کی تقریر سنتے تھے اور نہایت مطمئن ہوکر جلسہ گاہ سے جایا کرتے تھے۔ ایسے جیسے انھوں نے اپنے قائد کا ایک ایک لفظ سن کر سمجھ لیا ہو، عوام قائد کے لہجے کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ ساتھ چلتے تھے۔ دراصل قائد نے اپنے کردار سے لوگوں کا اعتماد حاصل کرلیا تھا۔ لوگ اپنے قائد پر اندھا اعتماد کرتے تھے، انھیں یقین تھا کہ ان کا قائد انھیں دھوکا نہیں دے گا، ان سے جھوٹ نہیں بولے گا، جھوٹے دلاسے نہیں دے گا اور پھر وہ تحریک تھی ایک آزاد ملک حاصل کرنے کی۔
منزل کا تعین ہوچکا تھا، سامنے نظر آتی منزل سے نظریں نہیں ہٹائی جاسکتی تھیں۔ چٹاگانگ سے کشمور، لورا لائی، مانسہرہ، ٹوبہ ٹیک سنگھ، مٹھی تک سب اپنے قائد کی زبان سے نکلے ایک ایک لفظ پر یقین رکھتے تھے۔ بنگال کا دھوتی بنیان پہنے، کشتی کا سوار مچھیرا، بھوکا پیاسا، سب کو اپنے قائد پر بھروسہ تھا، لوگ جانتے تھے کہ قائد سچ بول رہا ہے اس لیے کہ سچ اور جھوٹ کا عکس چہرے پر آجاتا ہے چہرہ سارا بھیدکھول دیتا ہے اور قائد کا چہرہ بھی سچ بولتا تھا۔
پاکستان بن گیا تو قائد نے (جنھیں اردو، بنگلہ نہیں آتی تھی) اردو اور بنگالی کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیا۔ قائد کو پتا تھا وہ خوب جانتے تھے کہ میرا اور عوام کا جو اعتماد بھروسے کا رشتہ ہے وہ کوئی دوسرا قائم نہیں رکھ سکے گا۔ وہ اپنی جیب کے ''کھوٹے سکوں'' سے واقف تھے۔
قائد نے عوام سے جو عہد وپیماں کیے تھے ان کے مطابق ایک آزاد ملک انھیں دے دیا، ساتھ دو تین اہم باتیں بھی کردیں ''اقلیتوں کو ہر طرح کی مکمل آزادی حاصل ہوگی۔ افسر شاہی کو عوام کا خادم بن کر فرائض انجام دینا ہوں گے۔ تعلیم پر خصوصی توجہ دینی ہوگی، ملک کا خزانہ عوام کی امانت ہوگا۔ اس خزانے میں خیانت نہیں ہوگی۔ (خود نے اپنے دورگورنر جنرلی میں چائے کافی، بسکٹ سے ہی مہمانوں کی تواضع کی۔ خود پر ایک پیسہ خرچ نہیں کیا) مگر قائد کے بعد جو حشر بپا ہوا وہ سب کچھ بتارہا تھا کہ وہ آزادی جس پر دنیا حیران تھی قوم کو کیسا کیسا پریشان کرے گی۔
قائد کی آخری چند سانسیں باقی تھیں۔ ماڑی پور کے ہوائی اڈے پر ایک ایسی ایمبولینس قائد کے لیے بھیجی گئی جو راستے ہی میں رک گئی۔ ایمبولینس سے قائد کا اسٹریچر نکالا گیا تاکہ کھلی فضا میں قائد بہتری محسوس کرسکیں۔ قائد کی بہن فاطمہ جناح اخبار سے مکھیاں دور بھگا رہی تھیں، قائد کے معالج اور نرس بھی ساتھ تھے، قریب ماڑی پور روڈ پر اکا دکا ٹریفک رواں دواں تھا۔
قائد کے بعد ''اک شخص'' نے عوام کا پیچھا نہیں چھوڑا، وہ اک شخص کبھی ایوب خان، کبھی یحییٰ خان، کبھی ضیا الحق کی صورت ہم پر مسلط رہا۔ قائدکی بات سچ تھی ان کے بعد عوام کا اعتماد کوئی حاصل نہ کرسکا۔ حتیٰ کہ آج بھی عوام یہ چاہتے ہیں کہ ان کا وزیراعظم ، اقوام متحدہ میں کیا کہہ کر آیا ہے، ان تک وہ تقریر اپنے پورے مفہوم کے ساتھ فوری طور پر پہنچے، لورا لائی کا بلوچ مٹھی کا تھری، سب چاہتے ہیں کہ ان کے سربراہ حکومت کا خطاب فوری ان تک پہنچے۔
یہی نہیں سینیٹ کا چیئرمین قومی اسمبلی و صوبائی اسمبلیوں کے اسپیکر حضرات اور تمام سینیٹرز، ممبران اسمبلی کیا تقریریں کررہے ہیں، عوام سننا چاہتے ہیں۔ مگر افسوس کہ عوام سے تعلق کا حکمرانوں کو ذرا برابر خیال نہیں ہے۔ بس ووٹ لینا ہی عوامی تعلق رہ گیا ہے۔وہ قربت وہ اپنائیت کہاں مر گئی؟
عظیم رہنما ماؤزے تنگ کسی انگریز سے انگریزی میں بات کررہے تھے تو اس انگریز نے ماؤزے سے کہا ''آپ اتنی اچھی انگریزی بول لیتے ہیں تو آپ دنیا سے انگریزی میں خطاب کیوں نہیں کرتے؟'' تو غیرت مند ماؤزے تنگ کا جواب تھا ''میں دنیا کو بتانا چاہتاہوں کہ چین گونگی قوم نہیں ہے'' سازشیں جاری ہیں۔ انگریزی صحافت کچھ اور کہتی ہے اردو صحافت کچھ اور بتاتی ہے ،غرض کہ ہر سطح پر امتیاز برتا جارہاہے سپریم کورٹ کے واضح احکامات کی صریحاً خلاف ورزی ہورہی ہے۔ سینیٹ اور اسمبلیوں میں انگریزی جاری ہے پتا نہیں یہ پارلیمنٹیرین کہاں اور کس سے مخاطب ہیں۔
جو بھی حکمران آیا اس نے عوام کو آٹے میں نمک کے برابر دیا باقی سارا خود ہڑپ کرگیا۔ قائد قومی خزانے کو عوام کی امانت سمجھتے تھے بعد کو حکمرانوں نے قومی خزانے کو بے دریغ اور دونوں ہاتھوں سے بلکہ دونوں پیروں سے بھی لوٹا۔ قائد نے افسر شاہی کو عوام کا خادم بن کر کام کرنے کا کہا اور یہ افسر شاہی حکمرانوں کے خادم بن کر ''بربادی وطن'' میں شامل رہے، بلکہ حکمرانوں کو بربادی کے نئے نئے رستے دکھاتے، سمجھاتے رہے۔
قائد نے اقلیتوں کا خیال رکھنے کو کہا حکمرانوں نے اقلیتوں کی آبادیاں جلا ڈالیں، ان کی عبادت گاہیں تباہ کردیں۔ قائد نے کہا تھا ''میں ایک سنہرا پاکستان دیکھ رہا ہوں'' قائد نے تو صحیح کہا تھا مگر بعد کو آنے والے بدطینت حکمرانوں نے سنہری کی بجائے ملک کو اندھیروں کے سپرد کردیا۔ غریب مزدور، کسان، ہاری سب روتے رہے، ترستے رہے اور حکمران قومی خزانے سے اپنی تجوریاں بھرتے رہے، آج یہ حال ہے کہ پورے پاکستان کی زمینوں پر حکمرانوں اور ان کے حاشیہ برداروں کا قبضہ ہے۔
کراچی ہی کی مثال دیتا ہوں، اسکیم 33 سپر ہائی وے پر غریب چپراسیوں اورکلرکوں کی سوسائیٹیوں پر حکمرانوں کے حاشیہ بردار قابض ہوکر بیٹھے ہیں جب وہاں جنگل بیابان تھا تو غریب سرکاری ملازمین چپراسی کلرک اپنا پیٹ کاٹ کے زمین کی قسطیں بھرتے رہے اور جب جنگل منگل بن گیا تو ظالم بے رحم حکمرانوں نے اپنے حاشیہ پرداروں کو قبضہ کروا دیا اب بے چارے اصل الائٹی محض پلاٹ کی فائلیں لیے پھررہے ہیں۔
قائد نے توکچھ اور ہی کہا تھا بعد کو جو کچھ ہوا اس پر کیا کہا جائے۔ حبیب جالب نے 25 دسمبر 1980 قائدکی سالگرہ پر پہلی بار یہ نظم کراچی پریس کلب میں پڑھی تھی وہی نذر قارئین کررہاہوں۔ ایک ایک مصرع پڑھتے جایے، غورکرتے جایے:
تو نے کہا تھا اب نہ چلے گا محلوں کا دستور
بنے گی وہ قانون جو ہوگی بات ہمیں منظور
ہر اک چہرے پر چمکے گا آزادی کا نور
لیکن ہم کو بیچ رہا ہے ''اک'' جابر سلطان
قائد اعظم دیکھ رہے ہو اپنا پاکستان
کتنے سرکٹواکر ہم نے ملک بنایا تھا
دار پہ چڑھ کر آزادی کا گیت سنایا تھا
اس دھرتی سے انگریزوں کو دور بھگایا تھا
اس دھرتی پر آج مسلط ہیں، ان کے دربان
قائد اعظم دیکھ رہے ہو اپنا پاکستان
جنگ چھڑے تو ہم نردھن ہی ان کے بینک بچائیں
دولت والے ''مری'' میں بیٹھے تھر تھرکانپے جائیں
ملک کی خاطر ہم اپنے سینوں پر گولی کھائیں
پھر بھی بھوکے ننگے بابا، ہم مزدور کسان
قائد اعظم دیکھ رہے ہو، اپنا پاکستان
منزل کا تعین ہوچکا تھا، سامنے نظر آتی منزل سے نظریں نہیں ہٹائی جاسکتی تھیں۔ چٹاگانگ سے کشمور، لورا لائی، مانسہرہ، ٹوبہ ٹیک سنگھ، مٹھی تک سب اپنے قائد کی زبان سے نکلے ایک ایک لفظ پر یقین رکھتے تھے۔ بنگال کا دھوتی بنیان پہنے، کشتی کا سوار مچھیرا، بھوکا پیاسا، سب کو اپنے قائد پر بھروسہ تھا، لوگ جانتے تھے کہ قائد سچ بول رہا ہے اس لیے کہ سچ اور جھوٹ کا عکس چہرے پر آجاتا ہے چہرہ سارا بھیدکھول دیتا ہے اور قائد کا چہرہ بھی سچ بولتا تھا۔
پاکستان بن گیا تو قائد نے (جنھیں اردو، بنگلہ نہیں آتی تھی) اردو اور بنگالی کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیا۔ قائد کو پتا تھا وہ خوب جانتے تھے کہ میرا اور عوام کا جو اعتماد بھروسے کا رشتہ ہے وہ کوئی دوسرا قائم نہیں رکھ سکے گا۔ وہ اپنی جیب کے ''کھوٹے سکوں'' سے واقف تھے۔
قائد نے عوام سے جو عہد وپیماں کیے تھے ان کے مطابق ایک آزاد ملک انھیں دے دیا، ساتھ دو تین اہم باتیں بھی کردیں ''اقلیتوں کو ہر طرح کی مکمل آزادی حاصل ہوگی۔ افسر شاہی کو عوام کا خادم بن کر فرائض انجام دینا ہوں گے۔ تعلیم پر خصوصی توجہ دینی ہوگی، ملک کا خزانہ عوام کی امانت ہوگا۔ اس خزانے میں خیانت نہیں ہوگی۔ (خود نے اپنے دورگورنر جنرلی میں چائے کافی، بسکٹ سے ہی مہمانوں کی تواضع کی۔ خود پر ایک پیسہ خرچ نہیں کیا) مگر قائد کے بعد جو حشر بپا ہوا وہ سب کچھ بتارہا تھا کہ وہ آزادی جس پر دنیا حیران تھی قوم کو کیسا کیسا پریشان کرے گی۔
قائد کی آخری چند سانسیں باقی تھیں۔ ماڑی پور کے ہوائی اڈے پر ایک ایسی ایمبولینس قائد کے لیے بھیجی گئی جو راستے ہی میں رک گئی۔ ایمبولینس سے قائد کا اسٹریچر نکالا گیا تاکہ کھلی فضا میں قائد بہتری محسوس کرسکیں۔ قائد کی بہن فاطمہ جناح اخبار سے مکھیاں دور بھگا رہی تھیں، قائد کے معالج اور نرس بھی ساتھ تھے، قریب ماڑی پور روڈ پر اکا دکا ٹریفک رواں دواں تھا۔
قائد کے بعد ''اک شخص'' نے عوام کا پیچھا نہیں چھوڑا، وہ اک شخص کبھی ایوب خان، کبھی یحییٰ خان، کبھی ضیا الحق کی صورت ہم پر مسلط رہا۔ قائدکی بات سچ تھی ان کے بعد عوام کا اعتماد کوئی حاصل نہ کرسکا۔ حتیٰ کہ آج بھی عوام یہ چاہتے ہیں کہ ان کا وزیراعظم ، اقوام متحدہ میں کیا کہہ کر آیا ہے، ان تک وہ تقریر اپنے پورے مفہوم کے ساتھ فوری طور پر پہنچے، لورا لائی کا بلوچ مٹھی کا تھری، سب چاہتے ہیں کہ ان کے سربراہ حکومت کا خطاب فوری ان تک پہنچے۔
یہی نہیں سینیٹ کا چیئرمین قومی اسمبلی و صوبائی اسمبلیوں کے اسپیکر حضرات اور تمام سینیٹرز، ممبران اسمبلی کیا تقریریں کررہے ہیں، عوام سننا چاہتے ہیں۔ مگر افسوس کہ عوام سے تعلق کا حکمرانوں کو ذرا برابر خیال نہیں ہے۔ بس ووٹ لینا ہی عوامی تعلق رہ گیا ہے۔وہ قربت وہ اپنائیت کہاں مر گئی؟
عظیم رہنما ماؤزے تنگ کسی انگریز سے انگریزی میں بات کررہے تھے تو اس انگریز نے ماؤزے سے کہا ''آپ اتنی اچھی انگریزی بول لیتے ہیں تو آپ دنیا سے انگریزی میں خطاب کیوں نہیں کرتے؟'' تو غیرت مند ماؤزے تنگ کا جواب تھا ''میں دنیا کو بتانا چاہتاہوں کہ چین گونگی قوم نہیں ہے'' سازشیں جاری ہیں۔ انگریزی صحافت کچھ اور کہتی ہے اردو صحافت کچھ اور بتاتی ہے ،غرض کہ ہر سطح پر امتیاز برتا جارہاہے سپریم کورٹ کے واضح احکامات کی صریحاً خلاف ورزی ہورہی ہے۔ سینیٹ اور اسمبلیوں میں انگریزی جاری ہے پتا نہیں یہ پارلیمنٹیرین کہاں اور کس سے مخاطب ہیں۔
جو بھی حکمران آیا اس نے عوام کو آٹے میں نمک کے برابر دیا باقی سارا خود ہڑپ کرگیا۔ قائد قومی خزانے کو عوام کی امانت سمجھتے تھے بعد کو حکمرانوں نے قومی خزانے کو بے دریغ اور دونوں ہاتھوں سے بلکہ دونوں پیروں سے بھی لوٹا۔ قائد نے افسر شاہی کو عوام کا خادم بن کر کام کرنے کا کہا اور یہ افسر شاہی حکمرانوں کے خادم بن کر ''بربادی وطن'' میں شامل رہے، بلکہ حکمرانوں کو بربادی کے نئے نئے رستے دکھاتے، سمجھاتے رہے۔
قائد نے اقلیتوں کا خیال رکھنے کو کہا حکمرانوں نے اقلیتوں کی آبادیاں جلا ڈالیں، ان کی عبادت گاہیں تباہ کردیں۔ قائد نے کہا تھا ''میں ایک سنہرا پاکستان دیکھ رہا ہوں'' قائد نے تو صحیح کہا تھا مگر بعد کو آنے والے بدطینت حکمرانوں نے سنہری کی بجائے ملک کو اندھیروں کے سپرد کردیا۔ غریب مزدور، کسان، ہاری سب روتے رہے، ترستے رہے اور حکمران قومی خزانے سے اپنی تجوریاں بھرتے رہے، آج یہ حال ہے کہ پورے پاکستان کی زمینوں پر حکمرانوں اور ان کے حاشیہ برداروں کا قبضہ ہے۔
کراچی ہی کی مثال دیتا ہوں، اسکیم 33 سپر ہائی وے پر غریب چپراسیوں اورکلرکوں کی سوسائیٹیوں پر حکمرانوں کے حاشیہ بردار قابض ہوکر بیٹھے ہیں جب وہاں جنگل بیابان تھا تو غریب سرکاری ملازمین چپراسی کلرک اپنا پیٹ کاٹ کے زمین کی قسطیں بھرتے رہے اور جب جنگل منگل بن گیا تو ظالم بے رحم حکمرانوں نے اپنے حاشیہ پرداروں کو قبضہ کروا دیا اب بے چارے اصل الائٹی محض پلاٹ کی فائلیں لیے پھررہے ہیں۔
قائد نے توکچھ اور ہی کہا تھا بعد کو جو کچھ ہوا اس پر کیا کہا جائے۔ حبیب جالب نے 25 دسمبر 1980 قائدکی سالگرہ پر پہلی بار یہ نظم کراچی پریس کلب میں پڑھی تھی وہی نذر قارئین کررہاہوں۔ ایک ایک مصرع پڑھتے جایے، غورکرتے جایے:
تو نے کہا تھا اب نہ چلے گا محلوں کا دستور
بنے گی وہ قانون جو ہوگی بات ہمیں منظور
ہر اک چہرے پر چمکے گا آزادی کا نور
لیکن ہم کو بیچ رہا ہے ''اک'' جابر سلطان
قائد اعظم دیکھ رہے ہو اپنا پاکستان
کتنے سرکٹواکر ہم نے ملک بنایا تھا
دار پہ چڑھ کر آزادی کا گیت سنایا تھا
اس دھرتی سے انگریزوں کو دور بھگایا تھا
اس دھرتی پر آج مسلط ہیں، ان کے دربان
قائد اعظم دیکھ رہے ہو اپنا پاکستان
جنگ چھڑے تو ہم نردھن ہی ان کے بینک بچائیں
دولت والے ''مری'' میں بیٹھے تھر تھرکانپے جائیں
ملک کی خاطر ہم اپنے سینوں پر گولی کھائیں
پھر بھی بھوکے ننگے بابا، ہم مزدور کسان
قائد اعظم دیکھ رہے ہو، اپنا پاکستان