مہاجرت کا عذاب

پاکستان دنیا بھر میں سب سے زیادہ تعداد میں مہاجرین کو پناہ دینے والا ملک بن چکا ہے۔


اکرام سہگل October 10, 2015

مصنف لیون یورس (Leon Uris) نے اپنی کتاب ''ایکسوڈس'' (وسیع نقل مکانی) میں یہودی پناہ گزینوں کی یورپ کے مختلف ممالک سے مشرق وسطیٰ کی طرف ہجرت کے مصائب اور معائب کی انتہائی ماہرانہ افسانوی طرز تحریر میں تصویر کشی کی ہے۔ یہ جنگ عظیم دوم کے زمانے کی بات ہے۔ اب 60 سال بعد تاریخ خود کو معکوس سمت میں دہرا رہی ہے۔

اب مشرق وسطیٰ اور افریقہ سے ہجرت کرنے والے بحیرہ روم کو عبور کر کے مختلف راستوں سے یورپ میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پناہ گزینوں کی سب سے بڑی تعداد شام سے آ رہی ہے جو یورپ جاتے ہوئے یونانی جزیروں تک پہنچ گئے ہیں۔آئے روز بحیرہ روم میں کشتیاں ڈوبنے کے باعث پناہ گزینوں کی امکات کی خبریں اخبارات میں شایع ہوتی رہتی ہیں۔ دوسری طرف یورپی ممالک اس سوال پر اختلاف کا شکار ہیں کہ آیا ان تارکین وطن کو داخلے کی اجازت دی جائے یا نہ دی جائے۔ یورپی یونین بھی اس بڑے پیمانے پر انسانی بحران کو حل کرنے میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔آج یہ بہت بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔

اس بار پناہ گزینوں کی تعداد میں دس سے بارہ گنا اضافہ ہو چکا ہے جب کہ پاکستان دنیا بھر میں سب سے زیادہ تعداد میں مہاجرین کو پناہ دینے والا ملک بن چکا ہے۔ یہاں گزشتہ تین عشروں سے پناہ گزینوں کی مسلسل آمد جاری ہے۔ پناہ گزینوں کی سب سے بڑی تعداد افغان باشندوں کی ہے جو 1980ء کے اوائل میں افغانستان پر سوویت جارحیت کے باعث اپنا وطن چھوڑ کر پاکستان چلے آئے۔ مہاجرین کی دوسری لہر روسی افواج کے انخلاء کے بعد ہونے والی خانہ جنگی کا نتیجہ تھی، طالبان کی تنگ نظر حکومت کے نتیجے میں بھی بہت سے افغانیوں نے مہاجرت اختیار کی اور پاکستان آ گئے۔

اور بعد میں جب امریکا نے 9/11 کے واقعے کے بعد افغانستان پر حملہ کیا تب بھی لاکھوں کی تعداد میں افغانوں نے پاکستان کی بین الاقوامی سرحد عبور کر لی۔اب بھی افغان پاکستان میں داخل ہو رہے ہیں۔ ایک وقت تھا جب پاکستان 60 لاکھ سے زیادہ افغانیوں کی مہمانداری کر رہا تھا۔ اب نئی صورت حال میں جو یورپ کے لیے پیدا ہوئی ہے وہاں 3 لاکھ پناہ گزین پہنچنا چاہتے ہیں حالانکہ پاکستان میں اس وقت بھی 35 لاکھ سے زیادہ پناہ گزین موجود ہیں جن میں سے 17 لاکھ پناہ گزینوں کا باقاعدہ اندراج ہو چکا ہے جو کہ ریفیوجی کیمپوں میں رہ رہے ہیں جب کہ 16 لاکھ مہاجرین پاکستان کے مختلف شہروں اور قصبوں میں پھیل چکے ہیں۔

لاکھوں کی تعداد میں افغان مقامی افسروں کو رشوت وغیرہ دیکر پاکستانی شہریت حاصل کر چکے ہیں جنھوں نے یہاں پر کاروبار قائم کر لیے ہیں اور جائیداد بنا لی ہے۔ اسلام آباد کے ایک پوش سیکٹر میں زیادہ تر مکانات افغانیوں کے پاس ہیں۔پاکستان کا شاید ہی کوئی ایسا شہر ہو جہاں افغان باشندے موجود نہ ہوں۔کراچی اور لاہور میں بھی ان کی بڑی تعداد آباد ہے۔دوسری طرف خود ہمارے اپنے تارکین وطن کی بڑی تعداد یورپ'مشرق وسطیٰ' کینیڈ اور امریکا میں مقیم ہے۔ وہاں رہنے والے پیشہ ور افراد نے محنت سے روپیہ کمایا ہے جب کہ جن لوگوں نے اپنی حیثیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے قومی خزانے کی لوٹ مار کی ہے ان کے پر تعیش بنگلے دبئی اور لندن میں دیکھے جا سکتے ہیں۔

پناہ گزینوں کی وجہ سے مقامی آبادی میں عدم استحکام پیدا ہوتا ہے اور کچھ سماجی مسائل بھی سر اٹھاتے ہیں۔ ملک بھر میں جو پناہ گزین پھیلے ہوئے ہیں ان کا اندراج نہیں کیا جا سکا۔ ان میں جرائم پیشہ افراد' انتہا پسند حتیٰ کہ دہشت گرد عناصر بھی شامل ہیں جو پاکستان دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔اس حوالے سے کئی گرفتاریاں بھی ہو چکی ہیں۔ اس کی وجہ سے ملک کو سیکیورٹی کے خطرات لاحق ہو رہے ہیں۔ علاوہ ازیں وہ ہمارے قومی وسائل کا بھی بے دریغ استعمال کرتے ہیں جن میں درختوں کا کاٹنا اور اپنے مویشیوں کے لیے چارے کا حصول شامل ہے جس کے ہماری معیشت اور ماحولیات پر دور رس مضر اثرات مرتب ہونگے۔

وقت آ گیا ہے کہ پناہ گزینوں کو لازمی طور پر اپنے آبائی ملک میں واپس چلے جانا چاہیے۔ 2002ء کے اوائل میں اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے دفتر کے زیر اہتمام پاکستان سے افغان مہاجرین کی واپسی شروع ہوئی ہے لیکن ہر جانے والے کی جگہ پر وہاں سے چند اور لوگ آ جاتے ہیں۔یوں معاملہ آج بھی جوں کا توں ہے۔ پاکستان میں پے در پے آنے والی حکومتیں ان مہاجرین کی واپسی کی رفتار کو تیز رکھنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں۔ ادھر افغانستان کے اندر پھر طالبان کے حملے شروع ہو گئے ہیں اور یہ ایک ایسا تنازعہ ہے جو جلدی حل ہوتا نظر نہیں آتا۔ قندوز کی مثال ہمارے سامنے ہے۔

انٹرنیشنل سیکیورٹی اسسٹنس فورس (آئی ایس اے ایف) یا ایساف افغانستان کے اندر سیکیورٹی کی ذمے داریاں پوری کرنے کے علاوہ اقتصادی منصوبے بھی پیش کر رہی ہے جس کی بنا پر افغان دارالحکومت کابل میں کسی حد تک امن و امان قائم ہے۔ قندوز ایک شمالی صوبے کا صدر مقام ہے جو طالبان سے 2001ء میں چھینا گیا تھا۔ اب پندرہ سال بعد اس علاقے پر طالبان کا دوبارہ قبضہ افغانستان کو صدر اشرف غنی کی حکومت کے لیے بہت بڑے صدمے کا باعث ہ۔

ے جس سے ان کی حکومت کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے اور یہ تاثر پیدا ہوا ہے یہ حکومت خاصی کمزور ہے۔ افغان فوجوں نے بہت شدید لڑائی کے بعد جس میں کہ امریکی طیاروں کی بمباری نے بھی افغان فوج کی مدد کی ہے قندوز پر دوبارہ قبضہ کر لیا ہے لیکن اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اس شہر سے بھی 6000 سے زیادہ لوگ متشددانہ کارروائیوں کے باعث نکلنے پر مجبور ہوئے جب کہ شہر میں قتل و غارت بھی جاری ہے جن کا بڑا نشانہ حفظان صحت کے کارکنوں کو بنایا جاتا ہے۔

اب چونکہ غیر ملکی فوجی دستوں کے انخلاء کا وقت قریب آ رہا ہے جس کے نتیجے میں افغانستان میں طالبان کی سرکشی میں اور زیادہ شدت آئے گی جنھیں افغان نیشنل آرمی قابو میں لانے میں ناکام رہے گی۔ یہاں یہ امر خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ 2003ء سے 2014ء کے دوران 6000 سے زیادہ افغان فوجی ہلاک کیے جا چکے ہیں جب کہ ہر مہینے تقریباً 4000 فوجی فوج کو چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں۔ لگتا ہے کہ جس طرح سوویت فوج کے انخلاء کے بعد افغانستان کی فوج بکھر گئی تھی اب بھی پھر اسی طرح ہو گا جب امریکی اور ایساف کی فوجیں افغانستان سے نکل جائیں گی۔ تب خانہ جنگی میں بھی مزید شدت پیدا ہو جائے گی اور افغان شہری ایک بار پھر مہاجرت پر مجبور ہو جائیں گے۔ ان کا زیادہ زور پاکستانی سرحد عبور کرنے پر رہے گا۔

ایران کی طرف بہت کم جائیں گے۔ ایران پناہ گزینوں کو اپنی سرحد عبور کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان مزید افغان مہاجرین کو قبول کرنے کے لیے تیار ہے؟ مزید برآں کیا کابل کا جگری دوست بھارت ایک لاکھ یا زیادہ افغانی پناہ گزینوں کو قبول کرنے پر آمادہ ہو سکتا ہے؟ یہاں میں ایک بات بھول گیا ہوں کہ افغانی مسلمان گائے کا گوشت بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔

بین الاقوامی برادری یورپ میں یہ کہہ رہی ہے کہ آخر پاکستان مزید تارکین وطن کو اپنی سرزمین پر کیوں قبول نہیں کر سکتا حالانکہ امریکا اور مغربی ممالک کو اس خطے میں ایسے حالات پیدا کرنے چاہئیں کہ پناہ گزین اپنے اصل وطن کو واپس جا سکیں۔

''ایکسوڈس'' یعنی بہت بڑے پیمانے پر نقل مکانی کو روکنے کا واحد حل یہی ہے کہ اپنے دروازے بند کر دیے جائیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔