سیکولر بھارت یعنی ہندو بھارت
یہ خوبصورت تبصّرہ ٹی وی مبصّر کامران خان کے ساتھ منسوب ہے کہ سیکولر بھارت کا مطلب ہندو بھارت ہے
ISLAMABAD:
یہ خوبصورت تبصّرہ ٹی وی مبصّر کامران خان کے ساتھ منسوب ہے کہ سیکولر بھارت کا مطلب ہندو بھارت ہے جہاں اسے سیکولر کے نام پر کھلی چھٹی ہو۔ یہ اس قدر چالاک اور دور اندیش قوم ہے کہ شروع دن سے ہی سیکولر بھارت کا پروپیگنڈا کر رہی ہے۔ میں کافی عرصہ ہوا بھارت نہیں گیا ورنہ ہر ائر پورٹ پر 'ویلکم ٹو سیکولر بھارت' سننا پڑتا تھا۔
جدید بھارت کے لیڈر جواہر لال نہرو نے بلند آواز میں یہ نعرہ لگایا ورنہ جس ملک میں کروڑوں کی تعداد میں غیر ہندو صرف مسلمان ہی آباد ہوں وہ صرف سیکولر کیسے کہلا سکتا ہے اور اگر سیکولر نہ کہلائے تو پھر باقی کیا رہ جاتا ہے۔ کروڑوں بت پرستوں کا ایک ملک جب کہ دنیا میں کئی دوسرے بت پرست ملک بھی آباد ہیں اور سیکولر بھی کہلاتے ہیں۔
ہوشیار بھارت کے ہاں سیکولر کے معنی اینٹی مسلم کے ہیں اور بھارت اپنی آزادی اور خود مختاری کو مسلمانوں سے ہر حال میں بچانا چاہتا ہے وہ مسلمان جنھوں نے ایک ہزار سال اس پر حکومت کی ہے اور جس کا ہندو بھارت کو بہت دکھ ہے اور اسی لیے وہ سیکولر بھارت کہلوانے پر اصرار کرتا ہے تا کہ اس کے نام سے بھی مسلمان قوم کا نام نکل جائے جو سیکولر بھارت میں اس کی آبادی کے تناسب کو صرف ہندو ہی نہیں رہنے دیتا بلکہ اس کو نیا نام اور رنگ دیتا ہے اس لیے جس پاکستانی نے سیکولر بھارت کو ہندو بھارت کہا ہے اس نے ایک حقیقت بیان کر دی ہے کہ اس ملک میں عیسائی اور مسلمان اپنی زندگیوں کو خطرے میں سمجھتے ہیں ابھی کل کی بات ہے کہ ایک مسلمان کو گائے کا گوشت کھانے کے الزام میں سنگسار کر دیا گیا۔
جب سے بھارت میں نئی ہندو پرست حکومت قائم ہوئی ہے بھارتی ہندوؤں میں غیر ہندوؤں کو ختم کرنے کا سلسلہ چل نکلا ہے۔ بھارت کا وزیر اعظم نریندر مودی جب گجرات کا وزیر اعلیٰ تھا تو اس نے وہاں مسلمانوں پر زندگی کو تنگ کر رکھا تھا۔ اور ان ہی دنوں جب الیکشن میں ہمارے موجود حکمران جیت گئے تھے تو انھوں نے نعرہ لگایا تھا کہ پاکستانی قوم نے ہمیں بھارت کے ساتھ دوستی اور کاروباری تعلق کے لیے ووٹ دیے ہیں۔ یہ نعرہ پاکستان اور ہندوستان میں حساس دلوں میں قیامت برپا کر گیا لیکن اس نعرے کی اب تک تردید نہیں کی گئی یا اس کا کوئی دوسرا مطلب نہیں نکالا گیا۔
بھارت ایک آزاد ملک ہے وہ چاہے تو سیکولر رہے چاہے تو کوئی اور رنگ اختیار کر لے لیکن پاکستانی مسلمان اسے اپنا قاتل بنانا قبول نہیں کر سکتے۔ پاکستان کے بانی حضرت قائد اعظم نے قیام پاکستان کے زمانے میں لندن سے ہندوستان آئے ہوئے قاہرہ میں قیام کیا اور وہاں دانشمند مصریوں سے خطاب بھی کیا۔ قائد نے صاف صاف کہا کہ آپ لوگ برصغیر میں ایک مسلمان ملک کے قیام کی تائید کریں کیونکہ اگر یہ ملک قائم نہ ہوا تو وہاں کی ہندو آبادی مسلمانوں کو ختم کر دے گی۔
قائد نے تفصیل کے ساتھ مسلم برصغیر کے حالات سے بے خبر عربوں کو اپنی جدوجہد کا پس منظر اور ضرورت کو واضح کیا اور ثابت کیا کہ اس خطے میں ایک مسلمان ملک کا قیام کیوں ضروری ہے یعنی قائد کی بصیرت میں یہ بات صاف تھی کہ آزاد مسلمان ملک اس خطے کے مسلمانوں کی حفاظت کے لیے کیوں ضروری ہے۔ آج ہم یہ دیکھ رہے کہ سیکولرازم کے بھارتی مفہوم کے مطابق ہندوؤں کے معتقدات کیوں مقدس ہیں۔ بلاشبہ مسلمانوں پر فرض نہیں کہ وہ گائے کا گوشت کھائیں۔
خصوصاً یہ بات ذہن میں رکھ کر کہ ہندو قوم گائے کو مقدس اور ماں کا درجہ دیتی ہے لیکن اگر کبھی مسلمان گائے کے گوشت میں کوئی ممانعت نہ پا کر اسے کھا لیتے ہیں تو وہ گردن زدنی کے مجرم نہیں ہو جاتے کیونکہ ان کے مذہب میں گائے کا گوشت کھانا ممانعت نہیں ہے۔ بھارت میں ہندو سامراج مسلمانوں پر اپنے عقائد نافذ نہیں کر سکتا۔ وہ مسلمانوں کی زندگی اور وجود کی علامتیں مساجد وغیرہ کو منہدم کر کے مسلمانوں کو ان کے عقائد سے محروم نہیں کر سکتا۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ ہندو مت کوئی مذہب نہیں ہے قدیم روایات کا ایک مجموعہ ہے۔
بقول ایک دانشور کے آپ مسلمان نہ جانے کتنے اصولوں کے پابند ہیں اور آپ لوگوں کی زندگی پر نہ جانے کتنے ہی احکامات نافذ ہوتے ہیں لیکن ہم ان سب سے آزاد ہیں۔ گائے وغیرہ کا تقدس بھی ایک ہندو روایت ہے۔ بہرکیف اگر کوئی قوم اپنی کسی روایت کو ایمان کا درجہ دیتی ہے تو اس کی مرضی اس لیے مسلمانوں کو خصوصاً ان مسلمانوں کو جو ہندوؤں کے ساتھ رہتے ہیں اس سلسلے میں محتاط رہنا چاہیے جب کہ گائے کا عدم احترام ان کا کوئی مذہبی عقیدہ یا پابندی نہیں ہے۔
پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں کے اندر دوسرے مذاہب کے آثار موجود ہیں اور بعض آثار اس قدر مقدس سمجھے جاتے ہیں کہ بھارت سے ہندو یہاں ان کی زیارت کے لیے آیا کرتے ہیں اور ثواب کماتے ہیں ہم نے ان آثار کو بڑی ہی حفاظت کے ساتھ رکھا ہوا ہے جس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ان آثار کو کبھی ختم کر دیں گے۔ یہ آثار ہم دونوں ملکوں کی تاریخ کا حصہ ہیں۔ ہندو ازم چونکہ محض روایات کا مجموعہ ہے اس لیے ہم پر ان روایات کا احترام لازم ہے تا کہ فتنہ و فسادات کا راستہ نہ کھلے اور دونوں قومیں امن کے ساتھ آباد رہیں۔