دلچسپ باتیں
یہ ان دنوں کی بات ہے جب ایورنیو فلم اسٹوڈیو میں پی۔این۔آر پروڈکشن کی نئی فلم ’’میں چپ رہوں گی‘‘
KARACHI:
یہ ان دنوں کی بات ہے جب ایورنیو فلم اسٹوڈیو میں پی۔این۔آر پروڈکشن کی نئی فلم ''میں چپ رہوں گی'' کی مسلسل شوٹنگ چل رہی تھی اور اس شوٹنگ میں سنگیتا بحیثیت اداکارہ بھی کام کر رہی تھی اور بحیثیت ہدایت کارہ بھی اپنے فرائض انجام دے رہی تھی، کچھ دیر کے بعد اداکار قوی بھی دولہا کے روپ میں شیروانی پہنے سیٹ پر آگئے۔
اب ان کے اور سنگیتا کے مشترکہ شاٹس فلمائے جانے لگے۔ قوی اپنے کردار کے حساب سے حجلۂ عروسی میں ہوتے ہوئے بھی کچھ کھویا کھویا سا تھا اور پہلی رات کی دلہن کے قریب ہونے کی بجائے اس سے بہت دور نظر آرہا تھا۔ رات دو بجے تک یہ شوٹنگ ہوتی رہی پھر دوسرے دن سیٹ میں تبدیلی کے بعد اسٹوڈیو کے اس فلور پر دو دن بعد سنگیتا اورعثمان پیرزادہ کی شوٹنگ کا آغاز کردیا گیا تھا۔
سنگیتا کا پروگرام تھا کہ وہ ان دس بارہ دنوں کے اسپیل میں اپنی اس فلم کی ساری اِن ڈور شوٹنگ ختم کرلے گی۔ فلم میں عثمان پیرزادہ ، سنگیتا سے محبت کرتا تھا مگر پھر نارسائی ان کا نصیب بن گئی تھی ۔ قوی اور سنگیتا فلم کے مرکزی کردار تھے جن کے کردار بڑے ہی جاندار تھے مگر عثمان پیرزادہ کا کردار بھی ایک ہیرو کا تھا تاہم وہ ایک روایتی کردار ادا کر رہا تھا۔
لیکن وہ اپنی پرفارمنس اچھی دے رہا تھا۔ عثمان پیرزادہ ٹی وی اسٹیج کا ایک باصلاحیت آرٹسٹ تھا وہ کئی ٹی وی ڈراموں میں بہت اچھی اداکاری کرچکا تھا، خاص طور پر ''کرب'' میں اس کا کردار پسند کیا گیا تھا پھر فلم ''پرکھ'' میں بھی اس نے اچھا کام کیا تھا اور اس کے کریڈٹ پر جاوید جبار کی ایک انگریزی زبان میں بنائی گئی پاکستانی فلم بیانڈ دا لاسٹ ماؤنٹین (Beyond The Last Mountain)بھی تھی جو ایک کمرشل فلم کی طرح ہٹ نہ ہوسکی تھی مگر اس میں عثمان پیرزادہ کی اداکاری قابل ذکر تھی۔
عثمان پیرزادہ نے فلموں میں زیادہ کام تو نہیں کیا مگر جتنا بھی کیا اس میں اس کی فنی صلاحیتوں کا اظہار نظر آتا تھا۔ عثمان پیرزادہ کے خون میں فن اور آرٹ شامل ہے اس کے والد رفیع پیر اپنے وقت کے نامور فنکار تھے۔ وہ ہر فن مولا تھے، یہ ایک ایسے گھرانے کا فنکار ہے جس گھرانے نے چار مرتبہ عوامی آرٹسٹ دیے جن میں فیضان پیرزادہ، سلمان پیرزادہ، عمران پیرزادہ اور عثمان پیرزادہ ہیں۔ عثمان کی اہلیہ ثمینہ پیزادہ بھی اسی خاندان سے جڑی ہوئی ہیں، ان کی ایک الگ شناخت ہے۔
عظیم فنکار رفیع پیر کے یہ صاحب زادے بھی اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے فن کی دنیا میں آئے اور نہ صرف اپنا نام روشن کیا بلکہ اپنے نامور والد رفیع پیر کے نام کی شہرت کو بھی بڑھاوا دیا۔ رفیع پیر ایک فنکار ہی کا نام نہیں ہے رفیع پیر ایک اسکول آف تھاٹ کا نام ہے جس نے وطن کی ثقافت کو فروغ دیا اور رفیع پیر تھیٹر کے ذریعے پاکستان کو تہذیب و ثقافت کے رنگوں کو یکجا کر کے بیرون ملک بھی بڑے اچھے پیمانے پر روشناس کرایا۔
یہ وہ دور تھا جب کسی نے بھی تھیٹر ورکشاپ کی اہمیت کے بارے میں نہیں سوچا تھا اور اس کام کا بیڑا صرف رفیع پیرزادہ جیسے آرٹ لور (Art Lover)شخص نے اٹھایا تھا ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے جن دنوں سارے پنجاب میں، شہر شہر اور گاؤں گاؤں رفیع پیر تھیٹر کا چرچا تھا وہاں چوہدری فرزند علی سرکس والے بھی بڑے مشہور تھے۔ رفیع پیر تھیٹر کے ذریعے لوگوں کی تفریح کے لیے پپٹ شوز اور ڈرامے کیے جاتے تھے تو چوہدری فرزند علی سرکس والے شیروں، ہاتھیوں، گھوڑوں اور دیگر جانوروں کے ساتھ شہر شہر، گاؤں گاؤں اور بستی بستی سرکس کے ذریعے لوگوں کی تفریح کا سامان مہیا کرتے تھے۔
لیکن رفیع پیر تھیٹر ورکشاپ کی قدر و قیمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ رفیع پیرکو باہر کے مختلف ممالک کی طرف سے فیسٹیول کرانے کے لیے دعوت نامے موصول ہوتے تھے اور پھر رفیع پیر تھیٹر کے بینر تلے بیرون ممالک پاکستانی ثقافت کے رنگ بکھیرے جاتے تھے۔ رفیع پیرزادہ کے انتقال کے بعد ان کے چاروں بیٹوں نے رفیع پیر تھیٹر کی شہرت میں کسی طور پر بھی کمی نہیں آنے دی اور ان کے چاروں بیٹے رفیع پیر تھیٹر ورکشاپ کو اپنی شب و روز کی محنتوں سے چار چاند لگاتے رہے۔
اب میں پھر عثمان پیرزادہ کی طرف آتا ہوں جس نے فلم میں آنے سے پہلے اسٹیج اور ٹی وی ڈراموں میں اپنی صلاحیتوں کو منوایا تھا۔ عثمان پیرزادہ نے ڈرامے پروڈیوس بھی کیے،اداکاری کے دوران ثمینہ سے محبت کا آغاز ہوا۔ چھ دنوں تک محبت دل ہی دل میں آگے بڑھتی رہی پھر کھل کر سامنے آگئی اور 1974 میں عثمان پیرزادہ اور ثمینہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے، شادی کے بعد بھی دونوں کا فنی سفر بڑی کامیابی کے ساتھ جاری ہے کبھی عثمان اس سفر میں آگے نکل جاتا ہے اور کبھی ثمینہ اس سفر میں اپنے شوہر سے آگے بڑھ جاتی ہے۔
دونوں آرٹسٹ ہونے کے ساتھ ساتھ فلمساز اور ہدایت کار بھی بن چکے ہیں اب میں پھر سے ''میں چپ رہوں گی'' کے سیٹ پر آجاتا ہوں۔ عثمان پیرزادہ کی اداکاری سے سنگیتا جتنی مطمئن تھی اس سے کہیں زیادہ سنگیتا کو اس کی شخصیت اچھی لگی تھی، سنگیتا نے بتایا کہ عثمان پیرزادہ وقت پر فلم کے سیٹ پر آجاتا ہے اپنے کردار کو پڑھتا ہے سمجھتا ہے اور پھر بڑی خوبصورتی سے اس کی ادائیگی کرتا ہے جب میں نے سیٹ پر عثمان پیرزادہ سے باتوں ہی باتوں میں یہ پوچھا کہ عثمان مجھے سچائی کے ساتھ یہ بتاؤ کہ تم کو خاتون ہدایت کارہ سنگیتا کے ساتھ کام کرنا کیسا لگا۔
عثمان پیرزادہ نے بے ساختہ کہا '' میرے نزدیک سنگیتا بہت مرد ہدایتکاروں سے ذرا ہٹ کر ہے اس کے کام کرنے کا انداز روایتی نہیں ہے اور اس کا ثبوت اس کی فلم ''سوسائٹی گرل'' ہے جسے باکس آفس پر بڑی کامیابی نصیب ہوئی ہے۔'' ابھی ہماری باتیں سیٹ پر ہو رہی تھیں کہ سنگیتا کی طرف سے عثمان پیرزادہ کو اشارہ ملا کہ اب وہ کیمرے کے سامنے آجائے اور عثمان پیرزادہ کیمرے کی طرف چلا گیا۔ اس سیٹ پر چند روز شوٹنگ ہوتی رہی، دوسرے ہفتے اس فلور پر ایک نئے سیٹ پر فلم کا تھیم سانگ فلم بند کیا جانا تھا جس کے لیے ایک خوبصورت سیٹ تیار کیا جا رہا تھا۔
جس دن اس سیٹ پر تھیم سانگ کی فلم بندی تھی۔ اس دن سنگیتا نے بہت سے فلمی صحافیوں کو بھی سیٹ پر آنے کی دعوت دی تھی۔ یہ تھیم سانگ تسلیم فاضلی نے لکھا تھا اور اس گیت کے ساتھ بھی ایک دلچسپ بات جڑی ہوئی تھی۔ جس دن فلم ''میں چپ رہوں گی'' کا تھیم سانگ لکھنے کے لیے تسلیم فاضلی کو آفس بلوایا گیا تھا۔ آفس میں موسیقار کمال احمد، سنگیتا میں اور سنگیتا کی امی مہتاب بیگم بھی موجود تھیں ۔
انھوں نے تسلیم فاضلی سے کہا ''فاضلی آج جو گیت تم لکھو گے وہ اس فلم کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہے اور یہ گیت ساری فلم کی جان ہے اور فلم کی کہانی اسی گیت کے گرد گھومتی ہے، میں چاہتی ہوں کہ تمہارا گیت کا مکھڑا کچھ اس قسم کا ہونا چاہیے کہ فلم کی ہیروئن کہہ رہی ہے ''تڑپوں گی، کئی راتوں کی اٹھ کر پیاس جوانی کی یوں ہی سہوں گی، میں چپ رہوں گی'' فاضلی نے بے ساختہ کہا ارے واہ! کیا بات ہے۔ دو شاعروں کی صحبت نے تو آپ کو بھی شاعر بنادیا ہے۔ اس جملے پر کمرے میں قہقہے بکھر گئے تھے، پھر جب تسلیم فاضلی نے جو گیت لکھا تھا اس کا مکھڑا اسی مضمون کے ساتھ باندھا تھا ۔ فائنل مکھڑا پھر اس طرح تھا:
تڑپوں گی میں راتوں کو اٹھ کر
پیاس جوانی کی یوں ہی ہوں گی
کچھ نہ کہوں گی
میں چپ رہوں گی
پھر جب یہ تھیم سانگ عکس بند کرلیا گیا تو جس نے بھی یہ گیت دیکھا سنگیتا کی لاجواب اداکاری کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکا تھا۔ جب یہ فلم نمائش کے لیے پیش کی گئی تو اپنے تھیم سانگ کی وجہ سے خاص طور پر عورتوں میں بڑی پسند کی گئی تھی اور اخبارات میں کافی دنوں تک اس فلم کی کہانی گیت ہدایت کاری اور سنگیتا کی اداکاری کے بڑے چرچے رہے تھے اورکریٹکس نے اس فلم کو خاص طور پر سنگیتا کی ایک آرٹ فلم قرار دیا تھا۔ اور اس فلم کو ایک آرٹ مووی کی حیثیت سے پسند کیا گیا تھا۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب ایورنیو فلم اسٹوڈیو میں پی۔این۔آر پروڈکشن کی نئی فلم ''میں چپ رہوں گی'' کی مسلسل شوٹنگ چل رہی تھی اور اس شوٹنگ میں سنگیتا بحیثیت اداکارہ بھی کام کر رہی تھی اور بحیثیت ہدایت کارہ بھی اپنے فرائض انجام دے رہی تھی، کچھ دیر کے بعد اداکار قوی بھی دولہا کے روپ میں شیروانی پہنے سیٹ پر آگئے۔
اب ان کے اور سنگیتا کے مشترکہ شاٹس فلمائے جانے لگے۔ قوی اپنے کردار کے حساب سے حجلۂ عروسی میں ہوتے ہوئے بھی کچھ کھویا کھویا سا تھا اور پہلی رات کی دلہن کے قریب ہونے کی بجائے اس سے بہت دور نظر آرہا تھا۔ رات دو بجے تک یہ شوٹنگ ہوتی رہی پھر دوسرے دن سیٹ میں تبدیلی کے بعد اسٹوڈیو کے اس فلور پر دو دن بعد سنگیتا اورعثمان پیرزادہ کی شوٹنگ کا آغاز کردیا گیا تھا۔
سنگیتا کا پروگرام تھا کہ وہ ان دس بارہ دنوں کے اسپیل میں اپنی اس فلم کی ساری اِن ڈور شوٹنگ ختم کرلے گی۔ فلم میں عثمان پیرزادہ ، سنگیتا سے محبت کرتا تھا مگر پھر نارسائی ان کا نصیب بن گئی تھی ۔ قوی اور سنگیتا فلم کے مرکزی کردار تھے جن کے کردار بڑے ہی جاندار تھے مگر عثمان پیرزادہ کا کردار بھی ایک ہیرو کا تھا تاہم وہ ایک روایتی کردار ادا کر رہا تھا۔
لیکن وہ اپنی پرفارمنس اچھی دے رہا تھا۔ عثمان پیرزادہ ٹی وی اسٹیج کا ایک باصلاحیت آرٹسٹ تھا وہ کئی ٹی وی ڈراموں میں بہت اچھی اداکاری کرچکا تھا، خاص طور پر ''کرب'' میں اس کا کردار پسند کیا گیا تھا پھر فلم ''پرکھ'' میں بھی اس نے اچھا کام کیا تھا اور اس کے کریڈٹ پر جاوید جبار کی ایک انگریزی زبان میں بنائی گئی پاکستانی فلم بیانڈ دا لاسٹ ماؤنٹین (Beyond The Last Mountain)بھی تھی جو ایک کمرشل فلم کی طرح ہٹ نہ ہوسکی تھی مگر اس میں عثمان پیرزادہ کی اداکاری قابل ذکر تھی۔
عثمان پیرزادہ نے فلموں میں زیادہ کام تو نہیں کیا مگر جتنا بھی کیا اس میں اس کی فنی صلاحیتوں کا اظہار نظر آتا تھا۔ عثمان پیرزادہ کے خون میں فن اور آرٹ شامل ہے اس کے والد رفیع پیر اپنے وقت کے نامور فنکار تھے۔ وہ ہر فن مولا تھے، یہ ایک ایسے گھرانے کا فنکار ہے جس گھرانے نے چار مرتبہ عوامی آرٹسٹ دیے جن میں فیضان پیرزادہ، سلمان پیرزادہ، عمران پیرزادہ اور عثمان پیرزادہ ہیں۔ عثمان کی اہلیہ ثمینہ پیزادہ بھی اسی خاندان سے جڑی ہوئی ہیں، ان کی ایک الگ شناخت ہے۔
عظیم فنکار رفیع پیر کے یہ صاحب زادے بھی اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے فن کی دنیا میں آئے اور نہ صرف اپنا نام روشن کیا بلکہ اپنے نامور والد رفیع پیر کے نام کی شہرت کو بھی بڑھاوا دیا۔ رفیع پیر ایک فنکار ہی کا نام نہیں ہے رفیع پیر ایک اسکول آف تھاٹ کا نام ہے جس نے وطن کی ثقافت کو فروغ دیا اور رفیع پیر تھیٹر کے ذریعے پاکستان کو تہذیب و ثقافت کے رنگوں کو یکجا کر کے بیرون ملک بھی بڑے اچھے پیمانے پر روشناس کرایا۔
یہ وہ دور تھا جب کسی نے بھی تھیٹر ورکشاپ کی اہمیت کے بارے میں نہیں سوچا تھا اور اس کام کا بیڑا صرف رفیع پیرزادہ جیسے آرٹ لور (Art Lover)شخص نے اٹھایا تھا ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے جن دنوں سارے پنجاب میں، شہر شہر اور گاؤں گاؤں رفیع پیر تھیٹر کا چرچا تھا وہاں چوہدری فرزند علی سرکس والے بھی بڑے مشہور تھے۔ رفیع پیر تھیٹر کے ذریعے لوگوں کی تفریح کے لیے پپٹ شوز اور ڈرامے کیے جاتے تھے تو چوہدری فرزند علی سرکس والے شیروں، ہاتھیوں، گھوڑوں اور دیگر جانوروں کے ساتھ شہر شہر، گاؤں گاؤں اور بستی بستی سرکس کے ذریعے لوگوں کی تفریح کا سامان مہیا کرتے تھے۔
لیکن رفیع پیر تھیٹر ورکشاپ کی قدر و قیمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ رفیع پیرکو باہر کے مختلف ممالک کی طرف سے فیسٹیول کرانے کے لیے دعوت نامے موصول ہوتے تھے اور پھر رفیع پیر تھیٹر کے بینر تلے بیرون ممالک پاکستانی ثقافت کے رنگ بکھیرے جاتے تھے۔ رفیع پیرزادہ کے انتقال کے بعد ان کے چاروں بیٹوں نے رفیع پیر تھیٹر کی شہرت میں کسی طور پر بھی کمی نہیں آنے دی اور ان کے چاروں بیٹے رفیع پیر تھیٹر ورکشاپ کو اپنی شب و روز کی محنتوں سے چار چاند لگاتے رہے۔
اب میں پھر عثمان پیرزادہ کی طرف آتا ہوں جس نے فلم میں آنے سے پہلے اسٹیج اور ٹی وی ڈراموں میں اپنی صلاحیتوں کو منوایا تھا۔ عثمان پیرزادہ نے ڈرامے پروڈیوس بھی کیے،اداکاری کے دوران ثمینہ سے محبت کا آغاز ہوا۔ چھ دنوں تک محبت دل ہی دل میں آگے بڑھتی رہی پھر کھل کر سامنے آگئی اور 1974 میں عثمان پیرزادہ اور ثمینہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے، شادی کے بعد بھی دونوں کا فنی سفر بڑی کامیابی کے ساتھ جاری ہے کبھی عثمان اس سفر میں آگے نکل جاتا ہے اور کبھی ثمینہ اس سفر میں اپنے شوہر سے آگے بڑھ جاتی ہے۔
دونوں آرٹسٹ ہونے کے ساتھ ساتھ فلمساز اور ہدایت کار بھی بن چکے ہیں اب میں پھر سے ''میں چپ رہوں گی'' کے سیٹ پر آجاتا ہوں۔ عثمان پیرزادہ کی اداکاری سے سنگیتا جتنی مطمئن تھی اس سے کہیں زیادہ سنگیتا کو اس کی شخصیت اچھی لگی تھی، سنگیتا نے بتایا کہ عثمان پیرزادہ وقت پر فلم کے سیٹ پر آجاتا ہے اپنے کردار کو پڑھتا ہے سمجھتا ہے اور پھر بڑی خوبصورتی سے اس کی ادائیگی کرتا ہے جب میں نے سیٹ پر عثمان پیرزادہ سے باتوں ہی باتوں میں یہ پوچھا کہ عثمان مجھے سچائی کے ساتھ یہ بتاؤ کہ تم کو خاتون ہدایت کارہ سنگیتا کے ساتھ کام کرنا کیسا لگا۔
عثمان پیرزادہ نے بے ساختہ کہا '' میرے نزدیک سنگیتا بہت مرد ہدایتکاروں سے ذرا ہٹ کر ہے اس کے کام کرنے کا انداز روایتی نہیں ہے اور اس کا ثبوت اس کی فلم ''سوسائٹی گرل'' ہے جسے باکس آفس پر بڑی کامیابی نصیب ہوئی ہے۔'' ابھی ہماری باتیں سیٹ پر ہو رہی تھیں کہ سنگیتا کی طرف سے عثمان پیرزادہ کو اشارہ ملا کہ اب وہ کیمرے کے سامنے آجائے اور عثمان پیرزادہ کیمرے کی طرف چلا گیا۔ اس سیٹ پر چند روز شوٹنگ ہوتی رہی، دوسرے ہفتے اس فلور پر ایک نئے سیٹ پر فلم کا تھیم سانگ فلم بند کیا جانا تھا جس کے لیے ایک خوبصورت سیٹ تیار کیا جا رہا تھا۔
جس دن اس سیٹ پر تھیم سانگ کی فلم بندی تھی۔ اس دن سنگیتا نے بہت سے فلمی صحافیوں کو بھی سیٹ پر آنے کی دعوت دی تھی۔ یہ تھیم سانگ تسلیم فاضلی نے لکھا تھا اور اس گیت کے ساتھ بھی ایک دلچسپ بات جڑی ہوئی تھی۔ جس دن فلم ''میں چپ رہوں گی'' کا تھیم سانگ لکھنے کے لیے تسلیم فاضلی کو آفس بلوایا گیا تھا۔ آفس میں موسیقار کمال احمد، سنگیتا میں اور سنگیتا کی امی مہتاب بیگم بھی موجود تھیں ۔
انھوں نے تسلیم فاضلی سے کہا ''فاضلی آج جو گیت تم لکھو گے وہ اس فلم کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہے اور یہ گیت ساری فلم کی جان ہے اور فلم کی کہانی اسی گیت کے گرد گھومتی ہے، میں چاہتی ہوں کہ تمہارا گیت کا مکھڑا کچھ اس قسم کا ہونا چاہیے کہ فلم کی ہیروئن کہہ رہی ہے ''تڑپوں گی، کئی راتوں کی اٹھ کر پیاس جوانی کی یوں ہی سہوں گی، میں چپ رہوں گی'' فاضلی نے بے ساختہ کہا ارے واہ! کیا بات ہے۔ دو شاعروں کی صحبت نے تو آپ کو بھی شاعر بنادیا ہے۔ اس جملے پر کمرے میں قہقہے بکھر گئے تھے، پھر جب تسلیم فاضلی نے جو گیت لکھا تھا اس کا مکھڑا اسی مضمون کے ساتھ باندھا تھا ۔ فائنل مکھڑا پھر اس طرح تھا:
تڑپوں گی میں راتوں کو اٹھ کر
پیاس جوانی کی یوں ہی ہوں گی
کچھ نہ کہوں گی
میں چپ رہوں گی
پھر جب یہ تھیم سانگ عکس بند کرلیا گیا تو جس نے بھی یہ گیت دیکھا سنگیتا کی لاجواب اداکاری کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکا تھا۔ جب یہ فلم نمائش کے لیے پیش کی گئی تو اپنے تھیم سانگ کی وجہ سے خاص طور پر عورتوں میں بڑی پسند کی گئی تھی اور اخبارات میں کافی دنوں تک اس فلم کی کہانی گیت ہدایت کاری اور سنگیتا کی اداکاری کے بڑے چرچے رہے تھے اورکریٹکس نے اس فلم کو خاص طور پر سنگیتا کی ایک آرٹ فلم قرار دیا تھا۔ اور اس فلم کو ایک آرٹ مووی کی حیثیت سے پسند کیا گیا تھا۔