جب زندگیاں پیروں تلے روندی گئیں
بڑے اجتماعات میں بھگدڑ اور بڑی تعداد میں اموات کے واقعات
لاہور:
خالق کائنات نے انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر انسان اپنی صلاحیت اور حیثیت کے مطابق اپنی زندگی کی منصوبہ بندی کرتا ہے اور اس کے نتیجے میں بہتر سے بہتر نتائج کا متمنی ہوتا ہے۔
وہ چاہتا ہے کہ اس کی زندگی میں مالی و معاشی آسودگی میں اضافہ ہو اور جب یہی منصوبہ بندی اجتماعی طور پر کی جاتی ہے تو ملکی ترقی اور استحکام کا باعث بن جا تی ہے، لیکن بدقسمتی سے بعض مرتبہ تمام تر انفرادی اور اجتماعی تدابیر اور منصوبہ بندی کے باوجود کچھ ایسے واقعات وقوع پذیر ہوجاتے ہیں جن سے ہونے والے نقصانات کی تلافی نہ صرف مشکل ہوجاتی ہے بلکہ انسان مکمل بے بسی کا نمونہ دکھائی دیتا ہے۔
بالخصوص وہ اندوہ ناک واقعات جن کی وجہ انسانی غلطی یا ناسمجھی ہوتی ہے۔ افسوس اور ندامت کی تلخ یادیں چھوڑ جاتے ہیں ایسی ہی انسانی غلطیوں یا بھول چوک سے جنم لینے والے حادثات میں بھگدڑ کے نتیجے میں کچلے جانے اور دم گھٹنے کے باعث اموات کے حوالے سے کچھ اہم ترین واقعات زیر نظر مضمون میں بیان کئے گئے ہیں ۔
٭ماسکو۔ ماسکو
Khodynka Tragedy
روس کے ''زار نکولس دوئم'' کی رسم تاج پوشی کے دوران بدنظمی کے باعث پیش آنے والے اس واقعے میں تیرہ سو نوے انسان مارے گئے تھے۔ اٹھارہ مئی اٹھارہ سو چھیانوے میں یہ سانحہ ماسکو کے وسیع و عریض ''خوڈیانکا میدان'' میں پیش آیا۔ جب میدان میں موجود حاضرین کے لیے زارنکولس دوئم کی جانب سے تحائف دینے کا اعلان کیا گیا، تو اس اعلان کو سنتے ہی حاضرین انعام والی جگہ کی جانب دوڑ پڑے۔
بدقسمتی سے میدان کے درمیان ایک لمبی اور چوڑی نالے نما گہرائی تھی جس میں لوگ گرنے لگے اور اس سے پہلے کہ وہ سنبھلتے مزید لوگ ان پر گرنے لگے۔ اس طرح ایک جانب گڑھے میں لوگ دبتے گئے تو دوسری جانب یہ منظر دیکھ کر نالے کے قریب پہنچنے والے افراد رک گئے اور واپس پلٹنے لگے، مگر پیچھے سے عوام کا ریلا آتا گیا اور اس طرح لوگ ایک دوسرے سے ٹکرا کر گرتے گئے اور کچل کر موت کی وادی میں اترگئے۔
٭چین ۔ چونگ چنگ
Japanese Bombing of Chongqing
چھے جون انیس سو اکتالیس کو دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپان کی جانب سے چین کے اہم شہر چونگ چنگ پر جیسے ہی بم باری کرنے کی اطلاع آئی تو بم باری سے بچنے کے لیے چونگ چنگ کے شہریوں کی کثیر تعداد زیرزمین بنائی گئی پناہ گاہوں کی طرف لپکی، لیکن عوام کا جم غفیر پناہ گاہوں کے دروازوں میں پھنس گیا اور اس دھکم پیل میں دم گھٹنے اور سیڑھیوں سے گرنے کے باعث لگ بھگ ایک ہزار سے زاید مردوزن ایک دوسرے کے پیروں تلے روندے گئے۔ بعدازاں بم باری کی یہ اطلاع افوہ ثابت ہوئی۔
٭انڈیا۔ الہ آباد
1954 Kumbh Mela stampede
ہندوؤں کا مذہبی تہوار کمبھ میلہ ہر تین سال بعد منعقد کیا جاتا ہے۔ اس میلے میں ہندوؤں کے مذہبی راہ نما، سادھو اور عام لوگ کثیر تعداد میں شریک ہوتے ہیں۔ تین فروری انیس سو چون کو یہ میلہ الہ آباد شہر میں منعقد کیا گیا، جس میں چالیس سے پچاس لاکھ افراد شریک ہوئے۔ اس دوران مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے دریائے گنگا کے کنارے عارضی شہر بسایا گیا تھا۔ چالیس روز تک جاری رہنے والے اس میلے میں تین فروری کو انجام دی جانے والی مرکزی عبادت کے دوران بھگدڑ اور بدنظمی ہونے اور دریا کا پاٹ چھوٹا ہونے کے باعث آٹھ سو سے زاید افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
اس سانحے میں دھکم پیل کی وجہ سے تقریباً تین سو افراد دریائے گنگا میں ڈوب کر بھی ہلاک ہوئے، جب کہ باقی ہلاک شدگان ایک دوسرے کے پیروں تلے روندے گئے۔ سن دوہزار تین میں بھی ناسک شہر میں ہونے والے کمبھ میلے میں بھگدڑ میں کچلے جانے سے چالیس زائرین ہلاک ہوئے تھے۔
٭پیرو ۔ لیما
The Lima Peru Stampede
چھبیس مئی انیس سو چونسٹھ میں پیرو کے موجودہ دارالحکومت اور مرکزی شہر لیما میں بھگدڑ کے نتیجے میں کئی قیمتی جانوں کا نقصان ہوا۔ یہ واقعہ لیما کے نیشنل فٹ بال اسٹیڈیم میں پیش آیا تھا۔
واقعات کے مطابق ارجنٹائن اور پیرو کے مابین اولمپک میں شرکت کے لیے فٹ بال کا کوالیفائنگ میچ کھیلا جارہا تھا۔ میچ کے اختتام سے صرف دو منٹ قبل ریفری نے پیرو کے کھلاڑی کی جانب سے کیے جانے والے گول کو فاؤل قرار دے دیا۔ ہوم گراؤنڈ پر موجود تماشائی اس فیصلے پر بپھر گئے اور گراؤنڈ میں داخل ہوگئے، جس کے نتیجے میں تماشائیوں سے بھرے اسٹیڈیم کی سیڑھیوں پر بھگدڑ مچ گئی اور تماشائی ایک دوسرے کو کچلتے ہوئے باہر کے جانب کھلنے والے دروازوں کی طرف دوڑ پڑے۔ اس افراتفری میں تین سو اٹھائیس افراد کچلے جانے سے ہلاک اور پانچ سو کے لگ بھگ شدید زخمی ہوئے تھے۔
٭نیپال ۔ کھٹمنڈو
1988 Kathmandu stadium disaster
بارہ مارچ انیس سو اٹھاسی کو نیپال کے کھٹمنڈونیشنل اسٹیڈیم میں مقامی ٹیموںکا فٹ بال میچ جاری تھا۔ اسٹیڈیم میں تماشائیوں کی کثیر تعداد اپنی اپنی ٹیموں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے موجود تھی دوران میچ ہی موسلادھار بارش شروع ہوگئی جس کے ساتھ اولے بھی برسنے لگے۔ اسٹیڈیم کے صرف ایک مختصر سے حصے پر چھت موجود تھی۔
تماشائی اولوں کی ضربوں سے بچنے کے لیے چھت والے حصے کی جانب بھاگنے لگے۔ اس دھکم پیل میں بہت سے تماشائی سیڑھیوں پر گرگئے جن کے سر اور جسم سخت پتھر جیسے اولوں کی ضربوں سے زخمی ہوگئے۔ بدقسمتی سے اسٹیڈیم سے باہر نکلنے کا صرف ایک راستہ تھا جو بند تھا، لہٰذا اس مقام پر بھی ہجوم جمع ہوتا گیا۔ اس تمام تر صورت حال کے باعث ترانوے افراد ہلاک ہوگئے۔
٭چین۔ شین سی
1991 Taiyuan Illumination show stampede
چین کے صوبے شین سی میں ہر سال روشنیوں کا تہوار منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر زبردست آتش بازی کی جاتی ہے۔ چوبیس ستمبر انیس سو اکناوے کو منائے جانے والے اس تہوار سے لطف اندوز ہونے کے لیے عوام کی بہت بڑی تعداد ''جی کونگ پل'' پر موجود تھی۔ اس دوران افواہ پھیل گئی کہ پل ٹوٹ رہا ہے۔ افواہ پھیلتے ہی لوگ محفوظ مقام کی تلاش میں ایک دوسرے کو دھکے دیتے ہوئے بھاگنے لگے اور اس دھکم پیل میں ایک سو پانچ انسانی جانوں کے چراغ گل ہوگئے۔
٭انڈیا۔ ناگ پور۔
1994 Gowari stampede
تیس نومبر انیس سو چورانوے کو انڈیا کے شہر ناگ پور میں ''گوواری'' قبیلے کے افراد نے اپنے حقوق کے لیے مظاہرے کا انعقاد کیا۔ مظاہرے میں پچاس ہزار سے زاید افراد شریک تھے جن میں بچوں اور عورتوں کی بڑی تعداد بھی شامل تھی۔ جیسے ہی ہجوم نے صوبے کے قانون ساز ادارے کی عمارت ''ودن بھاون'' کی جانب مارچ شروع کیا تو پولیس نے لاٹھی چارج شروع کردیا۔
کچھ دیر تک تو ہجوم نے مزاحمت کی، تاہم پولیس نے اسے بزور پیچھے دھکیل دیا، جس کے نتیجے میں پیچھے موجود لوگوں اور واپس بھاگ کر آنے والے لوگوں میں ٹکراؤ ہوگیا اور وہ ایک دوسرے پر گرگئے۔ اس صورت حال کے باعث ایک سو چودہ افراد موت کے منہ میں چلے گئے، جن میں اکثریت معصوم بچوں اور خواتین کی تھی۔
٭بغداد، عراق
2005 Al-Aaimmah bridge stampede
اکتیس اگست سن دوہزار پانچ کو بغداد میں دریائے دجلہ کے الائمہ پُل پر بھگدڑ کے باعث نوسو تریپن زائرین زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب زائرین مسجد کاظمیہ میں واقع امام موسیٰ الکاظمؒ کے مزار کی جانب رواں دواں تھے۔ اس دوران مجمع میں یہ خبر پھیل گئی کہ ایک خودکش بم بار مجمع میں داخل ہوگیا ہے۔
یہ خبر سنتے ہی افراتفری پھیل گئی اور لوگ جان بچانے کی غرض سے جہاں راستہ نظر آیا بھاگنے لگے۔ کچھ دریا میں کود گئے، جن میں سے بیشتر ڈوب کر جاں بحق ہوئے۔ اس افسوس ناک واقعے میں نو سو تریپن قیمتی جا نو ں کا زیاں ہوا تھا۔ واضح رہے کہ عراق کے صدر صدام حسین نے اس قسم کے مذہبی اجتماعات پر پابندی لگا رکھی تھی۔ سن دو ہزار تین میں صدام حسین کی حکومت کے اختتام کے بعد دوبارہ شروع ہونے والے اس اجتماع میں دس لاکھ سے زاید زائرین شریک تھے۔
٭انڈیا۔ مہاراشٹر
Mandher Devi temple stampede
انڈیا کے صوبے مہاراشٹر کے ضلع ستارہ کے علاقے وئی میں ''مندھرا دیوی'' کا مندر ہے۔ پہاڑ پر واقع اس مندر میں ہر سال پورے چاند کے موقع پر جنوری کے مہینے میں مذہبی رسومات ادا کی جاتی ہیں جس میں ہندو زائرین دیوتاؤں کی خوش نودی کے لیے جانوروں کی قربانی بھی دیتے ہیں۔
چوں کہ یہ مندر پہاڑ پر واقع ہے، لہٰذا اس مندر تک پہنچنے کے لیے پہاڑ کو تراش کر سیڑھیاں بنائی گئی ہیں۔ پچیس جنوری دو ہزار پانچ کو منعقد ہونے والے تہوار میں تین لاکھ افراد بیک وقت پہاڑ کے دامن سے مندر میں پہنچنے کے لیے سیڑھیوں پر چڑھنے لگے، جس کے دوران پھسلن کے باعث کچھ زائرین نیچے گرگئے۔ یہ منظر دیکھتے ہی نیچے والے زائرین واپس پلٹنے لگے۔ اس افراتفری میں کچلنے جانے کے باعث دو سو اکناوے افراد ہلاک ہوگئے۔
٭انڈیا۔ ہماچل پردیش
2008 Naina Devi temple stampede
تین اگست سن دو ہزار آٹھ کو انڈیا کی ریاست ہماچل پردیش کے ضلع بیلاسپور میں زائرین نینا دیوی کے مندر میں مذہبی رسومات میں مصروف تھے۔ اس دوران تیز بارش شروع ہوگئی۔ دو پہاڑیوں کے درمیان کھائی میں واقع اس مندر کے ساتھ بارش سے بچنے کے لیے منتظمین نے ایک سائبان بنایا ہوا تھا۔ تیز ہوا کے باعث یہ سائبان گر نے لگا تو زائرین سمجھے کہ لینڈ سلائیڈنگ ہورہی ہے اور گھبراہٹ کا شکار ہوکر مندر سے نکلنے لگے۔
چھوٹے سے رقبے پر بنے اس مندر میں اس وقت تین ہزار افراد تھے، جو ایک دم باہر نکلنے کے لیے بے تاب ہوگئے۔ مندر سے باہر نکلنے کے لیے ایک پتلی سی گلی تھی جو اتنے لوگوں کے یک بیک باہر نکلنے کے لیے ناکافی تھی۔ چناں چہ راستے کی تنگی کے باعث دم گُھٹنے اور کچلے جانے سے ایک سو پچاس سے زاید افراد جاں بحق ہوگئے۔ مرنے والوں میں چالیس معصوم بچے بھی شامل تھے۔
٭انڈیا۔ جودھپور۔
2008 Jodhpur stampede
تیس ستمبر سن دو ہزار آٹھ کو راجستھان کے ضلع جودھپور میں مندر میں بھگدڑ مچنے کا واقعہ پیش آیا۔ عینی شاہدین کے مطابق چمندا دیوی کے مندر میں جمع ہونے والے زائرین اس وقت ایک دوسرے پر چڑھ دوڑے جب یہ افواہ پھیلی کہ مندر میں بم ہے۔ اس جھوٹی افواہ کے نتیجے میں ہونے والی بھگدڑ کے دوران دو سو چوبیس افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔
جس وقت یہ سانحہ پیش آیا۔ مندر اور اس کے اطراف میں پچیس ہزار زائرین موجود تھے اسی نوعیت کے دیگر دو مزید واقعات میں چودہ جنوری سن دو ہزار گیارہ کو ریاست کیرالہ کے''سباراملا مندر'' میں بھگدڑ کے باعث ایک سو چھے زائرین اور تیرہ اکتوبر سن دو ہزار تیرہ کو مدھیہ پردیش کے ضلع داتیا میں ناوراتری تہوار کے موقع پر ایک سو پندرہ افراد حبسِ دم اور کچلنے سے ہلاک ہوئے تھے۔
٭کمبوڈیا۔ پنوم پن
The Phnom Penh Stampede
کمبوڈیا کے دارالحکومت پنوم پن میں ہر سال کمبوڈین واٹر فیسٹول منایا جاتا ہے، جس میں مقامی دریا ''ٹونل سیپ'' میں پانی کی فراوانی کے لیے رسومات انجام دی جاتی ہیں۔ بائیس نومبر دو ہزار دس کو اس تہوار میں شرکت کے لیے کثیر تعداد میں شہری ایک پُل پر سے پیدل گزر رہے تھے۔
یہ پُل جو اسٹیل کے تاروں پر بندھا ہوا تھا ہوا سے جھولنے لگا جو ایسے پلوں میں عموماً ہوتا ہے، لیکن پل پر ہزاروں کی تعداد میں موجود لوگ سمجھے کہ پُل ٹوٹ رہا ہے، جس کے نتیجے میں بھگدڑ مچی اور سانحہ وقوع پذیر ہوا۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق تین سو چوہتر اور آزاد ذرائع کے مطابق ساڑھے چارسو سے زاید افراد اس سانحے میں ہلاک ہوئے۔
بھگدڑ میں بچوں کی ہلاکت
(The Victoria Hall Stampede)
انسانی جانوں کے زیاں کا یہ واقعہ اس لحاظ سے بے حد الم ناک ہے کہ اس واقعے میں پونے دو سو بچے بھگدڑ کے باعث ہلاک ہوئے تھے۔ واقعات کے مطابق سولہ جون اٹھارہ سو تراسی کو برطانیہ کے علاقے سانڈرلینڈ کے وکٹوریہ ہال میں پیش آنے والے اس سانحے میں بچوں کے لیے ایک ادارے کی جانب سے ورائٹی شو کا اہتمام کیا گیا تھا، جس کے دوران انتظامیہ کی جانب سے شریک ہونے والے ہر بچے کے لیے کھلونے باٹنے اور انعامات دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔
پروگرام کے اختتام پر کھلونے باٹنے میں بدنظمی ہوئی اور بچے کھلونے حاصل کرنے کی جستجو میں ایک دوسرے پر چڑھ گئے، جس کے نتیجے میں نیچے موجود بچے دب کر جاں بحق ہوگئے، جیسے ہی انتظامیہ کو صورت حال کا اندازہ ہوا تو اس نے باقی ماندہ بچوں کو ہال سے باہر نکالنا شروع کیا، لیکن ہال سے باہر نکلنے کا ایک ہی دروازہ تھا، لہٰذا بچے وہاں بھی ایک دوسرے پر گرتے گئے۔ مجموعی طور پر حادثے میں ایک سو تراسی بچے جاں بحق ہوئے تھے۔ اس واقعے کے بعد پہلی مرتبہ برطانیہ میں ہالوں میں ''ایگزٹ ایمرجینسی دروازے'' کو لازمی قرار دیا گیا۔
ایک اور واقعے میں جو بارہ فروری اٹھارہ سو تیئس کو مالٹا کے دارلحکومت ولیتا شہر میں پیش آیا، ایک سو دس بچے سالانہ منعقد ہونے والے مقامی تہوار کے اختتام پر بدنظمی کے باعث کچل کر ہلاک ہوئے۔
اسی طرح کے ایک واقعے میں جو تنزانیہ میں دو اکتوبر دوہزار آٹھ کو پیش آیا، بیس بچے کچل کر ہلاک ہوگئے تھے۔ یہ بچے جو ایک رقص کے پروگرام میں شریک تھے، رقص کے مرکزی ہال میں ضرورت سے زیادہ رش ہوجانے کے باعث باہر نکلنے کی کوشش میں جاں بحق ہوئے۔
جب جلنے کے خوف نے جان لی
آتش زدگی کے خوف سے بھاگنے کے بعد بھگدڑ کے نتیجے میں کچل کر مرجانے والے اہم سانحات کی تفصیلات کچھ اس طرح ہیں۔
٭اروکیوئس تھیٹر فائر۔ امریکا
(Iroquois Theatre fire)
تیس دسمبر سن انیس سو تین کو شکاگو شہر میں پیش آنے والے اس واقعے میں چھے سو دو افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ واقعات کے مطابق اروکیوئس تھیٹر میں ڈرامے کے دوران تیسری منزل پر لگا ہوا آرائشی پرد ہ برقی قمقموں پر گرگیا۔ پردے نے دیکھتے ہی دیکھتے آگ پکڑ لی دوسری اور تیسری منزل پر موجود تماشائیوں نے جیسے ہی اپنے سروں پر آگ لگی دیکھی تو وہ تھیٹر سے باہر نکلنے کے لیے دوڑ پڑے، جس کے نتیجے میں بھگدڑ مچی اور چھے سو دو افراد جاں کی بازی ہار گئے۔
٭بروکلین تھیٹر فائر۔ امریکا
(Brooklyn Theatre fire)
امریکا کے شہر بروکلین میں مشہور زمانہ بروکلین تھیٹر میں پانچ دسمبر اٹھارہ سو چھیتر کو آگ لگنے کے دوران بھگدڑ کے باعث بہت سی انسانی جانیں ضائع ہوئیں، جس وقت تھیٹر میں آگ لگی ہال تماشائیوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ آگ لگنے کا احساس ہوتے ہی تماشائی باہر نکلنے کے لیے بے تاب ہوگئے، جب کہ ہال سے باہر جانے کا صرف ایک راستہ تھا راستہ تنگ ہونے کے باعث تماشائی ایک دوسرے کو روندنے پر مجبور ہوگئے۔ بعدازاں کچلے ہوئے انسانوں کے ڈھیر میں سے دوسو اٹھتر لاشیں دریافت ہوئیں۔
٭شیلو چرچ۔ امریکا
(Shiloh Baptist Church stampede)
انیس ستمبرسن انیس سو دو کو امریکا کی ریاست الباما کے شہربرمنگھم کے شیلو چرچ میں پیش آنے والے اس سانحے کے پیچھے ایک دل چسپ واقعہ بیان کیا جاتا ہے۔ واقعات کے مطابق چرچ میں مشہور ماہرتعلیم اور اس وقت کے صدر کے مشیر ''بکر ٹی واشنگٹن'' کا خطاب ختم ہوا تو ان کی کسی بات سے اختلاف کرتے ہوئے سامعین میں سے کسی نے آواز لگائی '' اے فائٹ''، جسے حاضرین نے '' اے فائر'' سمجھا اور اپنی نشستوں سے اٹھنا شروع کردیا۔
اس دوران تقریب کے منتظم نے لوگوں کو پرسکون رہنے کے لیے ٹیبل پر موجود گھنٹی بجائی تو لوگ اسے آگ لگنے کا الارم سمجھ بیٹھے اور اندھادھند باہر کی جانب دوڑ لگادی۔ یہ چرچ زمین سے پندرہ فٹ بلندی پر بنایا گیا تھا۔ سیڑھیوں پر لوگ ایک دوسرے پر گرنے لگے اور اس طرح کچلنے کے باعث مجموعی طور پر ایک سو پندرہ افراد جاں بحق ہوئے۔
٭کس نائٹ کلب۔ برازیل
(Kiss nightclub fire)
کلب میں موجود لوگ جان بچانے کے لیے باہر کی جانب بھاگنے لگے، لیکن نائٹ کلب سے باہر نکلنے کے راستے محدود تھے، جس کے باعث لوگ دروازوں میں پھنس گئے اور دم گُھٹنے سے مرنے لگے۔ اس سانحے میں مجموعی طور پر دوسو بیالیس افراد موت کی وادی میں اتر گئے۔
پاکستان میں بھگدڑ سے جنم لینے والے المیے
دس اکتوبر سن دو ہزار چودہ کو تحریک انصاف کا جلسہ ملتان میں منعقد کیا گیا۔ جلسے میں عوام کی کثیر تعداد موجود تھی جو تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی تقریر سننے کے لیے جمع تھی۔ قاسم باغ اسٹیڈیم میں جیسے ہی جلسہ ختم ہوا عوام اسٹیڈیم سے باہر نکلنے لگے، لیکن جلسے کی انتظامیہ کے مطابق میدان کے صرف دو گیٹ کھولے گئے جس کے باعث عوام کا رش ان دروازوں پر بڑھ گیا اور سات افراد دم گھٹنے اور دبنے کے باعث جاں بحق ہوئے اور چالیس سے زاید زخمی ہوئے۔
حج کے دوران ہونے والے سانحات
(The Hajj Stampede)
حج کے مبارک موقع پر حجاج کرام کی کثرت کے باعث چھوٹے چھوٹے حادثات ہوتے رہتے ہیں، تاہم دو جولائی انیس سو نوے کو ہونے والی بھگدڑ میں چودہ سو چھبیس حجاج کرام موت کی آغوش میں چلے گئے تھے۔
یہ واقعہ مکہ سے منیٰ اور میدان عرفات کی جانب جانے والی چھے سو گز طویل اور تیس فٹ چوڑی سرنگ ''المشیم'' میں راستہ تنگ ہوجانے کے باعث پیش آیا تھا۔ حادثے کی تحقیقات کرنے والی ٹیم کے مطابق سرنگ میں ایک ہزار افراد کے گزرنے کی گنجائش تھی، جب کہ حادثے کے وقت پانچ ہزار سے زاید عازمین حج یہاں سے گزر رہے تھے۔
اس دوران درجۂ حرارت پینتالیس ڈگری سینٹی گریڈ تھا۔ تنگ راستے اور گرم موسم کے باعث بیشتر حاجی حبس دم سے بچنے کے لیے جلدازجلد سرنگ سے باہر نکلنا چاہتے تھے، جو بنیادی طور پر بھگدڑ کی وجہ بنی۔ اس حادثے میں شہادت پانے والے بیشتر حجاج کا تعلق پاکستان، ملائیشیا اور انڈونیشیا سے تھا۔ دوران حج عازمین حج کی ہلاکت کے حوالے سے یہ اب تک کا سب سے اندوہ ناک ترین واقعہ ہے۔
تئیس مئی انیس سو چورانوے کو بھی دوران حج دوسو ستر حاجی بھگدڑ کے باعث خالق حقیقی سے جا ملے تھے۔ یہ واقعہ رمی کے دوران پیش آیا۔ اس واقعے کے چار سال بعد نو اپریل انیس سو اٹھانوے کو بھی کچھ ایسی ہی صورت حال پیش آئی، جب جمرات کے پُل پر بھگدڑ مچی جس کے دوران کچلے جانے کے باعث ایک سو اٹھارہ حاجی جاں بحق ہوئے۔
بعد ازاں نئی صدی کے آغاز پر پانچ مارچ دو ہزار ایک میں دوران رمی پینتیس حاجی بھگدڑ کے ہاتھوں جان کی بازی ہار گئے۔ دو سال بعد گیارہ فروری دو ہزار تین کو رمی کرنے کے دوران ہی چودہ افراد اور پھر اگلے سال یکم فروری دو ہزار چار کو دو سو اکیاون حاجی دوران رمی کچلے جانے کے باعث خالق حقیقی سے جاملے۔ ان واقعات کے بعد ایک اور بڑا واقعہ بارہ جنوری دو ہزار چھے کو پیش آیا جب رمی ہی کے دوران تین سو چھیالیس عازمین حج بھگدڑ کے ناگہانی واقعے میں جاں بحق ہوئے ۔
بھگدڑ میں کچلے جانے اور حبس دم سے ہلاک ہونے والے واقعات کا تازہ ترین سانحہ امسال چوبیس ستمبر دو ہزار پندرہ کو پیش آیا، جس میں سعودی انتظامیہ کے مطابق آٹھ سو اور آزاد ذرائع کے مطابق اب تک بارہ سو سے زاید عازمین حج شہید ہوچکے ہیں۔ یہ واقعہ بڑے شیطان کو جسے رمی جمار کہتے ہیں، کنکریاں مارنے کے عمل کے دوران منیٰ میں پیش آیا۔
عینی شاہدین کے مطابق اس موقع پر کچھ عازمین نے شیطان کو کنکریاں مارنے کے بعد واپسی کا تجویز کردہ راستہ اختیار کرنے کے بجائے اس راستے ہی سے واپسی کا سفر شروع کردیا جہاں سے کنکریاں مارنے کے لیے عازمین حج کے مزید قافلے آرہے تھے۔
اس غلطی کے باعث حجاج ایک دوسرے کے آمنے سامنے آگئے اور دھکم پیل شروع ہوگئی، جو قیمتی جانوں کے زیاں کا باعث بنی۔ اس واقعے کا ایک الم ناک پہلو یہ بھی ہے کہ تادم تحریر ایک سو دو پاکستانی عازمین حج لاپتا ہیں، جب کہ جاں بحق ہونے والے پاکستانی عازمین کی تعداد ستاون ہوچکی ہے۔
خالق کائنات نے انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر انسان اپنی صلاحیت اور حیثیت کے مطابق اپنی زندگی کی منصوبہ بندی کرتا ہے اور اس کے نتیجے میں بہتر سے بہتر نتائج کا متمنی ہوتا ہے۔
وہ چاہتا ہے کہ اس کی زندگی میں مالی و معاشی آسودگی میں اضافہ ہو اور جب یہی منصوبہ بندی اجتماعی طور پر کی جاتی ہے تو ملکی ترقی اور استحکام کا باعث بن جا تی ہے، لیکن بدقسمتی سے بعض مرتبہ تمام تر انفرادی اور اجتماعی تدابیر اور منصوبہ بندی کے باوجود کچھ ایسے واقعات وقوع پذیر ہوجاتے ہیں جن سے ہونے والے نقصانات کی تلافی نہ صرف مشکل ہوجاتی ہے بلکہ انسان مکمل بے بسی کا نمونہ دکھائی دیتا ہے۔
بالخصوص وہ اندوہ ناک واقعات جن کی وجہ انسانی غلطی یا ناسمجھی ہوتی ہے۔ افسوس اور ندامت کی تلخ یادیں چھوڑ جاتے ہیں ایسی ہی انسانی غلطیوں یا بھول چوک سے جنم لینے والے حادثات میں بھگدڑ کے نتیجے میں کچلے جانے اور دم گھٹنے کے باعث اموات کے حوالے سے کچھ اہم ترین واقعات زیر نظر مضمون میں بیان کئے گئے ہیں ۔
٭ماسکو۔ ماسکو
Khodynka Tragedy
روس کے ''زار نکولس دوئم'' کی رسم تاج پوشی کے دوران بدنظمی کے باعث پیش آنے والے اس واقعے میں تیرہ سو نوے انسان مارے گئے تھے۔ اٹھارہ مئی اٹھارہ سو چھیانوے میں یہ سانحہ ماسکو کے وسیع و عریض ''خوڈیانکا میدان'' میں پیش آیا۔ جب میدان میں موجود حاضرین کے لیے زارنکولس دوئم کی جانب سے تحائف دینے کا اعلان کیا گیا، تو اس اعلان کو سنتے ہی حاضرین انعام والی جگہ کی جانب دوڑ پڑے۔
بدقسمتی سے میدان کے درمیان ایک لمبی اور چوڑی نالے نما گہرائی تھی جس میں لوگ گرنے لگے اور اس سے پہلے کہ وہ سنبھلتے مزید لوگ ان پر گرنے لگے۔ اس طرح ایک جانب گڑھے میں لوگ دبتے گئے تو دوسری جانب یہ منظر دیکھ کر نالے کے قریب پہنچنے والے افراد رک گئے اور واپس پلٹنے لگے، مگر پیچھے سے عوام کا ریلا آتا گیا اور اس طرح لوگ ایک دوسرے سے ٹکرا کر گرتے گئے اور کچل کر موت کی وادی میں اترگئے۔
٭چین ۔ چونگ چنگ
Japanese Bombing of Chongqing
چھے جون انیس سو اکتالیس کو دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپان کی جانب سے چین کے اہم شہر چونگ چنگ پر جیسے ہی بم باری کرنے کی اطلاع آئی تو بم باری سے بچنے کے لیے چونگ چنگ کے شہریوں کی کثیر تعداد زیرزمین بنائی گئی پناہ گاہوں کی طرف لپکی، لیکن عوام کا جم غفیر پناہ گاہوں کے دروازوں میں پھنس گیا اور اس دھکم پیل میں دم گھٹنے اور سیڑھیوں سے گرنے کے باعث لگ بھگ ایک ہزار سے زاید مردوزن ایک دوسرے کے پیروں تلے روندے گئے۔ بعدازاں بم باری کی یہ اطلاع افوہ ثابت ہوئی۔
٭انڈیا۔ الہ آباد
1954 Kumbh Mela stampede
ہندوؤں کا مذہبی تہوار کمبھ میلہ ہر تین سال بعد منعقد کیا جاتا ہے۔ اس میلے میں ہندوؤں کے مذہبی راہ نما، سادھو اور عام لوگ کثیر تعداد میں شریک ہوتے ہیں۔ تین فروری انیس سو چون کو یہ میلہ الہ آباد شہر میں منعقد کیا گیا، جس میں چالیس سے پچاس لاکھ افراد شریک ہوئے۔ اس دوران مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے دریائے گنگا کے کنارے عارضی شہر بسایا گیا تھا۔ چالیس روز تک جاری رہنے والے اس میلے میں تین فروری کو انجام دی جانے والی مرکزی عبادت کے دوران بھگدڑ اور بدنظمی ہونے اور دریا کا پاٹ چھوٹا ہونے کے باعث آٹھ سو سے زاید افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
اس سانحے میں دھکم پیل کی وجہ سے تقریباً تین سو افراد دریائے گنگا میں ڈوب کر بھی ہلاک ہوئے، جب کہ باقی ہلاک شدگان ایک دوسرے کے پیروں تلے روندے گئے۔ سن دوہزار تین میں بھی ناسک شہر میں ہونے والے کمبھ میلے میں بھگدڑ میں کچلے جانے سے چالیس زائرین ہلاک ہوئے تھے۔
٭پیرو ۔ لیما
The Lima Peru Stampede
چھبیس مئی انیس سو چونسٹھ میں پیرو کے موجودہ دارالحکومت اور مرکزی شہر لیما میں بھگدڑ کے نتیجے میں کئی قیمتی جانوں کا نقصان ہوا۔ یہ واقعہ لیما کے نیشنل فٹ بال اسٹیڈیم میں پیش آیا تھا۔
واقعات کے مطابق ارجنٹائن اور پیرو کے مابین اولمپک میں شرکت کے لیے فٹ بال کا کوالیفائنگ میچ کھیلا جارہا تھا۔ میچ کے اختتام سے صرف دو منٹ قبل ریفری نے پیرو کے کھلاڑی کی جانب سے کیے جانے والے گول کو فاؤل قرار دے دیا۔ ہوم گراؤنڈ پر موجود تماشائی اس فیصلے پر بپھر گئے اور گراؤنڈ میں داخل ہوگئے، جس کے نتیجے میں تماشائیوں سے بھرے اسٹیڈیم کی سیڑھیوں پر بھگدڑ مچ گئی اور تماشائی ایک دوسرے کو کچلتے ہوئے باہر کے جانب کھلنے والے دروازوں کی طرف دوڑ پڑے۔ اس افراتفری میں تین سو اٹھائیس افراد کچلے جانے سے ہلاک اور پانچ سو کے لگ بھگ شدید زخمی ہوئے تھے۔
٭نیپال ۔ کھٹمنڈو
1988 Kathmandu stadium disaster
بارہ مارچ انیس سو اٹھاسی کو نیپال کے کھٹمنڈونیشنل اسٹیڈیم میں مقامی ٹیموںکا فٹ بال میچ جاری تھا۔ اسٹیڈیم میں تماشائیوں کی کثیر تعداد اپنی اپنی ٹیموں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے موجود تھی دوران میچ ہی موسلادھار بارش شروع ہوگئی جس کے ساتھ اولے بھی برسنے لگے۔ اسٹیڈیم کے صرف ایک مختصر سے حصے پر چھت موجود تھی۔
تماشائی اولوں کی ضربوں سے بچنے کے لیے چھت والے حصے کی جانب بھاگنے لگے۔ اس دھکم پیل میں بہت سے تماشائی سیڑھیوں پر گرگئے جن کے سر اور جسم سخت پتھر جیسے اولوں کی ضربوں سے زخمی ہوگئے۔ بدقسمتی سے اسٹیڈیم سے باہر نکلنے کا صرف ایک راستہ تھا جو بند تھا، لہٰذا اس مقام پر بھی ہجوم جمع ہوتا گیا۔ اس تمام تر صورت حال کے باعث ترانوے افراد ہلاک ہوگئے۔
٭چین۔ شین سی
1991 Taiyuan Illumination show stampede
چین کے صوبے شین سی میں ہر سال روشنیوں کا تہوار منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر زبردست آتش بازی کی جاتی ہے۔ چوبیس ستمبر انیس سو اکناوے کو منائے جانے والے اس تہوار سے لطف اندوز ہونے کے لیے عوام کی بہت بڑی تعداد ''جی کونگ پل'' پر موجود تھی۔ اس دوران افواہ پھیل گئی کہ پل ٹوٹ رہا ہے۔ افواہ پھیلتے ہی لوگ محفوظ مقام کی تلاش میں ایک دوسرے کو دھکے دیتے ہوئے بھاگنے لگے اور اس دھکم پیل میں ایک سو پانچ انسانی جانوں کے چراغ گل ہوگئے۔
٭انڈیا۔ ناگ پور۔
1994 Gowari stampede
تیس نومبر انیس سو چورانوے کو انڈیا کے شہر ناگ پور میں ''گوواری'' قبیلے کے افراد نے اپنے حقوق کے لیے مظاہرے کا انعقاد کیا۔ مظاہرے میں پچاس ہزار سے زاید افراد شریک تھے جن میں بچوں اور عورتوں کی بڑی تعداد بھی شامل تھی۔ جیسے ہی ہجوم نے صوبے کے قانون ساز ادارے کی عمارت ''ودن بھاون'' کی جانب مارچ شروع کیا تو پولیس نے لاٹھی چارج شروع کردیا۔
کچھ دیر تک تو ہجوم نے مزاحمت کی، تاہم پولیس نے اسے بزور پیچھے دھکیل دیا، جس کے نتیجے میں پیچھے موجود لوگوں اور واپس بھاگ کر آنے والے لوگوں میں ٹکراؤ ہوگیا اور وہ ایک دوسرے پر گرگئے۔ اس صورت حال کے باعث ایک سو چودہ افراد موت کے منہ میں چلے گئے، جن میں اکثریت معصوم بچوں اور خواتین کی تھی۔
٭بغداد، عراق
2005 Al-Aaimmah bridge stampede
اکتیس اگست سن دوہزار پانچ کو بغداد میں دریائے دجلہ کے الائمہ پُل پر بھگدڑ کے باعث نوسو تریپن زائرین زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب زائرین مسجد کاظمیہ میں واقع امام موسیٰ الکاظمؒ کے مزار کی جانب رواں دواں تھے۔ اس دوران مجمع میں یہ خبر پھیل گئی کہ ایک خودکش بم بار مجمع میں داخل ہوگیا ہے۔
یہ خبر سنتے ہی افراتفری پھیل گئی اور لوگ جان بچانے کی غرض سے جہاں راستہ نظر آیا بھاگنے لگے۔ کچھ دریا میں کود گئے، جن میں سے بیشتر ڈوب کر جاں بحق ہوئے۔ اس افسوس ناک واقعے میں نو سو تریپن قیمتی جا نو ں کا زیاں ہوا تھا۔ واضح رہے کہ عراق کے صدر صدام حسین نے اس قسم کے مذہبی اجتماعات پر پابندی لگا رکھی تھی۔ سن دو ہزار تین میں صدام حسین کی حکومت کے اختتام کے بعد دوبارہ شروع ہونے والے اس اجتماع میں دس لاکھ سے زاید زائرین شریک تھے۔
٭انڈیا۔ مہاراشٹر
Mandher Devi temple stampede
انڈیا کے صوبے مہاراشٹر کے ضلع ستارہ کے علاقے وئی میں ''مندھرا دیوی'' کا مندر ہے۔ پہاڑ پر واقع اس مندر میں ہر سال پورے چاند کے موقع پر جنوری کے مہینے میں مذہبی رسومات ادا کی جاتی ہیں جس میں ہندو زائرین دیوتاؤں کی خوش نودی کے لیے جانوروں کی قربانی بھی دیتے ہیں۔
چوں کہ یہ مندر پہاڑ پر واقع ہے، لہٰذا اس مندر تک پہنچنے کے لیے پہاڑ کو تراش کر سیڑھیاں بنائی گئی ہیں۔ پچیس جنوری دو ہزار پانچ کو منعقد ہونے والے تہوار میں تین لاکھ افراد بیک وقت پہاڑ کے دامن سے مندر میں پہنچنے کے لیے سیڑھیوں پر چڑھنے لگے، جس کے دوران پھسلن کے باعث کچھ زائرین نیچے گرگئے۔ یہ منظر دیکھتے ہی نیچے والے زائرین واپس پلٹنے لگے۔ اس افراتفری میں کچلنے جانے کے باعث دو سو اکناوے افراد ہلاک ہوگئے۔
٭انڈیا۔ ہماچل پردیش
2008 Naina Devi temple stampede
تین اگست سن دو ہزار آٹھ کو انڈیا کی ریاست ہماچل پردیش کے ضلع بیلاسپور میں زائرین نینا دیوی کے مندر میں مذہبی رسومات میں مصروف تھے۔ اس دوران تیز بارش شروع ہوگئی۔ دو پہاڑیوں کے درمیان کھائی میں واقع اس مندر کے ساتھ بارش سے بچنے کے لیے منتظمین نے ایک سائبان بنایا ہوا تھا۔ تیز ہوا کے باعث یہ سائبان گر نے لگا تو زائرین سمجھے کہ لینڈ سلائیڈنگ ہورہی ہے اور گھبراہٹ کا شکار ہوکر مندر سے نکلنے لگے۔
چھوٹے سے رقبے پر بنے اس مندر میں اس وقت تین ہزار افراد تھے، جو ایک دم باہر نکلنے کے لیے بے تاب ہوگئے۔ مندر سے باہر نکلنے کے لیے ایک پتلی سی گلی تھی جو اتنے لوگوں کے یک بیک باہر نکلنے کے لیے ناکافی تھی۔ چناں چہ راستے کی تنگی کے باعث دم گُھٹنے اور کچلے جانے سے ایک سو پچاس سے زاید افراد جاں بحق ہوگئے۔ مرنے والوں میں چالیس معصوم بچے بھی شامل تھے۔
٭انڈیا۔ جودھپور۔
2008 Jodhpur stampede
تیس ستمبر سن دو ہزار آٹھ کو راجستھان کے ضلع جودھپور میں مندر میں بھگدڑ مچنے کا واقعہ پیش آیا۔ عینی شاہدین کے مطابق چمندا دیوی کے مندر میں جمع ہونے والے زائرین اس وقت ایک دوسرے پر چڑھ دوڑے جب یہ افواہ پھیلی کہ مندر میں بم ہے۔ اس جھوٹی افواہ کے نتیجے میں ہونے والی بھگدڑ کے دوران دو سو چوبیس افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔
جس وقت یہ سانحہ پیش آیا۔ مندر اور اس کے اطراف میں پچیس ہزار زائرین موجود تھے اسی نوعیت کے دیگر دو مزید واقعات میں چودہ جنوری سن دو ہزار گیارہ کو ریاست کیرالہ کے''سباراملا مندر'' میں بھگدڑ کے باعث ایک سو چھے زائرین اور تیرہ اکتوبر سن دو ہزار تیرہ کو مدھیہ پردیش کے ضلع داتیا میں ناوراتری تہوار کے موقع پر ایک سو پندرہ افراد حبسِ دم اور کچلنے سے ہلاک ہوئے تھے۔
٭کمبوڈیا۔ پنوم پن
The Phnom Penh Stampede
کمبوڈیا کے دارالحکومت پنوم پن میں ہر سال کمبوڈین واٹر فیسٹول منایا جاتا ہے، جس میں مقامی دریا ''ٹونل سیپ'' میں پانی کی فراوانی کے لیے رسومات انجام دی جاتی ہیں۔ بائیس نومبر دو ہزار دس کو اس تہوار میں شرکت کے لیے کثیر تعداد میں شہری ایک پُل پر سے پیدل گزر رہے تھے۔
یہ پُل جو اسٹیل کے تاروں پر بندھا ہوا تھا ہوا سے جھولنے لگا جو ایسے پلوں میں عموماً ہوتا ہے، لیکن پل پر ہزاروں کی تعداد میں موجود لوگ سمجھے کہ پُل ٹوٹ رہا ہے، جس کے نتیجے میں بھگدڑ مچی اور سانحہ وقوع پذیر ہوا۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق تین سو چوہتر اور آزاد ذرائع کے مطابق ساڑھے چارسو سے زاید افراد اس سانحے میں ہلاک ہوئے۔
بھگدڑ میں بچوں کی ہلاکت
(The Victoria Hall Stampede)
انسانی جانوں کے زیاں کا یہ واقعہ اس لحاظ سے بے حد الم ناک ہے کہ اس واقعے میں پونے دو سو بچے بھگدڑ کے باعث ہلاک ہوئے تھے۔ واقعات کے مطابق سولہ جون اٹھارہ سو تراسی کو برطانیہ کے علاقے سانڈرلینڈ کے وکٹوریہ ہال میں پیش آنے والے اس سانحے میں بچوں کے لیے ایک ادارے کی جانب سے ورائٹی شو کا اہتمام کیا گیا تھا، جس کے دوران انتظامیہ کی جانب سے شریک ہونے والے ہر بچے کے لیے کھلونے باٹنے اور انعامات دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔
پروگرام کے اختتام پر کھلونے باٹنے میں بدنظمی ہوئی اور بچے کھلونے حاصل کرنے کی جستجو میں ایک دوسرے پر چڑھ گئے، جس کے نتیجے میں نیچے موجود بچے دب کر جاں بحق ہوگئے، جیسے ہی انتظامیہ کو صورت حال کا اندازہ ہوا تو اس نے باقی ماندہ بچوں کو ہال سے باہر نکالنا شروع کیا، لیکن ہال سے باہر نکلنے کا ایک ہی دروازہ تھا، لہٰذا بچے وہاں بھی ایک دوسرے پر گرتے گئے۔ مجموعی طور پر حادثے میں ایک سو تراسی بچے جاں بحق ہوئے تھے۔ اس واقعے کے بعد پہلی مرتبہ برطانیہ میں ہالوں میں ''ایگزٹ ایمرجینسی دروازے'' کو لازمی قرار دیا گیا۔
ایک اور واقعے میں جو بارہ فروری اٹھارہ سو تیئس کو مالٹا کے دارلحکومت ولیتا شہر میں پیش آیا، ایک سو دس بچے سالانہ منعقد ہونے والے مقامی تہوار کے اختتام پر بدنظمی کے باعث کچل کر ہلاک ہوئے۔
اسی طرح کے ایک واقعے میں جو تنزانیہ میں دو اکتوبر دوہزار آٹھ کو پیش آیا، بیس بچے کچل کر ہلاک ہوگئے تھے۔ یہ بچے جو ایک رقص کے پروگرام میں شریک تھے، رقص کے مرکزی ہال میں ضرورت سے زیادہ رش ہوجانے کے باعث باہر نکلنے کی کوشش میں جاں بحق ہوئے۔
جب جلنے کے خوف نے جان لی
آتش زدگی کے خوف سے بھاگنے کے بعد بھگدڑ کے نتیجے میں کچل کر مرجانے والے اہم سانحات کی تفصیلات کچھ اس طرح ہیں۔
٭اروکیوئس تھیٹر فائر۔ امریکا
(Iroquois Theatre fire)
تیس دسمبر سن انیس سو تین کو شکاگو شہر میں پیش آنے والے اس واقعے میں چھے سو دو افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ واقعات کے مطابق اروکیوئس تھیٹر میں ڈرامے کے دوران تیسری منزل پر لگا ہوا آرائشی پرد ہ برقی قمقموں پر گرگیا۔ پردے نے دیکھتے ہی دیکھتے آگ پکڑ لی دوسری اور تیسری منزل پر موجود تماشائیوں نے جیسے ہی اپنے سروں پر آگ لگی دیکھی تو وہ تھیٹر سے باہر نکلنے کے لیے دوڑ پڑے، جس کے نتیجے میں بھگدڑ مچی اور چھے سو دو افراد جاں کی بازی ہار گئے۔
٭بروکلین تھیٹر فائر۔ امریکا
(Brooklyn Theatre fire)
امریکا کے شہر بروکلین میں مشہور زمانہ بروکلین تھیٹر میں پانچ دسمبر اٹھارہ سو چھیتر کو آگ لگنے کے دوران بھگدڑ کے باعث بہت سی انسانی جانیں ضائع ہوئیں، جس وقت تھیٹر میں آگ لگی ہال تماشائیوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ آگ لگنے کا احساس ہوتے ہی تماشائی باہر نکلنے کے لیے بے تاب ہوگئے، جب کہ ہال سے باہر جانے کا صرف ایک راستہ تھا راستہ تنگ ہونے کے باعث تماشائی ایک دوسرے کو روندنے پر مجبور ہوگئے۔ بعدازاں کچلے ہوئے انسانوں کے ڈھیر میں سے دوسو اٹھتر لاشیں دریافت ہوئیں۔
٭شیلو چرچ۔ امریکا
(Shiloh Baptist Church stampede)
انیس ستمبرسن انیس سو دو کو امریکا کی ریاست الباما کے شہربرمنگھم کے شیلو چرچ میں پیش آنے والے اس سانحے کے پیچھے ایک دل چسپ واقعہ بیان کیا جاتا ہے۔ واقعات کے مطابق چرچ میں مشہور ماہرتعلیم اور اس وقت کے صدر کے مشیر ''بکر ٹی واشنگٹن'' کا خطاب ختم ہوا تو ان کی کسی بات سے اختلاف کرتے ہوئے سامعین میں سے کسی نے آواز لگائی '' اے فائٹ''، جسے حاضرین نے '' اے فائر'' سمجھا اور اپنی نشستوں سے اٹھنا شروع کردیا۔
اس دوران تقریب کے منتظم نے لوگوں کو پرسکون رہنے کے لیے ٹیبل پر موجود گھنٹی بجائی تو لوگ اسے آگ لگنے کا الارم سمجھ بیٹھے اور اندھادھند باہر کی جانب دوڑ لگادی۔ یہ چرچ زمین سے پندرہ فٹ بلندی پر بنایا گیا تھا۔ سیڑھیوں پر لوگ ایک دوسرے پر گرنے لگے اور اس طرح کچلنے کے باعث مجموعی طور پر ایک سو پندرہ افراد جاں بحق ہوئے۔
٭کس نائٹ کلب۔ برازیل
(Kiss nightclub fire)
کلب میں موجود لوگ جان بچانے کے لیے باہر کی جانب بھاگنے لگے، لیکن نائٹ کلب سے باہر نکلنے کے راستے محدود تھے، جس کے باعث لوگ دروازوں میں پھنس گئے اور دم گُھٹنے سے مرنے لگے۔ اس سانحے میں مجموعی طور پر دوسو بیالیس افراد موت کی وادی میں اتر گئے۔
پاکستان میں بھگدڑ سے جنم لینے والے المیے
دس اکتوبر سن دو ہزار چودہ کو تحریک انصاف کا جلسہ ملتان میں منعقد کیا گیا۔ جلسے میں عوام کی کثیر تعداد موجود تھی جو تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی تقریر سننے کے لیے جمع تھی۔ قاسم باغ اسٹیڈیم میں جیسے ہی جلسہ ختم ہوا عوام اسٹیڈیم سے باہر نکلنے لگے، لیکن جلسے کی انتظامیہ کے مطابق میدان کے صرف دو گیٹ کھولے گئے جس کے باعث عوام کا رش ان دروازوں پر بڑھ گیا اور سات افراد دم گھٹنے اور دبنے کے باعث جاں بحق ہوئے اور چالیس سے زاید زخمی ہوئے۔
حج کے دوران ہونے والے سانحات
(The Hajj Stampede)
حج کے مبارک موقع پر حجاج کرام کی کثرت کے باعث چھوٹے چھوٹے حادثات ہوتے رہتے ہیں، تاہم دو جولائی انیس سو نوے کو ہونے والی بھگدڑ میں چودہ سو چھبیس حجاج کرام موت کی آغوش میں چلے گئے تھے۔
یہ واقعہ مکہ سے منیٰ اور میدان عرفات کی جانب جانے والی چھے سو گز طویل اور تیس فٹ چوڑی سرنگ ''المشیم'' میں راستہ تنگ ہوجانے کے باعث پیش آیا تھا۔ حادثے کی تحقیقات کرنے والی ٹیم کے مطابق سرنگ میں ایک ہزار افراد کے گزرنے کی گنجائش تھی، جب کہ حادثے کے وقت پانچ ہزار سے زاید عازمین حج یہاں سے گزر رہے تھے۔
اس دوران درجۂ حرارت پینتالیس ڈگری سینٹی گریڈ تھا۔ تنگ راستے اور گرم موسم کے باعث بیشتر حاجی حبس دم سے بچنے کے لیے جلدازجلد سرنگ سے باہر نکلنا چاہتے تھے، جو بنیادی طور پر بھگدڑ کی وجہ بنی۔ اس حادثے میں شہادت پانے والے بیشتر حجاج کا تعلق پاکستان، ملائیشیا اور انڈونیشیا سے تھا۔ دوران حج عازمین حج کی ہلاکت کے حوالے سے یہ اب تک کا سب سے اندوہ ناک ترین واقعہ ہے۔
تئیس مئی انیس سو چورانوے کو بھی دوران حج دوسو ستر حاجی بھگدڑ کے باعث خالق حقیقی سے جا ملے تھے۔ یہ واقعہ رمی کے دوران پیش آیا۔ اس واقعے کے چار سال بعد نو اپریل انیس سو اٹھانوے کو بھی کچھ ایسی ہی صورت حال پیش آئی، جب جمرات کے پُل پر بھگدڑ مچی جس کے دوران کچلے جانے کے باعث ایک سو اٹھارہ حاجی جاں بحق ہوئے۔
بعد ازاں نئی صدی کے آغاز پر پانچ مارچ دو ہزار ایک میں دوران رمی پینتیس حاجی بھگدڑ کے ہاتھوں جان کی بازی ہار گئے۔ دو سال بعد گیارہ فروری دو ہزار تین کو رمی کرنے کے دوران ہی چودہ افراد اور پھر اگلے سال یکم فروری دو ہزار چار کو دو سو اکیاون حاجی دوران رمی کچلے جانے کے باعث خالق حقیقی سے جاملے۔ ان واقعات کے بعد ایک اور بڑا واقعہ بارہ جنوری دو ہزار چھے کو پیش آیا جب رمی ہی کے دوران تین سو چھیالیس عازمین حج بھگدڑ کے ناگہانی واقعے میں جاں بحق ہوئے ۔
بھگدڑ میں کچلے جانے اور حبس دم سے ہلاک ہونے والے واقعات کا تازہ ترین سانحہ امسال چوبیس ستمبر دو ہزار پندرہ کو پیش آیا، جس میں سعودی انتظامیہ کے مطابق آٹھ سو اور آزاد ذرائع کے مطابق اب تک بارہ سو سے زاید عازمین حج شہید ہوچکے ہیں۔ یہ واقعہ بڑے شیطان کو جسے رمی جمار کہتے ہیں، کنکریاں مارنے کے عمل کے دوران منیٰ میں پیش آیا۔
عینی شاہدین کے مطابق اس موقع پر کچھ عازمین نے شیطان کو کنکریاں مارنے کے بعد واپسی کا تجویز کردہ راستہ اختیار کرنے کے بجائے اس راستے ہی سے واپسی کا سفر شروع کردیا جہاں سے کنکریاں مارنے کے لیے عازمین حج کے مزید قافلے آرہے تھے۔
اس غلطی کے باعث حجاج ایک دوسرے کے آمنے سامنے آگئے اور دھکم پیل شروع ہوگئی، جو قیمتی جانوں کے زیاں کا باعث بنی۔ اس واقعے کا ایک الم ناک پہلو یہ بھی ہے کہ تادم تحریر ایک سو دو پاکستانی عازمین حج لاپتا ہیں، جب کہ جاں بحق ہونے والے پاکستانی عازمین کی تعداد ستاون ہوچکی ہے۔