انسانی تاریخ میں انمٹ نقوش کی حامل تصویریں جو انقلاب لے آئیں
ان یادگار تصاویر کا دل افروز تذکرہ جنھوں نے عوام سے لے کر طاقتور حکومتوں تک کی سائیکی پہ کایاپلٹ نما اثرات مرتب کیے
پچھلے دنوں سمندر کنارے مردہ پڑے تین سالہ ایلان کردی کی تصویر نے پوری دنیا کو ہلا ڈالا۔ تصویر دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ معصوم بچہ سکون سے پیاری ماں کی آغوش میں محو خواب ہے ۔ یہ تصویر اتنی دردناک اور لرزہ خیز تھی کہ ایک انقلاب لانے کا سبب بن گئی۔ ایلان شامی پناہ گزیں والدین کا بیٹا تھا۔ وہ بھی ہزار ہا شامیوں کی طرح والدین کے ساتھ یورپ کی طرف رواں دواں تھا۔ مگر یورپی ممالک انہیں قبول کرنے کو تیار نہ تھے اور ان پناہ گزینوں کو بوجھ سمجھتے۔ یورپی حکومتوںکا جذبہ انسانیت و ترحم مفادات تلے دبا ہوا تھا۔
2 ستمبر کو ترکی سے یونان جاتے ہوئے ایلان کی کشتی ا لٹ گئی۔ وہ اپنے بھائی اور ماں سمیت اللہ کو پیارا ہوا۔ جبکہ بیچارا باپ پیاروں کا ماتم کرنے کے لیے زندہ رہ گیا۔ ساحل سمندر پر بے یارو مدد گار پڑے ایلان کی تصویر اور اس سے وابستہ دردناک داستان نے دیکھنے اور سننے والوں کے دل دہلا ڈالے۔ اب تصویر سے متاثر یورپی عوام نے اپنی حکومتوں پر دبائو ڈالا کہ وہ ہمدردی اور رحم دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تارکین وطن کو پناہ دیں۔ یو ں ایلان کردی کی دلخراش موت نے یورپیوں کا نیم مردہ ضمیر جھنجھوڑ ڈالا اور اسے بیدار کر دیا۔
آنکھوں میں آنسو لے آنے والی یہ تصویر جنگ کی تباہ کاریاں بھی اجاگر کر گئی۔ اگر ایلان کا وطن جنگ زدہ نہ ہوتا تو وہ بھی آج گھر کے سکون بخش ماحول میں ہنسی خوشی اپنے کھلونوں سے لطف اندوز ہو رہا ہوتا ۔ مگر بڑوں کے مفادات نے ایک معصوم زندگی کی بھینٹ لے لی۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ محض ایک تصویر نے نہ صرف کروڑوں انسانوں کو متاثر کیا بلکہ اس کی وجہ سے طاقتور حکومتیں اپنی پالیسیاں بدلنے پر مجبور ہو گئیں۔ جدید انسانی تاریخ میں پہلے بھی ایسی انقلاب انگیز تصاویر ظہور پذیر ہو چکیں اور انہوںنے یہ مقولہ ثابت کر دکھایا کہ ایک تصویر ہزار لفظوں سے زیادہ قوت رکھتی ہے۔ اسی طرح ایک امریکی فوٹو گرافر' میلی مان کا قول تصویر کی اہمیت بخوبی عیاں کرتا ہے:''تصویر دیکھتے ہوئے ماضی کا دروازہ کھل جاتاہے' لیکن ساتھ ساتھ وہ مستقبل میں جھانکنے کا موقع بھی عطا کرتی ہے۔''
فوٹو گرافی دو سو سال پہلے وجود میں آئی۔ان برسوں میں بعض تصاویر انقلابی ثابت ہوئیں اور انہوں نے سیاسی' معاشرتی یا اخلاقی لحاظ سے بنی نوع انسان کی نفسیات پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ ایسی ہی کچھ لیجنڈری اور ''آئکونک'' تصاویر کا بیان پیش خدمت ہے۔
(1) موت کی فصل
پونے دو سو سال قبل امریکا میں غلامی کی لعنت کا دور دورہ تھا۔ آخر غریب خاندان سے تعلق رکھنے والے صدر' ابراہام لنکن نے اسے ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس پہ 1861ء میں امیر امریکی زمین داروں اور کاروباریوں نے لنکن کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ غلاموں کی تجارت سات امریکی ریاستوں میں زورں پر تھی' لہٰذا وہ وفاق امریکا سے ا لگ ہو گئیں اور کنفیڈریٹ کہلائیں۔وفاق اور کنفیڈریٹ کی افواج کے مابین 1861ء تا 1865ء جنگ جاری رہی۔ دوران جنگ 1تا 3جولائی 1863ء کو گیٹس برگ کی لڑائی لڑی گئی۔مورخین اس لڑائی کو امریکی خانہ جنگی کا ''نقطہ تبدیلی'' (turning point) قرار دیتے ہیں۔ لڑائی میں وفاقی افواج کو فتح حاصل ہوئی۔ یوں کنفیڈریٹ کی فوجیں پسپا ہونے پر مجبور ہو گئیں۔
اس وقت تک کیمرا ایجاد ہو چکا تھا۔ لہٰذا ٹموتھی سولیوان نامی ایک فوٹو گرافر نے اپنی جان خطرے میں ڈالی اور میدان جنگ پہنچ کر تصاویر اتارنے لگا۔ 3 جولائی1863ء کی شام جب گیٹس برگ کی لڑائی ختم ہوئی تو وہاں بھی ٹموتھی نے میدان جنگ کی ایک تصویر اتاری۔ یہ دنیا کی اولیں تصویر ہے جس نے وسیع پیمانے پر انسانی نفسیات پہ دوررس اثرات مرتب کیے۔
یہ تصویر جنگ کی تباہ کاریاں اور خوفناکی نہایت مؤثر انداز میں اجاگر کرتی ہے۔ میدان میں سیکڑوں فوجی لاوارثوں کی طرح پڑے ہیں اور بے رحم موت نے انہیں پیاروں اور زندگی سے جدا کر دیا۔ ٹموتھی نے اپنی تصویر کو بجا طور پر ''موت کی فصل'' (A Harvest of Death) کا سحر انگیز نام دیا۔ یہ آج بھی چیخ چیخ کر کہتی ہے کہ بنی نوع انسان کا روشن مستقبل جنگوں نہیں امن میں پوشیدہ ہے۔
(2) مہاجر عورت
1929ء تا 1932ء مغربی دنیا زبردست معاشی بحران سے گزری جسے ''کساد عظیم'' (Great Depression) کا نام دیا گیا۔اس بحران نے سب سے زیادہ امریکا کو نشانہ بنایا۔ اس ابھرتی عالمی طاقت کی صنعتی پیداوار '' 46 فیصد'' تک گھٹ گئی اور ''70فیصد'' غیر ملکی تجارت ہاتھوں سے جاتی رہی۔ اسی لیے سیکڑوں امریکی کمپنیاں کام نہ ہونے کے باعث بند ہو گئیں۔ ان کی بندش نے امریکا میں یک دم لاکھوں بے روز گار پیدا کر دیئے۔ایک تحقیق کے مطابق کساد عظیم کی وجہ سے امریکا میں بے روزگاری ''607 فیصد'' تک بڑھ گئی۔ شہروں اور قصبات میں بے روزگاروں کے غول کے غول نظر آنے لگے۔ وہ کام کی تلاش میں مارے مارے پھرتے مگر انہیں ملازمت نہ ملتی۔ عالم یہ تھا کہ وہ چند نوالوں کے لیے کوئی بھی کام کرنے کو تیار ہو جاتے۔
انہی بے روزگاروں میں فلورنس اوونز تھامپسن (1903ء ۔1083ء) بھی شامل تھی۔ وہ بھی اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ امریکی ریاستوں میں کام ڈھونڈتی پھرتی تھی۔ جہاں عارضی ملازمت ملتی ' یہ خاندان وہیں ڈیرا جما دیتا۔ گزر بسر بہت مشکل سے ہو رہی تھی۔مارچ 1936ء میں یہ خاندان لاس اینجلس کے قریب واقع فارموں تک پہنچا تاکہ کسی کھیت یا باغ میں کام کر سکے۔ یہ خاندان ٹوٹی پھوٹی گھوڑا گاڑی میں سفر کرتا تھا۔ ایک جگہ گاڑی کا ٹائرپنکچر ہو گیا۔ چنانچہ فلورنس کا شوہر اسے مرمت کرانے قریبی قصبے چلا گیا۔ فلورنس خود اپنے پھٹے پرانے خیمے میں ڈیرہ ڈال کر خاوند کی آمد کا انتظار کرنے لگی۔
اسی دوران ایک سماجی کارکن' ڈورتھیا لینگے کا وہاں سے گزر ہوا۔ یہ عورت ''امریکا میں غربت'' کے موضو ع پر تحقیق کرتی اور غریبوں کی تصاویر بناتی تھی۔ اس نے ایک تباہ حال خاندان کو دیکھا' تو ان کے پاس چلی آئی۔فلورنس نے اسے بتایا کہ وہ کام کی تلاش میں ہیں۔ کھیتوں سے سبزباں توڑ کر کھاتے اور بمشکل خود کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ ڈورتھیا نے بچوں کے ساتھ فلورنس کی چھ تصاویر اتاریں اور رخصت ہو گئی۔
ڈورتھیا نے پھر سان فرانسسکو کے ایک اخبار کے ایڈیٹر سے رابطہ کیا۔ اسے بتایا کہ لاس اینجلس کے مضافاتی فارموں میں کام ڈھونڈنے والے بھوک کا شکار ہیں۔ ڈورتھیا نے بطور ثبوت اسے فلورنس کی دو تصاویر بھی دیں۔ ایڈیٹر نے وہ تصاویر خبر کے ساتھ شائع کر دیں۔
ایک تصویر میں فلورنس اداسی و بے چارگی کا نشانہ بنی بیٹھی ہے۔ اس کے دو بچے کاندھوں پر آرام کر رہے ہیں۔ تیسرا گود میں ہے یہ تصویر دیکھ کر دل خودبخود غریب ماں پر ترس کھاتا اور چاہتا ہے کہ اس کی مدد ہو جائے۔ اسی تصویر نے امریکی صدر سے لے کر عام امریکیوں کو بہت متاثر کیا۔ امریکی حکومت نے پھر لاس اینجلس کے فارموں میں مقیم چار پانچ ہزار کسانوں کی خاطر''20 ہزار پونڈ'' خوراک بھجوائی ۔ نیز ان کی حالت زار بہتر بنانے کے لیے مختلف اقدامات کئے۔
یوں مصیبتوں کی ماری ماں کی تصویر حکومتی سطح پر ہلچل مچانے میں کامیاب رہی۔ یہ تصویر اب ''مہاجر عورت'' (Migrant Mother) کہلاتی اور عالمی سطح پہ غربت و بیچارگی کا استعارہ سمجھی جاتی ہے۔ جب بھی خصوصاً تارکین وطن کے مصائب بیان کرنے ہوں' یہ تصویر متن میں جان ڈال دیتی ہے۔فلورنس کی یہ تصویر سب سے پہلے سان فرانسسکو نیوز میں شائع ہوئی ۔ اسی اخبار میں مستقبل کا مشہور ناول نگار جان سٹین بیک بھی کام کرتا تھا۔ اسے تصویر دیکھ کر بہت صدمہ پہنچا۔ سٹین بیک نے پھر غریبوں اور مہاجروں کی حالت زار اجاگر کرنے کے لیے ایک ناول The Grapes of Wrath تحریر کیا۔ اس ناول کو انگریزی ادب کے کلاسیک کا درجہ مل چکاہے۔ اس کا شمار دنیاکے 100بڑے ناولوں میں ہوتا ہے۔
(3)پھولوں کی طاقت
دوسری جنگ عظیم کے بعد ویت نام دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ شمالی ویت نام میں کمیونسٹ برسراقتدار آئے،تو جنوبی ویت نام میں غیر کمیونسٹ! 1959ء میں شمالی ویت نام نے جنوبی ویت نام کے خلاف جنگ چھیڑ دی ۔ اسی جنگ میں امریکا نے آخر الذکر کا ساتھ دیا تاکہ کمیونسٹوں کو شکست دی جا سکے۔امریکی صدر جان کینیڈی ویت نام جنگ کا حصہ نہیں بننا چاہتے تھے۔ مگر ان کے بعد امریکا اس جنگ میں الجھتا چلا گیا۔ 1964ء کے بعد ہزار ہا امریکی ویت نام پہنچے اور کمیونسٹوں سے لڑے۔ جب کئی امریکی فوجی مارے گئے تو امریکا میں جنگ کے خلاف عوامی مظاہرے ہونے لگے۔ ان مظاہروں میںطلبہ و طالبات پیش پیش تھے۔
1965ء میں مشہور امریکی شاعر' ایلن گینز برگ نے طلبہ کو مشورہ دیا کہ وہ مظاہروں کو پُرامن رکھنے کے لیے ''پھولوں کی طاقت'' (Flower Power) استعمال کریں... یعنی سکیورٹی فورسز کے ارکان اور سپاہیوں کو پھول بطور تحفہ دیں۔ نیز گانے گائیںاور حاضرین میں ٹافیاں ' گولیاں تقسیم کریں۔ غرض ہر وہ ایسا عمل اپنائیں جس سے مظاہروں کو امن پسند بنایا جاسکے۔
طالب علم رہنماؤں کو یہ مشورہ پسند آیا۔ 21 اکتوبر 1967ء کو جنگ مخالف تنظیموں نے پینٹا گون (امریکی وزارت جنگ) کے باہر ایک زبردست مظاہرہ کیا۔ اس میں ہزار ہا مظاہرین شریک تھے۔جب مظاہرین مارچ پاسٹ کرتےپینٹا گون کے نزدیک پہنچے تو رائفلیں تھامے فوجی وہاں آ پہنچے۔ وہ خاصے غصیلے نظر آتے ۔ تیور بتا رہے تھے کہ وہ مظاہرین پہ گولی چلانے سے پرہیز نہیں کریں گے۔
دیکھتے ہی دیکھتے فوجیوں کے ایک گروہ نے جلوس کے اگلے مظاہرین کو تین اطراف سے گھیر لیا۔ لگتا تھا کہ کچھ نہ کچھ ہو کر رہے گا۔ اچانک پیچھے سے لمبے بالوں والا ایک نوجوان نمودار ہوا۔ اس نے ہاتھ میں کارنیشن پھول پکڑ رکھے تھے۔ وہ ایک ایک کر کے تنی رائفلوں کی نالیوں کے سوراخوں میں پھول ڈالنے لگا۔یہ بڑا نوکھا اور سحر انگیز منظر تھا۔ ایک اخبار، واشنگٹن سٹار کا فوٹو گرافر' برنی بوسٹن بھی قریب ہی ایک دیوار پر براجمان تھا۔اسے احساس ہو گیا کہ یہ جنگ مخالف مظاہروں کی تاریخ کا بڑا انقلابی منظر ہے۔ لہٰذا وہ فوراً تصاویر کھینچنے لگا۔
بدقسمتی سے اخبار کا ایڈیٹر تصویر کی اہمیت کا ادراک نہیں کر سکا۔ اس نے تصویر کو اندر کے صفحات میں غیر اہم جگہ پر لگایا۔ مگر برنی بوسٹن نے ہمت نہ ہاری، وہ اپنی تصویر تصاویر کے مقابلوں میں بھجوانے لگا۔ کئی مقابلوں میں تصویر نے اول انعام حاصل کیا۔ یوں تصاویر قومی اور عالمی سطح پر پذیرائی حاصل کرنے لگیں۔یہ تصویر اب"Flower Power" کہلاتی اور دنیا بھر میں پرامن احتجاج کا استعارہ بن چکی ہے۔ اس تصویر نے خصوصاً دنیائے مغرب میں پرامن مظاہروں کو رواج دیا جن کے شرکا گولی کا جواب پھول سے دینا چاہتے تھے۔
(4)سیاہ طاقت کا سلیوٹ
ابراہام لنکن کی سعی کے باوجود امریکا میں نسلی تعصب ختم نہ ہوا اور کئی ریاستوں میں سفید فام انگریز سیاہ فاموں پر بدستور ظلم ڈھاتے رہے۔ وہ انہیں اپنا غلام سمجھتے اور ان سے جانوروں جیسا سلوک کرتے۔ امریکی معاشرے میں سفید فام اور سیاہ فام دو مختلف دنیائوں میں آباد تھے۔سفید فام دنیا میں آسائشات کا دور دورہ تھا۔ ہر شخص کو آزادی حاصل تھی جبکہ سیاہ فام دنیا میں غربت و جہالت کا راج تھا۔ لوگ سفید فاموں کے رحم و کرم پر زندگی گزارتے اور غلامی کا طوق ان کی گردنوں میں پڑا رہتا۔
آخر بیسویں صدی میں اس ظالمانہ نسلی تعصب کے خلاف تحریک شروع ہوئی۔ اس تحریک نے عام سیاہ فام امریکیوں کو باور کرایا کہ وہ بھی حقوق رکھتے اور آزاد و خود مختار انسان ہیں۔ تاہم نسلی برتری کے غرور میں مبتلا سفید فام امریکیوں کو ''نگرز'' کی یہ تحریک پسند نہ آئی اور وہ اسے ناکام بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے رہے۔
جب سفید فام اور سیاہ فام اقلیت کے مابین جنگ عروج پر تھی، تو اولمپکس 1968ء آپہنچے۔ اس موقع پر بعض سیاہ فام راہنمائوں خصوصاً سان جوز سٹیٹ یونیورسٹی سے وابستہ پروفیسر عمرانیات، ہیری ایڈورڈز نے یہ مہم چلائی کہ سیاہ فام کھلاڑیوں کو اولمپکس مقابلوں میں شریک نہیں ہونا چاہیے۔پروفیسر ہیری کا استدلال یہ تھا کہ سفید فام امریکی حکومت اپنے مفادات پورے کرنے کی خاطر سیاہ فام کھلاڑیوں کو ''کرتب دکھانے والے سرکس کے جانوروں'' کی طرح استعمال کرتی ہے۔ اسے سیاہ فاموں کی فلاح و بہبود سے کوئی دلچسپی نہیں، بس وہ زیادہ سے زیادہ تمغے جیت کر دنیا والوں پر اپنی طاقت ٹھونسنا چاہتی ہے۔
درج بالا تحریک سیاہ فام کھلاڑیوں کو اولمپکس میں شریک نہ ہونے سے روک تو نہیں سکی، تاہم دو ایتھلیٹوں نے معتصب اور مغرور سفید فام امریکیوں کے خلاف تاریخی احتجاج ضرور کر ڈالا۔ہوا یہ کہ 16 اکتوبر 1968ء کی صبح امریکی سیاہ فام ایتھلیٹ، ٹومی اسمتھ نے دو سو میٹر کی دوڑ جیت لی اور نیا عالمی ریکارڈ قائم کیا۔ آسٹریلوی پیٹر نارمن دوسرے اور امریکی سیاہ فام، جان کارلوس تیسرے نمبر پر آیا۔ تب کسی کو علم نہ تھا کہ ان تینوں نے نسلی تعصب کے خلاف احتجاج کا پروگرام بنا رکھا ہے۔
جب تینوں انعام لینے اسٹیج پر آئے، تو وہاں بیٹھے سبھی لوگ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ٹومی اور جان برہنہ پا تھے۔ انہوں نے صرف سیاہ موزے پہن رکھے تھے۔ یہ موزے دراصل امریکی سیاہ فاموں کی غربت و پسماندگی کا مظہر تھے۔ٹومی اسمتھ نے گردن میں سیاہ اسکارف پہن رکھا تھا۔ یہ سیاہ فاموں کے فخر کی علامت بنا۔ جان کارلوس نے اپنے ٹریک سوٹ کی زپ کھول رکھی تھی۔ یہ ان سیاہ فاموں سے اظہار یک جہتی تھا جو امریکا کے کارخانوں اور دکانوں میں معمولی ملازمتیں کرتے تھے۔ مزید براں اس نے ایک مالا بھی پہن رکھی تھی۔ یہ ان سیاہ فاموں کی یاد میں زیب تن کی گئی جنہیں سفید فاموں نے بے دردی سے ہلاک کر ڈالا تھا۔
آسٹریلیا کا سفید فام ایتھلیٹ، پیٹر نارمن بھی نسلی تعصب کا مخالف تھا۔ اس نے امریکی سیاہ فاموں سے اظہار یکجہتی کے لیے ''اولمپک پروجیکٹ فار ہیومن رائٹس'' نامی تنظیم کا بیج پہنا۔ پروفیسر ہیری نے یہ تنظیم سیاہ فاموں کے حقوق حاصل کرنے کی خاطر قائم کی تھی۔جب امریکی ترانہ بجا تو دونوں ایتھلیٹوں نے سر جھکا دیا۔ یوں انہوں نے مملکت امریکا کا احترام کیا۔ لیکن ساتھ ہی ٹومی نے اپنا سیدھا جبکہ جان نے الٹا بازو ہوا میں بلند کردیا۔ دونوں نے ہاتھوں میں سیاہ دستانے پہن رکھے تھے۔ ہوا میں بلند یہ بازو امریکی سیاہ فاموں کی طاقت اور اتحاد کی علامت تھے۔
امریکی سفید فام اکثریت کے ظلم و ستم کے خلاف ہونے والے اس انوکھے احتجاج کی تصویریں لائف رسالے کے فوٹو گرافر ،جان ڈومینس نے کھینچی۔ یہ اب دنیا بھر میں نسلی تعصب ظاہر کرنے والی نشانی بن چکیں اور اس لعنت کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں اکثر استعمال ہوتی ہیں۔انھیں ''سیاہ فام طاقت کو سیلوٹ'' (Black Power salute)کا نام ملا۔حسب توقع امریکی سفید فاموں نے دونوں ''باغی'' سیاہ فام ایتھلیٹوں سے بہت برا سلوک کیا۔ تیسرے دن ہی انہیں امریکی دستے سے نکال کر امریکا بھجوا دیا گیا۔ وہاں سفید فاموں نے ٹومی اور جان کا معاشرتی بائیکاٹ کردیا۔ حتیٰ کہ انہیں قتل کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔ لیکن آج انہیں سیاہ فاموں کی تحریک شہری حقوق (سول رائٹس موومنٹ) کا ہیرو سمجھا جاتا ہے اور وہ امریکی معاشرے میں معزز درجہ رکھتے ہیں۔
(5)جنگ کی دہشت
مقولہ ہے:'' اگر ا نسان نے جنگیں ختم نہ کیں' تو وہ خود ختم ہو جائے گا۔'' یہ حقیقت ہے ، معلوم انسانی تاریخ میں جنگوں کی وجہ سے کروڑوں انسان لقمہ اجل بن چکے مگر جنگ کا چلن آج تک ختم نہیں ہوا۔ جنگوں کی ہولناکیاں سامنے لانے میں''جنگ کی دہشت''(The Terror of War) نامی تصویر کو بھی اہم مقام حاصل ہے۔
نو سالہ فان تھی کم جنوبی ویت نام کے گائوں ترنگ بانگ کی رہائشی تھی۔ جون 1972ء میں شمالی ویت نام کی فوج نے گائوں پر حملہ کردیا۔ اس جگہ امریکی و جنوبی ویت نامیوں کا فوجی مستقرموجود تھا۔ چناں چہ طرفین میں زبردست لڑائی چھڑگئی۔8 جون کو جنوبی ویت نام کے طیاروں نے علاقے میں نیپام بم گرائے۔تب جنوبی ویت نامی فوجی فان تھی اور دیگر بچوں کو محفوظ مقام کی طرف لے جارہے تھے۔ بدقسمتی سے ایک جنوبی ویت نامی پائلٹ نے انہیں دشمن سمجھا اور ان پر بھی نیپام بم پھینک دیا۔
بم نے فان تھی کے رشتے دار دو بچے مار ڈالے جبکہ وہ خود بری طرح جھلس گئی۔ اس نے آگ میں جلتے اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے اور برہنہ محفوظ مقام کی سمت دوڑنے لگی۔ اس کی کمر جھلس گئی اور وہ تکلیف کے مارے چلا رہی تھی۔ یاد رہے، نیپام بم خطرناک آتش گیر مادہ رکھتا ہے۔ یہ مادہ جب جسم پر پڑے، تو 800 تا 1200 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت پیدا کرتا اور جلد جھلسا دیتا ہے۔ (پانی 100 ڈگری سینٹی گریڈ پر کھولنے لگتا ہے۔)
اس موقع پر امریکی خبر رساں ایجنسی، اے پی سے وابستہ ویت نامی فوٹو گرافر، نک اٹ بھی موجود تھا۔ نک نے اس دردناک منظر کی تصویر اتار لی جسے 1972ء میں پلٹزر انعام ملا۔یہ تصویر جنگ کی ہولناکی و خوفناکی بخوبی عیاں کرتی ہے۔ ایک طرف خوفزدہ بچے جان بچانے کے لیے بھاگ رہے ہیں۔ فان تھی کم جھلس جانے کے بعد درد سے بے حال ہے۔ اُدھر جنوبی ویت نامی فوجی ایسے بے پروا انداز میں چل رہے ہیں جیسے جنگ نے ان کے جذبات و احساسات مردہ کر ڈالے ہوں۔ پس منظر میں نیپام بموں سے لگی ہیبت ناک آگ نظر آرہی ہے۔
بچی کی برہنگی کے باعث اے پی کے ایڈیٹر نے یہ تصویر شائع کرنے سے انکار کردیا ۔ تاہم مشہور فوٹوگرافر، ہورسٹ فاس کا استدلال تھا کہ یہ تصویر فحاشی نہیں بلکہ جنگ کی تباہ کاریاں آشکار کرتی ہے۔ لہٰذا اسے فحش قرار نہیں دیا جاسکتا۔ چناں چہ ہورسٹ کے اصرار پر تصویر شائع کرنے کی خاطر اخباروں کو بھیج دی گئی۔ تصویر نے امریکی عوام کو بہت متاثر کیا۔ جلد ہی عوام نکسن حکومت پر زور ڈالنے لگے کہ ویت نام سے امریکی فوج واپس بلائی جائے۔ یوں ایک مصیبت زدہ بچی کی تصویر امن کا پیغام بن گئی اور اس نے ویت نام جنگ ختم کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔
(6)گدھ اور ننھی بچی
جب مسلمان مبلغ سوڈان پہنچے، تو وہ شمالی علاقوں میں اسلام کا نور پھیلانے میں کامیاب رہے۔ جنوبی علاقوں میں بدستور مقامی مذاہب کا دور دورہ رہا۔ بعدازاں جنوبی علاقوں میں مشنریوں کی کوششوں سے عیسائیت پھیلنے لگی۔ 1882ء میں برطانیہ نے سوڈان پر قبضہ کرلیا۔ اس کے دور میں جنوبی سوڈان عیسائیت کا بڑا مرکز بن گیا۔1956ء میں برطانوی سوڈان سے رخصت ہوئے، تو جنوبی علاقوں میں مقیم عیسائی شمالی سوڈان کے مسلمانوں سے جنگ چھیڑ چکے تھے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ سوڈان کے وسائل پر شمالی سوڈان کے مسلمان قابض ہیں۔ یوں سوڈان کی پہلی خانہ جنگی شروع ہوئی جو 1972ء تک جاری رہی۔ گیارہ سال بعد پھر جنوبی سوڈان کے باغیوں نے جنگ چھیڑ دی جو 2005ء میں امن معاہدے کی صورت ختم ہوئی۔ بعدازاں 2011ء میں جنوبی سوڈان علیحدہ مملکت بن گیا۔
دوسری خانہ جنگی کے دوران 1993ء میں جنوبی افریقا کا ایک تیتیس سالہ فوٹو گرافر، کیون کارٹر سوڈان پہنچا۔ وہ جنگ کی تباہ کاری اجاگر کرتی تصاویر بنانا چاہتا تھا۔ ایک جگہ اسے عجیب منظر نظر آیا۔ایک ماں اپنی بچی کو زمین پر ڈال امدادی مرکز سے راشن لینے چلی گئی۔ اس دوران ایک گدھ بچی کے نزدیک آبیٹھا۔ یوں لگتا تھا، وہ اس انتظار میں ہے کہ کب نہایت کمزور بچی مرے اور وہ اس کی لاش کھا کر اپنا پیٹ بھرے۔
کیون کارٹر نے اس منظر کو اپنی تصویر میں محفوظ کرلیا۔ یہ تصویر پھر دنیا کے نامی گرامی اخبارات میں شائع ہوئی۔ یہ بھی جنگ کے باعث جنم لینے والی تباہیاں خصوصاً قحط کی مصیبتیں پوری ہولناکی سے اجاگر کرتی ہے۔ اپریل 1994ء میں اس تصویر پر کیون کارٹر کو پلٹزر انعام سے نوازا گیا۔
سوڈان میں کیون کارٹر نے بھوک پیاس سے بے تاب انسان دیکھے۔ یہ بھی دیکھا کہ وہ سسک سسک کر زندگی گزار رہے ہیں۔ ان خوفناک مناظر نے کیون کی نفسیات پر دیرپا اثرات مرتب کیے۔ وہ جنوبی افریقا پہنچ کر بھی روتے بلکتے بچوں، عورتوں اور مردوں کو اپنے ذہن سے کھرچ نہ سکا۔نتیجہ یہ نکلا کہ شدید نفسیاتی کشمکش کا شکار ہوگیا۔ نفسیاتی مریض بن کر جب اس سے کام ٹھیک نہ ہوا، تو ادارے نے اسے نکال دیا۔ بے روزگاری نے اس پر مزید منفی اثرات مرتب کیے۔ اس اثنا میں وہ پیسے پیسے کا محتاج ہوگیا۔ مزید مصائب کیون سے برداشت نہ ہوسکے اور 27 جولائی 1994ء کو اس نے خودکشی کرلی۔ یوں جنگ کی ہولناکی نے ایک حساس فوٹو گرافر کا قصّہ تمام کر دیا۔
دراصل کیون کارٹر بچپن سے حساس اور سچ کا عاشق تھا۔ نوجوانی میں وہ فوجی بن گیا۔ ایک بار میس میں سفید فام فوجی افسر ایک سیاہ فام بیرے کی بے عزتی کرنے لگے۔ کیون سے نہ رہا گیا اور افسروں سے الجھ بیٹھا۔انہوں نے اس کی ٹھکائی کر ڈالی۔ کیون نے پھر فوج کو خیرباد کہا اور فوٹو گرافی کا پیشہ اپنالیا۔ تاہم اس نے جنوبی افریقہ اور سوڈان میں مار دھاڑ کے مناظر اور لڑائیوں سے تباہ حال انسان دیکھے، تو اس کا حساس دل انسانیت کی تذلیل ہوتے دیکھ کر تڑپ اٹھا۔ چونکہ وہ حالات بدلنے پر قادر نہ تھا لہٰذا خودکشی کرکے خود ہی یہ جنگ زدہ دنیا چھوڑ گیا۔
(7)ہوا میں معلق انسان
امریکیوں نے اکیسویں صدی کے اوائل میں افغانستان اور عراق پر قبضہ کیا۔ جلد ہی ہزارہا افغانیوں اور عراقیوں کو قیدی بنالیا گیا۔ ان سے ''راز'' اگلوانے اور تفتیش کرنے کی خاطر امریکیوں نے نت نئے انداز اپنائے اور تشدد کے جدید طریقے ایجاد کرلیے۔افغانی اور عراقی قیدیوں کی خودی بہت بلند تھی۔ یہ خودی توڑنے اور انہیں ذلیل کرنے کی طرف امریکیوں نے خاص توجہ دی۔ امریکی فوج نے ماہرین نفسیات کی خدمات حاصل کیں۔ ان امریکی ڈاکٹروں نے پھر تفتیش کے ایسے نفسیاتی و جسمانی طریقے وضع کیے جن کی مدد سے مسلمان قیدیوں کی خودی کچلی جاسکے۔ یہ طریقے اتنے فحش اور شرمناک ہیں کہ انہیں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ اکثر طریقے افغان اور عراقی جیلوں کے علاوہ گوانتانامو جیل میں بھی اختیار کیے گئے۔
یہ اپریل 2004ء کی بات ہے، جب عراق کی ابو غریب جیل میں کھینچی گئی تصاویر سامنے آئیں۔ ان تصاویر میں امریکی فوجی نہایت گھنائونے انداز میں عراقیوں پر ظلم و ستم ڈھارہے ہیں۔ ان تصاویر نے امریکیوں کو ظالم اور طاقت کے نشے میں چور مغرور انسانوں کی حیثیت سے نمایاں کیا۔
ابوغریب جیل کی ایک تصویر خصوصاً مشہور ہوئی جس میں ایک عراقی ڈبے پر استادہ ہے۔ اس نے بازو کھول رکھے ہیں اور ہاتھوں کے ساتھ بجلی کی تاریں بندھی ہیں۔ منہ سیاہ نقاب سے ڈھکا ہوا ہے اور بدن سیاہ چادر سے... غرض یہ ایسے بدقسمت عراقی کی تصویر ہے جو تعصب کا شکار امریکی درندہ نما فوجیوں کے ہتھے چڑھ گیا۔یہ تصویر اب نہتے و بے بس قیدیوں پر طاقتور کے تشدد کا استعارہ بن چکی۔ یہ بیک وقت ظالم کی بربریت جبکہ مظلوم کی بے چارگی عیاں کرتی اور دیکھنے والے کے رونگٹے کھڑے کردیتی ہے۔ اس تصویر نے دنیا بھر میں امریکیوں کے تصّور کو نقصان پہنچایا جو انسانی حقوق کے چیمپئن بنے پھرتے ہیں۔
یہ تصویر عراقی نوجوان، علی شلال القیاسی کی ہے جس پر امریکیوں نے بہت تشدد کیا۔ اسی تشدد نے بیچارے شلال کو نفسیاتی مریض بنا دیا۔ وہ جس کرب و اذیت سے گزرا تھا، اس کی یادیں علی شلال کو ہر دم تڑپاتی رہتیں۔ کچھ ایسا ہی برا حال تمام افغان و عراقی قیدیوں کا بھی ہوا۔ امریکیوں نے تشدد کے عجیب و غریب طریقے اپناکر مسلمان قیدیوں کی زندگیاں تباہ کر ڈالیں۔ بعدازاں محض ''سوری'' کہہ کر اپنے گناہوں سے بری الذمہ ہوئے۔
2 ستمبر کو ترکی سے یونان جاتے ہوئے ایلان کی کشتی ا لٹ گئی۔ وہ اپنے بھائی اور ماں سمیت اللہ کو پیارا ہوا۔ جبکہ بیچارا باپ پیاروں کا ماتم کرنے کے لیے زندہ رہ گیا۔ ساحل سمندر پر بے یارو مدد گار پڑے ایلان کی تصویر اور اس سے وابستہ دردناک داستان نے دیکھنے اور سننے والوں کے دل دہلا ڈالے۔ اب تصویر سے متاثر یورپی عوام نے اپنی حکومتوں پر دبائو ڈالا کہ وہ ہمدردی اور رحم دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تارکین وطن کو پناہ دیں۔ یو ں ایلان کردی کی دلخراش موت نے یورپیوں کا نیم مردہ ضمیر جھنجھوڑ ڈالا اور اسے بیدار کر دیا۔
آنکھوں میں آنسو لے آنے والی یہ تصویر جنگ کی تباہ کاریاں بھی اجاگر کر گئی۔ اگر ایلان کا وطن جنگ زدہ نہ ہوتا تو وہ بھی آج گھر کے سکون بخش ماحول میں ہنسی خوشی اپنے کھلونوں سے لطف اندوز ہو رہا ہوتا ۔ مگر بڑوں کے مفادات نے ایک معصوم زندگی کی بھینٹ لے لی۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ محض ایک تصویر نے نہ صرف کروڑوں انسانوں کو متاثر کیا بلکہ اس کی وجہ سے طاقتور حکومتیں اپنی پالیسیاں بدلنے پر مجبور ہو گئیں۔ جدید انسانی تاریخ میں پہلے بھی ایسی انقلاب انگیز تصاویر ظہور پذیر ہو چکیں اور انہوںنے یہ مقولہ ثابت کر دکھایا کہ ایک تصویر ہزار لفظوں سے زیادہ قوت رکھتی ہے۔ اسی طرح ایک امریکی فوٹو گرافر' میلی مان کا قول تصویر کی اہمیت بخوبی عیاں کرتا ہے:''تصویر دیکھتے ہوئے ماضی کا دروازہ کھل جاتاہے' لیکن ساتھ ساتھ وہ مستقبل میں جھانکنے کا موقع بھی عطا کرتی ہے۔''
فوٹو گرافی دو سو سال پہلے وجود میں آئی۔ان برسوں میں بعض تصاویر انقلابی ثابت ہوئیں اور انہوں نے سیاسی' معاشرتی یا اخلاقی لحاظ سے بنی نوع انسان کی نفسیات پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ ایسی ہی کچھ لیجنڈری اور ''آئکونک'' تصاویر کا بیان پیش خدمت ہے۔
(1) موت کی فصل
پونے دو سو سال قبل امریکا میں غلامی کی لعنت کا دور دورہ تھا۔ آخر غریب خاندان سے تعلق رکھنے والے صدر' ابراہام لنکن نے اسے ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس پہ 1861ء میں امیر امریکی زمین داروں اور کاروباریوں نے لنکن کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ غلاموں کی تجارت سات امریکی ریاستوں میں زورں پر تھی' لہٰذا وہ وفاق امریکا سے ا لگ ہو گئیں اور کنفیڈریٹ کہلائیں۔وفاق اور کنفیڈریٹ کی افواج کے مابین 1861ء تا 1865ء جنگ جاری رہی۔ دوران جنگ 1تا 3جولائی 1863ء کو گیٹس برگ کی لڑائی لڑی گئی۔مورخین اس لڑائی کو امریکی خانہ جنگی کا ''نقطہ تبدیلی'' (turning point) قرار دیتے ہیں۔ لڑائی میں وفاقی افواج کو فتح حاصل ہوئی۔ یوں کنفیڈریٹ کی فوجیں پسپا ہونے پر مجبور ہو گئیں۔
اس وقت تک کیمرا ایجاد ہو چکا تھا۔ لہٰذا ٹموتھی سولیوان نامی ایک فوٹو گرافر نے اپنی جان خطرے میں ڈالی اور میدان جنگ پہنچ کر تصاویر اتارنے لگا۔ 3 جولائی1863ء کی شام جب گیٹس برگ کی لڑائی ختم ہوئی تو وہاں بھی ٹموتھی نے میدان جنگ کی ایک تصویر اتاری۔ یہ دنیا کی اولیں تصویر ہے جس نے وسیع پیمانے پر انسانی نفسیات پہ دوررس اثرات مرتب کیے۔
یہ تصویر جنگ کی تباہ کاریاں اور خوفناکی نہایت مؤثر انداز میں اجاگر کرتی ہے۔ میدان میں سیکڑوں فوجی لاوارثوں کی طرح پڑے ہیں اور بے رحم موت نے انہیں پیاروں اور زندگی سے جدا کر دیا۔ ٹموتھی نے اپنی تصویر کو بجا طور پر ''موت کی فصل'' (A Harvest of Death) کا سحر انگیز نام دیا۔ یہ آج بھی چیخ چیخ کر کہتی ہے کہ بنی نوع انسان کا روشن مستقبل جنگوں نہیں امن میں پوشیدہ ہے۔
(2) مہاجر عورت
1929ء تا 1932ء مغربی دنیا زبردست معاشی بحران سے گزری جسے ''کساد عظیم'' (Great Depression) کا نام دیا گیا۔اس بحران نے سب سے زیادہ امریکا کو نشانہ بنایا۔ اس ابھرتی عالمی طاقت کی صنعتی پیداوار '' 46 فیصد'' تک گھٹ گئی اور ''70فیصد'' غیر ملکی تجارت ہاتھوں سے جاتی رہی۔ اسی لیے سیکڑوں امریکی کمپنیاں کام نہ ہونے کے باعث بند ہو گئیں۔ ان کی بندش نے امریکا میں یک دم لاکھوں بے روز گار پیدا کر دیئے۔ایک تحقیق کے مطابق کساد عظیم کی وجہ سے امریکا میں بے روزگاری ''607 فیصد'' تک بڑھ گئی۔ شہروں اور قصبات میں بے روزگاروں کے غول کے غول نظر آنے لگے۔ وہ کام کی تلاش میں مارے مارے پھرتے مگر انہیں ملازمت نہ ملتی۔ عالم یہ تھا کہ وہ چند نوالوں کے لیے کوئی بھی کام کرنے کو تیار ہو جاتے۔
انہی بے روزگاروں میں فلورنس اوونز تھامپسن (1903ء ۔1083ء) بھی شامل تھی۔ وہ بھی اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ امریکی ریاستوں میں کام ڈھونڈتی پھرتی تھی۔ جہاں عارضی ملازمت ملتی ' یہ خاندان وہیں ڈیرا جما دیتا۔ گزر بسر بہت مشکل سے ہو رہی تھی۔مارچ 1936ء میں یہ خاندان لاس اینجلس کے قریب واقع فارموں تک پہنچا تاکہ کسی کھیت یا باغ میں کام کر سکے۔ یہ خاندان ٹوٹی پھوٹی گھوڑا گاڑی میں سفر کرتا تھا۔ ایک جگہ گاڑی کا ٹائرپنکچر ہو گیا۔ چنانچہ فلورنس کا شوہر اسے مرمت کرانے قریبی قصبے چلا گیا۔ فلورنس خود اپنے پھٹے پرانے خیمے میں ڈیرہ ڈال کر خاوند کی آمد کا انتظار کرنے لگی۔
اسی دوران ایک سماجی کارکن' ڈورتھیا لینگے کا وہاں سے گزر ہوا۔ یہ عورت ''امریکا میں غربت'' کے موضو ع پر تحقیق کرتی اور غریبوں کی تصاویر بناتی تھی۔ اس نے ایک تباہ حال خاندان کو دیکھا' تو ان کے پاس چلی آئی۔فلورنس نے اسے بتایا کہ وہ کام کی تلاش میں ہیں۔ کھیتوں سے سبزباں توڑ کر کھاتے اور بمشکل خود کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ ڈورتھیا نے بچوں کے ساتھ فلورنس کی چھ تصاویر اتاریں اور رخصت ہو گئی۔
ڈورتھیا نے پھر سان فرانسسکو کے ایک اخبار کے ایڈیٹر سے رابطہ کیا۔ اسے بتایا کہ لاس اینجلس کے مضافاتی فارموں میں کام ڈھونڈنے والے بھوک کا شکار ہیں۔ ڈورتھیا نے بطور ثبوت اسے فلورنس کی دو تصاویر بھی دیں۔ ایڈیٹر نے وہ تصاویر خبر کے ساتھ شائع کر دیں۔
ایک تصویر میں فلورنس اداسی و بے چارگی کا نشانہ بنی بیٹھی ہے۔ اس کے دو بچے کاندھوں پر آرام کر رہے ہیں۔ تیسرا گود میں ہے یہ تصویر دیکھ کر دل خودبخود غریب ماں پر ترس کھاتا اور چاہتا ہے کہ اس کی مدد ہو جائے۔ اسی تصویر نے امریکی صدر سے لے کر عام امریکیوں کو بہت متاثر کیا۔ امریکی حکومت نے پھر لاس اینجلس کے فارموں میں مقیم چار پانچ ہزار کسانوں کی خاطر''20 ہزار پونڈ'' خوراک بھجوائی ۔ نیز ان کی حالت زار بہتر بنانے کے لیے مختلف اقدامات کئے۔
یوں مصیبتوں کی ماری ماں کی تصویر حکومتی سطح پر ہلچل مچانے میں کامیاب رہی۔ یہ تصویر اب ''مہاجر عورت'' (Migrant Mother) کہلاتی اور عالمی سطح پہ غربت و بیچارگی کا استعارہ سمجھی جاتی ہے۔ جب بھی خصوصاً تارکین وطن کے مصائب بیان کرنے ہوں' یہ تصویر متن میں جان ڈال دیتی ہے۔فلورنس کی یہ تصویر سب سے پہلے سان فرانسسکو نیوز میں شائع ہوئی ۔ اسی اخبار میں مستقبل کا مشہور ناول نگار جان سٹین بیک بھی کام کرتا تھا۔ اسے تصویر دیکھ کر بہت صدمہ پہنچا۔ سٹین بیک نے پھر غریبوں اور مہاجروں کی حالت زار اجاگر کرنے کے لیے ایک ناول The Grapes of Wrath تحریر کیا۔ اس ناول کو انگریزی ادب کے کلاسیک کا درجہ مل چکاہے۔ اس کا شمار دنیاکے 100بڑے ناولوں میں ہوتا ہے۔
(3)پھولوں کی طاقت
دوسری جنگ عظیم کے بعد ویت نام دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ شمالی ویت نام میں کمیونسٹ برسراقتدار آئے،تو جنوبی ویت نام میں غیر کمیونسٹ! 1959ء میں شمالی ویت نام نے جنوبی ویت نام کے خلاف جنگ چھیڑ دی ۔ اسی جنگ میں امریکا نے آخر الذکر کا ساتھ دیا تاکہ کمیونسٹوں کو شکست دی جا سکے۔امریکی صدر جان کینیڈی ویت نام جنگ کا حصہ نہیں بننا چاہتے تھے۔ مگر ان کے بعد امریکا اس جنگ میں الجھتا چلا گیا۔ 1964ء کے بعد ہزار ہا امریکی ویت نام پہنچے اور کمیونسٹوں سے لڑے۔ جب کئی امریکی فوجی مارے گئے تو امریکا میں جنگ کے خلاف عوامی مظاہرے ہونے لگے۔ ان مظاہروں میںطلبہ و طالبات پیش پیش تھے۔
1965ء میں مشہور امریکی شاعر' ایلن گینز برگ نے طلبہ کو مشورہ دیا کہ وہ مظاہروں کو پُرامن رکھنے کے لیے ''پھولوں کی طاقت'' (Flower Power) استعمال کریں... یعنی سکیورٹی فورسز کے ارکان اور سپاہیوں کو پھول بطور تحفہ دیں۔ نیز گانے گائیںاور حاضرین میں ٹافیاں ' گولیاں تقسیم کریں۔ غرض ہر وہ ایسا عمل اپنائیں جس سے مظاہروں کو امن پسند بنایا جاسکے۔
طالب علم رہنماؤں کو یہ مشورہ پسند آیا۔ 21 اکتوبر 1967ء کو جنگ مخالف تنظیموں نے پینٹا گون (امریکی وزارت جنگ) کے باہر ایک زبردست مظاہرہ کیا۔ اس میں ہزار ہا مظاہرین شریک تھے۔جب مظاہرین مارچ پاسٹ کرتےپینٹا گون کے نزدیک پہنچے تو رائفلیں تھامے فوجی وہاں آ پہنچے۔ وہ خاصے غصیلے نظر آتے ۔ تیور بتا رہے تھے کہ وہ مظاہرین پہ گولی چلانے سے پرہیز نہیں کریں گے۔
دیکھتے ہی دیکھتے فوجیوں کے ایک گروہ نے جلوس کے اگلے مظاہرین کو تین اطراف سے گھیر لیا۔ لگتا تھا کہ کچھ نہ کچھ ہو کر رہے گا۔ اچانک پیچھے سے لمبے بالوں والا ایک نوجوان نمودار ہوا۔ اس نے ہاتھ میں کارنیشن پھول پکڑ رکھے تھے۔ وہ ایک ایک کر کے تنی رائفلوں کی نالیوں کے سوراخوں میں پھول ڈالنے لگا۔یہ بڑا نوکھا اور سحر انگیز منظر تھا۔ ایک اخبار، واشنگٹن سٹار کا فوٹو گرافر' برنی بوسٹن بھی قریب ہی ایک دیوار پر براجمان تھا۔اسے احساس ہو گیا کہ یہ جنگ مخالف مظاہروں کی تاریخ کا بڑا انقلابی منظر ہے۔ لہٰذا وہ فوراً تصاویر کھینچنے لگا۔
بدقسمتی سے اخبار کا ایڈیٹر تصویر کی اہمیت کا ادراک نہیں کر سکا۔ اس نے تصویر کو اندر کے صفحات میں غیر اہم جگہ پر لگایا۔ مگر برنی بوسٹن نے ہمت نہ ہاری، وہ اپنی تصویر تصاویر کے مقابلوں میں بھجوانے لگا۔ کئی مقابلوں میں تصویر نے اول انعام حاصل کیا۔ یوں تصاویر قومی اور عالمی سطح پر پذیرائی حاصل کرنے لگیں۔یہ تصویر اب"Flower Power" کہلاتی اور دنیا بھر میں پرامن احتجاج کا استعارہ بن چکی ہے۔ اس تصویر نے خصوصاً دنیائے مغرب میں پرامن مظاہروں کو رواج دیا جن کے شرکا گولی کا جواب پھول سے دینا چاہتے تھے۔
(4)سیاہ طاقت کا سلیوٹ
ابراہام لنکن کی سعی کے باوجود امریکا میں نسلی تعصب ختم نہ ہوا اور کئی ریاستوں میں سفید فام انگریز سیاہ فاموں پر بدستور ظلم ڈھاتے رہے۔ وہ انہیں اپنا غلام سمجھتے اور ان سے جانوروں جیسا سلوک کرتے۔ امریکی معاشرے میں سفید فام اور سیاہ فام دو مختلف دنیائوں میں آباد تھے۔سفید فام دنیا میں آسائشات کا دور دورہ تھا۔ ہر شخص کو آزادی حاصل تھی جبکہ سیاہ فام دنیا میں غربت و جہالت کا راج تھا۔ لوگ سفید فاموں کے رحم و کرم پر زندگی گزارتے اور غلامی کا طوق ان کی گردنوں میں پڑا رہتا۔
آخر بیسویں صدی میں اس ظالمانہ نسلی تعصب کے خلاف تحریک شروع ہوئی۔ اس تحریک نے عام سیاہ فام امریکیوں کو باور کرایا کہ وہ بھی حقوق رکھتے اور آزاد و خود مختار انسان ہیں۔ تاہم نسلی برتری کے غرور میں مبتلا سفید فام امریکیوں کو ''نگرز'' کی یہ تحریک پسند نہ آئی اور وہ اسے ناکام بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے رہے۔
جب سفید فام اور سیاہ فام اقلیت کے مابین جنگ عروج پر تھی، تو اولمپکس 1968ء آپہنچے۔ اس موقع پر بعض سیاہ فام راہنمائوں خصوصاً سان جوز سٹیٹ یونیورسٹی سے وابستہ پروفیسر عمرانیات، ہیری ایڈورڈز نے یہ مہم چلائی کہ سیاہ فام کھلاڑیوں کو اولمپکس مقابلوں میں شریک نہیں ہونا چاہیے۔پروفیسر ہیری کا استدلال یہ تھا کہ سفید فام امریکی حکومت اپنے مفادات پورے کرنے کی خاطر سیاہ فام کھلاڑیوں کو ''کرتب دکھانے والے سرکس کے جانوروں'' کی طرح استعمال کرتی ہے۔ اسے سیاہ فاموں کی فلاح و بہبود سے کوئی دلچسپی نہیں، بس وہ زیادہ سے زیادہ تمغے جیت کر دنیا والوں پر اپنی طاقت ٹھونسنا چاہتی ہے۔
درج بالا تحریک سیاہ فام کھلاڑیوں کو اولمپکس میں شریک نہ ہونے سے روک تو نہیں سکی، تاہم دو ایتھلیٹوں نے معتصب اور مغرور سفید فام امریکیوں کے خلاف تاریخی احتجاج ضرور کر ڈالا۔ہوا یہ کہ 16 اکتوبر 1968ء کی صبح امریکی سیاہ فام ایتھلیٹ، ٹومی اسمتھ نے دو سو میٹر کی دوڑ جیت لی اور نیا عالمی ریکارڈ قائم کیا۔ آسٹریلوی پیٹر نارمن دوسرے اور امریکی سیاہ فام، جان کارلوس تیسرے نمبر پر آیا۔ تب کسی کو علم نہ تھا کہ ان تینوں نے نسلی تعصب کے خلاف احتجاج کا پروگرام بنا رکھا ہے۔
جب تینوں انعام لینے اسٹیج پر آئے، تو وہاں بیٹھے سبھی لوگ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ٹومی اور جان برہنہ پا تھے۔ انہوں نے صرف سیاہ موزے پہن رکھے تھے۔ یہ موزے دراصل امریکی سیاہ فاموں کی غربت و پسماندگی کا مظہر تھے۔ٹومی اسمتھ نے گردن میں سیاہ اسکارف پہن رکھا تھا۔ یہ سیاہ فاموں کے فخر کی علامت بنا۔ جان کارلوس نے اپنے ٹریک سوٹ کی زپ کھول رکھی تھی۔ یہ ان سیاہ فاموں سے اظہار یک جہتی تھا جو امریکا کے کارخانوں اور دکانوں میں معمولی ملازمتیں کرتے تھے۔ مزید براں اس نے ایک مالا بھی پہن رکھی تھی۔ یہ ان سیاہ فاموں کی یاد میں زیب تن کی گئی جنہیں سفید فاموں نے بے دردی سے ہلاک کر ڈالا تھا۔
آسٹریلیا کا سفید فام ایتھلیٹ، پیٹر نارمن بھی نسلی تعصب کا مخالف تھا۔ اس نے امریکی سیاہ فاموں سے اظہار یکجہتی کے لیے ''اولمپک پروجیکٹ فار ہیومن رائٹس'' نامی تنظیم کا بیج پہنا۔ پروفیسر ہیری نے یہ تنظیم سیاہ فاموں کے حقوق حاصل کرنے کی خاطر قائم کی تھی۔جب امریکی ترانہ بجا تو دونوں ایتھلیٹوں نے سر جھکا دیا۔ یوں انہوں نے مملکت امریکا کا احترام کیا۔ لیکن ساتھ ہی ٹومی نے اپنا سیدھا جبکہ جان نے الٹا بازو ہوا میں بلند کردیا۔ دونوں نے ہاتھوں میں سیاہ دستانے پہن رکھے تھے۔ ہوا میں بلند یہ بازو امریکی سیاہ فاموں کی طاقت اور اتحاد کی علامت تھے۔
امریکی سفید فام اکثریت کے ظلم و ستم کے خلاف ہونے والے اس انوکھے احتجاج کی تصویریں لائف رسالے کے فوٹو گرافر ،جان ڈومینس نے کھینچی۔ یہ اب دنیا بھر میں نسلی تعصب ظاہر کرنے والی نشانی بن چکیں اور اس لعنت کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں اکثر استعمال ہوتی ہیں۔انھیں ''سیاہ فام طاقت کو سیلوٹ'' (Black Power salute)کا نام ملا۔حسب توقع امریکی سفید فاموں نے دونوں ''باغی'' سیاہ فام ایتھلیٹوں سے بہت برا سلوک کیا۔ تیسرے دن ہی انہیں امریکی دستے سے نکال کر امریکا بھجوا دیا گیا۔ وہاں سفید فاموں نے ٹومی اور جان کا معاشرتی بائیکاٹ کردیا۔ حتیٰ کہ انہیں قتل کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔ لیکن آج انہیں سیاہ فاموں کی تحریک شہری حقوق (سول رائٹس موومنٹ) کا ہیرو سمجھا جاتا ہے اور وہ امریکی معاشرے میں معزز درجہ رکھتے ہیں۔
(5)جنگ کی دہشت
مقولہ ہے:'' اگر ا نسان نے جنگیں ختم نہ کیں' تو وہ خود ختم ہو جائے گا۔'' یہ حقیقت ہے ، معلوم انسانی تاریخ میں جنگوں کی وجہ سے کروڑوں انسان لقمہ اجل بن چکے مگر جنگ کا چلن آج تک ختم نہیں ہوا۔ جنگوں کی ہولناکیاں سامنے لانے میں''جنگ کی دہشت''(The Terror of War) نامی تصویر کو بھی اہم مقام حاصل ہے۔
نو سالہ فان تھی کم جنوبی ویت نام کے گائوں ترنگ بانگ کی رہائشی تھی۔ جون 1972ء میں شمالی ویت نام کی فوج نے گائوں پر حملہ کردیا۔ اس جگہ امریکی و جنوبی ویت نامیوں کا فوجی مستقرموجود تھا۔ چناں چہ طرفین میں زبردست لڑائی چھڑگئی۔8 جون کو جنوبی ویت نام کے طیاروں نے علاقے میں نیپام بم گرائے۔تب جنوبی ویت نامی فوجی فان تھی اور دیگر بچوں کو محفوظ مقام کی طرف لے جارہے تھے۔ بدقسمتی سے ایک جنوبی ویت نامی پائلٹ نے انہیں دشمن سمجھا اور ان پر بھی نیپام بم پھینک دیا۔
بم نے فان تھی کے رشتے دار دو بچے مار ڈالے جبکہ وہ خود بری طرح جھلس گئی۔ اس نے آگ میں جلتے اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے اور برہنہ محفوظ مقام کی سمت دوڑنے لگی۔ اس کی کمر جھلس گئی اور وہ تکلیف کے مارے چلا رہی تھی۔ یاد رہے، نیپام بم خطرناک آتش گیر مادہ رکھتا ہے۔ یہ مادہ جب جسم پر پڑے، تو 800 تا 1200 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت پیدا کرتا اور جلد جھلسا دیتا ہے۔ (پانی 100 ڈگری سینٹی گریڈ پر کھولنے لگتا ہے۔)
اس موقع پر امریکی خبر رساں ایجنسی، اے پی سے وابستہ ویت نامی فوٹو گرافر، نک اٹ بھی موجود تھا۔ نک نے اس دردناک منظر کی تصویر اتار لی جسے 1972ء میں پلٹزر انعام ملا۔یہ تصویر جنگ کی ہولناکی و خوفناکی بخوبی عیاں کرتی ہے۔ ایک طرف خوفزدہ بچے جان بچانے کے لیے بھاگ رہے ہیں۔ فان تھی کم جھلس جانے کے بعد درد سے بے حال ہے۔ اُدھر جنوبی ویت نامی فوجی ایسے بے پروا انداز میں چل رہے ہیں جیسے جنگ نے ان کے جذبات و احساسات مردہ کر ڈالے ہوں۔ پس منظر میں نیپام بموں سے لگی ہیبت ناک آگ نظر آرہی ہے۔
بچی کی برہنگی کے باعث اے پی کے ایڈیٹر نے یہ تصویر شائع کرنے سے انکار کردیا ۔ تاہم مشہور فوٹوگرافر، ہورسٹ فاس کا استدلال تھا کہ یہ تصویر فحاشی نہیں بلکہ جنگ کی تباہ کاریاں آشکار کرتی ہے۔ لہٰذا اسے فحش قرار نہیں دیا جاسکتا۔ چناں چہ ہورسٹ کے اصرار پر تصویر شائع کرنے کی خاطر اخباروں کو بھیج دی گئی۔ تصویر نے امریکی عوام کو بہت متاثر کیا۔ جلد ہی عوام نکسن حکومت پر زور ڈالنے لگے کہ ویت نام سے امریکی فوج واپس بلائی جائے۔ یوں ایک مصیبت زدہ بچی کی تصویر امن کا پیغام بن گئی اور اس نے ویت نام جنگ ختم کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔
(6)گدھ اور ننھی بچی
جب مسلمان مبلغ سوڈان پہنچے، تو وہ شمالی علاقوں میں اسلام کا نور پھیلانے میں کامیاب رہے۔ جنوبی علاقوں میں بدستور مقامی مذاہب کا دور دورہ رہا۔ بعدازاں جنوبی علاقوں میں مشنریوں کی کوششوں سے عیسائیت پھیلنے لگی۔ 1882ء میں برطانیہ نے سوڈان پر قبضہ کرلیا۔ اس کے دور میں جنوبی سوڈان عیسائیت کا بڑا مرکز بن گیا۔1956ء میں برطانوی سوڈان سے رخصت ہوئے، تو جنوبی علاقوں میں مقیم عیسائی شمالی سوڈان کے مسلمانوں سے جنگ چھیڑ چکے تھے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ سوڈان کے وسائل پر شمالی سوڈان کے مسلمان قابض ہیں۔ یوں سوڈان کی پہلی خانہ جنگی شروع ہوئی جو 1972ء تک جاری رہی۔ گیارہ سال بعد پھر جنوبی سوڈان کے باغیوں نے جنگ چھیڑ دی جو 2005ء میں امن معاہدے کی صورت ختم ہوئی۔ بعدازاں 2011ء میں جنوبی سوڈان علیحدہ مملکت بن گیا۔
دوسری خانہ جنگی کے دوران 1993ء میں جنوبی افریقا کا ایک تیتیس سالہ فوٹو گرافر، کیون کارٹر سوڈان پہنچا۔ وہ جنگ کی تباہ کاری اجاگر کرتی تصاویر بنانا چاہتا تھا۔ ایک جگہ اسے عجیب منظر نظر آیا۔ایک ماں اپنی بچی کو زمین پر ڈال امدادی مرکز سے راشن لینے چلی گئی۔ اس دوران ایک گدھ بچی کے نزدیک آبیٹھا۔ یوں لگتا تھا، وہ اس انتظار میں ہے کہ کب نہایت کمزور بچی مرے اور وہ اس کی لاش کھا کر اپنا پیٹ بھرے۔
کیون کارٹر نے اس منظر کو اپنی تصویر میں محفوظ کرلیا۔ یہ تصویر پھر دنیا کے نامی گرامی اخبارات میں شائع ہوئی۔ یہ بھی جنگ کے باعث جنم لینے والی تباہیاں خصوصاً قحط کی مصیبتیں پوری ہولناکی سے اجاگر کرتی ہے۔ اپریل 1994ء میں اس تصویر پر کیون کارٹر کو پلٹزر انعام سے نوازا گیا۔
سوڈان میں کیون کارٹر نے بھوک پیاس سے بے تاب انسان دیکھے۔ یہ بھی دیکھا کہ وہ سسک سسک کر زندگی گزار رہے ہیں۔ ان خوفناک مناظر نے کیون کی نفسیات پر دیرپا اثرات مرتب کیے۔ وہ جنوبی افریقا پہنچ کر بھی روتے بلکتے بچوں، عورتوں اور مردوں کو اپنے ذہن سے کھرچ نہ سکا۔نتیجہ یہ نکلا کہ شدید نفسیاتی کشمکش کا شکار ہوگیا۔ نفسیاتی مریض بن کر جب اس سے کام ٹھیک نہ ہوا، تو ادارے نے اسے نکال دیا۔ بے روزگاری نے اس پر مزید منفی اثرات مرتب کیے۔ اس اثنا میں وہ پیسے پیسے کا محتاج ہوگیا۔ مزید مصائب کیون سے برداشت نہ ہوسکے اور 27 جولائی 1994ء کو اس نے خودکشی کرلی۔ یوں جنگ کی ہولناکی نے ایک حساس فوٹو گرافر کا قصّہ تمام کر دیا۔
دراصل کیون کارٹر بچپن سے حساس اور سچ کا عاشق تھا۔ نوجوانی میں وہ فوجی بن گیا۔ ایک بار میس میں سفید فام فوجی افسر ایک سیاہ فام بیرے کی بے عزتی کرنے لگے۔ کیون سے نہ رہا گیا اور افسروں سے الجھ بیٹھا۔انہوں نے اس کی ٹھکائی کر ڈالی۔ کیون نے پھر فوج کو خیرباد کہا اور فوٹو گرافی کا پیشہ اپنالیا۔ تاہم اس نے جنوبی افریقہ اور سوڈان میں مار دھاڑ کے مناظر اور لڑائیوں سے تباہ حال انسان دیکھے، تو اس کا حساس دل انسانیت کی تذلیل ہوتے دیکھ کر تڑپ اٹھا۔ چونکہ وہ حالات بدلنے پر قادر نہ تھا لہٰذا خودکشی کرکے خود ہی یہ جنگ زدہ دنیا چھوڑ گیا۔
(7)ہوا میں معلق انسان
امریکیوں نے اکیسویں صدی کے اوائل میں افغانستان اور عراق پر قبضہ کیا۔ جلد ہی ہزارہا افغانیوں اور عراقیوں کو قیدی بنالیا گیا۔ ان سے ''راز'' اگلوانے اور تفتیش کرنے کی خاطر امریکیوں نے نت نئے انداز اپنائے اور تشدد کے جدید طریقے ایجاد کرلیے۔افغانی اور عراقی قیدیوں کی خودی بہت بلند تھی۔ یہ خودی توڑنے اور انہیں ذلیل کرنے کی طرف امریکیوں نے خاص توجہ دی۔ امریکی فوج نے ماہرین نفسیات کی خدمات حاصل کیں۔ ان امریکی ڈاکٹروں نے پھر تفتیش کے ایسے نفسیاتی و جسمانی طریقے وضع کیے جن کی مدد سے مسلمان قیدیوں کی خودی کچلی جاسکے۔ یہ طریقے اتنے فحش اور شرمناک ہیں کہ انہیں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ اکثر طریقے افغان اور عراقی جیلوں کے علاوہ گوانتانامو جیل میں بھی اختیار کیے گئے۔
یہ اپریل 2004ء کی بات ہے، جب عراق کی ابو غریب جیل میں کھینچی گئی تصاویر سامنے آئیں۔ ان تصاویر میں امریکی فوجی نہایت گھنائونے انداز میں عراقیوں پر ظلم و ستم ڈھارہے ہیں۔ ان تصاویر نے امریکیوں کو ظالم اور طاقت کے نشے میں چور مغرور انسانوں کی حیثیت سے نمایاں کیا۔
ابوغریب جیل کی ایک تصویر خصوصاً مشہور ہوئی جس میں ایک عراقی ڈبے پر استادہ ہے۔ اس نے بازو کھول رکھے ہیں اور ہاتھوں کے ساتھ بجلی کی تاریں بندھی ہیں۔ منہ سیاہ نقاب سے ڈھکا ہوا ہے اور بدن سیاہ چادر سے... غرض یہ ایسے بدقسمت عراقی کی تصویر ہے جو تعصب کا شکار امریکی درندہ نما فوجیوں کے ہتھے چڑھ گیا۔یہ تصویر اب نہتے و بے بس قیدیوں پر طاقتور کے تشدد کا استعارہ بن چکی۔ یہ بیک وقت ظالم کی بربریت جبکہ مظلوم کی بے چارگی عیاں کرتی اور دیکھنے والے کے رونگٹے کھڑے کردیتی ہے۔ اس تصویر نے دنیا بھر میں امریکیوں کے تصّور کو نقصان پہنچایا جو انسانی حقوق کے چیمپئن بنے پھرتے ہیں۔
یہ تصویر عراقی نوجوان، علی شلال القیاسی کی ہے جس پر امریکیوں نے بہت تشدد کیا۔ اسی تشدد نے بیچارے شلال کو نفسیاتی مریض بنا دیا۔ وہ جس کرب و اذیت سے گزرا تھا، اس کی یادیں علی شلال کو ہر دم تڑپاتی رہتیں۔ کچھ ایسا ہی برا حال تمام افغان و عراقی قیدیوں کا بھی ہوا۔ امریکیوں نے تشدد کے عجیب و غریب طریقے اپناکر مسلمان قیدیوں کی زندگیاں تباہ کر ڈالیں۔ بعدازاں محض ''سوری'' کہہ کر اپنے گناہوں سے بری الذمہ ہوئے۔