زینت ہماری بزم کی اردو زباں سے ہے

مجلس فروغ اردو ادب دوحہ قطر کا قیام 1994ء میں عمل میں آیا یعنی اب اس کی عمر 21 برس ہو چکی ہے

Amjadislam@gmail.com

KHARTOUM:
مجلس فروغ اردو ادب دوحہ قطر کا قیام 1994ء میں عمل میں آیا یعنی اب اس کی عمر 21 برس ہو چکی ہے لیکن اس علاقے میں اردو اور پاکستان کی دیگر اہم زبانوں کے حوالے سے ادبی محفلوں کا سلسلہ اس سے بھی پرانا ہے۔ مجھے پہلی بار 1986ء میں یہاں آنے کا موقع ملا جب مجھے پاکستانی اسکول دوحہ کی سالانہ تقریب کے مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کیا گیا تھا۔

عزیزی عدیل اکبر، عبدالحمید مفتاح اور ان کے احباب کی ایک تنظیم میری میزبان تھی۔ مقامی شعرا میں رشید نیاز، ممتاز راشد اور قاضی اصغر زیادہ سرگرم تھے جب کہ گل حنیف صاحب پاکستان کے سفر کی ذمے داریاں نبھا رہے تھے اور ہماری موجودہ فارن سیکریٹری اعزاز احمد چوہدری بطور فرسٹ سیکریٹری کام کر رہے تھے۔

اس وقت دوحہ قطر ایک بہت چھوٹا سا شہر تھا جو تقریباً سارے کا سارا ایک مرکزی سڑک کے اردگرد آباد تھا مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ امیگریشن ہال میں صرف چار کاؤنٹر تھے اور اکا دکا آنے والے ہوائی جہاز کم و بیش ایئر پورٹ کی عمارت کے بالکل سامنے آ کر رکتے تھے۔

یہ سلسلہ آئندہ کئی برسوں تک جاری رہا لیکن اب یہ حال ہے کہ اس کی جگہ بننے والے نئے ہوائی اڈے سے روزانہ تقریباً ایک سو فلائٹس صرف قطر ایرویز کی آپریٹ ہوتی ہیں جب کہ اس کا پھیلاؤ اور سہولیات کسی بھی صورت دنیا کے جدید ترین ہوائی اڈوں سے کم نہیں۔ یہی معاملہ شہر کے ساتھ بھی پیش آیا ہے اور اب اس کی نئی آبادیاں ایک ایسے جدید شہر کا منظر پیش کرتی ہیں کہ اگر وہاں کی شدید گرمی کو بیچ میں سے نکال کر دیکھا جائے تو اس کی سکائی لائن کسی امریکی شہر کا تاثر دیتی ہے۔

معلوم ہوا کہ وہاں کا شیزان ہوٹل جس میں کم از کم دس بار ٹھہر چکا ہوں۔ اس وقت بند پڑا ہے کہ بلدیہ کے نئے سیفٹی پلان کے مطابق اس کی عمارت کئی شرائط پر پورا نہیں اترتی لیکن امید کی جاتی ہے کہ یہ مسئلہ جلد حل ہو جائے گا۔ مجلس فروغ اردو ادب کے چیئرمین محمد عتیق، برادرم فرقان پراچہ، شوکت علی ناز، امین موتی والا، اعجاز حیدر، فرتاش سید اور جاوید ہمایوں کے ساتھ مہمانوں کے منتظر تھے۔ انور شعور کراچی سے اور منور رانا بھارت سے پہنچ چکے تھے۔


ہمیں ہوٹل Swiss Bel میں ٹھہرایا گیا جس کے ایک طرف کورنش یعنی ساحل سمندر اور دوسری طرف قطر کا نو تعمیر شدہ نیشنل میوزیم واقع ہے۔ دوپہر کے کھانے پر جب سب لوگ ایک بار پھر اکٹھے ہوئے تو میں نے اور اسلم کولسری نے ایک بار پھر شیزان کے ڈائننگ روم کو یاد کیا جو اگرچہ مقابلتاً بہت چھوٹا اور سادہ تھا مگر آپ کا پورا عملہ منیجر جمشید اقبال کھانا بنانے والے باورچیوں اور بیروں سمیت مہمانوں کی اس طرح خدمت کرتے تھے جیسے وہ ان کے ذاتی مہمان ہوں۔

کھانوں کی ورائٹی اور ذائقہ اس پر مستزاد تھا اور یوں پورا ماحول ایک گھر جیسا محسوس ہوتا تھا ملک مصیب الرحمن مرحوم کا طرز مدارات ایسا تھا کہ ہر کوئی اپنے آپ کو مہمان خصوصی سمجھنے لگتا تھا۔ ایوارڈ کی تقریب کا اہتمام مشاعرے سے ایک دن قبل کیا جاتا ہے اور اس کی میزبانی کے فرائض مجلس کے چیئرمین محمد عتیق اپنی ذاتی حیثیت میں ادا کرتے ہیں۔ سو اس روایت کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے اس بار بھی تقریباً ڈیڑھ سو منتخب مہمانوں کی موجودگی میں یہ رسم نبھائی گئی۔ تقریب کے بعد دیر تک جو غیر رسمی سیشن ہوا اس کا لطف ہی کچھ اور تھا۔ مسقط سے عزیزی قمر ریاض کویت سے خالد سجاد اور ابو ظہبی سے ڈاکٹر صباحت عاصم واسطی بھی پہنچ چکے تھے جب کہ دبئی سے ڈاکٹر ثروت زہرا راستے میں تھیں۔

مشاعرہ حسب روایت شیریٹن کے مجلس ہال میں ہوا جس کا صرف ایک رات کا کرایہ اب 60 ہزار ریال یعنی تقریباً سترہ لاکھ پاکستانی روپے ہو گیا ہے۔ پاکستان کے سفیر شہزاد احمد مہمان خصوصی وزیر ثقافت ڈاکٹر حمد الکواری کے نمائندے اور بھارتی سفارتخانے کے فرسٹ سیکریٹری ابتدائی ایک گھنٹے کے لیے آئے جب کہ مشاعرہ تقریباً پانچ گھنٹے چلا۔ نوجوان شاعروں میں پاکستان کے شاہد ذکی اور بھارت کے محشر آفریدی نے خوب داد سمیٹی۔ اگرچہ منور رانا اور پاپولر میرٹھی کو بھی بہت شوق اور توجہ سے سنا گیا لیکن انھوں نے بھی مائیکروفون سے انسیت کا خوب جم کر مظاہرہ کیا۔

صاحب صدر خورشید رضوی اور مہمانان اعزاز انور شعور اور میرے علاوہ راشد انور راشد اور خوش بیر سنگھ شاد (بھارت) خلیجی ممالک سے آئے ہوئے مہمان شعرا اور دو میزبان شاعروں سمیت کل شعراء کی تعداد 16 تھی جب کہ سامعین ہمیشہ کی طرح ایک ہزار سے زیادہ تھے۔مقامی تنظیموں کی طرف سے عدیل اکبر اور اس کے رفقاء (پاکستان) نے ایک ڈنر اور عزیز نبیل (بھارت) نے قطر کے نو تعمیر شدہ نیشنل میوزیم کی سیر کا اہتمام کیا جس میں بہت سے تاریخی نوادرات بڑے سلیقے سے رکھے گئے ہیں۔

موبائل اور اسمارٹ فونز سے تصویریں اور سیلفیاں بنانے والوں کی کثرت اور شوق کا یہ عالم تھا کہ ہر پروگرام کے آغاز، درمیان اور آخر میں یہ سلسلہ مسلسل جاری رہا۔ لیکن اس جدید ٹیکنالوجی پر بے اعتباری کا یہ عالم تھا کہ اکثر شائقین ایک سے زیادہ کیمروں سے لیس ہوتے تھے۔ فرقان پراچہ نے یوں تو شروع سے آخر تک ہمارا خصوصی خیال رکھا لیکن روانگی کے روز تو وہ ہمہ وقت ہمارے ساتھ ساتھ رہے۔

اس دوران میں برادرم ظفر علی راجہ سے بھی ملاقات ہوئی اور سلیم بخاری صاحب کا پر تکلف لنچ بھی نمٹایا گیا جو اب ان تقریبات کا مستقل حصہ بنتا جا رہا ہے۔ داؤد ملک اور ان کی بیگم نبیلہ بھابھی کا قیام ابھی مزید تین دن تک وہیں تھا لیکن وہ بطور میزبان ہمارے ساتھ ایئرپورٹ تک آئے۔ بیگم خورشید رضوی اور اسلم کولسری کے پاؤں میں تکلیف تھی سو ان کی آڑ میں باقی لوگ بھی ایئرپورٹ کے اندر بزرگوں اور بیماروں کو لے جانے والی خصوصی گاڑی میں بیٹھ گئے اور یوں خاصے طویل پیدل سفر سے بچ گئے۔ یہ اور بات ہے کہ اسلم کولسری سیکیورٹی ایریا میں اپنا فون اور گھر کی چابیاں ٹرے سے اٹھانا بھول گئے جن کی بازیافت کے لیے انھیں ایک فالتو چکر پڑ گیا۔ لیکن اچھی بات یہ ہوئی کہ انھیں دونوں چیزیں واپس مل گئیں۔ اور یوں اس سفر کا انجام بھی خوشگوار رہا۔
Load Next Story