آج کیا ہو گا
انسانوں کی رہنمائی اور ان کے معاملات کو سلجھانا ان کا کام ہوا کرتا تھا اور سیاستدانی کے منصب کو اپنا اعزاز سمجھتے تھے۔
حضرت امیر خسرو اپنے عہد کی ایک حیران کن شخصیت اور جینئس تھے ان کی ایک قوالی کا مصرع مجھے کل رات ایک غیر شائستہ مجلس میں یاد آیا۔ ع ہر سو رقص بسمل بود شب جائے کہ من بودم۔ آپ کسی غلط فہمی میں نہ رہیں کہ میں سچ مچ کسی ایسی محفل میں تھا جہاں اس قوالی کے شعروں اور قوالوں کی مست کُن آوازوں نے رقص بسمل کا منظر پیش کر رکھا تھا اور جدھر نظر اٹھتی تھی ادھر کچھ مست لوگ دنیا جہاں سے بے خبری کی حالت میں دکھائی دیتے تھے اور کسی دوسری دنیا کا پتہ دیتے تھے لیکن یہ سب سیاست دان تھے فقیر درویش نہیں جو کبھی عالی مرتبت لوگ ہوا کرتے تھے۔
انسانوں کی رہنمائی اور ان کے معاملات کو سلجھانا ان کا کام ہوا کرتا تھا اور سیاستدانی کے منصب کو اپنا اعزاز سمجھتے تھے۔ حکمران ایسے لوگوں کی تلاش میں رہتے تھے جو سیاست دانوں اور حکمرانوں کی رہنمائی کر سکیں۔ ہم آج کے دور میں ایسے لوگوں کا ذکر تو سنتے ہیں لیکن ان کو سیاست کرتے دیکھ نہیں سکتے کیونکہ آج کے حکمران ایسے لوگوں سے محتاط رہتے ہیں جو کسی اسکندر کے لیے ارسطو بن جاتے ہیں۔
آپ کو کوفت ہو رہی ہو گی کہ میں اخباری کالموں میں یہ کیا مضمون لے کر بیٹھ گیا ہوں۔ ہوا یوں کہ لاہور میں الیکشن کے ایک بڑے معرکے سے ایک ہی دن پہلے دونوں امیدواروں نے جلسے آراستہ کیے۔ خوب مال خرچا اور رونق لگائی اور ایسے جلسوں میں ایک دوسرے کے بارے میں جن خیالات کا اظہار ہوا کرتا ہے وہ بھی دل بھر کر کیا۔ الزامات کی بوچھاڑ اور طنز و تشنیع کی یلغار۔ جب میں نے ان دونوں جلسوں کے انعقاد کی خبر سنی تو مجھے اپنی رپورٹنگ کا زمانہ یاد آ گیا اور اس بری طرح کہ میں اپنے گٹھنے کی پروا نہ کرتے ہوئے ان دونوں جلسوں میں کود پڑا۔ یہ دونوں جلسے لاہور کے قریبی مقامات پر ہو رہے تھے ایک سمن آباد کی ڈونگی گراؤنڈ جو اس نئی آبادی کے بچوں کی کھیلنے کی تھی اور اس میں آج بچوں کے بزرگ دوسرے بزرگوں پر گرج برس رہے تھے۔
جلسے کا دوسرا مقام مشہور قرطبہ چوک تھا جو پہلی بار کسی سیاسی جلسے کا مرکز بنایا گیا۔ لاہور میں طویل مدت سے قیام کے دوران میں ان دونوں مقامات کا رہائشی بھی رہا ہوں چنانچہ میں بڑے شوق کے ساتھ اپنے پرانے محلوں میں گیا۔ ایک تو سیاسی جلسہ کی رپورٹنگ یاد کرتا رہا دوسرے یہ دیکھا کہ لاہوری بدلے نہیں ہیں قدرے تعجب بھی ہوا۔ شہروں کی تہذیب بہت آہستہ آہستہ بدلتی ہے اس کے لیے وقت چاہیے اور حالات کی تبدیلی بھی۔ بہر کیف اس انکشاف کو دیکھ دیکھ کر میں لاہوریوں کے سیاسی مزاج کو دیکھتا رہا۔ ان دونوں جگہوں سے لاہور کی تاریخی جلسہ گاہ موچی دروازہ دُور ہے اور موچی دروازے میں حاضرین کی ایک بڑی تعداد اندرون لاہور سے ہوا کرتی ہے۔
اندرون لاہور کے باسی مرحوم عبداللہ ملک کہا کرتے تھے کہ گرمیوں میں جلسہ میں جو لوگ آتے ہیں وہ زیادہ تر گرمی کے مارے ہوئے ہوتے ہیں۔ گرمی سے دور سیاست دانوں کی تقریریں اور گپ شپ سے رات گزر جاتی ہے۔
مذکورہ دونوں جلسوں کا انعقاد بھی گرمی کے موسم میں ہوا اور نہ جانے کتنے ہی جلسے یاد آئے اور کتنے ہی بلند مرتبت مقررین کی آوازیں۔ موچی دروازے میں سیاسی جلسے ہوا کرتے تھے جب کہ دلی دروازے میں مجلس احرار کے جلسے جن میں احراری مقررین حاضرین کو دیوانہ بنا دیتے تھے۔ جلسہ اس خطے کی سیاسی تاریخ کا حصہ تھا اور ہے۔
اس کے بغیر سیاست نہیں چل سکتی اب تو جلسہ گاہیں محدود ہو گئی ہیں اور وہ ہال قریب قریب ختم ہو گئے ہیں جہاں تہذیبی اور ادبی مسائل پر بحثیں ہوا کرتی تھیں۔ وائی ایم سی اے اور پنجاب یونیورسٹی ہال ایک تو فراخ تھے دوسرے مال روڈ پر واقع تھے جہاں آنا جانا آسان ہوتا تھا لیکن سیاست کی ضرورتیں بدل گئیں اور یہ جلسے ایسے مقامات پر بھی منتقل ہو گئے جو جلسہ گاہیں نہیں تھیں بہر حال میں اپنی رپورٹنگ کے اختتام پر دو نئی جلسہ گاہوں میں پھر آیا ہوں اور اپنی طویل رپورٹنگ پر تمت بالخیر لکھ دیا ہے۔ وہ جلسہ کیا ہوا جس کے مقررین وزیر ہوں یا دوسرے صاحبان اقتدار جن کی نہ سنی جا سکے اور نہ سنائی جا سکے۔
ان دونوں جلسوں میں ایک طرف موجودہ حکومت تھی تو دوسری طرف عمران خان۔ اب ملک کے اندر سیاست ان دونوں کے درمیان چل رہی ہے جس کا نتیجہ آج کے الیکشن میں نکلے گا بس دعا ہے کہ سب کچھ خیریت سے گزر جائے۔ تشدد بھی سیاست میں آ گیا ہے اور بڑھتا جا رہا ہے۔
میری ذاتی خوشی یہ ہے کہ میں نے چند لمحوں کے لیے اپنے آپ کو پھر سے رپورٹر سمجھ لیا اور ایک خوشگوار یادِ ماضی زندہ ہو گئی۔