کتے کی گواہی…ایک لیڈر کی ضمانت

برائے مہربانی آپ میں سے کوئی بھی اسے موجودہ گرفتاریوں کے ساتھ جوڑنے کی کوشش مت کیجیے


انیس منصوری October 11, 2015
[email protected]

کتوں سے بہترکون بتا سکتا ہے کہ مالک میں کون کون سی اچھی خوبیاں ہیں اورکب آپ کتے کی دُم پر پاؤں رکھیں گے تو مالک کوکرنٹ لگے گا۔ اس لیے پاکستان میں مالک کوکم اوراُس کے کتوں کو زیادہ چھیڑا جاتا ہے۔

برائے مہربانی آپ میں سے کوئی بھی اسے موجودہ گرفتاریوں کے ساتھ جوڑنے کی کوشش مت کیجیے ، کیونکہ میں اُن لوگوں کی بات سے متفق ہوں کہ سیاسی دہشت گردوں یا سیاسی کرپٹ لوگوں کی گرفتاری کسی سازش کا نتیجہ نہیں ہے اور یہ ضیاء لیبارٹری میں تیار کردہ خالص گھی ہے ۔ جس کے کوئی بھی مضر اثرات نہیں ہیں اور میں اُن لوگوں سے ہمیشہ احتجاج کرتا ہوں جو یہ کہتے ہیں کہ کسی بڑے کی دُم پر پاؤں رکھنے کے لیے سارا کمال دکھایا گیا ہے ۔

شاید ہمارے یہاں بھونکنے سے لے کرکاٹنے تک کے کام مالک کم کرتے ہیں اور اُن کے وفادار زیادہ اچھے اداکار ہیں ۔ ہمیں کبھی بھی اچھا نہیں لگا کہ انسانوں کو جانوروں میں تلاش کیا جائے اس لیے ہم ہمیشہ اس قسم کے محاوروں کا استعمال نہیں کرتے کہ'' فلاں ''کتوں جیسا وفادار ہے ، مگر انڈیا میں پائے جانے والے ایک جانور نما وفادار نے ہماری آنکھ کھول دی ۔ خصوصی طور پرجانور نما اس لیے کہا گیا کہ ہمیں آج تک یہ سمجھ نہیں آیا کہ کتا زیادہ وفادار ہوتا ہے یا انسان، کیونکہ انسانوں کو تو کتے جیسا وفادار کہتے سُنا ہے ،مگر آج تک کسی کتے کو انسان جتنا باکمال کہتے ہوئے نہیں دیکھا گیا ۔

یہ انڈیا میں پائے جانا والا وہ خوش قسمت کُتا ہے جیسے میڈیا نے اتنی ہی کوریج دی جتنی ہمارے یہاں دی جاتی ہے ۔ اُس کو پکڑنے کے لیے انڈیا کی پولیس اتنی ہی چست تھی جیسے ہمارے یہاں ہے ۔دلی میں عام آدمی پارٹی کے اہم رہنما کی عزت اس کتے کے ہاتھوں داؤ پر لگی ہوئی تھی ۔ یہ بات تو ہمیں اس رہنما سے پوچھنی تھی کہ اُن کا نام سومناتھ بھارتی کس نے رکھا ۔کیونکہ ایک سومناتھ کو توغزنوی نے نہیں چھوڑا تھا ،اسے کون گرائے گا۔

یہ سمجھ رہے تھے کہ میرا نام کیونکہ سومناتھ ہے اس لیے مجھ پر جب بھی حملہ ہو گا وہ باہر سے ہو گا مگر گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے ۔ سومناتھ کی بیوی نے انقلاب کا نعرہ لگایا اور عدالت میں درخواست دے دی کہ میرے بس میں نہیں کہ میں سومناتھ میں ٹہر سکوں کیونکہ یہ اپنے کتے کے ذریعے مجھ پر حملہ کراتا ہے ۔ سومناتھ بھارتی نے گھر میں بھی باہرکا سیاسی فارمولہ استعمال کرنے کی کوشش کی کہ اپنے ہاتھ گندے کرنے کے بجائے اپنے کتے سے کام لیا جائے ۔

بقول سومناتھ کی بیوی کہ وہ اشارہ کرتے تھے اورکتا مجھ پر بھونکنا شروع کردیتا تھا۔جس طرح تحریک انصاف کی حکومت خیبرپختوانخوا میں ہے اسی طرح عام آدمی دلی پر حکومت کر رہی ہے اور جس طرح خیبرپختوانخوا میں کئی تحریکی گلے میں پھنسے ہوئے ہیں، اسی طرح دلی میں بھی کئی عام آدمی گلے میں اٹکے ہوئے ہیں۔ اس لیے سومناتھ پہلے تو وزیر تھے مگر اب نہیں ہے اور جب آپ کے اپنی پارٹی میں تعلقات، بڑے لوگوں سے خراب ہوں تو پھر وہ ہی ہوتا ہے جوخیبرپختوانخوا میں آفریدی صاحب کے ساتھ ہوا اور دلی میں سومناتھ کے ساتھ ہوا۔ فورا میڈیا اور پولیس حرکت میں آگئی۔سومناتھ کے لیے چھاپے مارے جانے لگے ۔ میڈیا لمحہ با لمحہ کی خبریں نشرکرنے لگا ۔

مگر یہاں ایک مسئلہ تھا۔حکم تو لیڈرکا تھا لیکن بھونکنے اورکاٹنے والا اصل''کتا '' ملزم غائب تھا ۔ پولیس کا خیال تھا کہ وہ بھی اپنے لیڈر کے ساتھ بھاگ گیا ہے ۔ میڈیا میں ڈان کے متعلق انکشافات شروع ہوگئے ۔ کتے کے پڑوسی اور اس کے افئیر بھی تلاش کر لیے گئے ۔

وہ کیسے کھاتا ہے، وہ کیسے سوتا ہے وہ کیسے جاگتا ہے ۔مالک کو چھوڑ کرکتے میں وہ وہ چیزیں ڈھونڈھی گئی کہ شاہ رخ خان بھی اُس کتے کو اپنی فلم میں کوئی کردار دینے کے لیے تیار ہو چکا ہے ۔

اس نایاب کتے کا نام ہے ''ڈان'' ۔ اور اس ڈان نے وہ جملہ ٹھیک ثابت کردیا کہ ''ڈان کو تو سترا ملکوں کی پولیس ڈھونڈ رہی ہے۔'' اس ڈان کو انڈیا کی پولیس اورمیڈیا تلاش کررہا تھا کہ کسی طرح یہ ہاتھ آجائے تو اس کے مالک کو سیدھا کردیں ۔جیسے ہمارے یہاں آج کل تلاش جاری ہے اور چُن چُن کر ایسے پکڑے جارہے ہیں جو یہ بتا دیںکہ وہ اپنے مالک کے کہنے پر ہی کام کرتے رہے ہیں ۔ اب مالک کی میڈیا اور پولیس میں حیثیت کم اورکتے کی زیادہ ہوگئی تھی ۔ ہرطرح کے کتوں کی تلاشی لی جا رہی تھی ۔ پتہ نہیں اس تلاش میں انڈیا کے جنونی میڈیا نے پاکستان کا نام کیوں نہیں لیا موقع اچھا تھا۔

بھارت کے دارالحکومت دلی میں دو ہی باتوں کا شور تھا کہ پاکستان انڈیا کی جنگ کس وقت ہو گی اور دوسرا یہ کہ ڈان کی چال کیسی ہے۔ایسا نااہل میڈیا ہے کہ ایک طرف اقوام متحدہ میں انڈیا اور پاکستان کی فوج آمنے سامنے تھی اور بھارتی میڈیا یہ ڈھونڈھ رہا تھا کہ کتے کی دوائی کہاںہے ۔

اور پھرکتا مل گیا ۔ پولیس نے کتے کوگرفتار کرنے پر داد وصول کی ۔انسانی حقوق کی تنظیموں کے شور کے باوجود کتے کو پٹا ڈال کر لایا گیا ، مگر ایک دم سب کی دوڑیں لگ گئی جب یہ پتہ چلا کہ ڈان کو دل کا مرض ہے ۔اور یہ کسی وقت بھی دل کی دھڑکن بند ہونے سے مر سکتا ہے ۔ اب تو اعلیٰ افسران کے چھکے چھوٹ گئے کہ اگر کتے کوکچھ ہوگیا تو پولیس پر تشدد کا الزام نا آجائے گا۔ پولیس نے بڑے سے بڑے ڈاکٹروں کودکھایا اور پھرکتے کے دل کے لیے خصوصی دوائیاں منگوائیں ۔

پولیس ہماری ہو یا پھر دلی کی ہوتی تو پولیس ہے نا ۔ انھیں معلوم ہوتا ہے کہ کب کس کو کون سی دوا دینی ہے ۔ میڈیا اور پولیس کی محنت کے بعد ملزم ڈان (کتے ) کو عدالت کے روبرو پیش کیا گیا اور جب یہ کہا گیا کہ اب ثابت کیا جائے کہ سومناتھ کے اشارے پر کیا کتا اُس کی بیوی پر بھونکتا ہے ۔ عدالت میں یہ جب کتا نہ بھونکا تو سارے وکیل اور جج ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگ گئے ۔ ہمارے یہاں بھی اکثر عدالت میں سب ایک دوسرے کا منہ ایسے ہی دیکھتے ہیں جب میڈیا پر الزام کچھ ہوتا ہے اور جج حضرات کے سامنے کاغذ کچھ اور ہوتا ہے ۔

سومناتھ کی بیوی کا الزام یہ تھا کہ وہ جب امید سے تھی تو اُس کا شوہر بچہ کی پیدائش نہیں چاہتا تھا ۔اور وہ ڈان سے کہتا تھا کہ اُس پر بھونکے اورکاٹے تاکہ اُس کا بچہ ضایع ہوجائے ۔ جج نے پوچھا کہ کیا کتا اپنے مالک پر بھونک سکتا ہے جب کہ آپ اُس کی دیکھ بھال بھی کر رہے ہوں ۔ اگر پاکستان میں یہ سوال پوچھا جاتا تو بہت سے نام گنوائیں جاسکتے تھے جو اپنے مالک پر بھونکنے لگتے ہیں ۔ لیکن کیا کریں کہ یہ دلی کی عدالت تھی جہاں ہم پہنچ نہیں سکتے تھے ۔

ایک اور رخ یہ تھا کہ جب میاں بیوی لڑتے تھے اورگھر کے معاملات میں کتا بھی ساتھ ہوتا تھا تو کتا اپنے پرانے ساتھ کی وجہ سے سومناتھ کی مددکرتا تھا ۔ کیونکہ کتے اور سومناتھ کا ساتھ 12 سال کا تھا اور بیوی سے 5 سال کا۔ دوسری بات یہ تھی کہ بیوی ، ڈان اور سومناتھ کے درمیان میں آگئی تھی ۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ نئے گھریلو رشتوں میں دوسروں کو زیادہ شامل نہیں کرنا چاہیے ۔

کتے کا کیس ایک اور وجہ سے بھی مضبوط ہو گیا ۔ہوا یہ کہ کتے کو جہاں باندھا گیا وہاں کے لوگوں کے انٹرویو بھی میڈیا نے کیے ۔ جس سے یہ ظاہر ہوا کہ یہ ہڈحرام کتا ہے جو بس کھاتا ہے اور سوتا ہے ۔

یہ صرف اُس وقت بھونکتا ہے جب کمرے کا AC بند کردیا جائے۔اگر اسے کوئی تکلیف نہ ہو تو یہ بھونکنا تو دور کی بات کسی کی طرف نظر اٹھاکر بھی نہیں دیکھتا ۔ سوشل میڈیا پر لوگوں کے کمنٹس دیکھیں جوکتے کی اس ادا پر قربان ہو رہے ہیں ۔ کچھ تو اس کی حمایت میں یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ اس مہذب انسانی صفات رکھنے والے کتے کو پولیس کی گاڑی میں کیوں لایا گیا ہے ۔ اسے VIP پروٹوکول کیوں نہیں دیا گیا ۔

شاید اس خطے کے لیے یہ بڑا مسئلہ نہیں ہے کہ روس اور امریکا کیا کررہے ہیں ۔ ہمارے لیے یہ اہم نہیں ہے کہ ملک ٹوٹ کر تبدیل ہو رہے ہیں ، لیکن اس خطے کے لیے بھرپور خبر یہ ہے کہ کتا کتنا بڑا ڈان تھا اور وہ اپنے مالک کے خلاف بیان دے گا یادم ہلاتا رہے گا ۔ اُس کے بھونکنے سے رفتار میں کیا فرق پڑے گا۔ دلی میں توکتے نے مالک کی ضمانت کرا دی ہمارے یہاں دیکھیں کس کس کی ضمانت ضبط ہوتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں