برآمد کنندگان سے ری فنڈز کے لیے رشوت طلب کرنے کا الزام
سیلزٹیکس ریفنڈز اورکسٹمز ری بیٹ کلیمزپر2تا5فیصد اسپیڈمنی کے عوض باری باری ادائیگیاں کی جاتی ہیں، ذرائع
NEW DELHI:
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے 6ارب روپے سے زائد مالیت کے کسٹمز ری بیٹ کی ادائیگیوں میں سست رفتار پالیسی اختیارکرنے کے باعث برآمدکنندگان کا مالیاتی بحران شدت اختیار کرگیا ہے۔
ذرائع نے بتایاکہ ایف بی آرکے احکام کے مطابق کہ برآمدکنندگان کوماڈل کسٹمزکلکٹوریٹ ایکسپورٹ کراچی سے کسٹمز ری بیٹ کی مد میں زیرالتوا اربوں روپے مالیت کے واجبات میں سے ماہانہ بمشکل 20 کروڑروپے جبکہ پورٹ قاسم کے ایکسپورٹ کلکٹوریٹ سے ماہانہ10 کروڑ روپے مالیت کے کسٹمز ری بیٹ کی ادائیگیوں کی پالیسی اختیار کی گئی ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ برآمدی شعبوں کو کسٹمزری بیٹ کی مد میں ان کے جائز کلیمز کوبھی بلحاظ مالیت 2 تا5 فیصد اسپیڈ منی کے عوض باری باری ادائیگیاں کی جاتی ہیں۔ برآمدکنندگان نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اسی قسم کی صورتحال سے انہیں ان لینڈ ریونیو کے شعبہ سیلزٹیکس میں بھی سامنا کرنا پڑرہا ہے جہاں ان کے اربوں روپے مالیت کے سیلزٹیکس ریفنڈ زیرالتوا ہیں لیکن مخصوص شرح سے اسپیڈ منی کی ادائیگیوں پر ہی انہیں سیلزٹیکس ریفنڈز جاری کیے جاتے ہیں۔
برآمدکنندگان کا کہنا ہے کہ محکمہ کسٹم اورسیلزٹیکس ڈپارٹمنٹ میں ریفنڈز اور ری بیٹ کا نظام غیرشفاف ہونے اور وفاق کی سطح پرمحدود پیمانے پر ادائیگیوں کی پالیسی نے برآمدکنندگان کومایوسی سے دوچار کیا ہوا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ایف بی آر کو کسٹم ڈیوٹی یا سیلزٹیکس کی ادائیگیوں میں تاخیر پر متعلقہ برآمدکنندگان پر اگرچہ بھاری جرمانے عائد کیے جاتے ہیں لیکن جب حکومتی ادارے ایکسپورٹرز کی جائز رقم کی ادائیگیوں میں تاخیر کرتے ہیں تو ان کے لیے کوئی جرمانہ نہیں، اس غیرمنصفانہ پالیسی کے سبب ملکی برآمدات بڑھنے کے بجائے گھٹتی جارہی ہے کیونکہ برآمدکنندگان کا سیلزٹیکس ریفنڈ اور ری بیٹ کی مد میں وسیع سرمایہ منجمد ہوکر رہ گیا ہے اور وہ مالیاتی بحران سے دوچار ہو رہے ہیں۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے 6ارب روپے سے زائد مالیت کے کسٹمز ری بیٹ کی ادائیگیوں میں سست رفتار پالیسی اختیارکرنے کے باعث برآمدکنندگان کا مالیاتی بحران شدت اختیار کرگیا ہے۔
ذرائع نے بتایاکہ ایف بی آرکے احکام کے مطابق کہ برآمدکنندگان کوماڈل کسٹمزکلکٹوریٹ ایکسپورٹ کراچی سے کسٹمز ری بیٹ کی مد میں زیرالتوا اربوں روپے مالیت کے واجبات میں سے ماہانہ بمشکل 20 کروڑروپے جبکہ پورٹ قاسم کے ایکسپورٹ کلکٹوریٹ سے ماہانہ10 کروڑ روپے مالیت کے کسٹمز ری بیٹ کی ادائیگیوں کی پالیسی اختیار کی گئی ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ برآمدی شعبوں کو کسٹمزری بیٹ کی مد میں ان کے جائز کلیمز کوبھی بلحاظ مالیت 2 تا5 فیصد اسپیڈ منی کے عوض باری باری ادائیگیاں کی جاتی ہیں۔ برآمدکنندگان نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اسی قسم کی صورتحال سے انہیں ان لینڈ ریونیو کے شعبہ سیلزٹیکس میں بھی سامنا کرنا پڑرہا ہے جہاں ان کے اربوں روپے مالیت کے سیلزٹیکس ریفنڈ زیرالتوا ہیں لیکن مخصوص شرح سے اسپیڈ منی کی ادائیگیوں پر ہی انہیں سیلزٹیکس ریفنڈز جاری کیے جاتے ہیں۔
برآمدکنندگان کا کہنا ہے کہ محکمہ کسٹم اورسیلزٹیکس ڈپارٹمنٹ میں ریفنڈز اور ری بیٹ کا نظام غیرشفاف ہونے اور وفاق کی سطح پرمحدود پیمانے پر ادائیگیوں کی پالیسی نے برآمدکنندگان کومایوسی سے دوچار کیا ہوا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ایف بی آر کو کسٹم ڈیوٹی یا سیلزٹیکس کی ادائیگیوں میں تاخیر پر متعلقہ برآمدکنندگان پر اگرچہ بھاری جرمانے عائد کیے جاتے ہیں لیکن جب حکومتی ادارے ایکسپورٹرز کی جائز رقم کی ادائیگیوں میں تاخیر کرتے ہیں تو ان کے لیے کوئی جرمانہ نہیں، اس غیرمنصفانہ پالیسی کے سبب ملکی برآمدات بڑھنے کے بجائے گھٹتی جارہی ہے کیونکہ برآمدکنندگان کا سیلزٹیکس ریفنڈ اور ری بیٹ کی مد میں وسیع سرمایہ منجمد ہوکر رہ گیا ہے اور وہ مالیاتی بحران سے دوچار ہو رہے ہیں۔