امریکا اور عالم اسلام
بشار الاسد حکومت کا ناقابل معافی جرم یہ ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف مسلسل مزاحمت کر رہی ہے جو فلسطینیوں پر ظلم ڈھا رہا ہے
KARACHI:
امریکی صدر اوباما نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ طاقت اور پیسے کے زور پر کسی ملک میں امن قائم نہیں کیا جا سکتا۔ امریکی صدر کا کہنا تھا کہ امریکا سمیت دنیا کا کوئی بھی ملک اکیلے دنیا کے مسائل حل نہیں کر سکتا۔ اس کے لیے ہم سب کو مل کر کام کرنا ہو گا۔ عراق میں ہم نے سبق سیکھا کہ طاقت اور پیسے کے زور پر دوسرے ملک میں امن قائم نہیں ہو سکتا کیونکہ علاقوں پر قابض ہونا اب طاقت کی علامت نہیں رہا۔ اب قوموں کی طاقت کا مرکز وہاں کے عوام ہوتے ہیں۔ ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدہ عارضی نہیں ہے بلکہ یہ معاہدہ بین الاقوامی نظام کی مضبوطی کا عکاس ہے۔ داعش نے اسلام کا چہرہ مسخ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہم دنیا کو لاحق خطرات سے آگاہ ہیں، امریکا پچاس ممالک کے ساتھ مل کر اقوام متحدہ کی امن فوج میں اضافہ کرے گا۔ امریکا شام کے تنازعے کے خاتمے کے لیے ایران روس سمیت کسی بھی ملک کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہے۔ انھوں نے کہا کہ شام میں بہت زیادہ خون خرابے اور قتل عام کے بعد وہاں (حکومت کی) جنگ سے پہلے کی جوں کی توں صورت حال نہیں ہونی چاہیے۔
یہاں پر رک کر امریکی صدر سے پوچھا جا سکتا ہے کہ اس سارے خون خرابے اور قتل عام کے ذمے دار امریکا اور اس کے اتحادی ہیں کہ جب ان کی ہر سازش اور کوشش شامی حکومت کا خاتمہ کرنے میں ناکام ہو گئی تو انھوں نے ان باغیوں کو تخلیق کیا جو طاقت کے زور پر بشار حکومت کا خاتمہ کر سکیں یہاں تک کہ ان باغیوں کو ہر طرح کا اسلحہ جنگی ٹریننگ اور بے پناہ مالی وسائل فراہم کیے گئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ شامی حکومت کا تو کیا خاتمہ ہونا تھا حالات بد سے بدترین ہو گئے۔ سوا کروڑ سے زیادہ شامی جو کُل آبادی کا نصف ہیں بے گھر، تباہ برباد ہو گئے۔ چالیس لاکھ مہاجرین اپنی جان بچانے کے لیے عالم عرب اور یورپ کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں۔ کہا یہ گیا کہ شام میں آمریت ہے اس نے اپنے عوام کے حقوق غضب کر رکھے ہیں۔ اگر یہ بات ہے تو امریکا کی سرپرستی میں یہی کام عرب بادشاہتیں اور آمریتیں ایک مدت سے کر رہی ہیں۔ تو پھر بشار حکومت کا جرم کیا ہے۔ بشار حکومت کا اصل جرم یہ ہے کہ وہ کسی صورت اسرائیل کی بالادستی تسلیم کرنے کو تیار نہیں جو دیگر عرب بادشاہتیں اور آمریتیں تسلیم کر چکی ہیں۔
بشار الاسد حکومت کا ناقابل معافی جرم یہ ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف مسلسل مزاحمت کر رہی ہے جو فلسطینیوں پر ظلم ڈھا رہا ہے۔ شامی حکومت فلسطینیوں کی ایک طویل مدت سے اسلحی، مالی شام میں محفوظ ٹھکانے اور ہر طرح کی مدد مہیا کر رہی ہے۔ آج بھی اگر فلسطینی اسرائیل کا مقابلہ پوری قوت سے کر رہے ہیں تو اس کا کریڈٹ دو ملکوں کو جاتا ہے۔ وہ شام اور ایران ہیں۔ ورنہ دیگر عرب بادشاہتیں اور آمریتیں اس المناک صورت حال پر خاموش تماشائی ہیں۔ فلسطینیوں پر اسرائیل کو ظلم کرتے اب تو اتنی مدت گزر گئی ہے کہ بیشتر مسلمان ملکوں نے اس صورت حال کو قبول کر لیا ہے۔ بات رسمی احتجاج سے آگے نہیں بڑھتی۔ مصر میں عرب بہار کے طفیل وقتی طور پر جمہوریت آئی لیکن وہ اپنوں کی عاقبت نااندیشی کے طفیل موت کے گھاٹ اتر گئی۔ اب وہاں پہلے سے بھی بدتر آمریت قائم ہے۔ مصر کی تقریباً نصف آبادی ہیپاٹائٹس میں مبتلا ہے۔ مصر اور پاکستان اس معاملے میں پوری دنیا میں پہلے اور دوسرے نمبر پر ہیں یعنی پاکستان میں دو کروڑ افراد اس مرض میں مبتلا موت کی دہلیز پر کھڑے ہیں جب کہ پاکستان میں روزانہ تین ہزار افراد اس مرض کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔
اب آپ خود حساب کر لیں کہ مہینے اور سال میں کتنی تعداد ہوئی لیکن پاکستان میں اس مرض کا توڑ حکمرانوں کے نزدیک میٹرو بس اور اورنج ٹرین ہے۔ تو بات عالم عرب کی بدقسمتی کی ہو رہی تھی جس کے سائے پاکستان تک دراز ہیں۔ جب تک وہاں تیل کے ذخائر ہیں اگلی کئی دہائیوں تک اس بدقسمتی کا خاتمہ ممکن نہیں۔ چنانچہ پاکستان میں جمہوریت اس لیے نہیں پنپ سکی کہ یہ نہ ماضی میں شہنشاہ ایران کو واراہ کھاتی تھی (یاد کریں جنرل ضیاء الحق نے تہران میں ہی بیٹھ کر کہا تھا کہ آئین کیا ہے چند کاغذات کا ٹکڑا جسے جب چاہے پھاڑ کر پھینک دوں) نہ ہی عرب بادشاہتوں کو۔ جب تک مشرق وسطیٰ میں عرب بادشاہتیں ہیں پاکستان کو کنٹرولڈ جمہورت پر ہی دال دلیہ کرنا پڑے گا۔ اس پس منظر میں پاکستان میں جمہوریت کا مستقبل تاریک ہی ہے پاکستان میں جمہوریت کا مستقبل اسی وقت روشن ہو سکتا ہے جب مشرق وسطیٰ میں عرب بادشاہتوں کا خاتمہ ہو جائے لیکن یہ معجزہ کیسے ہو؟
ایک طرف جمہوریت کے سادہ لوح عاشقوں کے نالہ و شیون دوسری طرف مشرق وسطیٰ سے پاکستان تک پھیلے ہوئے خطے میں عالمی اور مقامی حکمران طبقوں کا خوفناک گٹھ جوڑ... خطے کے عوام اس ساری صورت حال میں مکمل طور پر غیر متعلق ہیں کیونکہ مدتوں پہلے ان کی رگوں میں بڑی مہارت سے مذہبی جنونیت کا زہر انڈیل دیا گیا ہے۔ جمہوریت کے عاشق چاہے کتنا ہی واویلا کر لیں ان کا کچھ بننے والا نہیں جیسے ماضی میں نہیں بنا۔ امریکا نے دنیا کی واحد طاقت بننے کے لیے جو تجربات کیے اگر سچ پوچھا جائے تو اس نے دنیا کو تباہ کر دیا۔ آج اگر دنیا جس دہشت گردی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی غربت بھوک بیماری بے روز گاری میں مبتلا ہے وہ انھی تجربات کی دین ہے۔ امریکا کو دنیا کی واحد سپر پاور بننے کا جو اعزاز تاریخ انسانی میں پہلی مرتبہ ملا وہ ضایع ہو گیا۔
اب یہ مقام یقینی طور پر کوئی اور قوت کبھی بھی حاصل نہیں کر سکے گی۔ کیونکہ اس کی بنیاد خیر پر نہیں شہر پر تھی۔ یعنی دنیا کو اپنا غلام بنا کر ارتکاز وسائل اور ارتکاز دولت کیا جائے پھر اس بے پناہ دولت سے ایک ایسی جنگی مشینری تشکیل دی جائے جو امریکا کی بادشاہت مستقل طور پر قائم رکھے۔ اس کے لیے دہشت گردوں کو تخلیق کیا مشرق وسطیٰ سے برصغیر تک کے علاقے میں۔ پہلے طالبان القاعدہ اور اب داعش۔ داعش کو امریکا یورپ نے ایک ارب ڈالر کی امداد دی۔ اسلحہ اور ٹریننگ کے لیے اردن میں امریکی فوجی اڈے مہیا کیے گئے۔ اسرائیل بھی اس کارخیر میں کسی طرح پیچھے نہیں رہا کیونکہ مقصد تو اس کے دشمن بشار الاسد کا خاتمہ تھا۔ بظاہر تو امریکا داعش کا خاتمہ چاہتا ہے لیکن حقیقت میں یہ اس کے اسٹرٹیجک ہتھیار ہیں جن کے ذریعے وہ مسلمانوں میں پھوٹ ڈلوا کر مشرق وسطیٰ کے قدرتی وسائل پر اپنی بالادستی برقرار رکھنا چاہتا ہے۔
اوباما نے جنرل اسمبلی میں اپنی کی جانے والی تقریر میں اچھے خیالات کا اظہار کیا ہے جب کہ ان کی مدت صدارت ایک سال رہ گئی ہے۔ اس کے بعد ہو سکتا ہے کہ یہ ان کے ذاتی خیالات ہی رہ جائیں۔ ان کی خیالات کی اہمیت صرف اس وقت ہی ہو سکتی ہے کہ جب امریکی اسٹیبلشمنٹ کی سوچ میں بھی حقیقی تبدیلی آئے۔
نومبر دسمبر شام کے مسئلے کے حل کے حوالے سے پہلی مرتبہ اہم ترین نقطہ آغاز بن سکتا ہے۔
سیل فون: 0346-4527997
امریکی صدر اوباما نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ طاقت اور پیسے کے زور پر کسی ملک میں امن قائم نہیں کیا جا سکتا۔ امریکی صدر کا کہنا تھا کہ امریکا سمیت دنیا کا کوئی بھی ملک اکیلے دنیا کے مسائل حل نہیں کر سکتا۔ اس کے لیے ہم سب کو مل کر کام کرنا ہو گا۔ عراق میں ہم نے سبق سیکھا کہ طاقت اور پیسے کے زور پر دوسرے ملک میں امن قائم نہیں ہو سکتا کیونکہ علاقوں پر قابض ہونا اب طاقت کی علامت نہیں رہا۔ اب قوموں کی طاقت کا مرکز وہاں کے عوام ہوتے ہیں۔ ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدہ عارضی نہیں ہے بلکہ یہ معاہدہ بین الاقوامی نظام کی مضبوطی کا عکاس ہے۔ داعش نے اسلام کا چہرہ مسخ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہم دنیا کو لاحق خطرات سے آگاہ ہیں، امریکا پچاس ممالک کے ساتھ مل کر اقوام متحدہ کی امن فوج میں اضافہ کرے گا۔ امریکا شام کے تنازعے کے خاتمے کے لیے ایران روس سمیت کسی بھی ملک کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہے۔ انھوں نے کہا کہ شام میں بہت زیادہ خون خرابے اور قتل عام کے بعد وہاں (حکومت کی) جنگ سے پہلے کی جوں کی توں صورت حال نہیں ہونی چاہیے۔
یہاں پر رک کر امریکی صدر سے پوچھا جا سکتا ہے کہ اس سارے خون خرابے اور قتل عام کے ذمے دار امریکا اور اس کے اتحادی ہیں کہ جب ان کی ہر سازش اور کوشش شامی حکومت کا خاتمہ کرنے میں ناکام ہو گئی تو انھوں نے ان باغیوں کو تخلیق کیا جو طاقت کے زور پر بشار حکومت کا خاتمہ کر سکیں یہاں تک کہ ان باغیوں کو ہر طرح کا اسلحہ جنگی ٹریننگ اور بے پناہ مالی وسائل فراہم کیے گئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ شامی حکومت کا تو کیا خاتمہ ہونا تھا حالات بد سے بدترین ہو گئے۔ سوا کروڑ سے زیادہ شامی جو کُل آبادی کا نصف ہیں بے گھر، تباہ برباد ہو گئے۔ چالیس لاکھ مہاجرین اپنی جان بچانے کے لیے عالم عرب اور یورپ کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں۔ کہا یہ گیا کہ شام میں آمریت ہے اس نے اپنے عوام کے حقوق غضب کر رکھے ہیں۔ اگر یہ بات ہے تو امریکا کی سرپرستی میں یہی کام عرب بادشاہتیں اور آمریتیں ایک مدت سے کر رہی ہیں۔ تو پھر بشار حکومت کا جرم کیا ہے۔ بشار حکومت کا اصل جرم یہ ہے کہ وہ کسی صورت اسرائیل کی بالادستی تسلیم کرنے کو تیار نہیں جو دیگر عرب بادشاہتیں اور آمریتیں تسلیم کر چکی ہیں۔
بشار الاسد حکومت کا ناقابل معافی جرم یہ ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف مسلسل مزاحمت کر رہی ہے جو فلسطینیوں پر ظلم ڈھا رہا ہے۔ شامی حکومت فلسطینیوں کی ایک طویل مدت سے اسلحی، مالی شام میں محفوظ ٹھکانے اور ہر طرح کی مدد مہیا کر رہی ہے۔ آج بھی اگر فلسطینی اسرائیل کا مقابلہ پوری قوت سے کر رہے ہیں تو اس کا کریڈٹ دو ملکوں کو جاتا ہے۔ وہ شام اور ایران ہیں۔ ورنہ دیگر عرب بادشاہتیں اور آمریتیں اس المناک صورت حال پر خاموش تماشائی ہیں۔ فلسطینیوں پر اسرائیل کو ظلم کرتے اب تو اتنی مدت گزر گئی ہے کہ بیشتر مسلمان ملکوں نے اس صورت حال کو قبول کر لیا ہے۔ بات رسمی احتجاج سے آگے نہیں بڑھتی۔ مصر میں عرب بہار کے طفیل وقتی طور پر جمہوریت آئی لیکن وہ اپنوں کی عاقبت نااندیشی کے طفیل موت کے گھاٹ اتر گئی۔ اب وہاں پہلے سے بھی بدتر آمریت قائم ہے۔ مصر کی تقریباً نصف آبادی ہیپاٹائٹس میں مبتلا ہے۔ مصر اور پاکستان اس معاملے میں پوری دنیا میں پہلے اور دوسرے نمبر پر ہیں یعنی پاکستان میں دو کروڑ افراد اس مرض میں مبتلا موت کی دہلیز پر کھڑے ہیں جب کہ پاکستان میں روزانہ تین ہزار افراد اس مرض کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔
اب آپ خود حساب کر لیں کہ مہینے اور سال میں کتنی تعداد ہوئی لیکن پاکستان میں اس مرض کا توڑ حکمرانوں کے نزدیک میٹرو بس اور اورنج ٹرین ہے۔ تو بات عالم عرب کی بدقسمتی کی ہو رہی تھی جس کے سائے پاکستان تک دراز ہیں۔ جب تک وہاں تیل کے ذخائر ہیں اگلی کئی دہائیوں تک اس بدقسمتی کا خاتمہ ممکن نہیں۔ چنانچہ پاکستان میں جمہوریت اس لیے نہیں پنپ سکی کہ یہ نہ ماضی میں شہنشاہ ایران کو واراہ کھاتی تھی (یاد کریں جنرل ضیاء الحق نے تہران میں ہی بیٹھ کر کہا تھا کہ آئین کیا ہے چند کاغذات کا ٹکڑا جسے جب چاہے پھاڑ کر پھینک دوں) نہ ہی عرب بادشاہتوں کو۔ جب تک مشرق وسطیٰ میں عرب بادشاہتیں ہیں پاکستان کو کنٹرولڈ جمہورت پر ہی دال دلیہ کرنا پڑے گا۔ اس پس منظر میں پاکستان میں جمہوریت کا مستقبل تاریک ہی ہے پاکستان میں جمہوریت کا مستقبل اسی وقت روشن ہو سکتا ہے جب مشرق وسطیٰ میں عرب بادشاہتوں کا خاتمہ ہو جائے لیکن یہ معجزہ کیسے ہو؟
ایک طرف جمہوریت کے سادہ لوح عاشقوں کے نالہ و شیون دوسری طرف مشرق وسطیٰ سے پاکستان تک پھیلے ہوئے خطے میں عالمی اور مقامی حکمران طبقوں کا خوفناک گٹھ جوڑ... خطے کے عوام اس ساری صورت حال میں مکمل طور پر غیر متعلق ہیں کیونکہ مدتوں پہلے ان کی رگوں میں بڑی مہارت سے مذہبی جنونیت کا زہر انڈیل دیا گیا ہے۔ جمہوریت کے عاشق چاہے کتنا ہی واویلا کر لیں ان کا کچھ بننے والا نہیں جیسے ماضی میں نہیں بنا۔ امریکا نے دنیا کی واحد طاقت بننے کے لیے جو تجربات کیے اگر سچ پوچھا جائے تو اس نے دنیا کو تباہ کر دیا۔ آج اگر دنیا جس دہشت گردی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی غربت بھوک بیماری بے روز گاری میں مبتلا ہے وہ انھی تجربات کی دین ہے۔ امریکا کو دنیا کی واحد سپر پاور بننے کا جو اعزاز تاریخ انسانی میں پہلی مرتبہ ملا وہ ضایع ہو گیا۔
اب یہ مقام یقینی طور پر کوئی اور قوت کبھی بھی حاصل نہیں کر سکے گی۔ کیونکہ اس کی بنیاد خیر پر نہیں شہر پر تھی۔ یعنی دنیا کو اپنا غلام بنا کر ارتکاز وسائل اور ارتکاز دولت کیا جائے پھر اس بے پناہ دولت سے ایک ایسی جنگی مشینری تشکیل دی جائے جو امریکا کی بادشاہت مستقل طور پر قائم رکھے۔ اس کے لیے دہشت گردوں کو تخلیق کیا مشرق وسطیٰ سے برصغیر تک کے علاقے میں۔ پہلے طالبان القاعدہ اور اب داعش۔ داعش کو امریکا یورپ نے ایک ارب ڈالر کی امداد دی۔ اسلحہ اور ٹریننگ کے لیے اردن میں امریکی فوجی اڈے مہیا کیے گئے۔ اسرائیل بھی اس کارخیر میں کسی طرح پیچھے نہیں رہا کیونکہ مقصد تو اس کے دشمن بشار الاسد کا خاتمہ تھا۔ بظاہر تو امریکا داعش کا خاتمہ چاہتا ہے لیکن حقیقت میں یہ اس کے اسٹرٹیجک ہتھیار ہیں جن کے ذریعے وہ مسلمانوں میں پھوٹ ڈلوا کر مشرق وسطیٰ کے قدرتی وسائل پر اپنی بالادستی برقرار رکھنا چاہتا ہے۔
اوباما نے جنرل اسمبلی میں اپنی کی جانے والی تقریر میں اچھے خیالات کا اظہار کیا ہے جب کہ ان کی مدت صدارت ایک سال رہ گئی ہے۔ اس کے بعد ہو سکتا ہے کہ یہ ان کے ذاتی خیالات ہی رہ جائیں۔ ان کی خیالات کی اہمیت صرف اس وقت ہی ہو سکتی ہے کہ جب امریکی اسٹیبلشمنٹ کی سوچ میں بھی حقیقی تبدیلی آئے۔
نومبر دسمبر شام کے مسئلے کے حل کے حوالے سے پہلی مرتبہ اہم ترین نقطہ آغاز بن سکتا ہے۔
سیل فون: 0346-4527997