خوردن برائے زیست

ہمارے وہ دوست اس حقیقت سے بے خبر تھے کہ کھانے کے معاملے میں یہ پہلوان جی لوگ تکلف کے قائل نہیں ہوتے

لاہور:
فارسی کی ایک کہاوت ہے ''خوردن برائے زیست ناکہ زیست برائے خوردن'' مطلب یہ کہ زندہ رہنے کے لیے کھاؤ نہ کہ کھانے کے لیے زندہ رہو۔ مگرعصر حاضر میں شادی بیاہ یا غمی خوشی کے مواقعے پر کھانے کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آج کے انسان کا مقصد زندگی فقط کھانا ہی کھانا ہے جب کہ زیادہ کھانے کے نقصانات کسی نے ان الفاظ میں بیان کیے ہیں کہ بھوک سے اتنے لوگ نہیں مرتے جتنے زیادہ کھانا کھاکر اس کھانے کی زیادتی کے باعث مختلف امراض کا شکار ہوکر مرتے ہیں۔ کھانے کے لیے لوگ اپنے شکم میں کس قدر گنجائش رکھتے ہیں اس کا بھی ذرا اندازہ کرلیں، ہماری ایک دعا سلام والے حد تک جاننے والے صاحب سے ملاقات ہوگئی، موصوف کونسلر کی سیٹ کی حد تک الیکشن لڑنے والے سیاست دان بھی ہیں ایک نشست میں دوران گفتگو فرمانے لگے کل ایک دعوت میں جانے کا اتفاق ہوا مگر نامعلوم کیا وجوہات تھیں میں زیادہ گوشت نہ کھاسکا اور صرف مرغی کی 32 رانیں ہی کھاسکا، زیادہ حیرت کے دریا میں غوطہ زن نہ ہو۔

ایک اور واقعہ ابھی مزید عرض کرنے والا ہوں۔ ہمارے ایک دوست شادی کے بعد گھر والوں سے علیحدہ ہوئے اور سوچا کہ گھر میں علیحدہ ہونے کے بعد آج پہلی بارکھانا تیار ہوگا۔چنانچہ موصوف بکرے کا گوشت و اعلیٰ قسم کے چاول ودیگر خوردنی سامان لے آئے اور ساتھ ہی اپنے گھر کے تمام افراد کو دعوت دے آئے کہ آج شب کا کھانا میرے گھر پر کھانا۔ چنانچہ ہمارے اس دوست نے خوردنی سامان سے پلاؤ و قورمہ تیار کروالیا اور دروازے پر آکر فقط اتنی خطا کر بیٹھے کہ دیکھوں گھر والے گلی میں آرہے ہیں یا نہیں۔ گھر والے تو نظر نہ آئے البتہ محلے کے ایک مشہور و معروف پہلوان جی گلی میں اپنے گھر جاتے ہوئے نظر آگئے، ہمارے ان دوست کا نصیب خراب تھا کہ وہ اخلاقاً ان پہلوان جی سے کہہ بیٹھے کہ پہلوان جی! آؤ کھانا ہمارے ساتھ کھالو، ہمارے وہ دوست اس حقیقت سے بے خبر تھے کہ کھانے کے معاملے میں یہ پہلوان جی لوگ تکلف کے قائل نہیں ہوتے چنانچہ پہلوان جی جلدی سے بولے اچھا تمہارا دل توڑنا مناسب نہیں بیٹھک کا دروازہ کھولو آج کھانا تمہارے ہی ساتھ کھاتے ہیں۔

چنانچہ پہلوان جی بیٹھک میں تشریف فرما ہوگئے، کھانا ان کے سامنے پیش کردیاگیا مگر صاحب ان پہلوان جی نے کھانے کے ساتھ پورا انصاف کیا اور اس مقولے پر عمل کرتے ہوئے کہ زیست برائے خوردن بس تمام گھر والوں کے لیے تیار شدہ کھانا چٹ کر گئے یہاں ہمارے دوست سے ایک اور سنگین غلطی ہوگئی کہ جب قورمہ و روٹیاں ختم ہوگئیں تو ہمارے اس دوست نے دست بستہ عرض کی پہلوان جی قورمہ و روٹیاں تو ختم ہوگئی ہیں اگر کھانے کی مزید طلب ہو تو پلاؤ بھی حاضر کرسکتا ہوں جوکہ تیار ہے کھانے کے ازلی دشمن پہلوان جی نے فرمایا پلاؤ بھی لے آؤ۔ تھوڑا چکھ لوںگا۔ یعنی پہلوان جی نے پلاؤ کے ساتھ بھی پورا پورا انصاف کیا اب جیسے ہی پہلوان جی اپنے گھر جانے کے لیے اٹھے تو صاحب خانہ نے کہا پہلوان جی تشریف رکھیں آرام سے چلے جانا جواب میں پہلوان نے فرمایا گھر چلتا ہوں دوست کھانے کا وقت ہورہاہے۔ گھر والے انتظار میں ہوںگے۔ اب کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا۔


ایک لطیفہ ہے کہ کسی گھر میں ایک پیٹو قسم کے مہمان تشریف لائے اور کیفیت یہ تھی کہ خاتون خانہ روٹیاں پکائے جارہی تھیں اور میزبان لاکر مہمان کے سامنے پیش کررہے تھے مگر مہمان تھے کہ کھانے سے ہاتھ روکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے، یہ تمام صورتحال جب میزبان کے بچے نے دیکھی تو وہ رونے لگا، خاتون خانہ نے اپنے بچے سے رونے کی وجہ دریافت کیا تو بچے نے روتے ہوئے جواب دیا امی سارا کھانا تو مہمان کھاجائے گا پھر ہم کیا کھائیںگے؟ اس خاتون نے اپنے بچے سے کہا بیٹا! ابھی مت رو تھوڑی دیر صبرکرو مہمان چلا جائے پھر سب مل کر روئیںگے۔ کیوں کہ کھانا ختم ہوچکا ہے یہ تو تذکرہ کیا ہم نے پیٹو قسم کے لوگوں کا۔

اب اگر دانش مندی سے کام لیا جائے تو اس قسم کے لوگوں سے با آسانی بچا جاسکتا ہے مگر اصل مسئلہ ان لوگوں سے بچنا ہے جو 65 برس سے اس ملک کو کھارہے ہیں اور اس بے رحمی سے کھا رہے ہیں کہ اس وقت ان لوگوں نے ایک ایک پاکستانی کو ایک ایک لاکھ روپے کا مقروض کردیا ہے اس ملکی و غیر ملکی قرضوں کا حجم ہے ایک سو پچاس ارب ڈالر اور یہ قرضے حاصل کیے گئے ہیں ایشیائی ترقیاتی بینک IMF اور ورلڈ بینک سے صد افسوس کا مقام ہے ملکی وسائل پر ہاتھ صاف کرنے والے کسی مقام پر ہاتھ روکنے کو تیار نہیں ہیں۔ آج تک تو ان ملکی وسائل کو ہڑپ کرنے والوں نے دیگر چھوٹے بڑے صنعتی یونٹ من پسند افراد کوکوڑیوں کے مول دیے تھے مگر اب باری ہے پاکستان کے سب سے بڑے صنعتی یونٹ پاکستان اسٹیل ملز کی جس کے بارے میں خبریں یہ ہیں کہ مارچ 2016 تک اس پاکستان کے سب سے قیمتی صنعتی یونٹ یعنی پاکستان اسٹیل ملز کو پرائیویٹائزیشن کے نام پر فروخت کردیا جائے گا۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کا یہ قیمتی اثاثہ کس کو عطا کیا جائے گا اور اس کی کیا قیمت وصول کی جائے گی اور یہ رقم کس کس کے پیٹ میں یا جیب میں جائے گی کیوں کہ کرپشن کے موجودہ دور میں یہ تو ممکن ہی نہیں کہ پاکستان اسٹیل ملز جیسے ادارے کی پرائیویٹائزیشن صاف و شفاف طریقے سے ہوسکے مگر غور طلب بات یہ ہے کہ پاکستان اسٹیل ملز وہ صنعتی یونٹ ہے جس کی تعمیر میں نہ صرف ہزاروں پاکستانیوں کی محنت شامل ہے بلکہ چند ایک ایسے محنت کش بھی ہیں جن کا لہو بھی شامل ہے، میری اس بات کی وہ لوگ ضرور تصدیق کریںگے جنھوں نے پاکستان اسٹیل ملز کے تعمیری عمل کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ بات صنعتی یونٹ فروخت کرنے تک محدود نہیں بلکہ سرکاری اراضی تک فروخت ہونا شروع ہوچکی ہے اور ہزاروں ایکڑ اراضی حکومت کی جانب سے من پسند افراد کوکوڑیوں کے بھاؤ دی جارہی ہے۔ تاکہ وہ لوگ اس اراضی پر ہاؤسنگ سوسائٹیز بناکر فروخت کریں اور اربوں ڈالر کمائیں اس سلسلے میں چند افراد کے نام بھی لیے جاسکتے ہیں مگر پھر بات ذاتیات تک چلی جائے گی۔

تمام محب وطن پاکستانیوں کا فرض ہے کہ وہ سرکاری صنعتی یونٹس کو سرکاری اراضی کے اونے پونے فروخت کے عمل کو رکوانے میں اپنا کردار ادا کریں اور حکومت کو مزید قرضے حاصل کرنے سے بھی روکنا ہوگا کیوں کہ اب کیفیت یہ ہے کہ اگر موجودہ قرضوں کی ادائیگی کا عمل فوری طور پر شروع بھی کردیاجائے جوکہ فی الوقت ناممکن ہے ہماری دو نسلیں بمشکل یہ ملکی و غیر ملکی قرضے ادا کرپائیںگی اور اگر موجودہ نظام حکومت مزید چند برس برقرار رہا تو پھر یہ کہنا مشکل ہوگا کہ موجودہ و آنے والے حکمران جوکہ قرضے حاصل کریںگے وہ قرضے اتارنے کے لیے ہماری کتنی نسلیں درکار ہوںگی۔ یوں بھی پاکستان اسٹیل ملز جیسے ادارے کی فروخت کے بعد بے روزگاری کا جو طوفان آئے گی اس کے تصور ہی سے روح فنا ہوجاتی ہے۔
Load Next Story