حاتم طائی کا کھلا خط
’’عجیب سا دیس ہے۔ کسی کو تعلیم سے شغف نہیں ہے۔ وزیروں تک کو کلمہ پڑھنا نہیں آتا۔
قارئین کرام! یہ خط بند تھا اور پہلی ڈاک سے شہزادہ شامی (کباب نہیں) کے پاس جا رہا تھا کہ زور و زبردستی کرکے ڈاکیے سے چھین کر نذر قارئین کیا جا رہا ہے، تاکہ بہتوں کا بھلا ہو۔ حاتم طائی گزشتہ ایک ماہ سے اپنے اونٹ سمیت اس سرزمین پر قیام پذیر تھا اور شہزادے کے لیے شہزادی حسن بانو کو تلاش کرنے آیا تھا، کیونکہ کسی نے اسے بدگمان کردیا تھا کہ شہزادی یہیں کہیں ہے۔ ایک ماہ بعد حاتم طائی نے خط میں یہاں کی جو رپورٹ لکھی وہ درج ذیل ہے:
''عجیب سا دیس ہے۔ کسی کو تعلیم سے شغف نہیں ہے۔ وزیروں تک کو کلمہ پڑھنا نہیں آتا۔ وزارت کے لالچ میں آکر وہ جعلی ڈگریوں سے کام چلاتے ہیں۔ ایسے میں بچوں کو کون پوچھتا ہے؟ گاؤں دیہات کی طرف نظر کیجیے، جہاں تعلیم کی اشد ضرورت ہے تو اسکولوں میں گدھے بندھے دکھائی دیتے ہیں۔ اگر کسی اسکول میں طالب علم دکھائی دیتے ہیں تو ماسٹر صاحب کا سراغ نہیں ملتا۔ البتہ اپنی تنخواہ وہ پابندی سے رجسٹر پر دستخط کرکے وصول کرتا رہتا ہے۔ کچھ اسکولوں میں جاگیردار کے گودام بھی بنے دیکھے گئے ہیں۔ جاگیرداروں کے بچے تو دیارِ غیر میں تعلیم پاتے ہیں اور اپنی قوم کے بچوں کو گلی ڈنڈا کھیلنے کی تعلیم دیتے ہیں۔ بچوں کو جن تختیوں پر لکھنا چاہیے وہ اس سے بلّے کا کام لے کر کرکٹ کھیلتے ہیں۔ جو کچھ پڑھ لکھ جاتے ہیں وہ غبارہ ڈائجسٹ یا فوارہ ڈائجسٹ میں قسط وار کہانیاں پڑھتے ہیں۔
ان دنوں یہاں گدھے کے گوشت کا چرچا ہے۔ سماج دشمن عناصر گدھے کی کھال حاصل کرنے کے چکر میں پورا گدھا ہی ذبح کیے ڈال رہے ہیں۔ پھر ہنرمندوں کے دماغوں کے ذہن رسا نے اسے ٹھکانے لگانے کی خوب سوچی۔ اتنا گوشت آخر کہاں کھپایا جائے؟ پہلے سنتے تھے کہ فائیو اسٹار ہوٹلوں میں مردہ مرغیوں کا روسٹ، بروسٹ اور شوربہ بڑے ذوق و شوق سے کھایا جاتا ہے، اب اس کی جگہ خرِ سیخ کباب، خرِگولا کباب اور خرِ کڑہائی گوشت نے لے لی ہے۔ مرچ مسالے سے اہلِ ہنر لحمیۂ خر کے ذائقے کو فزوں تر کردیتے ہیں، لہٰذا کسی کو شک و شبہ نہیں ہوپاتا۔ چند اخبار نویس البتہ اپنے کالموں میں سنسنی پھیلانے کے لیے اس لحمیۂ خر کے بارے میں عجیب عجیب باتیں شایع کر رہے ہیں، مگر کھانے والے لحمیات سے بدظن نہیں ہوتے۔ کچھ عجب نہیں کہ اس کے بعد بلی، کتے اور چوہوں کی باری آجائے۔
پوری قوم موبائل فوبیا میں مبتلاہوچکی ہے۔ جب دیکھو، جسے دیکھو کان سے ایک چپٹی سے ٹکیا لگائے ہوئے محوِ گفتگو نظر آتا ہے۔ حد یہ ہے کہ تیز رفتار سواریوں میں بیٹھنے کے دوران شانے اور کان سے اس ٹکیا کو دبائے ہوئے گفتگو کرتے رہتے ہیں۔ کوئی پوچھے کہ جب موبائل نہیں تھا تو کیا اطلاعات ایک سرے سے دوسرے سرے تک نہیں پہنچتی تھیں؟ قوم تو اب بھی وہیں کھڑی ہے جہاں بیس برس پہلے تھی البتہ موبائل ان سے آگے نکل گیا ہے۔ ہر خاتون، ہر طفل، ہر جوان اور بزرگ کے ہاتھ میں نظر آتا ہے۔ اس لیے کہ یہ بلا خیز دنیا اس میں بند ہوچکی ہے۔
یہ ریاست بحران کی لپیٹ میں ہے۔ بجلی کا بحران، صاف پانی کا بحران، تعلیم کا بحران (غریب کا بچہ ہر سال امتحان میں فیل ہوتا ہے، پیلے اسکولوں میں پڑھتا ہے اور ہر معاملے میں پیلا ہی رہتا ہے) سیلاب کا بحران (سیلاب ہر سال آتا ہے اور سیکڑوں کو بہا لے جاتا ہے، خوب واویلا مچتا ہے، اخبارات میں تصاویر شایع ہوتی ہیں، کچھ لوگ روتے دھوتے ہیں، پھر صورت حال معمول پر آجاتی ہے، جیسے کچھ ہوا ہی نہیں، لیکن اگلے سال پھر وہی کچھ ہوجاتا ہے)۔
سیاست زبوں حالی کا شکار ہے۔ لوگ ارباب اختیار سے مطمئن ہی نہیں ہوتے۔ کوئی بھی تکلیف پہنچے حکومت وقت کو برا بھلا کہتے ہیں۔ (نالوں میں کوڑا کرکٹ پھینکنے کے بعد حکومت کو اس کاذمے دار ٹھہراتے ہیں کہ نالہ کیسے بند ہوگیا؟) جو حکومت میں ہے اسے سب اچھا نظر آتا ہے، جو باقی قوم کو نظر نہیں آتا۔ پس وہ قوم کو بہلاوے دینا شروع کردیتے ہیں۔ جب بہلاوے پورے نہیں ہوتے تو قوم دھرنا دے دیتی ہے یا مخالف پارٹیوں کے ساتھ مل کر طوفان برپا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ ایک کشمکش ہے جو جاری ساری ہے۔ ہونا ہوانا کچھ نہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے یہ دیس جیسا ہے ویسا ہی رہے گا۔
ملاوٹ اور دھوکا دہی یہاں عام ہے۔ دھنیا میں لکڑی کے برادے کی ملاوٹ، دودھ میں پانی کی ملاوٹ، پانی میں غلیظ پانی کی ملاوٹ، خیر میں شر کی ملاوٹ۔ دین میں فرقوں کی ملاوٹ۔ رشوت کا بازار گرم ہے۔ قانون نافذ کرنے والا ادارہ (وردی پوش) قانون شکنی میں سب سے پیش پیش ہے۔ جب تک اس کی مٹھی گرم نہ کی جائے کوئی کام ہی نہیں ہوپاتا۔
سارے غریب بدمعاش اور چور اچکے سمجھے جاتے ہیں، ان کے پاس پہننے کو صرف اپنی کھال ہوتی ہے۔ وہ بسوں، منی بسوں اور چنگچی رکشوں میں سفر کرتے اور اپنی پسلیاں سہلاتے ہیں، لیکن سارے مالدار شریف، بااخلاق اور خوش پوش ہوتے ہیں۔ وہ غیر ملکی ملبوسات تن زیب کرتے ہیں۔ ایئر کنڈیشن کاروں میں سفر کرتے اور خوب صورت مکانوں میں رہتے ہیں۔ چونکہ ان کے پاس کوئی کام نہیں ہوتا، اس لیے الیکشن میں حصہ لیتے اور جیت بھی جاتے ہیں۔ (غریبوں پر اللہ تعالیٰ نامہربان اور مالداروں پر مہربان کیسے ہوسکتا ہے؟ یہ یقیناً دولت کی غلط تقسیم ہے)۔
بے روزگاری عام ہے۔ غیر ترقی یافتہ علاقوں میں رہنے والے اپنی زبوں حالی سے مجبور ہوکر خودکشی کر لیتے ہیں۔ مفلسی سے تنگ آکر خاتونِ خانہ اپنے بچوں کو ہلاک کردیتی اور خود بھی گلے میں پھندا لگا لیتی ہے۔ صاحب اختیار کے پاس کوئی منصوبہ نہیں ہے جو ان کے دکھ درد کا مداوا ہوسکے۔ جب لوگوں کے پاس کچھ کرنے کو نہیں ہوتا تو لوگ چوری، ڈاکے کا سہارا لیتے ہیں، چرس پیتے ہیں اور آرام کی نیند سو جاتے ہیں۔ پولیس سے ان کے نرینہ تعلقات ہوتے ہیں۔ وہ پولیس کا اور پولیس ان کا خیال رکھتی ہے۔ دونوں کے تعلقات باہمی سے گاڑی چلتی رہتی ہے۔ البتہ جب بھتہ وقت پر نہیں پہنچتا تو وہ ''پولیس مقابلے'' میں مارا جاتا ہے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے، جیسے ریاست اس وقت بھتہ خوری پر چل رہی ہے۔ وہ جو صاحب اختیار ہوتا ہے اور علاقہ جس کی جنبشِ ابرو پر چل رہا ہوتا ہے، وہ بڑے، چھوٹے دکانداروں سے بھتہ وصولتا ہے۔ سیاسی جماعتیں عام کاروباری لوگوں (ٹھیلے والوں) کی جیبیں خالی کرا لیتی ہیں۔ ان سیاسی جماعتوں میں دینی جماعتیں بھی شامل ہوکر اپنے ایمان کو داغدار کر رہی ہیں۔ اس کا کوئی علاج نہیں ہے، اس لیے کہ پولیس ان کی پشت پناہی کرتی ہے۔
لوگ قانون کے خوگر نہیں ہوئے ہیں۔ ہر چیز کا قانون موجود ہے، لیکن اس پر عمل کرنے والا کوئی نہیں ہے، مثلاً ٹریفک کا قانون ہے، مگر لوگ گاڑیاں اپنے قانون کے مطابق چلاتے ہیں۔ سڑکیں گاڑیاں چلانے کے لیے ہوتی ہیں، لیکن دو طرفہ پارکنگ اور ٹھیلا فروشوں کے کھڑے ہونے کی بنا پر گاڑیاں چل تو نہیں پاتیں البتہ حادثات کو ضرور دعوت دیتی ہیں۔ بیچ بیچ میں سے خواتین اور حضرات سڑک کو کراس کرتے رہتے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ ہمیں دیکھ کر نہیں چلنا چاہیے۔ گاڑی والا خود ہی دیکھ لے گا۔ پیدل چلنے والوں کے لیے بھی قوانین وضع کیے گئے ہیں، لیکن اس پر عمل پیرا ہونے کی کسی نے آج تک کوشش ہی نہیں کی۔ ویسے لوگوں کا بھی قصور نہیں ہے، لوگ فٹ پاتھ پر کیسے چلیں، وہاں تو چھابڑی والوں کا سارا سال قبضہ رہتا ہے۔ اس کے علاوہ دکاندار بھی اپنی دکانیں آگے بڑھا کر لگانے کے شوق میں فٹ پاتھ کو مسدود کردیتے اور پیدل چلنے والوں کو امتحان میں ڈال دیتے ہیں۔
شہزادے، حسن بانو تو یہاں نہیں ملی۔ البتہ اس جیسی سیکڑوں بانائیں اور مل گئیں۔ چند ایک سے میرے افیئر بھی چل رہے ہیں۔ میری مانیے تو اس شہر میں چند روز گزار کر دیکھیے، آپ حسن بانو ملک یمن والی کو بھول جائیں گے۔ یہاں ہر دوشیزہ اپنے حسن و انداز اور نخروں سے کسی شہزادی سے کم نہیں ہے۔ انھیں آپ جیسے شہزادوں کی ہمہ وقت تلاش رہتی ہے۔ وہ تاک کر اسی کو نشانے پر رکھتی ہیں جس کے پاس بنگلہ، بینک بیلنس اور نئے ماڈل کی گاڑی ہو۔ آپ کسی ریاست کے شہزادے نہ بھی ہوں تو بیسیوں حسن بانائیں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں گی، بشرطیکہ آپ کے پاس کسی بڑے کلب کا کارڈ ہو۔
''عجیب سا دیس ہے۔ کسی کو تعلیم سے شغف نہیں ہے۔ وزیروں تک کو کلمہ پڑھنا نہیں آتا۔ وزارت کے لالچ میں آکر وہ جعلی ڈگریوں سے کام چلاتے ہیں۔ ایسے میں بچوں کو کون پوچھتا ہے؟ گاؤں دیہات کی طرف نظر کیجیے، جہاں تعلیم کی اشد ضرورت ہے تو اسکولوں میں گدھے بندھے دکھائی دیتے ہیں۔ اگر کسی اسکول میں طالب علم دکھائی دیتے ہیں تو ماسٹر صاحب کا سراغ نہیں ملتا۔ البتہ اپنی تنخواہ وہ پابندی سے رجسٹر پر دستخط کرکے وصول کرتا رہتا ہے۔ کچھ اسکولوں میں جاگیردار کے گودام بھی بنے دیکھے گئے ہیں۔ جاگیرداروں کے بچے تو دیارِ غیر میں تعلیم پاتے ہیں اور اپنی قوم کے بچوں کو گلی ڈنڈا کھیلنے کی تعلیم دیتے ہیں۔ بچوں کو جن تختیوں پر لکھنا چاہیے وہ اس سے بلّے کا کام لے کر کرکٹ کھیلتے ہیں۔ جو کچھ پڑھ لکھ جاتے ہیں وہ غبارہ ڈائجسٹ یا فوارہ ڈائجسٹ میں قسط وار کہانیاں پڑھتے ہیں۔
ان دنوں یہاں گدھے کے گوشت کا چرچا ہے۔ سماج دشمن عناصر گدھے کی کھال حاصل کرنے کے چکر میں پورا گدھا ہی ذبح کیے ڈال رہے ہیں۔ پھر ہنرمندوں کے دماغوں کے ذہن رسا نے اسے ٹھکانے لگانے کی خوب سوچی۔ اتنا گوشت آخر کہاں کھپایا جائے؟ پہلے سنتے تھے کہ فائیو اسٹار ہوٹلوں میں مردہ مرغیوں کا روسٹ، بروسٹ اور شوربہ بڑے ذوق و شوق سے کھایا جاتا ہے، اب اس کی جگہ خرِ سیخ کباب، خرِگولا کباب اور خرِ کڑہائی گوشت نے لے لی ہے۔ مرچ مسالے سے اہلِ ہنر لحمیۂ خر کے ذائقے کو فزوں تر کردیتے ہیں، لہٰذا کسی کو شک و شبہ نہیں ہوپاتا۔ چند اخبار نویس البتہ اپنے کالموں میں سنسنی پھیلانے کے لیے اس لحمیۂ خر کے بارے میں عجیب عجیب باتیں شایع کر رہے ہیں، مگر کھانے والے لحمیات سے بدظن نہیں ہوتے۔ کچھ عجب نہیں کہ اس کے بعد بلی، کتے اور چوہوں کی باری آجائے۔
پوری قوم موبائل فوبیا میں مبتلاہوچکی ہے۔ جب دیکھو، جسے دیکھو کان سے ایک چپٹی سے ٹکیا لگائے ہوئے محوِ گفتگو نظر آتا ہے۔ حد یہ ہے کہ تیز رفتار سواریوں میں بیٹھنے کے دوران شانے اور کان سے اس ٹکیا کو دبائے ہوئے گفتگو کرتے رہتے ہیں۔ کوئی پوچھے کہ جب موبائل نہیں تھا تو کیا اطلاعات ایک سرے سے دوسرے سرے تک نہیں پہنچتی تھیں؟ قوم تو اب بھی وہیں کھڑی ہے جہاں بیس برس پہلے تھی البتہ موبائل ان سے آگے نکل گیا ہے۔ ہر خاتون، ہر طفل، ہر جوان اور بزرگ کے ہاتھ میں نظر آتا ہے۔ اس لیے کہ یہ بلا خیز دنیا اس میں بند ہوچکی ہے۔
یہ ریاست بحران کی لپیٹ میں ہے۔ بجلی کا بحران، صاف پانی کا بحران، تعلیم کا بحران (غریب کا بچہ ہر سال امتحان میں فیل ہوتا ہے، پیلے اسکولوں میں پڑھتا ہے اور ہر معاملے میں پیلا ہی رہتا ہے) سیلاب کا بحران (سیلاب ہر سال آتا ہے اور سیکڑوں کو بہا لے جاتا ہے، خوب واویلا مچتا ہے، اخبارات میں تصاویر شایع ہوتی ہیں، کچھ لوگ روتے دھوتے ہیں، پھر صورت حال معمول پر آجاتی ہے، جیسے کچھ ہوا ہی نہیں، لیکن اگلے سال پھر وہی کچھ ہوجاتا ہے)۔
سیاست زبوں حالی کا شکار ہے۔ لوگ ارباب اختیار سے مطمئن ہی نہیں ہوتے۔ کوئی بھی تکلیف پہنچے حکومت وقت کو برا بھلا کہتے ہیں۔ (نالوں میں کوڑا کرکٹ پھینکنے کے بعد حکومت کو اس کاذمے دار ٹھہراتے ہیں کہ نالہ کیسے بند ہوگیا؟) جو حکومت میں ہے اسے سب اچھا نظر آتا ہے، جو باقی قوم کو نظر نہیں آتا۔ پس وہ قوم کو بہلاوے دینا شروع کردیتے ہیں۔ جب بہلاوے پورے نہیں ہوتے تو قوم دھرنا دے دیتی ہے یا مخالف پارٹیوں کے ساتھ مل کر طوفان برپا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ ایک کشمکش ہے جو جاری ساری ہے۔ ہونا ہوانا کچھ نہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے یہ دیس جیسا ہے ویسا ہی رہے گا۔
ملاوٹ اور دھوکا دہی یہاں عام ہے۔ دھنیا میں لکڑی کے برادے کی ملاوٹ، دودھ میں پانی کی ملاوٹ، پانی میں غلیظ پانی کی ملاوٹ، خیر میں شر کی ملاوٹ۔ دین میں فرقوں کی ملاوٹ۔ رشوت کا بازار گرم ہے۔ قانون نافذ کرنے والا ادارہ (وردی پوش) قانون شکنی میں سب سے پیش پیش ہے۔ جب تک اس کی مٹھی گرم نہ کی جائے کوئی کام ہی نہیں ہوپاتا۔
سارے غریب بدمعاش اور چور اچکے سمجھے جاتے ہیں، ان کے پاس پہننے کو صرف اپنی کھال ہوتی ہے۔ وہ بسوں، منی بسوں اور چنگچی رکشوں میں سفر کرتے اور اپنی پسلیاں سہلاتے ہیں، لیکن سارے مالدار شریف، بااخلاق اور خوش پوش ہوتے ہیں۔ وہ غیر ملکی ملبوسات تن زیب کرتے ہیں۔ ایئر کنڈیشن کاروں میں سفر کرتے اور خوب صورت مکانوں میں رہتے ہیں۔ چونکہ ان کے پاس کوئی کام نہیں ہوتا، اس لیے الیکشن میں حصہ لیتے اور جیت بھی جاتے ہیں۔ (غریبوں پر اللہ تعالیٰ نامہربان اور مالداروں پر مہربان کیسے ہوسکتا ہے؟ یہ یقیناً دولت کی غلط تقسیم ہے)۔
بے روزگاری عام ہے۔ غیر ترقی یافتہ علاقوں میں رہنے والے اپنی زبوں حالی سے مجبور ہوکر خودکشی کر لیتے ہیں۔ مفلسی سے تنگ آکر خاتونِ خانہ اپنے بچوں کو ہلاک کردیتی اور خود بھی گلے میں پھندا لگا لیتی ہے۔ صاحب اختیار کے پاس کوئی منصوبہ نہیں ہے جو ان کے دکھ درد کا مداوا ہوسکے۔ جب لوگوں کے پاس کچھ کرنے کو نہیں ہوتا تو لوگ چوری، ڈاکے کا سہارا لیتے ہیں، چرس پیتے ہیں اور آرام کی نیند سو جاتے ہیں۔ پولیس سے ان کے نرینہ تعلقات ہوتے ہیں۔ وہ پولیس کا اور پولیس ان کا خیال رکھتی ہے۔ دونوں کے تعلقات باہمی سے گاڑی چلتی رہتی ہے۔ البتہ جب بھتہ وقت پر نہیں پہنچتا تو وہ ''پولیس مقابلے'' میں مارا جاتا ہے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے، جیسے ریاست اس وقت بھتہ خوری پر چل رہی ہے۔ وہ جو صاحب اختیار ہوتا ہے اور علاقہ جس کی جنبشِ ابرو پر چل رہا ہوتا ہے، وہ بڑے، چھوٹے دکانداروں سے بھتہ وصولتا ہے۔ سیاسی جماعتیں عام کاروباری لوگوں (ٹھیلے والوں) کی جیبیں خالی کرا لیتی ہیں۔ ان سیاسی جماعتوں میں دینی جماعتیں بھی شامل ہوکر اپنے ایمان کو داغدار کر رہی ہیں۔ اس کا کوئی علاج نہیں ہے، اس لیے کہ پولیس ان کی پشت پناہی کرتی ہے۔
لوگ قانون کے خوگر نہیں ہوئے ہیں۔ ہر چیز کا قانون موجود ہے، لیکن اس پر عمل کرنے والا کوئی نہیں ہے، مثلاً ٹریفک کا قانون ہے، مگر لوگ گاڑیاں اپنے قانون کے مطابق چلاتے ہیں۔ سڑکیں گاڑیاں چلانے کے لیے ہوتی ہیں، لیکن دو طرفہ پارکنگ اور ٹھیلا فروشوں کے کھڑے ہونے کی بنا پر گاڑیاں چل تو نہیں پاتیں البتہ حادثات کو ضرور دعوت دیتی ہیں۔ بیچ بیچ میں سے خواتین اور حضرات سڑک کو کراس کرتے رہتے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ ہمیں دیکھ کر نہیں چلنا چاہیے۔ گاڑی والا خود ہی دیکھ لے گا۔ پیدل چلنے والوں کے لیے بھی قوانین وضع کیے گئے ہیں، لیکن اس پر عمل پیرا ہونے کی کسی نے آج تک کوشش ہی نہیں کی۔ ویسے لوگوں کا بھی قصور نہیں ہے، لوگ فٹ پاتھ پر کیسے چلیں، وہاں تو چھابڑی والوں کا سارا سال قبضہ رہتا ہے۔ اس کے علاوہ دکاندار بھی اپنی دکانیں آگے بڑھا کر لگانے کے شوق میں فٹ پاتھ کو مسدود کردیتے اور پیدل چلنے والوں کو امتحان میں ڈال دیتے ہیں۔
شہزادے، حسن بانو تو یہاں نہیں ملی۔ البتہ اس جیسی سیکڑوں بانائیں اور مل گئیں۔ چند ایک سے میرے افیئر بھی چل رہے ہیں۔ میری مانیے تو اس شہر میں چند روز گزار کر دیکھیے، آپ حسن بانو ملک یمن والی کو بھول جائیں گے۔ یہاں ہر دوشیزہ اپنے حسن و انداز اور نخروں سے کسی شہزادی سے کم نہیں ہے۔ انھیں آپ جیسے شہزادوں کی ہمہ وقت تلاش رہتی ہے۔ وہ تاک کر اسی کو نشانے پر رکھتی ہیں جس کے پاس بنگلہ، بینک بیلنس اور نئے ماڈل کی گاڑی ہو۔ آپ کسی ریاست کے شہزادے نہ بھی ہوں تو بیسیوں حسن بانائیں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں گی، بشرطیکہ آپ کے پاس کسی بڑے کلب کا کارڈ ہو۔