ن لیگ دھاندلی کے الزامات دھونے میں کامیاب رہی
پولنگ ڈے کی حکمت عملی بہتر، حمزہ قومی سطح کے لیڈر بن کر سامنے آئے
توقعات کے عین مطابق مسلم لیگ (ن) نے این اے 122کی اپنی نشست جیت لی۔
سنجیدہ تجزیہ نگار شروع دن سے کہہ رہے تھے مسلم لیگ (ن) یہاں سے کامیاب ہوگی کیونکہ روایتی طور پر یہ حلقہ مسلم لیگ (ن) کا حامی رہا ہے۔ پی ٹی آئی کے ہارنے کی ایک وجہ امیدوار کا انتخاب بھی ہے، 2013 کے الیکشن میں اس حلقے سے عمران خان خود امیدوار تھے اب عبدالعلیم خان تھے، دونوں کی شہرت اور وقار میں زمین آسمان کا فرق ہے، اگر عمران خان خود الیکشن لڑتے تو نتیجہ کچھ اور ہوتا یا پھر ایاز صادق کا مقابلہ کرنے کیلیے اس حلقے کی 2 بڑی برادریوں آرائیں اور کمبوہ برادری میں سے کوئی امیدوار لیا جاتا تو صورتحال مختلف ہوسکتی تھی لیکن ٹکٹ علیم خان کو دیا گیا اور یہ فیصلہ عمران خان کا اپنا تھا۔
سردار ایاز صادق سنجیدہ آدمی ہیں اوران پر کوئی ا لزام نہیں ہے۔ بطور اسپیکر قومی اسمبلی بھی وہ اپنے حلقے کے عوام سے رابطے میں رہے جب کہ پی پی147سے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار محسن لطیف کا اپنے حلقے میں موثر رابطہ نہیں تھا اس حلقے سے ضمنی الیکشن کیلیے نیا امیدوار دینے کی بھی تجویز دی گئی مگر پارٹی قیادت نے اتفاق نہ کیا جس کے باعث صوبائی حلقے میں اپ سیٹ ہوا ہے۔
بلاشبہ تحریک انصاف نے انتخابی مہم بڑے زور و شور سے چلائی اور این اے 122 کے الیکشن کو پورے ملک کی نگاہوں کا مرکز بنا دیا، نواز شریف اور عمران خان این اے 122 کے ضمنی الیکشن میں آئے اور اپنے امیدوار کیلیے پورا زور لگایا جلسے اور ریلیاں نکالیں۔ عمران خان کے مطالبہ پر فوج کو تعینات کیاگیا۔ کیمرے لگائے گئے فوج کی نگرانی میں گنتی کی گئی اور تھیلے ریٹرننگ افسر تک کے آفس تک پہنچائے گئے، پولنگ ڈے پر مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں نے بہترین حکمت عملی سے کام لیا اور اپنے ووٹروں کو گھروں سے نکال کر پولنگ بوتھ پر لائے اور ووٹ کاسٹ کرائے، پوش ایریا کا ووٹر لاتعلق نظر آیا، یہ علاقے پی ٹی آئی کا گڑھ تصور ہوتے تھے، انتخابی مہم دیکھی جائے تو پی ٹی آئی زیادہ تر فوٹو کلچر اور نمود و نمائش کا شکار رہی جب کہ (ن) لیگ نے یونین کونسلز کی سطح تک ذمے داریاں سونپیں، یونین کونسلز کے چیئرمین، وائس چیئرمین اور کونسلرز کے امیدواروں نے گھر گھر جا کر انتخابی مہم چلائی، جب کہ تحریک انصاف کا سارا زورو شور جلسے جلوسوں اور ریلیوں تک محدود رہا،این اے122 کی ساری انتخابی مہم حمزہ شہباز اور ان کے ساتھیوں نے چلائی جبکہ صحیح معنوں میں دیکھا جائے تو این اے122کا الیکشن حمزہ شہباز نے لڑا۔
مسلم لیگ (ن) نے ڈونگی گراؤنڈ سمن آباد میں انتخابی مہم کا آخری جلسہ کیا اس میں حمزہ شہباز قومی سطح کے ایک لیڈرکے روپ میں سامنے آئے، این اے 122 میں کامیابی کے بعد مسلم لیگ (ن) کے امیج میں اضافہ ہوا ہے اور وہ دھاندلی کے الزامات کو دھونے میں کامیاب ہو گئی ہے، ایاز صادق کو عدالت سے رجوع نہ کرنے اور الیکشن میں جانے کی حکمت عملی کامیاب رہی، عمران خان نے ایسی فضا بنادی جس سے تصادم کا خطرہ تھا اس کے پیش نظر لوگ باہر نہیں نکلے اور ٹرن آوٹ کم رہا جس کا پی ٹی آئی کو نقصان ہوا ہے۔
سنجیدہ تجزیہ نگار شروع دن سے کہہ رہے تھے مسلم لیگ (ن) یہاں سے کامیاب ہوگی کیونکہ روایتی طور پر یہ حلقہ مسلم لیگ (ن) کا حامی رہا ہے۔ پی ٹی آئی کے ہارنے کی ایک وجہ امیدوار کا انتخاب بھی ہے، 2013 کے الیکشن میں اس حلقے سے عمران خان خود امیدوار تھے اب عبدالعلیم خان تھے، دونوں کی شہرت اور وقار میں زمین آسمان کا فرق ہے، اگر عمران خان خود الیکشن لڑتے تو نتیجہ کچھ اور ہوتا یا پھر ایاز صادق کا مقابلہ کرنے کیلیے اس حلقے کی 2 بڑی برادریوں آرائیں اور کمبوہ برادری میں سے کوئی امیدوار لیا جاتا تو صورتحال مختلف ہوسکتی تھی لیکن ٹکٹ علیم خان کو دیا گیا اور یہ فیصلہ عمران خان کا اپنا تھا۔
سردار ایاز صادق سنجیدہ آدمی ہیں اوران پر کوئی ا لزام نہیں ہے۔ بطور اسپیکر قومی اسمبلی بھی وہ اپنے حلقے کے عوام سے رابطے میں رہے جب کہ پی پی147سے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار محسن لطیف کا اپنے حلقے میں موثر رابطہ نہیں تھا اس حلقے سے ضمنی الیکشن کیلیے نیا امیدوار دینے کی بھی تجویز دی گئی مگر پارٹی قیادت نے اتفاق نہ کیا جس کے باعث صوبائی حلقے میں اپ سیٹ ہوا ہے۔
بلاشبہ تحریک انصاف نے انتخابی مہم بڑے زور و شور سے چلائی اور این اے 122 کے الیکشن کو پورے ملک کی نگاہوں کا مرکز بنا دیا، نواز شریف اور عمران خان این اے 122 کے ضمنی الیکشن میں آئے اور اپنے امیدوار کیلیے پورا زور لگایا جلسے اور ریلیاں نکالیں۔ عمران خان کے مطالبہ پر فوج کو تعینات کیاگیا۔ کیمرے لگائے گئے فوج کی نگرانی میں گنتی کی گئی اور تھیلے ریٹرننگ افسر تک کے آفس تک پہنچائے گئے، پولنگ ڈے پر مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں نے بہترین حکمت عملی سے کام لیا اور اپنے ووٹروں کو گھروں سے نکال کر پولنگ بوتھ پر لائے اور ووٹ کاسٹ کرائے، پوش ایریا کا ووٹر لاتعلق نظر آیا، یہ علاقے پی ٹی آئی کا گڑھ تصور ہوتے تھے، انتخابی مہم دیکھی جائے تو پی ٹی آئی زیادہ تر فوٹو کلچر اور نمود و نمائش کا شکار رہی جب کہ (ن) لیگ نے یونین کونسلز کی سطح تک ذمے داریاں سونپیں، یونین کونسلز کے چیئرمین، وائس چیئرمین اور کونسلرز کے امیدواروں نے گھر گھر جا کر انتخابی مہم چلائی، جب کہ تحریک انصاف کا سارا زورو شور جلسے جلوسوں اور ریلیوں تک محدود رہا،این اے122 کی ساری انتخابی مہم حمزہ شہباز اور ان کے ساتھیوں نے چلائی جبکہ صحیح معنوں میں دیکھا جائے تو این اے122کا الیکشن حمزہ شہباز نے لڑا۔
مسلم لیگ (ن) نے ڈونگی گراؤنڈ سمن آباد میں انتخابی مہم کا آخری جلسہ کیا اس میں حمزہ شہباز قومی سطح کے ایک لیڈرکے روپ میں سامنے آئے، این اے 122 میں کامیابی کے بعد مسلم لیگ (ن) کے امیج میں اضافہ ہوا ہے اور وہ دھاندلی کے الزامات کو دھونے میں کامیاب ہو گئی ہے، ایاز صادق کو عدالت سے رجوع نہ کرنے اور الیکشن میں جانے کی حکمت عملی کامیاب رہی، عمران خان نے ایسی فضا بنادی جس سے تصادم کا خطرہ تھا اس کے پیش نظر لوگ باہر نہیں نکلے اور ٹرن آوٹ کم رہا جس کا پی ٹی آئی کو نقصان ہوا ہے۔