ذکر ایک سندھی ناول کا

سندھی ادب میں ناول کی کمی ہمیشہ محسوس کی جاتی ہے، جتنی سندھی زبان میں شاعری یا افسانے تخلیق کیے گئے ہیں


منظور ملاح October 13, 2015
[email protected]

سندھی ادب میں ناول کی کمی ہمیشہ محسوس کی جاتی ہے، جتنی سندھی زبان میں شاعری یا افسانے تخلیق کیے گئے ہیں، اتنا ناول نہیں لکھا گیا۔اگر سندھی ناول کی تاریخ کو دیکھا جائے تو محمد عثمان ڈیپلائی کے ناول '' سانگھڑ''ابتدائی دور میں سب سے سرفہرست نظرآتا ہے،ورنہ اس سے پہلے لکھے گئے ناولزطبع زاد یا ترجمہ لگتے ہیں۔

اس کے بعد سندھ یونیورسٹی جام شورو کے کیمپس کے ماحول پر طارق عالم ابڑوکا شاندار رومانٹک ناول ' رہجی ویل منظر، مانک کے اسٹریم آف کانشس نیس کے اسلوب میں لکھے ناولز' ساہ مٹھ میں، لڑھنڈر نسل ، امر جلیل کا نیٹھ گونگے گالہایو ، علی بابا کا موہن جو دڑو، سراج کا پڑاڈو سوئی سڈ ، آغا سلیم کا اونداھی دھرتی روشن ھتھ یا ماضی قریب میں مراد علی مرزاکا شاہ لطیف کی زندگی پر ' سامی سج وڑاء' خالص سندھی ناولزکی صنف میں گنے جاتے ہیں۔ پھر اخلاق انصاری ، منور سراج، منیر چانڈیو، امر لغاری جیسے بزگ و نوجوان ناول نگاروں نے بھی اس میدان میں طبع آزمائی کی ہے ۔

ان ہی ہم عصر ناول نگاروں میں ایک نام ممتاز بخاری کا بھی ہے ۔ جو سندھی جرنلزم میں ایک اچھی شہرت رکھتے ہیں ۔ دنیا کے اچھے ناول نگاروں میلان کنڈیرا سے لے کر حال ہی میں 2015کاادب کا نوبل پرائز حاصل کرنے والی بیلو رشین رائٹرسویتلانا الیکزیوچ کی طرح ممتاز نے بھی اخباری رپورٹنگ کے ساتھ تخلیق کی ادب میں پاؤں رکھے ہیں۔ ان کا زیر نظر ناول '' کلاس فور جی محبوبا'' سندھی ناولوں میں ایک شاندار اضافہ ہے۔

پہلے تو اس ناول کا ٹائٹل دیکھ کر اندازا ہوا کہ یہ کسی اسکول کی کہانی ہے لیکن جب پہلے صفحے کا پہلا پیراگراف پڑھا تو بات سمجھ میں آگئی کہ یہ ناول ریلوے کہ چھوٹے ملازمین پر لکھا گیا ہے۔ اس ناول کی شروعات زبردست منظر نگاری کے ساتھ ہوتی ہے ، ایسے لگتا ہے جیسے آپ کوئی ایسٹ یورپ یا لیٹن امریکا کے کسی بڑے ناول نگار کی تخلیق کو پڑ ر ہے ہیں، جس میں ٹرین کی چھک چھک ،شکت وریخت کا شکار انگریز دؤر کے کواٹرز، ان کے قریب سے گذرتی لمبی پٹریاں، تھوڑا دور لمبے گھنے درخت، پتھریلے میدان، غربت ، احساس محرومی، جہالت کے مارے لوگ بقو ل ممتاز بخاری ان کاپورے ناول کی کہانی اور کردار اسی ریلوے کالونی میں گھومتے پھر تے نظر آتے ہیں۔

یہ ناول لکھنے سے قبل ممتاز بخاری نے اس کالونی کے کئی چکر لگائے ،ریلوے سے منسک لوگوں سے ملاز مین کے متعلق معلومات لیں، اس ماحول کے پس منظر میں ان کی روزمرہ زندگی میں استعمال ہونے والے خوبصورت اصطلاحات کو ذہن میں اتارا ۔ اس لیے اس ناول کا ماحول ،کردارنگاری، ڈکشن وغیرہ آسمان سے اتارنے کے بجائے حقیقت کی دنیا سے لیے ہیں ۔

ان کے ناول کا مرکزی کردارایک کلاس فورکے ملازم کی خوبصورت بیٹی شبانہ ہے جو اپنی نیک نام ماں کی وفات کے بعد ایسے بھنور میں پھنس جاتی ہے، جہاں کئی شکاری اس کا شکار کرنے کو بے تاب ہوتے ہیں۔ اس ناول میں چھوٹے چھوٹے ملازمین کی اقتصادی مجبوریاں، غربت، بے حسی، بیماریاں ، روایات، جہالت، ڈرگس کے استعمال کوانتہائی خوبصورت انداز میں بیان کیا گیا ہے، شبنم کا کردار ایک غربت کے مارے اورپسے ہوئے سماج میں عورت کے ساتھ زیادتیوں کا شاندار عکس دکھاتا ہے اس کا نشے کا عادی باپ، جو بیٹی کی عزت کے بدلے صرف پیسے کی مانگ کرتاہے۔

کلاس فور کے ملازمین کے لا ابالے لڑکے، جن کی نظریں شبانہ کا پیچھا کرتی رہتی ہیں ۔کوئی شبانہ کا ہمدرد کوئی کینگ ریپ کا خواہش مند،کسی نے محبت کے جال میں پھنسا کر جسمانی لذت پوری کرنے کے بعد آنکھیں بند کرلیں کوئی سیاسی ورکر اپنے آدرش اور اصول بیان کرتے ساتھ گذارتا ہے،یہ وہ سیاسی ورکر ہیں جو کسی دور میںروسی انقلاب کے بعدلیفٹ کی سیاست میںملک میں سرگرم رہے ۔ مارشل لاء سے مقابلہ کیا لیکن سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد این جی اوز میں پناہ لے لی اور اب ان کے لیے لیفٹ کی سیاست صرف رومانس کی حد تک ہے اورہاں ریلوے کے صاحبین، چھوٹے ملازمین کے مجبوریوں کے بدلے ان کی بیٹیوں کا جو جسمانی استحصال کرتے ہیں، اسے بھی انتہائی موثر انداز میںپینٹ کیا گیا ہے۔ مجھے تو شبانہ منٹو کے افسانے 'کھول دو' والی لڑکی لگتی ہے۔ البتہ اس ناول میں خالص سندھ کا ماحول ملے گا جو روہڑی اسٹیشن کی ریلوے کالونی کا دکھایا گیا ہے۔

اس ناول میں آپ کوکئی چھوٹے چھوٹے کردار بھی ملیں گے، جو انسانی نفسیات کی مناسب ترجمانی بھی کرتے ہیں، ڈائیلاگ اور ڈکشن بھی ' مولاجٹ' ٹائپ بجائے کہانی اور اس کے کرداروں کے ماحول کے مطابق اتنے خوبصورت لکھے گئے ہیں کہ میں جب ان میں سے لکھنے کے لیے کچھ منتخب کرنے لگا تو اتنے جملے سامنے آئے کہ یہ ہمت نہ کرسکا ۔

اکثرسندھی ناولوں کی طرح اس میں نعرے بازی ہے نہ جھگڑاور نہ ہی حقیقت سے زیادہ رومانس۔ یہاں تو خالص سیدھے سادھے کردار ہیں جو زندگی کو سنوارنے کے لیے اپنی سمجھ کے مطابق جستجو میں لگے رہتے ہیں لیکن اصل میں اس ناول میں عورت کے درد کو بیان کیا گیا ہے، جو اسے اپنے والد سے لے کر دوست، محلے دار، افسران ، مسافر اور آنے جانے والے دیتے ہیں ، جو اسے اپنی مشترکہ ملکیت سمجھتے ہیں۔ ہمارے جیسے معاشروں میں عورت کا استعمال ہر جگہ نظر آتا ہے۔

جسے ممتاز بخاری نے اس ناول میں انتہائی دلکش انداز میں پیش کیا ہے۔ ویسے بھی کسی ناول یا افسانے میں جب تک کرداروں کے Conflict نہ پیدا کیا جائے ،تو وہ تخلیق خالی اور خشک لگتی ہے، اس ناول کی بڑی بات یہ ہے کہ آپ پڑھتے جائیں تو کئی چھوٹے بڑے تکرار کرداروں کے درمیان نظر آئیں گے، جو پڑھنے والے ذہن میں بھی کئی سوالات پیداکرتے رہتے ہیں، اور آخر تک وہ کسی نتیجے تک نہیں پہنچ سکتا کہ آگے کیا ہوگا۔بلکہ شبانہ کے ساتھ جوہرکردار اختتام پر پہنچتا ہے تو ذہن میں کشمکش پیدا ہوتی ہے ، اتنے میں نیا آنے والا کردار پھر نئی دلچسپ میں گھیرلیتا ہے۔ اس لیے پڑھنے والا بھی عجیب ذہنی کیفیت یا اضطراب میں رہتا ہے، جیسے وہ سب کچھ اس کے ساتھ ہو رہا ہو۔

اس ناول کا کلائمکس بھی شاندار اور حقیقت ہر مبنی ہے ، جس میں رائٹرکی خواہش یا خیال نظر نہیں آتا نہ ہی کوئی ایسی آئیڈیل سچویشن پیدا کی جاتی ہے جیساکہ اکثر سندھی ناولوں میں ہوتا ہے۔شبانہ کا کردار بھی آئیڈیل قسم کی عورت کے اختتام کے طور پر نہیں تخلیق کیا گیا بلکہ ڈھلتی ہوئی جوانی میں شبانہ دنیا کی بے وفائیوں کا شکار ہوکر ریل کی پٹریاں لے کر اپنی نیک سیرت ماں کی قبر کی طرف چلتی جاتی ہے جس دوران بچپن میں ماں سے منسلک یا دیں، شرارتیںنصیحتیں سب اسی کے ذہن کے اسکرین پر تیرتے رہتے ہیں، شاید پہلا اور آخری سہارا سمجھتے ہوئے اس بھری دنیا میں صرف ماں ہی اسے آخری تحفظ دیتے نظر آ تی ہے اور سچ پوچھیں تو یہ کچھ پڑھنے وقت میرے آنسو بھی اس کے رواں ہوجاتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں