اﷲ کا اعلانِ جنگ۔ اور لاہور میں اصل شکست

اگر ہم سرکاری ملازم ہیں تو اپنے سینئریا ادارے کے سربراہ کی تمام ہدایات پر عمل کرتے ہیں

اگر ہم سرکاری ملازم ہیں تو اپنے سینئریا ادارے کے سربراہ کی تمام ہدایات پر عمل کرتے ہیں ۔اگرہم اسے یہ کہیں کہ "جناب! میں تمام نہیں آپ کی آدھی ہدایات پر عمل کروںگا " تو ہمیں ادارے سے فارغ کردیا جائے گا۔ اگر ہم کسی پرائیویٹ کمپنی میں ملازم ہیں تو اس کے CEOیا مالک کے تمام احکامات مانتے ہیں اس لیے کہ حکم عدولی کی صورت میں ہم نوکری سے محروم ہوجائیں گے۔

کسی بھی سرکاری یا پرائیویٹ ادارے کا سربراہ اپنے ماتحتو ں کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ اس کی چند ہدایات مان کر ان پر عمل کرلیں اور باقی نہ مانیں۔ایسا ہرگز ممکن نہیں ہے کیونکہ محدود اختیار وا قتدار رکھنے والےBossesیا مالک بھی اپنے ماتحتوں کواپنی تمام ہدایات پر من و عن عمل کرنے کا پابند بناتے ہیں۔

ہم اگر مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تو اس کا یقیناً مطلب یہ ہے کہ ہم اﷲ کو پوری کائنات کا خالق اور مالک مانتے ہیں اور اس کی مرضی، منشاء اور احکامات کے آگے سر تسلیمِ خم کرتے ہیںیعنی مسلمان ہونے کا مطلب ہے Complete submission before the will of Allahمسلمان ہونے کی حیثیّت سے ہم اس بات پر دل و جان سے ایمان رکھتے ہیں کہ اﷲنے انسانوں کو ایک خاص مقصد کے لیے پیدا کیا ہے ۔ اس نے انسانوں کو پیدا کرکے آزاد نہیں چھوڑدیا کہ وہ جس طرح چاہیں زندگی گزاریں بلکہ زندگی گزارنے کا طریقہ خود بتایا ہے۔

تمدن، معاشرت، معیشت، عدالت، عبادت، سیاست، حکومت غرض کہ انسانی زندگی کے ہر پہلو اور ہر فیلڈسے متعلق واضح احکامات دیے ہیں۔ مسلمان کہلانے کا مطلب ہے کہ ہم اس کے تمام احکامات کو تسلیم کرنے اور ان پر عمل کرنے کے پابند ہیں اگر کسی ایک حکم کی بجاآوری میں سستی یا کوتاہی ہوجائے اور ہم اس پر شرمندہ ہوں اور اﷲ سے ڈر کر اس سے معافی طلب کریں تو ممکن ہے اﷲ تعالیٰ اپنے حقیر سے بندے کی غلطی یا کوتاہی معاف فرمادیں لیکن اگرہم اس کے کسی واضح حکم کی کھلم کھلا خلاف ورزی کریں اور اس پر نہ شرمندہ ہوں اور نہ خوفزدہ، بلکہ اس خلاف ورزی کا مسلسل ارتکاب کرتے جائیں اور اس سے باز نہ آئیںتو وہ ربِّ ذوالجلال سے بغاوت ہوگی اور وہ بغاوت جبّار اور قہّار کے عذاب کو دعوت دے گی۔

خالق و مالک نے Dos and Donts بتاتے ہوئے اپنی سچّی اور برحق کتاب میں ایک ایسے جرم کی نشاندہی کی ہے اور اس کی سنگینی کا اس طرح ذکر کیا ہے کہ رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، کہا گیا کہ اس کا ارتکاب کرنے والے کے خلاف اﷲ اور رسولﷺ کی طرف سے اعلانِ جنگ ہے۔

"اگر تم نے ایسا نہ کیا (یعنی سود سے باز نہ آئے ) تو خبردار ہوجاؤ کہ اﷲ اور رسولﷺ کی طرف سے تمہارے خلاف اعلانِ جنگ ہے (البقرۃ 279)"

سود سے روکنے کا مقصد بھی صرف اور صرف انسانوں کی فلاح اور خیرخواہی ہے، کسی انسان کی مجبوری یا محرومی سے ناجائز فائدہ اُٹھانا اﷲ کے نزدیک سخت ناپسندیدہ فعل ہے۔ کسی بھی جسمانی یا معاشی مجبوری یا محرومی کا شکار کسی انسان کی مدد اﷲ کے نزدیک بے حد پسندیدہ فعل ہے۔ کوئی انسان غربت کا شکار ہو یا معاشی مجبوری کے تحت اسے پیسوں کی ضرورت آن پڑے تو اس صورت میں اﷲ کا حکم ہے کہ اس کی مدد کی جائے، اسے قرض (قرضِ حسنہ) دیا جائے جب وہ واپس کرنے کے قابل ہوجائے تو وہ قرض کی رقم واپس کردے مگر سرمایہ دارانہ نظام کا خالق مغرب کہتا ہے کہ اس نادارانسان کی مدد کیوں کی جائے؟۔

اﷲکا فرمان ہے" انسانیت کے رشتے کی بناء پر!"۔ سرمایہ دارانہ نظام کہتا ہے" اگر وہ غریب ہے تو یہ اسکااپنا قصور ہے اگر وہ مجبور ہے تو اسے اس کی قیمت دینا ہوگی۔ ہم اسے قرضہ دیں گے مگر کمانے کی غرض سے اسے اصل رقم سے زیادہ واپس کرنا ہوگی " غریب یا مجبور کے ساتھ زیادتی یا اسے بلیک میل کرنے پر اﷲ سبحانہ تعالیٰ وارننگ دیتے ہیں کہ ایسا نہ کرو میرے ایک مجبور اور بے کس بندے کے ساتھ زیادتی نہ کرو ، اس کا استحصال مت کرو۔۔اس ظلم سے باز رہو۔

اگر تم میرے بے کس اور مجبور انسانوں کی مجبوری کا ناجائز فائدہ اُٹھانے اور ان کے ساتھ ظلم کرنے سے باز نہ آئے تو سمجھ لو اﷲ اور اﷲ کے رسولﷺ کی طرف سے تمہارے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔ پھر یہ ذہن میں رکھنا کہ اس جنگ کا انجام کیا ہوگا۔ اﷲاور رسولﷺ سے جنگ کرنے والا بالآخر رسوا اور ناکام ہوگا۔ لوگ سود کی مختلف توضیحات پیش کرتے ہیں۔اس سلسلے میں بات صاف اور واضح ہے کہ اصل رقم سے زائد جو بھی ہے وہ سود ہے ۔


کیا سود کے بغیرکاروبار کرنا ممکن نہیں؟ ایساہرگز نہیںہے۔ اس سلسلے میں عالمی ماہرینِ معاشیات اب کھل کر کہنے لگے ہیں کہ سودی نظام' جس کی بنیاد پر بڑے مالیاتی ادارے اور جدید بینکنگ سسٹم تشکیل دیا گیا ہے، ناقص ہے اور نوعِ انسانی کی اکثریّت اس نامنصفانہ نظام سے نالاں اور غیر مطمئن ہے۔ پچھلے کچھ سالوں میں اس ظالمانہ نظام کے خلاف یورپ کے سیکڑوں شہروں میں لاکھوں افراد نے مظاہرے کیے ہیںاورماہرین نے اس کا متبادل نظام ڈھونڈنے پر کا م شروع کردیا ہے ۔ اگر قوم کی واضح اکثریت یہ فیصلہ کرلے کہ ہم نے اس باطل نظام سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے۔

سودی قرضے ہمارے مسائل کا حل نہیں ہیں، ہم نہ سود لیں گے اور نہ دیں گے تو اس ظالمانہ نظام کی عمارت تاش کے پتوں کی طرح دھڑام سے نیچے آگرے گی۔ مگر اس کے لیے ہمیں خود پر کچھ پابندیاں لگانا ہوںگی۔ عیش و عشرت (Luxurious Life) ترک کرنا ہوگی اور ریاست کو ٹیکس دینا ہوگا۔

چند روز پہلے ایک نجی ادارے نے وفاقی دارلحکومت میں واقع سب سے بڑی یونیورسٹی میں بلا سود بینکاری کی اہمیت اور فضیلت پر ایک نامور اسکالر کے لیکچر کا اہتمام کیا ، منتظمین نے تمام بینکوں،مالیاتی اداروں اور اہم سرکاری محکموں کے سربراہان یا نمایندوں کو دعوت ناموں کے ذریعے مدعوکیاتھا، میرا خیال تھا کہ اس اہم موضوع پر ایک صاحبِ علم و دانش کی گفتگو سننے کے لیے لوگ بڑی تعداد میں آئیں گے اور ہال کھچا کھچ بھرا ہوگا مگر دو ڈھائی درجن سامعین دیکھ کر سخت مایوسی ہوئی ، جامعہ کے ایک استاد سے میں نے پوچھا، اتنے کم لوگ کیوں آئے ،کیا وجہ ہے؟

کون ذمّہ دار ہے؟کہنے لگے "میڈیا! جوکسی سنجیدہ موضوع کو نہ خود موضوعِ گفتگو بناتا ہے۔ نہ کسی اسکالر کو بلاتا ہے نہ قوم کی رہنمائی کرنے والے کسی صاحبِ دانش یا مفکّر کو مثبت انداز میں پروجیکٹ کرتا ہے۔ چھوٹی اسکرین پر اگر جرائم میں ملوث ماڈل کو رول ماڈل کے طور پر پیش کیا جائے گا تو نئی نسل کے آئیڈیل مشکوک کردار کے اداکار یا ماڈل ہی ہوں گے۔

ان کے نزدیک وہی اہم ہوں گے انھی کی قدروقیمت ہوگی اور انھی اخلاق باختہ قسم کی خواتین کو بطور گیسٹ اسپیکر یونیورسٹیوں میں بلایا جائے گا۔ نوجوانوں کے دلوں میں اساتذہ کی نہ اہمیّت ہوگی اور نہ عزّت ہوگی۔ اس لیے وہ انھیں سننے کے لیے کیوں آئیں گے۔ میڈیا کے اثرات نوجوانوں تک ہی محدود نہیں رہے پختہ عمر کے لوگ بھی ان اثرات سے محفوظ نہیں رہے۔ میڈیا نے سنجیدہ موضوعات پر بحث مباحثے کی روایت ختم کردی ہے اور آئیڈیلز اور رول ماڈلز کے معیار بدل دیے ہیں۔

میڈیا پر اعلیٰ کردار کے لوگوں کا داخلہ شاید اس لیے بند ہے تاکہ نئی نسل کے ذھنوں میں کردار کی اہمیّت کا نقش ثبت نہ ہوسکے ۔ ملک میں سماجی اور معاشی ترقّی کے لیے سیاسی استحکام بنیاد کی حیثیّت رکھتاہے مگر زیادہ تر اینکراور ریٹائرڈملازم ٹی وی پر جمہوری اور سیاسی نظام کی اصلاح کے بجائے اسے تباہ کرنے کی ڈیوٹی ادا کرتے نظر آتے ہیں ۔ غالباً میڈیا ہاؤسز کو امداد فراہم کرنے والی بیرونی طاقتوں کووطنِ عزیز میں سیاسی استحکام نہیںبھاتا۔

نوٹ:۔لاہور میں اصل ہار انھیں ہوئی ہے جو اسپیکر کی شکست کے ساتھ ہی پورے سیاسی سیٹ اپ کے انہدام کے خواہشمندتھے۔کئی باخبرلاہوریوں سے پوچھا کہ حلقہ 122 میں بڑی مشکل سے ملنے والی فتح میں فیصلہ کن کردار کس نے ادا کیا، سب کا یہی کہنا تھا کہ سردار ایاز صادق کا ذاتی کردارسعد رفیق کی محنت اور میاں نوازشریف کی ذات اور ان کا باوقار اور شریفانہ طرزِ گفتا ر جوسنجیدہ طبقے کے نزدیک انھیں مخالف لیڈروں سے ممتاز کرتا ہے۔

دوسری جانب عمران خان کی کرشماتی شخصیّت نے ثابت کردیا ہے کہ اُن کی جماعت کسی بھی شہر اور کسی بھی حلقے میں حکمران جماعت سے بڑا موثر مقابلہ کر سکتی ہے ۔لوگوں کا خیال ہے کہ عبدالعلیم خان نے پندرہ سے بیس کروڑ روپے خرچ کردیے ہوں گے، حکومتی امیدوار کا خرچ بھی کروڑوں میں ہوگا۔ اس سے الیکشن کمیشن ہی نہیں جمہوریت کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ پورے سیاسی نظام میں انقلابی اصلاحات کی ضرورت ہے جسکی طرف کسی پارٹی کی توجہ نہیں۔

دعا ۔کمر کی درد کے باعث ڈاکٹر نے جھکنے سے روک دیا ہے اور کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے کی ہدایت کی ہے مگربندہ،خالق کے ساتھ اور غلام، مالک کے ساتھ سجدہ ریز ہوکر ہی ہمکلام ہوسکتا ہے۔ خالق و مالک کے ساتھ صحیح طور پر Comunicate اسی وقت کیا جاسکتا ہے جب پیشانی زمین بوس ہو جاتی ہے۔ یا رحیم و کریم !اپنے اس خطا کار بندے کو سجدے کی لذّت سے محروم نہ کرنا۔
Load Next Story