11 اکتوبر عوام کی عدالت کا شاندار فیصلہ
11 مئی 2013کے عام انتخابات کو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
کبھی کبھی تاریخیں اہمیت اختیار کرلیتی ہیں۔ 11 مئی 2013کے عام انتخابات کو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ محض اس لیے نہیں کہ اس دن پاکستان میں انتخابات ہوئے تھے بلکہ اس لیے کہ یہ عام انتخابات اس وقت منعقد ہورہے تھے جب ایک منتخب سیاسی حکومت اپنی آئینی مدت مکمل کر کے رخصت ہوچکی تھی اور پہلی مرتبہ ان انتخابات کے ذریعے اقتدار کامیاب جماعت کو منتقل ہونا تھا۔
ایسا ماضی میں کبھی نہیں ہوا تھا لہٰذا پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہ دن بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اس کے بعد 11 اکتوبر 2015 کو بھی کئی اعتبار سے یاد رکھا جائے گا۔ اس روز یوں تو قومی اسمبلی کے دو اور صوبائی اسمبلی کے ایک حلقے میں ضمنی انتخاب ہوئے لیکن اصل معرکہ این اے 122 لاہور میں ہوا جس کی سیاسی اہمیت غیر معمولی تھی۔ اس ضمنی انتخابات پر سب کی نظریں تھیں کیونکہ یہاں بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا تھا۔
لاہور کے حلقہ این اے 122 کے ضمنی انتخابات کو جو قومی اور عالمی توجہ حاصل ہوئی وہ اپنی جگہ بے مثال تھی۔ ایک ضمنی انتخابات کو، جس کے نتیجے میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہونے والی تھی، میڈیا میں اسے، اتنی زیادہ کوریج ملی جس کا عام حالات میں تصور بھی محال تھا۔ ذرایع ابلاغ بالخصوص الیکٹرانک میڈیا پر اس حلقے کا ضمنی انتخاب چھایا رہا۔ اس دوران کتنی اہم خبریں ناظرین کی نگاہوں سے اوجھل رہیں۔ پاکستان کے ہولناک ترین زلرلے کی تاریخ آئی اور خاموشی سے گزرگئی۔
اس زلزلے میں لاکھوں پاکستانی جاں بحق و زخمی ہوئے، گھر بار، مال اسباب اور بستیاں برباد ہوگئیں۔ اربوں ڈالر کی امدادی رقم جمع ہوئی، کہاں خرچ ہوئی اور آج زلزلے کے متاثرین کس حال میں ہیں اس کا کہیں کوئی ذکر نہیں تھا۔ انقرہ میں خودکش بم دھماکے میں 100 افراد لقمہ اجل ہوگئے، خبر چلی اور غائب ہوگئی، روس نے شام میں داعش کے خلاف براہ راست مداخلت شروع کی، کسی نے بھی اس بڑی خبر پر توجہ نہ دی۔
مشرق وسطیٰ کی لڑائی میں شدت پسند لوگوں کو ذبح کرتے اور بلند و بالا عمارتوں سے لوگوں کے ہاتھ پیر باندھ کر سزا کے طور پر نیچے پھینکتے رہے لیکن اس کا بھی کوئی ذکر نہیں ہوا۔ یہ تمام باتیں اپنی جگہ، اس حوالے سے بعض لوگوں کی تنقید بھی درست لیکن معاملہ محض ایک ضمنی انتخاب کا نہیں تھا۔ اس معرکے کو یہ ثابت کرنا تھا کہ 2013 کے عام انتخابات کا مینڈیٹ جائز تھا یا نہیں، جسے جوڈیشل کمیشن درست قرار دے چکا تھا لیکن سوئی ایاز صادق کے حلقے پر اٹکی ہوئی تھی کیونکہ یہاں عمران خان کو شکست ہوئی تھی جب کہ ان کا گمان ہے کہ وہ ناقابل شکست ہیں اور رہیں گے۔
الیکشن ٹریبونل کے متنازعہ فیصلے اور ایاز صادق نے عدالت سے سٹے آرڈر لینے کا حق استعمال کرنے کے بجائے براہ راست عوام کی عدالت میں دوبارہ واپس جانے کا فیصلہ کیا جس نے اس انتخابی معرکے کو ''دھاندلی ڈرامے'' کا ڈراپ سین بنادیا تھا۔
پی ٹی آئی کے لیے اس انتخاب کا جیتنا، ایک طرح سے سیاسی طور پر زندہ رہنے کا معاملہ تھا۔ پارٹی سربراہ کی طرف سے الزام لگایا گیا تھا کہ ایاز صادق کو 2013 میں 50 ہزار جعلی ووٹ ڈالے گئے تھے۔ ان کی آٹھ ہزار ووٹوں سے جیت کو اس تعداد سے منہا کردیا جائے تو انھیں 11 اکتوبر 2015 کے ضمنی انتخاب میں کم سے کم 42 ہزار ووٹوں سے ہارنا چاہیے تھا۔
ان ووٹوں میں اصولاً اضافہ ہونا چاہیے تھا کیونکہ عمران خان خود اس حلقے میں موجود رہے، گلی گلی اور محلے محلے گئے، نواز شریف کو دل کھول کر کوسنے دیے، برا بھلا کہا۔ ایاز صادق کے مقابلے پر علیم خان کو یہ کہہ کر اتارا گیا کہ یہ ہمارا ''خفیہ ہتھیار'' ہے۔ امیدوار کے پاس مالی وسائل اور افرادی قوت کی کمی نہیں تھی اور اس حلقے میں وہ کسی زمانے میں کافی ترقیاتی کام بھی کروا چکے تھے۔
ان کے علاوہ لندن سے آئے چوہدری سرور تھے، جو اتنے ذہین اور جہاندیدہ ہیں کہ برسوں کے تعلقات کے باوجود نواز شریف کو پہچان نہیں سکے تھے۔ ان کی باتوں میں آکر گورنر بن گئے، گورنری کے دور میں سیاسی قد کاٹھ بلند کیا اور پھر اچانک ایک دن اپنے دوست اور اس کی جماعت کو چھوڑ کر ان لوگوں سے جا ملے جن کا صبح و شام جمہوریت اور منتخب نمایندوں پر دشنام طرازیاں کرنا ایک معمول تھا۔ پی ٹی آئی نے اس ایک ضمنی انتخاب کو ملکی تاریخ کا مہنگا ترین انتخاب بنادیا۔ لوگ تو اربوں کی بات کرتے ہیں لیکن کروڑوں روپے تو ضرور خرچ ہوئے ہوں گے۔
مقبولیت، دولت اور ذہانت جیسے تمام عوامل کو بھرپور طرح سے استعمال کرنے کے باوجود پی ٹی آئی کی شکست اور ایاز صادق کی فتح نے یہ ثابت کردیا کہ لوگوں کو نعروں، جوشیلی تقریروں، گانوں اور ترانوں کے ذریعے مسحور کیا جاسکتا ہے، ان کے اندر جلسوں میں شریک ہونے کا شوق اور تحریک بیدار کی جاسکتی ہے لیکن انھیں پولنگ بوتھ میں بلوا کر اپنے حق میں ووٹ نہیں ڈلوایا جاسکتا ہے۔ 11 اکتوبر کے ضمنی انتخابات میں عوام نے 2013 کے عام انتخابات کو متنازع ثابت کرنے کے مقدمے کو اپنی عدالت سے غلط اور بے بنیاد قرار دے کر خارج کردیا ہے۔
2013 کے انتخابات کو متنازعہ بنانا ایک جامع اور مربوط حکمت عملی کا نتیجہ تھا۔ یہ بات دلوں میں کانٹوں کی طرح کھٹک رہی تھی کہ 2008 میں منتخب ہونے والی جمہوری حکومت نے تمام کوششوں اور سازشوں کے باوجود اپنی مدت کیوں اور کس طرح مکمل کرلی؟ جن عناصر نے پاکستان میں جمہوریت کو پروان نہیں چڑھنے دیا ان کے لیے یہ صورتحال ناقابل برداشت تھی۔
ان کی نظر میں یہ ''خطرہ'' پیدا ہوگیا تھا کہ کہیں پاکستان میں جمہوریت کا تسلسل قائم نہ ہوجائے، لہٰذا پوری کوشش کی گئی کہ پہلے مرحلے میں انتخابات کو متنازعہ ثابت کردیا جائے، اس کے بعد سیاسی دباؤ اور احتجاجی تحریک کے ذریعے یا تو حکومت پر گھٹنے ٹیکنے اور دوبارہ انتخابات کرانے کا دباؤ ڈالا جائے اور اگر وہ ایسا کرنے پر تیار نہ ہو تو ملکی نظام کو مفلوج کرکے ''امپائر'' کو مداخلت پر مجبور کردیا جائے۔
2013 کے عام انتخابات کے بعد اس حکمت عملی پر مرحلہ وار عمل کیا گیا لیکن کسی بھی موقعے پر کامیابی نہیں مل سکی۔ 11 اکتوبر 2015 کو ایاز صادق کی دوبارہ فتح نے اس 'تحریک اور مہم' کو مکمل نہیں تو بڑی حد تک کمزور ضرور کردیا ہے۔
قومی اسمبلی کے حلقوں کے حالیہ ضمنی انتخابات کے نتائج کے حوالے سے سب کے لیے سیکھنے کو بہت سامان موجود ہے، لیکن پی ٹی آئی اور اس کے سربراہ عمران چونکہ مسلسل سیاسی ہزیمت اور ناکامیوں سے دوچار ہورہے ہیں۔ لہٰذا ان کے لیے خاص طور پر ضروری ہے کہ وہ پوری صورتحال پر ازسر نو غور فرمائیں۔ مخالف کو برا بھلا کہنے سے کہیں بہتر ہوگا کہ اپنی ناکامیوں کے اسباب پر غور کیا جائے۔
حالیہ ضمنی انتخابات میں غیر معمولی مہم چلانے کے باوجود این اے 122 میں شکست کے اسباب کے ساتھ اس ''خوف ناک'' حقیقت پر بھی نظر ڈالنے کی ضرورت ہے کہ اوکاڑہ میں پی ٹی آئی کے امیدوار کی ضمانت کیوں ضبط ہوگئی؟ کہاں مقبولیت کے بلند بانگ دعوے اور کہاں قومی اسمبلی کے امیدوار کے زر ضمانت کی ضبطی؟ ہار جیت الیکشن کے عمل کا حصہ ہے لیکن انتخاب میں ضمانت ضبط ہونے کا مطلب رائے دہندگان کی جانب سے ناپسندیدگی کا بدترین اظہار اور اعلان ہے۔ سیاست وہ کھیل نہیں جسے بچے کھیلیں، اس دشت کی سیاحی میں عمر بیت جاتی ہے تب کہیں جاکر عوام کے دلوں میں سیاسی رہنما کے لیے گنجائش پیدا ہوتی ہے۔
پہلے اس حقیقت کو تسلیم کریں کہ ایک مشہور کھلاڑی کے لیے ضروری نہیں کہ وہ سیاست کے میدان کا بھی اچھا کھلاڑی ثابت ہو۔ پرویز مشرف کے دور آمریت میں مقبول عام سیاستدانوں کو میدان سے باہر رکھنے کی وجہ سے ایک خلا پیدا ہوا جسے بھرنے کا موقع بہت سے لوگوں کو ملا، ان میں موصوف بھی شامل تھے۔ اس موقع کو کامیابی میں تبدیل کرنے کی صلاحیت سیاسی تربیت کے کڑے عمل سے گزرنے کے بعد حاصل ہوتی ہے۔
موقع ملا، کچھ عوامی حمایت سامنے آئی لیکن ایک الگ نظریاتی شناخت بنانے کے بجائے جلد بازی اور بے قراری نے غلبہ پالیا۔ نعرہ تبدیلی کا اور قربت و رفاقت ان لوگوں کی جو پاکستان میں، تبدیلی کی راہ روکنے کے ماہر مانے جاتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ 2013 کے انتخابات کے بعد، اپنی سیاسی ساکھ میں اضافہ کیا جاتا اور 2018 کے عام انتخابات میں خود کو ایک متبادل کے طور پر پیش کیا جاتا لیکن یہ نہیں ہوا۔ اب یہ عالم ہے کہ ہر سیاسی چال ناکام ہورہی ہے اور نوبت یہ آگئی ہے کہ امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہورہی ہیں۔
سیاست میں حریفوں کو ہدف تنقید ضرور بنایا جاتا ہے لیکن زیرک اور ذہین سیاستدان اپنے تجربوں اور غلطیوں سے سیکھتے ہیں، مخالفوں کی جانب سے خود پر ہونے والی تنقید کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتے ہیں۔
آپ سے تو جسٹس وجیہہ الدین احمد جیسے درویش صفت اور نیک نام ساتھی کی دوستانہ تنقید برداشت نہیں ہوتی۔ 2018 کی طرف بڑھنا ہے تو 2013 کی طرف مڑ مڑ کر نہ دیکھیں۔ یہ کہہ کر تلخ حقیقت سے روگردانی نہ کریں کہ ایاز صادق کی جیت کا مارجن کم ہوا ہے۔ یہ ضمنی انتخاب تھا، سب کو ووٹ کم پڑے۔ پی ٹی آئی کو 2013 میں یہاں 84417 پڑے تھے 11 مئی کو اسے 72043 ووٹ ملے۔ ایسے میں کیا یہ کہا جائے کہ آپ کاووٹ بینک کم ہوگیا ہے؟
آگے بڑھنا ہے تو تبدیلی لانے سے پہلے خود کو تبدیل کرنا ہوگا۔
ایسا ماضی میں کبھی نہیں ہوا تھا لہٰذا پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہ دن بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اس کے بعد 11 اکتوبر 2015 کو بھی کئی اعتبار سے یاد رکھا جائے گا۔ اس روز یوں تو قومی اسمبلی کے دو اور صوبائی اسمبلی کے ایک حلقے میں ضمنی انتخاب ہوئے لیکن اصل معرکہ این اے 122 لاہور میں ہوا جس کی سیاسی اہمیت غیر معمولی تھی۔ اس ضمنی انتخابات پر سب کی نظریں تھیں کیونکہ یہاں بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا تھا۔
لاہور کے حلقہ این اے 122 کے ضمنی انتخابات کو جو قومی اور عالمی توجہ حاصل ہوئی وہ اپنی جگہ بے مثال تھی۔ ایک ضمنی انتخابات کو، جس کے نتیجے میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہونے والی تھی، میڈیا میں اسے، اتنی زیادہ کوریج ملی جس کا عام حالات میں تصور بھی محال تھا۔ ذرایع ابلاغ بالخصوص الیکٹرانک میڈیا پر اس حلقے کا ضمنی انتخاب چھایا رہا۔ اس دوران کتنی اہم خبریں ناظرین کی نگاہوں سے اوجھل رہیں۔ پاکستان کے ہولناک ترین زلرلے کی تاریخ آئی اور خاموشی سے گزرگئی۔
اس زلزلے میں لاکھوں پاکستانی جاں بحق و زخمی ہوئے، گھر بار، مال اسباب اور بستیاں برباد ہوگئیں۔ اربوں ڈالر کی امدادی رقم جمع ہوئی، کہاں خرچ ہوئی اور آج زلزلے کے متاثرین کس حال میں ہیں اس کا کہیں کوئی ذکر نہیں تھا۔ انقرہ میں خودکش بم دھماکے میں 100 افراد لقمہ اجل ہوگئے، خبر چلی اور غائب ہوگئی، روس نے شام میں داعش کے خلاف براہ راست مداخلت شروع کی، کسی نے بھی اس بڑی خبر پر توجہ نہ دی۔
مشرق وسطیٰ کی لڑائی میں شدت پسند لوگوں کو ذبح کرتے اور بلند و بالا عمارتوں سے لوگوں کے ہاتھ پیر باندھ کر سزا کے طور پر نیچے پھینکتے رہے لیکن اس کا بھی کوئی ذکر نہیں ہوا۔ یہ تمام باتیں اپنی جگہ، اس حوالے سے بعض لوگوں کی تنقید بھی درست لیکن معاملہ محض ایک ضمنی انتخاب کا نہیں تھا۔ اس معرکے کو یہ ثابت کرنا تھا کہ 2013 کے عام انتخابات کا مینڈیٹ جائز تھا یا نہیں، جسے جوڈیشل کمیشن درست قرار دے چکا تھا لیکن سوئی ایاز صادق کے حلقے پر اٹکی ہوئی تھی کیونکہ یہاں عمران خان کو شکست ہوئی تھی جب کہ ان کا گمان ہے کہ وہ ناقابل شکست ہیں اور رہیں گے۔
الیکشن ٹریبونل کے متنازعہ فیصلے اور ایاز صادق نے عدالت سے سٹے آرڈر لینے کا حق استعمال کرنے کے بجائے براہ راست عوام کی عدالت میں دوبارہ واپس جانے کا فیصلہ کیا جس نے اس انتخابی معرکے کو ''دھاندلی ڈرامے'' کا ڈراپ سین بنادیا تھا۔
پی ٹی آئی کے لیے اس انتخاب کا جیتنا، ایک طرح سے سیاسی طور پر زندہ رہنے کا معاملہ تھا۔ پارٹی سربراہ کی طرف سے الزام لگایا گیا تھا کہ ایاز صادق کو 2013 میں 50 ہزار جعلی ووٹ ڈالے گئے تھے۔ ان کی آٹھ ہزار ووٹوں سے جیت کو اس تعداد سے منہا کردیا جائے تو انھیں 11 اکتوبر 2015 کے ضمنی انتخاب میں کم سے کم 42 ہزار ووٹوں سے ہارنا چاہیے تھا۔
ان ووٹوں میں اصولاً اضافہ ہونا چاہیے تھا کیونکہ عمران خان خود اس حلقے میں موجود رہے، گلی گلی اور محلے محلے گئے، نواز شریف کو دل کھول کر کوسنے دیے، برا بھلا کہا۔ ایاز صادق کے مقابلے پر علیم خان کو یہ کہہ کر اتارا گیا کہ یہ ہمارا ''خفیہ ہتھیار'' ہے۔ امیدوار کے پاس مالی وسائل اور افرادی قوت کی کمی نہیں تھی اور اس حلقے میں وہ کسی زمانے میں کافی ترقیاتی کام بھی کروا چکے تھے۔
ان کے علاوہ لندن سے آئے چوہدری سرور تھے، جو اتنے ذہین اور جہاندیدہ ہیں کہ برسوں کے تعلقات کے باوجود نواز شریف کو پہچان نہیں سکے تھے۔ ان کی باتوں میں آکر گورنر بن گئے، گورنری کے دور میں سیاسی قد کاٹھ بلند کیا اور پھر اچانک ایک دن اپنے دوست اور اس کی جماعت کو چھوڑ کر ان لوگوں سے جا ملے جن کا صبح و شام جمہوریت اور منتخب نمایندوں پر دشنام طرازیاں کرنا ایک معمول تھا۔ پی ٹی آئی نے اس ایک ضمنی انتخاب کو ملکی تاریخ کا مہنگا ترین انتخاب بنادیا۔ لوگ تو اربوں کی بات کرتے ہیں لیکن کروڑوں روپے تو ضرور خرچ ہوئے ہوں گے۔
مقبولیت، دولت اور ذہانت جیسے تمام عوامل کو بھرپور طرح سے استعمال کرنے کے باوجود پی ٹی آئی کی شکست اور ایاز صادق کی فتح نے یہ ثابت کردیا کہ لوگوں کو نعروں، جوشیلی تقریروں، گانوں اور ترانوں کے ذریعے مسحور کیا جاسکتا ہے، ان کے اندر جلسوں میں شریک ہونے کا شوق اور تحریک بیدار کی جاسکتی ہے لیکن انھیں پولنگ بوتھ میں بلوا کر اپنے حق میں ووٹ نہیں ڈلوایا جاسکتا ہے۔ 11 اکتوبر کے ضمنی انتخابات میں عوام نے 2013 کے عام انتخابات کو متنازع ثابت کرنے کے مقدمے کو اپنی عدالت سے غلط اور بے بنیاد قرار دے کر خارج کردیا ہے۔
2013 کے انتخابات کو متنازعہ بنانا ایک جامع اور مربوط حکمت عملی کا نتیجہ تھا۔ یہ بات دلوں میں کانٹوں کی طرح کھٹک رہی تھی کہ 2008 میں منتخب ہونے والی جمہوری حکومت نے تمام کوششوں اور سازشوں کے باوجود اپنی مدت کیوں اور کس طرح مکمل کرلی؟ جن عناصر نے پاکستان میں جمہوریت کو پروان نہیں چڑھنے دیا ان کے لیے یہ صورتحال ناقابل برداشت تھی۔
ان کی نظر میں یہ ''خطرہ'' پیدا ہوگیا تھا کہ کہیں پاکستان میں جمہوریت کا تسلسل قائم نہ ہوجائے، لہٰذا پوری کوشش کی گئی کہ پہلے مرحلے میں انتخابات کو متنازعہ ثابت کردیا جائے، اس کے بعد سیاسی دباؤ اور احتجاجی تحریک کے ذریعے یا تو حکومت پر گھٹنے ٹیکنے اور دوبارہ انتخابات کرانے کا دباؤ ڈالا جائے اور اگر وہ ایسا کرنے پر تیار نہ ہو تو ملکی نظام کو مفلوج کرکے ''امپائر'' کو مداخلت پر مجبور کردیا جائے۔
2013 کے عام انتخابات کے بعد اس حکمت عملی پر مرحلہ وار عمل کیا گیا لیکن کسی بھی موقعے پر کامیابی نہیں مل سکی۔ 11 اکتوبر 2015 کو ایاز صادق کی دوبارہ فتح نے اس 'تحریک اور مہم' کو مکمل نہیں تو بڑی حد تک کمزور ضرور کردیا ہے۔
قومی اسمبلی کے حلقوں کے حالیہ ضمنی انتخابات کے نتائج کے حوالے سے سب کے لیے سیکھنے کو بہت سامان موجود ہے، لیکن پی ٹی آئی اور اس کے سربراہ عمران چونکہ مسلسل سیاسی ہزیمت اور ناکامیوں سے دوچار ہورہے ہیں۔ لہٰذا ان کے لیے خاص طور پر ضروری ہے کہ وہ پوری صورتحال پر ازسر نو غور فرمائیں۔ مخالف کو برا بھلا کہنے سے کہیں بہتر ہوگا کہ اپنی ناکامیوں کے اسباب پر غور کیا جائے۔
حالیہ ضمنی انتخابات میں غیر معمولی مہم چلانے کے باوجود این اے 122 میں شکست کے اسباب کے ساتھ اس ''خوف ناک'' حقیقت پر بھی نظر ڈالنے کی ضرورت ہے کہ اوکاڑہ میں پی ٹی آئی کے امیدوار کی ضمانت کیوں ضبط ہوگئی؟ کہاں مقبولیت کے بلند بانگ دعوے اور کہاں قومی اسمبلی کے امیدوار کے زر ضمانت کی ضبطی؟ ہار جیت الیکشن کے عمل کا حصہ ہے لیکن انتخاب میں ضمانت ضبط ہونے کا مطلب رائے دہندگان کی جانب سے ناپسندیدگی کا بدترین اظہار اور اعلان ہے۔ سیاست وہ کھیل نہیں جسے بچے کھیلیں، اس دشت کی سیاحی میں عمر بیت جاتی ہے تب کہیں جاکر عوام کے دلوں میں سیاسی رہنما کے لیے گنجائش پیدا ہوتی ہے۔
پہلے اس حقیقت کو تسلیم کریں کہ ایک مشہور کھلاڑی کے لیے ضروری نہیں کہ وہ سیاست کے میدان کا بھی اچھا کھلاڑی ثابت ہو۔ پرویز مشرف کے دور آمریت میں مقبول عام سیاستدانوں کو میدان سے باہر رکھنے کی وجہ سے ایک خلا پیدا ہوا جسے بھرنے کا موقع بہت سے لوگوں کو ملا، ان میں موصوف بھی شامل تھے۔ اس موقع کو کامیابی میں تبدیل کرنے کی صلاحیت سیاسی تربیت کے کڑے عمل سے گزرنے کے بعد حاصل ہوتی ہے۔
موقع ملا، کچھ عوامی حمایت سامنے آئی لیکن ایک الگ نظریاتی شناخت بنانے کے بجائے جلد بازی اور بے قراری نے غلبہ پالیا۔ نعرہ تبدیلی کا اور قربت و رفاقت ان لوگوں کی جو پاکستان میں، تبدیلی کی راہ روکنے کے ماہر مانے جاتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ 2013 کے انتخابات کے بعد، اپنی سیاسی ساکھ میں اضافہ کیا جاتا اور 2018 کے عام انتخابات میں خود کو ایک متبادل کے طور پر پیش کیا جاتا لیکن یہ نہیں ہوا۔ اب یہ عالم ہے کہ ہر سیاسی چال ناکام ہورہی ہے اور نوبت یہ آگئی ہے کہ امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہورہی ہیں۔
سیاست میں حریفوں کو ہدف تنقید ضرور بنایا جاتا ہے لیکن زیرک اور ذہین سیاستدان اپنے تجربوں اور غلطیوں سے سیکھتے ہیں، مخالفوں کی جانب سے خود پر ہونے والی تنقید کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتے ہیں۔
آپ سے تو جسٹس وجیہہ الدین احمد جیسے درویش صفت اور نیک نام ساتھی کی دوستانہ تنقید برداشت نہیں ہوتی۔ 2018 کی طرف بڑھنا ہے تو 2013 کی طرف مڑ مڑ کر نہ دیکھیں۔ یہ کہہ کر تلخ حقیقت سے روگردانی نہ کریں کہ ایاز صادق کی جیت کا مارجن کم ہوا ہے۔ یہ ضمنی انتخاب تھا، سب کو ووٹ کم پڑے۔ پی ٹی آئی کو 2013 میں یہاں 84417 پڑے تھے 11 مئی کو اسے 72043 ووٹ ملے۔ ایسے میں کیا یہ کہا جائے کہ آپ کاووٹ بینک کم ہوگیا ہے؟
آگے بڑھنا ہے تو تبدیلی لانے سے پہلے خود کو تبدیل کرنا ہوگا۔