تختِ لاہور کا ضمنی الیکشن
ایک وقت تھا جب پیپلز پارٹی زند ہ تھی تو لوگ حسرت سے پوچھتے تھے کہ ٹکٹ کسے ملا ہے؟
CAIRO:
تھوڑا ہی فرق رہ گیا تھا ورنہ ن لیگ کے تخت لاہور میں ایسا سوراخ ہوجاتا کہ انھیں برسوں یاد رہتا ، پھر بھی جوڑ برابر کا تھا اور زور آزمائی خوب رہی۔ دونوں جماعتوں نے کارکنوں کو گرمایا، بڑے بڑے جلسے کیے گئے،کپتان ہی نہیں بڑے اور چھوٹے وزیر میدان میں کود پڑے تھے۔ معاملہ ایک ضمنی انتخاب اور ایک سیٹ کا ہوتا تو اتنا شور و غوغا نہ ہوتا مگر یہاں دونوں جماعتوں کی ساکھ اور وقار داؤ پر لگے ہوئے تھے۔
این اے 122کے ضمنی انتخابات میں جہاں حکمران جماعت کے لیے ایک سبق ہے وہاں بہت سے سوالات تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور الیکشن کمیشن کے لیے بھی ہیں۔ ''گمشدہ'' الیکشن کمیشن جسے میں نے اپنے گزشتہ کالم میں ''معذور'' الیکشن کمیشن کہا تھا صرف پولنگ ڈے پر نظر آیا، اس سے پہلے نہ تو الیکشن کمیشن کا اس حلقے میں کہیں وجود دیکھا گیا اور نہ ہی کسی نے محسوس کیا کہ اس ملک میں ان الیکشن کو سپروائز کرنے والا بھی کوئی ادارہ ہے۔
اس الیکشن مہم کے دوران لاہور میں عوام جس اذیت کا شکار رہے وہ سب کے سامنے ہے، چھ چھ گھنٹے کا ٹریفک بلاک، جس کا جہاں دل چاہا کنٹینر کھڑا کر کے جلسہ شروع کر دیا، جس کا جہاں دل چاہا سڑک بلاک کر کے کارنر میٹنگ بلا لی، جس کا جہاں جی چاہا وہیں جلوس یا ریلی نکال لی، جس کا جتنا جی چاہا اُس نے اتنا ہی خرچ کیا، ایک اندازے کے مطابق 2سو کروڑ روپے سے زائد دونوں جماعتوں نے اس ایک سیٹ کے لیے جھونک دیے۔ ایک وقت کے لیے تو ایسے لگا جیسے لاہور میں زلزلہ آگیا ہے۔
اگر الیکشن کمیشن کی انتخابات میں رٹ کا یہی حال رہا تو آنے والا ہمارا ہر الیکشن ماضی کی طرح متنازعہ حیثیت اختیار کر جائے گا ۔ حیرت ہے کہ ہزارہا تنقید کے باوجود الیکشن کمیشن نہ تو مستعفی ہونے کو تیار ہے اور نہ کچھ کر گزرنے کو تیار ہے، یہ کٹھ پتلی قسم کا الیکشن کمیشن نا جانے کب ایک آزاد ادارہ بن کر سامنے آئے گا اور اپنے اختیارات کا صحیح استعمال کرتے ہوئے امیدواروں کو ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے پر تاحیات الیکشن لڑنے کی پابندی لگائے گا۔
خیر حکمرانوں نے تو ہمارے ملک میں سسٹم کی بینڈ بجا دی ہے، جس ملک میں بغیر لائسنس گاڑی چلانے کا جرمانہ 500روپے ہوگا یعنی 500روپے کے لیے آپ نے ایک فرد کو بندے مارنے کی اجازت دے دی ہے (حالانکہ ترقی یافتہ ممالک میں یہ سزا عمر قید تک بھی ہو سکتی ہے) تو وہاں الیکشن کمیشن جیسے اداروں سے کس طرح بہتری کی امید رکھی جا سکتی ہے۔!
این اے 122کی حلقہ بندیوں کے حوالے سے مجھے خاصا افسوس بھی ہوا اور حیرت بھی ہوئی کہ کس فارمولے کے تحت یہاں حلقہ بندی کی گئی ہے۔ لاہور کے 6 بڑے روڈ مال روڈ، جیل روڈ، کینال روڈ، فیروز پور روڈ، علامہ اقبال روڈ اور ملتان روڈ اس حلقے میں آتے ہیں اور ذرا سوچیے کہ جب پیسہ بہایا جا رہا ہو اور حکومتی مشینری بھی کہیں گم ہو گئی ہو تو بے چارے عوام کا کیا حال ہوگا، آپ بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں۔
نہ جانے کیا سوچ کر 2002ء میں یہ حلقہ بندیاں کی گئی تھی کہ حلقہ 94 کا زیادہ تر حصہ، حلقہ 98 کے بیشتر علاقے اور حلقہ 95 کی چند یونین کونسلز ملا کر این اے 122تشکیل دیا گیا، لاہور کینٹ کے ایک جانب سے شروع ہونے والا یہ حلقہ دھرمپورہ، علامہ اقبال روڈ، گڑھی شاہو، شملہ پہاڑی، اپرمال، زمان پارک، فیروز پور روڈ، اچھرہ اور سمن آباد سے ہوتا ہوا ملتان روڈ تک جا پہنچتا ہے۔
یہ تمام علاقے لاہور کے گنجان آباد علاقے ہیں جہاں معمول میں بھی ٹریفک اکثر جام رہتا ہے لیکن الیکشن کے دنوں میں یہاں اخیر خواری ہوئی ، میرے خیال میں اسی وجہ سے گزشتہ الیکشن کے مقابلے میں 13فیصد کم ٹرن آؤٹ رہا یعنی لوگ ووٹ ڈالنے کے لیے گھروں سے نکلے ہی نہیں۔ الیکشن کمیشن اور حکمرانوں کو سوچنا چاہیے کہ مستقبل میں بھی اسی طرح اگر عوام کو ذلیل و خوار کیا گیا تو یہ ٹرن آؤٹ مزید کم ہو سکتا ہے۔ ویسے بھی پیسے کی جنگ میں لوگ کیوں باہر نکلیں؟
میں اس حلقے کا رہائشی ہوں، مجھ سمیت اس حلقے کے لاکھوں لوگ یہ چند دن کبھی نہیں بھلا سکتے کیوں کہ الیکشن مہم کے دوران یہاں نہ تو کہیں سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کی رٹ نظر آئی کہ وہ جلسے جلوسوں کے لیے جگہ مختص کرتی تاکہ عوام کو کسی قسم کے مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑتا، اور نہ ہی ٹریفک پولیس کا 'کمال' نظر آیا کہ وہ ان روڈز پر ٹریفک کو رواں رکھتی۔
بدترین ٹریفک جام تو جنرل الیکشن کے دوران بھی نہیں دیکھا گیا تھا، اس گھنٹوں رکی ہوئی ٹریفک میں کہیں ایمبولینس کے سائرن کی آواز حکمرانوں کو سنائی نہیں دی۔۔۔ لیکن اس حوالے سے فوج کا کردار متاثر کن رہا جس نے اپنے اصل کام کو چھوڑ کر ''سویلین'' کا الیکشن کرایا جو ہمارے حکمران کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے، کہ ان کے ادارے اس قابل ہی نہیں کہ وہ صرف ایک حلقے کا الیکشن کرا سکیں۔
بہرکیف فیصلہ جو بھی آیا اُس سے نہ تو نواز شریف کی حکومت ختم ہوئی اور نہ ہی عمران خان وزیراعظم بنے لیکن سیاسی اثرات دونوں پارٹیوں پر ضرور ہوئے۔ ہمارے سیاستدان تو ووٹ مانگنے کے طریقے ہی شاید بھول گئے ہیں، دنیا بھر میں سیاستدان اپنی کارکردگی کی بنیاد پر عوام سے ووٹ مانگتے ہیں جب کہ یہاں صرف الزام تراشی کرکے اور پیسہ دکھا کر ووٹ حاصل کیے گئے جس سے میں سمجھتا ہوں کہ جمہوریت کی شکست ہوئی ہے۔۔۔!!! حکمرانوں کو یہ علم ہونا چاہیے کہ جب جمہوریت کی شکست ہوتی ہے تو سب چراغ گل ہو جاتے ہیں بقول احمد فراز کے۔
میں آج زد پر اگر ہوں تو خوش گمان نہ ہو
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی بھی نہیں
کسی نے یہ نہیں سوچا کہ سیاست محاذ جنگ نہیں ہوتا، بلکہ یہ عوامی خدمت کا نام ہوتی ہے جو سیاستدان عوام کی خدمت کرتے ہیں وہ برسوں یاد رکھے جاتے ہیں اور جو انھیں لوٹتے ہیں تاریخ انھیں پٹخ دیتی ہے۔ افسوس در افسوس اس ضمنی الیکشن میں پاکستان پیپلز پارٹی کو صرف 819 ووٹ مل سکے ہیں یعنی پیپلز پارٹی کے امیدوار کی ضمانت بھی ضبط ہو گئی ہے۔
ایک وقت تھا جب پیپلز پارٹی زند ہ تھی تو لوگ حسرت سے پوچھتے تھے کہ ٹکٹ کسے ملا ہے؟ جسے ٹکٹ ملتا اس کی کامیابی یقینی ہوتی تھی، پھر غریبوں کو روٹی کپڑا مکان کا نعرہ دینے والی یہ جماعت ایسے لوگوں کے ہتھے چڑھ گئی جن کا پیٹ بھرتا ہے نہ آنکھیں سیر ہوتی ہیں۔ پھر حقیقی پیپلز پارٹی کیسے زندہ رہتی۔ NA-122 میں پیپلز پارٹی کا امیدوار سب سے زیادہ پڑھا لکھا تھا۔ بیرسٹر عامر حسن لنکنز ان سے بار ایٹ لاء ہیں اور ارائیں برداری سے تعلق رکھتے ہیں۔
آہ! کیا ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی کی قسمت میں یہ دن دیکھنے بھی لکھے تھے۔ یہ لاہور میں پیپلز پارٹی کے زوال کی طویل کہانی کا آخری باب ہے جسے پھر کسی دن اپنے کالم کا حصہ بناؤں گا۔ یہ وہی لاہور ہے جہاں محترمہ نصرت بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو کے استقبال کے لیے لوگ ایئرپورٹ سے شاہدرہ موڑ تک رات بھر کھڑے رہے۔
تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ یہ وہی لاہور ہے اور وہی حلقہ ہے جو کبھی پیپلز پارٹی کا گڑھ ہوا کرتا تھا اور جہاں بھٹو نے علامہ اقبالؒ کے بیٹے جاوید اقبال کو بڑے مارجن سے شکست دی تھی ۔ اب پیپلز پارٹی کے چیئرمین سمیت اعلیٰ مرکزی عہدیداران کرپشن کے جواز ڈھونڈ کر عوام کے سامنے پیش ہونے کی کوشش کر رہے ہیں جس میں وہ کبھی کامیاب نہیں ہوں گے بلکہ یہ عذر گناہ بد تراز گناہ، والا معاملہ بن گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی کا ٹکٹ ہولڈر اپنی انتخابی مہم نہیں چلا پایا بلکہ پیپلز پارٹی کے جنازے کے ساتھ بیٹھا ہوا ہے۔ اسے جنازہ اٹھانے کے لیے چار بندے بھی دستیاب نہیں۔ بقول شاعر
مری نماز جنازہ پڑھی ہے غیروں نے
مرے تھے جن کے لیے وہ رہے وضو کرتے
الغرض سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چئیرمین آصف زرداری کی مفادات پر مبنی مفاہمتی سیاست نے پیپلز پارٹی کو کہیں کا نہیں چھوڑا، آج پارٹی کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے جہاں سے واپسی ممکن ہی نہیں ہے۔ بلاول بھٹو کے لیے بھی بڑے بڑے چیلنجز چھوڑ دیے ہیں جن کا مقابلہ کرنے کے لیے انھیں زندگی بھر جدوجہد کرنا پڑے گی اور شاید پھر بھی پیپلزپارٹی کی پرانی پوزیشن بحال نہیں کر سکے گا۔۔!
تھوڑا ہی فرق رہ گیا تھا ورنہ ن لیگ کے تخت لاہور میں ایسا سوراخ ہوجاتا کہ انھیں برسوں یاد رہتا ، پھر بھی جوڑ برابر کا تھا اور زور آزمائی خوب رہی۔ دونوں جماعتوں نے کارکنوں کو گرمایا، بڑے بڑے جلسے کیے گئے،کپتان ہی نہیں بڑے اور چھوٹے وزیر میدان میں کود پڑے تھے۔ معاملہ ایک ضمنی انتخاب اور ایک سیٹ کا ہوتا تو اتنا شور و غوغا نہ ہوتا مگر یہاں دونوں جماعتوں کی ساکھ اور وقار داؤ پر لگے ہوئے تھے۔
این اے 122کے ضمنی انتخابات میں جہاں حکمران جماعت کے لیے ایک سبق ہے وہاں بہت سے سوالات تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور الیکشن کمیشن کے لیے بھی ہیں۔ ''گمشدہ'' الیکشن کمیشن جسے میں نے اپنے گزشتہ کالم میں ''معذور'' الیکشن کمیشن کہا تھا صرف پولنگ ڈے پر نظر آیا، اس سے پہلے نہ تو الیکشن کمیشن کا اس حلقے میں کہیں وجود دیکھا گیا اور نہ ہی کسی نے محسوس کیا کہ اس ملک میں ان الیکشن کو سپروائز کرنے والا بھی کوئی ادارہ ہے۔
اس الیکشن مہم کے دوران لاہور میں عوام جس اذیت کا شکار رہے وہ سب کے سامنے ہے، چھ چھ گھنٹے کا ٹریفک بلاک، جس کا جہاں دل چاہا کنٹینر کھڑا کر کے جلسہ شروع کر دیا، جس کا جہاں دل چاہا سڑک بلاک کر کے کارنر میٹنگ بلا لی، جس کا جہاں جی چاہا وہیں جلوس یا ریلی نکال لی، جس کا جتنا جی چاہا اُس نے اتنا ہی خرچ کیا، ایک اندازے کے مطابق 2سو کروڑ روپے سے زائد دونوں جماعتوں نے اس ایک سیٹ کے لیے جھونک دیے۔ ایک وقت کے لیے تو ایسے لگا جیسے لاہور میں زلزلہ آگیا ہے۔
اگر الیکشن کمیشن کی انتخابات میں رٹ کا یہی حال رہا تو آنے والا ہمارا ہر الیکشن ماضی کی طرح متنازعہ حیثیت اختیار کر جائے گا ۔ حیرت ہے کہ ہزارہا تنقید کے باوجود الیکشن کمیشن نہ تو مستعفی ہونے کو تیار ہے اور نہ کچھ کر گزرنے کو تیار ہے، یہ کٹھ پتلی قسم کا الیکشن کمیشن نا جانے کب ایک آزاد ادارہ بن کر سامنے آئے گا اور اپنے اختیارات کا صحیح استعمال کرتے ہوئے امیدواروں کو ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے پر تاحیات الیکشن لڑنے کی پابندی لگائے گا۔
خیر حکمرانوں نے تو ہمارے ملک میں سسٹم کی بینڈ بجا دی ہے، جس ملک میں بغیر لائسنس گاڑی چلانے کا جرمانہ 500روپے ہوگا یعنی 500روپے کے لیے آپ نے ایک فرد کو بندے مارنے کی اجازت دے دی ہے (حالانکہ ترقی یافتہ ممالک میں یہ سزا عمر قید تک بھی ہو سکتی ہے) تو وہاں الیکشن کمیشن جیسے اداروں سے کس طرح بہتری کی امید رکھی جا سکتی ہے۔!
این اے 122کی حلقہ بندیوں کے حوالے سے مجھے خاصا افسوس بھی ہوا اور حیرت بھی ہوئی کہ کس فارمولے کے تحت یہاں حلقہ بندی کی گئی ہے۔ لاہور کے 6 بڑے روڈ مال روڈ، جیل روڈ، کینال روڈ، فیروز پور روڈ، علامہ اقبال روڈ اور ملتان روڈ اس حلقے میں آتے ہیں اور ذرا سوچیے کہ جب پیسہ بہایا جا رہا ہو اور حکومتی مشینری بھی کہیں گم ہو گئی ہو تو بے چارے عوام کا کیا حال ہوگا، آپ بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں۔
نہ جانے کیا سوچ کر 2002ء میں یہ حلقہ بندیاں کی گئی تھی کہ حلقہ 94 کا زیادہ تر حصہ، حلقہ 98 کے بیشتر علاقے اور حلقہ 95 کی چند یونین کونسلز ملا کر این اے 122تشکیل دیا گیا، لاہور کینٹ کے ایک جانب سے شروع ہونے والا یہ حلقہ دھرمپورہ، علامہ اقبال روڈ، گڑھی شاہو، شملہ پہاڑی، اپرمال، زمان پارک، فیروز پور روڈ، اچھرہ اور سمن آباد سے ہوتا ہوا ملتان روڈ تک جا پہنچتا ہے۔
یہ تمام علاقے لاہور کے گنجان آباد علاقے ہیں جہاں معمول میں بھی ٹریفک اکثر جام رہتا ہے لیکن الیکشن کے دنوں میں یہاں اخیر خواری ہوئی ، میرے خیال میں اسی وجہ سے گزشتہ الیکشن کے مقابلے میں 13فیصد کم ٹرن آؤٹ رہا یعنی لوگ ووٹ ڈالنے کے لیے گھروں سے نکلے ہی نہیں۔ الیکشن کمیشن اور حکمرانوں کو سوچنا چاہیے کہ مستقبل میں بھی اسی طرح اگر عوام کو ذلیل و خوار کیا گیا تو یہ ٹرن آؤٹ مزید کم ہو سکتا ہے۔ ویسے بھی پیسے کی جنگ میں لوگ کیوں باہر نکلیں؟
میں اس حلقے کا رہائشی ہوں، مجھ سمیت اس حلقے کے لاکھوں لوگ یہ چند دن کبھی نہیں بھلا سکتے کیوں کہ الیکشن مہم کے دوران یہاں نہ تو کہیں سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کی رٹ نظر آئی کہ وہ جلسے جلوسوں کے لیے جگہ مختص کرتی تاکہ عوام کو کسی قسم کے مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑتا، اور نہ ہی ٹریفک پولیس کا 'کمال' نظر آیا کہ وہ ان روڈز پر ٹریفک کو رواں رکھتی۔
بدترین ٹریفک جام تو جنرل الیکشن کے دوران بھی نہیں دیکھا گیا تھا، اس گھنٹوں رکی ہوئی ٹریفک میں کہیں ایمبولینس کے سائرن کی آواز حکمرانوں کو سنائی نہیں دی۔۔۔ لیکن اس حوالے سے فوج کا کردار متاثر کن رہا جس نے اپنے اصل کام کو چھوڑ کر ''سویلین'' کا الیکشن کرایا جو ہمارے حکمران کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے، کہ ان کے ادارے اس قابل ہی نہیں کہ وہ صرف ایک حلقے کا الیکشن کرا سکیں۔
بہرکیف فیصلہ جو بھی آیا اُس سے نہ تو نواز شریف کی حکومت ختم ہوئی اور نہ ہی عمران خان وزیراعظم بنے لیکن سیاسی اثرات دونوں پارٹیوں پر ضرور ہوئے۔ ہمارے سیاستدان تو ووٹ مانگنے کے طریقے ہی شاید بھول گئے ہیں، دنیا بھر میں سیاستدان اپنی کارکردگی کی بنیاد پر عوام سے ووٹ مانگتے ہیں جب کہ یہاں صرف الزام تراشی کرکے اور پیسہ دکھا کر ووٹ حاصل کیے گئے جس سے میں سمجھتا ہوں کہ جمہوریت کی شکست ہوئی ہے۔۔۔!!! حکمرانوں کو یہ علم ہونا چاہیے کہ جب جمہوریت کی شکست ہوتی ہے تو سب چراغ گل ہو جاتے ہیں بقول احمد فراز کے۔
میں آج زد پر اگر ہوں تو خوش گمان نہ ہو
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی بھی نہیں
کسی نے یہ نہیں سوچا کہ سیاست محاذ جنگ نہیں ہوتا، بلکہ یہ عوامی خدمت کا نام ہوتی ہے جو سیاستدان عوام کی خدمت کرتے ہیں وہ برسوں یاد رکھے جاتے ہیں اور جو انھیں لوٹتے ہیں تاریخ انھیں پٹخ دیتی ہے۔ افسوس در افسوس اس ضمنی الیکشن میں پاکستان پیپلز پارٹی کو صرف 819 ووٹ مل سکے ہیں یعنی پیپلز پارٹی کے امیدوار کی ضمانت بھی ضبط ہو گئی ہے۔
ایک وقت تھا جب پیپلز پارٹی زند ہ تھی تو لوگ حسرت سے پوچھتے تھے کہ ٹکٹ کسے ملا ہے؟ جسے ٹکٹ ملتا اس کی کامیابی یقینی ہوتی تھی، پھر غریبوں کو روٹی کپڑا مکان کا نعرہ دینے والی یہ جماعت ایسے لوگوں کے ہتھے چڑھ گئی جن کا پیٹ بھرتا ہے نہ آنکھیں سیر ہوتی ہیں۔ پھر حقیقی پیپلز پارٹی کیسے زندہ رہتی۔ NA-122 میں پیپلز پارٹی کا امیدوار سب سے زیادہ پڑھا لکھا تھا۔ بیرسٹر عامر حسن لنکنز ان سے بار ایٹ لاء ہیں اور ارائیں برداری سے تعلق رکھتے ہیں۔
آہ! کیا ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی کی قسمت میں یہ دن دیکھنے بھی لکھے تھے۔ یہ لاہور میں پیپلز پارٹی کے زوال کی طویل کہانی کا آخری باب ہے جسے پھر کسی دن اپنے کالم کا حصہ بناؤں گا۔ یہ وہی لاہور ہے جہاں محترمہ نصرت بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو کے استقبال کے لیے لوگ ایئرپورٹ سے شاہدرہ موڑ تک رات بھر کھڑے رہے۔
تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ یہ وہی لاہور ہے اور وہی حلقہ ہے جو کبھی پیپلز پارٹی کا گڑھ ہوا کرتا تھا اور جہاں بھٹو نے علامہ اقبالؒ کے بیٹے جاوید اقبال کو بڑے مارجن سے شکست دی تھی ۔ اب پیپلز پارٹی کے چیئرمین سمیت اعلیٰ مرکزی عہدیداران کرپشن کے جواز ڈھونڈ کر عوام کے سامنے پیش ہونے کی کوشش کر رہے ہیں جس میں وہ کبھی کامیاب نہیں ہوں گے بلکہ یہ عذر گناہ بد تراز گناہ، والا معاملہ بن گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی کا ٹکٹ ہولڈر اپنی انتخابی مہم نہیں چلا پایا بلکہ پیپلز پارٹی کے جنازے کے ساتھ بیٹھا ہوا ہے۔ اسے جنازہ اٹھانے کے لیے چار بندے بھی دستیاب نہیں۔ بقول شاعر
مری نماز جنازہ پڑھی ہے غیروں نے
مرے تھے جن کے لیے وہ رہے وضو کرتے
الغرض سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چئیرمین آصف زرداری کی مفادات پر مبنی مفاہمتی سیاست نے پیپلز پارٹی کو کہیں کا نہیں چھوڑا، آج پارٹی کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے جہاں سے واپسی ممکن ہی نہیں ہے۔ بلاول بھٹو کے لیے بھی بڑے بڑے چیلنجز چھوڑ دیے ہیں جن کا مقابلہ کرنے کے لیے انھیں زندگی بھر جدوجہد کرنا پڑے گی اور شاید پھر بھی پیپلزپارٹی کی پرانی پوزیشن بحال نہیں کر سکے گا۔۔!