اب سر جوڑ کر بیٹھیں
اس لیے صرفNA122پورے ملک بلکہ بیرون ملک بھی مرکز نگاہ بنا رہا۔
لاہور سے قومی اسمبلی کے حلقےNA122 اور صوبائی اسمبلی کے حلقےPP147 کے علاوہ اوکاڑہ کے حلقے NA144میں معرکہ خیز ضمنی انتخابات ہوئے۔ اگرچہ ضمنی انتخابات عام طور پر خاموشی کے ساتھ کم ٹرن آوٹ کے ساتھ گذر جاتے تھے۔ مگر ملک کی دو سیاسی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف نے چونکہ انھیں انا کا مسئلہ بنالیا تھا۔
اس لیے صرفNA122پورے ملک بلکہ بیرون ملک بھی مرکز نگاہ بنا رہا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ عمران خان نے جن چار حلقوں میں دھاندلی کے الزامات عائد کیے یہ حلقہ ان میں سے ایک تھا۔ اوکاڑہ سے قومی اور لاہور سے صوبائی حلقے کو اتنی اہمیت حاصل نہیں ہوسکی ، لیکن تینوں حلقوں کے نتائج نے البتہ مستقبل کی سیاست کا ایک نقشہ ضرور پیش کردیا ہے جو قابل غور ہے۔
لاہور کے حلقےNA122میںمسلم لیگ (ن) نے کامیابی ضروری حاصل کرلی ہے، مگر یہ جیت بہت چھوٹے مارجن کے ساتھ ہے جب کہ صوبائی اسمبلی کی نشستPP147 اس کے ہاتھ سے نکل گئی۔
اسی طرح اوکاڑہ کی نشست پر آزاد امیدوار کی کامیابی بھی مسلم لیگ (ن) کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا ہے ۔ان نتائج سے جو باتیں سامنے آئی ہیں، ان پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اول، مسلم لیگ(ن) کے قدموں کے نیچے سے پنجاب کی زمین بھی آہستہ آہستہ کھسک رہی ہے۔ لاہور سے قومی اسمبلی کی نشست پر اس کے سابق اسپیکر کی ووٹوں کے معمولی فرق سے کامیابی جب کہ اوکاڑہ کی قومی اور لاہور کی صوبائی اسمبلی کی نشست پر ناکامی اس کا واضح ثبوت ہے۔ دوئم، تحریک انصاف اپنی مقبولیت میں خاطر خواہ اضافے میں ناکام ہے ۔ ساتھ ہی 2013کے عام انتخابات کے بارے میں اس کے الزامات بھی بے وزن ہوکر رہ گئے ہیں۔
سوئم، ان انتخابات سے یہ بھی واضح ہوا کہ پیپلز پارٹی پنجاب کی سیاست سے تقریباً باہر ہوچکی ہے۔ اس ضمنی انتخاب میں پیپلز پارٹی دو جگہوں سے اپنی ضمانت ضبط کرا بیٹھی، جو ایک ملک گیر جماعت کی تیزی کے ساتھ گرتی ہوئی مقبولیت کاکھلا اظہار ہے۔ چہارم، انتخابی عمل انتہائی فرسودہ اور از کار رفتہ ہوچکا ہے، جو شفاف، غیر جانبدارانہ اور منصفانہ انتخابات منعقد کرنے کی صلاحیت اور اہلیت سے محروم ہوچکا ہے۔ لہٰذا اس میں مناسب اصلاحات وقت کی اہم ترین ضرورت بن چکی ہے۔
اگر2018 میں متوقع انتخابات سے قبل ضروری اصلاحات نہ کی گئیں، تو اگلے الیکشن پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ پنجم، اس ضمنی انتخاب میں جس انداز میں لاہور کے دونوں حلقوں میں پیسہ پانی کی طرح بہایا گیا ہے، اس نے انتخابات کو دولت مندوں کا کھیل بنادیا ہے جس میں کسی عام آدمی کا حصہ لینا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوچکا ہے۔
حالات و واقعات یہ بتا رہے ہیں کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کے قدم تقریباً اکھڑ چکے ہیں جب کہ سندھ میں بھی اس کی مقبولیت کا گراف تیزی کے ساتھ نیچے کی طرف آرہا ہے ۔ یہ بات اس لحاظ سے تشویشناک ہے کہ ملک میں مقبولیت کے لحاظ سے اس وقت جو جماعتیں ایک دوسرے کے آگے پیچھے ہیں، وہ دونوںRight to Centre نظریات کی جماعتیں ہیں جب کہ پیپلز پارٹی کوLeft to Centre جماعت تصور کیا جاتا ہے۔
حالانکہ اس نے دو تین دہائیوں سے ان نظریات کو خیرباد کہہ دیا ہے، جو اس کی اساس رہے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود نیشنل عوامی پارٹی(NAP)اور پاکستان نیشنل پارٹی(GNP)کے سیاسی منظر نامے سے ہٹ جانے کے بعد پیپلز پارٹی ہی لبرل اور آزاد خیال حلقوں کے لیے آخری سہارا تصور کی جاتی رہی ہے ۔اب اس جماعت کے منظر عام سے ہٹ جانے یا محدود ہوجانے کی صورت میں ملکی سیاست پر دائیں بازو کی گرفت مزید مضبوط ہوجانے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔جو پاکستان جیسے معاشرے میں عام آدمی کی مشکلات میں مزید اضافے کا سبب بنتے ہیں۔اس کے علاوہ جب کسی ریاست میں سیاسی جماعتوں کے درمیان نظریاتی کشاکش ختم ہوجاتی ہے، تو سیاست محض اقتدار کے حصول کا ذریعہ بن کررہ جاتی ہے۔
لوگ سوال کرتے ہیں کہ پاکستان میں جمہوریت کیوں نہیں پنپتی؟ اس کے بیشمار اسباب ہیں۔ ریاستی مقتدرہ کا دہرا معیار ، سیاسی جماعتوں کی غلط حکمت عملیاں اور سب سے بڑھ کر عوام کا قبائلی مزاج جمہوریت کے پنپنے کی راہ میںسب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ ریاستی مقتدر اشرافیہ68 برس میں یہ طے نہیں کرسکی کہ ملک کے قیام کا منطقی جواز کیا ہے؟ آج بھی اس موضوع پر بحث جاری ہیں۔ کوئی ان بحثوں سے آگے نکل کر مستقبل کے بارے میں سوچنے پر آمادہ نہیں ہے۔
سیاسی جماعتیں بدلتے عالمی منظر نامے کو سمجھنے کی صلاحیت سے عاری سیاست کو اجتماعی مفادات کا ذریعہ بنانے کے بجائے مخصوص خاندانوں کے مفادات کا محافظ بنانے پر مصر ہیں۔ جب کہ عوام صحیح رہنمائی نہ ہونے کے سبب لسانی، قومیتی، قبائلی اوربرادری کی بنیاد پر منقسم ہیں۔ وہ اچھے برے میں تمیز کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوچکے ہیں۔ اس کی واضح مثال یہ ہے کہ اپنے لیے اچھے برانڈ کا لباس اور جوتا تو منتخب کرتے ہیں، مگر پانچ برس کے لیے اپنا صحیح نمایندہ چننے میں غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ خود ہی ایک نااہل اور ناکارہ شخص کو اسمبلیوں میں پہنچاتے ہیں اور پھر اس کی خراب کارکردگی سے چھٹکارا پانے کے لیے فوج کی طرف دیکھتے ہیں۔حالانکہ یہ جانتے ہیں کہ 32 برس پر محیط چار ادوار میں فوج بھی اچھی حکمرانی کی نظیر قائم نہیں کرسکی۔
پاکستانی سیاست میں خرابیِ بسیار کا دوسرا سبب یہ ہے کہ یہاں مڈل کلاس کی سیاست تقریباً دم توڑ چکی ہے۔ یہ اب جاگیرداروں، دولت مندوں اور سابق بیوروکریٹس اور ریٹائرڈ جرنیلوں کااقتدار سے چمٹے رہنے کا مشغلہ بن گئی ہے۔ عبداللہ ہارون کالج کھڈہ (لیاری)میں سیاسیات کے استاد پروفیسر اقبال احمدخان مرحوم کہا کرتے تھے کہ سقوط مشرقی پاکستان دراصل مغربی پاکستان میں مڈل کلاس سیاست کا سقوط ہے۔ آپ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں 1971کے بعد پاکستان کی سیاست سے مڈل کلاس تقریبا ًباہر ہوچکی ہے جس کے نتیجے میں سیاست بدترین انداز میں زوال پذیر ہوئی ہے۔
ایک زمانہ تھا جب سیاسی جماعتوں میں چند بڑے زمیندار اور دولت مند افراد ضرور ہوا کرتے تھے، مگر غالب اکثریت کالجوں اور یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل نوجوانوں کے کیڈر کی ہوتی تھی جو سیاست کی سمت کا تعین کیا کرتے تھے۔ سیاست میں موروثیت کا زہر جنرل ضیا کے دور سے زیادہ تیزی کے ساتھ پھیلا ۔ اس سے قبل صرف انتخابی حلقوں میں کسی حد تک موروثیت کا رجحان پایا جاتا تھا۔ یعنی کسی سیاستدان کا بیٹا یا بھتیجا، اس کے انتقال کے بعد الیکشن میں اپنے والد یا چچا کی نیک نامی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حصہ لیا کرتا تھا لیکن یہ اس کا حق تصور نہیں ہوتا تھا۔
آج چونکہ سیاست ایک منفعت بخش کاروبار کی شکل اختیار کرچکی ہے، اس لیے بعض سیاسی خاندان اپنی اولاد کو اس مقصد کے لیے خاص طور پر تیار کرتے ہیں۔ فیوڈل سیاستدان البتہ شروع ہی سے علاقے پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لیے اپنی ایک اولاد کو سیاست میں اور ایک یا دو بیٹوں کو سول یا پولیس سروس میں شامل کرتے ہیں تاکہ اقتدار و اختیار ان کی مٹھی میں رہے۔اسی روش نے موجودہ پاکستان میں سیاست اور انتظامیہ کو کرپٹ اور بدعنوان بنانے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔
قومی سیاست کوایک دوسرا نقصان1985میں غیر جماعتی بنیاد پرعام انتخابات کی وجہ سے بھی پہنچا ہے۔ غیر جماعتی انتخابات میں امیدواروں نے ایک طرف اپنی برادریوں اور قبائل کو اپنے حق میں متحرک کیا، تو دوسری طرف اپنے جاگیردارانہ اثر و نفوذ کو استعمال کیا۔ اس طرح کمزور ہوتا برادری سسٹم، جاگیرداری اور قبائلیت کو نئی زندگی مل گئی۔ نتیجتاً قومی بنیادوں پر سیاست کی جگہ علاقائی اور نسلی و لسانی بنیاد پر سیاست کے رجحان کو تقویت حاصل ہوئی۔
آج اگر حقیقت پسندانہ انداز میں جائزہ لیا جائے تو کوئی بھی سیاسی جماعت قومی سیاسی جماعت کہلانے کی حقدار نہیں ہے۔ سب جماعتوں کے اپنے محدود اور علاقائی اہداف ہیں اور ان ہی کی بنیاد پر وہ سیاست کھیل رہی ہیں۔ سوال کیا جائے کہ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران کتنی جماعتوں نے اقتدار میں آنے کے بعد اپنے انتخابی منشور پر کتنے فیصد عمل کیا؟ تو جواب میں سوائے مایوسی کے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنی روش کو تبدیل کریں۔ سرجوڑ کر بیٹھیں اور فیصلہ کریں کہ ملک کو کس طرح بہتری کی راہ پر لگایا جاسکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے قومی اسمبلی کو مزید فعال اور فیصلہ ساز ادارہ بنانے کی ضرورت ہے۔ اس کی کارکردگی بہتر بنائی جائے اور تمام قومی فیصلے وہیں کیے جائیں۔ الیکشن کمیشن کی پارلیمان کے ذریعے تشکیل نو کی جائے اور نئے انتخابی قواعد وضوابط تیار کرکے انھیں فوری طور پر نافذ کیا جائے۔یہ سوچا جائے کہ بار بار کا انتخابی دنگل اور قومی خزانے پر بے جا بوجھ آخر کب تلک۔